لائی ہے بادِ صبا اُس پار سے خبرِ عظیموہ خدائے لَمْ یزل جو عرشِ کُن پر ہے مقیمہے اسی کو علم سارا ، ہے وہی تنہا علیم’’شانِ احمدؐ را کہ داند جز خداوندِ کریم آنچناں از خود جدا شد کز میاں افتاد میم‘‘ ہمسرِ اُو در زمین و آسماں مادر نہ زاددیکھ کر اس کو پکار اُٹھے فرشتے زندہ بادخوش جمال و خوش خیال و خوش خصال و خوش نہاد’’زاں نمط شد محوِ دلبر کز کمالِ اتحاد پیکرِ اُو شد سراسر صورتِ ربّ رحیم‘‘ اس کی آہِ نیم شب سے رات کا سینہ ہے چاکاس کا چہرہ چاند اور سورج سے بڑھ کر تابناکسُرمۂ چشمِ بصیرت اس کے نقشِ پا کی خاک’’بوئے محبوبِ حقیقی می دمد زاں رُوئےؐ پاک ذاتِ حقّانی صفاتش ، مظہرِ ذاتِ قدیم‘‘ کیا بتاؤں تم کو اس کا مرتبہ ، اس کا کمالایک ہی دل میں لگن ہے ، ایک ہی دل میں خیالگالیاں بھی دو اگر مجھ کو ، نہیں اس کا ملال’’گرچہ منسوبم کند کس سوئے الحاد و ضلال چوں دلِ احمدؐ نمی بینم دگر عرشِ عظیم‘‘ تُو نے یا ربّ! دی مجھے اس کی غلامی کی سندوہ غلامی جس کی لذّت کی نہایت ہے نہ حدمان لے یہ التجا بھی ، الغیاث و المدد!’’در رہِ عشقِ محمدؐ ایں سر و جانم رَود ایں تمنّا ، ایں دُعا ، ایں در دلم عزم صمیم‘‘ عشق کی منزل کٹھن ہے ، راستہ ہے صَعب ناکمجھ کو ڈر ہے تم نہ ہو جاؤ کہیں رہ میں ہلاکآؤ کر لو مجھ سے مل کر اس سفر میں اشتراک’’از عنایاتِ خدا وز فضلِ آں دادارِ پاک دشمنِ فرعونیا نم بہرِ عشقِ آں کلیم‘‘ ’’گرچہ ہوں مَیں بس ضعیف و ناتوان و دل فگارہیں درندے ہر طرف ، مَیں عافیت کا ہوں حصارمَیں ہوں وہ نُورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار‘‘’’منّت ایزد را کہ مَن بر رغمِ اہلِ روزگار صد بلارا می خَرم از ذوقِ آں عَین النعیم‘‘ مَیں غلامِ احمدِؐ مُرسل ہوں اے کرّوبیاں!دے رہاں ہوں اپنے خالق کی بڑائی کی اذاںقریہ قریہ ، ربوہ ربوہ ، قادیاں در قادیاں’’آں مقام و رتبتِ خاصشؐ کہ بر من شد عیاں گفتمے گردیدمے طبعے دریں راہِ سلیم‘‘