سیرت خلفائے کرام

حضرت حکیم مولوی نورالدینؓ کے حالات زندگی (قبل از سکونت ِ قادیان) (قسط سوم۔ آخری)

(آصف محمود باسط)

جس زمانہ میں درباری سازشیں اپنے عروج پر تھیں اور آپ کا وہاں قیام ہرروزمشکل تر بنایا جارہا تھا تب بھی آپ اپنے ایمان وعقائد پر نہ صرف ثابت قدم رہے بلکہ آپ کی پہچان ہی یہی تھی کہ یہ شخص اپنے دھرم کا پکا ہے۔

روس سے ساز باز کا الزام

راجہ امر سنگھ اوراس کے رفیقوں نے ریاست کشمیر میں ریذیڈنٹ کی تبدیلی سے بھی فائدہ اٹھایا اور اب یہ لوگ پیری نسبٹ کے آلہ کار بن کر مہاراجہ اور اس کے ’’معتمدین‘‘ کے خلاف سازشوں کی جلد تر تکمیل میں لگ گئے۔

25؍ فروری 1889ء کو راجہ امر سنگھ نے نسبٹ کو خطوط کا پلندا دیا جو مہاراجہ کی طرف سے زار روس کو لکھے گئے تھے۔ یہ خطوط ڈوگری زبان میں تھے اور ایسا لگتا تھا کہ مہاراجہ کے اپنے ہاتھ سےلکھے ہوئے تھے۔

پیری نسبٹ نے مزید تحقیق کیے بغیر ہی اس غیرمعمولی پیش رفت سے حکومت ہند کو مطلع کیا اور مُصر ہوا کہ اب تو مہاراجہ کو فوری طور پر معزول کردینا چاہیے۔ لیکن نسبٹ کا یہ جوش وائسرائے یا مورٹیمر ڈیورنڈ(سیکرٹری خارجہ ) کے یہاں پذیرائی نہ پاسکا۔ کیونکہ ڈیورنڈ تو راجہ امر سنگھ کے مہاراجہ کے خلاف عزائم سے خوب آگاہ تھا، اس لیے ڈیورنڈ نے جواب میں نسبٹ کو لکھا کہ ان خطوط کی بنیاد پرمہاراجہ اور اس کے معتمدین کے خلاف کوئی کارروائی درست فیصلہ نہیں ہے کیونکہ ہم سب ہی شیشے کے گھر میں رہتے ہیں اوراس طرح ہم سب اس حمام میں ننگے ہوںگے۔ یہ ہنڈیا جب بیچ چوراہے پھوٹے گی تو کسی کا بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ۔

(Durand to Nisbet in Kashmir Papers, National Archives of India)

تاہم نسبٹ پھر بھی یہ معاملہ لےکر مہاراجہ تک پہنچ گیا اور اس کو دھمکایا کہ اگر یہ خطوط والا معاملہ افشا ہوگیا تو نہ تو تمہاری کچھ ساکھ رہے گی اور نہ ہی تمہارے شاہی خاندان کا کوئی وقار باقی بچے گا۔ عوام کی نظر میں تم اور تمہارا سارا خاندان بے وقعت ہوجائے گا تب مہاراجہ نے اول تو ان خطوط کو جعلی قراردیا مگر لگتا ہے کہ وہ ان آئے روز کی سازشوں اور الجھنوں سے تھک چکا تھا۔ اس نے نسبٹ سے کہا کہ وہ حکومت ہند کی ہرتجویز ماننے کو تیار ہے اگر اس کی اپنی شہرت اور عوام کے سامنے اس کے خاندان کے وقارکو داغدار نہ کیاجائےگا۔ یہ سب واقعات 7 اور 8؍ مارچ 1889ء کو ہوئے۔

(IOR, 194, Nisbet to FO Gov, folio 173)

8؍مارچ 1889ء کو راجہ امر سنگھ وہ فرمان شاہی لےکر ریذیڈنٹ کے پاس پہنچتا ہے جس پر مہاراجہ کی رضامندی تھی کہ وہ ریاست کے تمام انتظامی امور سے الگ ہوجائے گا اور حکومت جیسے چاہے امورریاست چلاسکتی ہے۔

(Ibid, Nisbet report, 20 March 1889)

26مارچ 1889ء کو حکومت ہند کے محکمہ خارجہ یعنی مورٹیمر ڈیورنڈ نے ریاست کشمیر کے ریزیڈنٹ پیری نسبٹ کو لکھا کہ کشمیر میں ایک ریاستی کونسل بنائی جائے جو امور ریاست چلانے کی ذمہ دار ہوگی۔ مہاراجہ کو امور سیاست سے بے تعلق اور محل تک محدود رکھا جائے۔

ڈیورنڈ نے ریاستی کونسل کے لائحہ عمل کے متعلق لکھا:

’’راجہ امر سنگھ اس کونسل کا سربراہ ہوگا۔ یہ کونسل مکمل بااختیار ہوگی مگر کوئی بھی اہم قدم اٹھانے سے قبل کونسل کے لئے ریذیڈنٹ سے مشورہ کرنالازمی ہوگا اور اگر ریذیڈنٹ کسی بھی معاملے میں کوئی مشورہ دے تو کونسل کے لئے وہ مانناضروری ہوگا۔‘‘

(Durand to Nisbet, IOR, 194, folio 178)

اور بالآخر وہ دن آن پہنچا جس کاخدشہ برسوں پہلےمہاراجہ رنبیر سنگھ نے ظاہر کیاتھا۔ اہل برطانیہ کا بھاری بھرکم انجن، روسی سازشوں کو مات دیتا ہوا، پوری قوت کے ساتھ شمال میں ریاست کشمیر کی طرف بڑھا اور کشمیر ایک پکے ہوئے پھل کی طرح ہندوستان میں برطانوی حکومت کی جھولی میں آگرا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔

حضرت نورالدین اور نیا کشمیر

ریاست کشمیر کے مہاراجہ رنبیر سنگھ کی سرپرستی میں علم و دانش کا گہوارہ رہنے کے دن لد گئے اور کشمیر اپنے خزاں رسیدہ چناروں کی طرح دہکنے لگا۔ اب وہاں درباری سازشوں، باہمی ریشہ دوانیوں اور نیچ حرکات کو ہی بقا کا ضامن سمجھاجانے لگا تھا۔

قارئین اس صدمے کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں جو ایسے منفی ماحول کے باعث علم وحکمت کے جویا، مرد خدا حضرت نور الدین کو پہنچا ہوگا کیونکہ درس و تدریس کا وسیع تجربہ رکھنے والے اور علم و دانش کے دوسرے نام حضرت نورالدین کے لیے یہ نیا کشمیرتوسوہانِ روح بننے والا تھا۔

تاہم حیرت انگیز طورپر آپ کی خود نوشت سوانح عمری سے اس نئے دور میں آپ کے کرب اور ذہنی کوفت کا اظہار نہیں ملتا ؟ مگر اس عرصہ کے دوران آپ کی اپنے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہونے والی خط و کتابت سے ایک نہایت الم ناک داستان کا نقشہ ابھرتا ہے۔

حضرت نورالدینؓ اندازًا1885ء میں اپنے روحانی پیشوا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام سے متعارف ہوئے اور اپنے مرشد آقاپر دل و جان سے فدا ہوگئے۔

(تفصیل: مکتوبات احمد)

اور یہ وہی زمانہ بنتا ہے جب کشمیر میں رنبیر سنگھ کی جگہ پرتاب سنگھ مہاراجہ بنا اور یہ علمی گہوارہ بھی چالاکیوں بھری سیاسی بساط اور دھوکا دہی میں گندھی ریاستوں جیسی محض ایک ریاست بن کر رہ گئی۔ یوں حضرت نورالدینؓ کے واسطے جب اس علم و دانش کے مرکز کی روشنی مدھم ہوئی تو آپ کی شناسائی اورپختہ ربط اس عالی دماغ، آفاقی ہستی علیہ السلام سے ہوگیا جس نے دنیا کو اللہ تعالیٰ کی آسمانی بادشاہت کی طرف ابھی بلانا شروع ہی کیاتھا۔

افسوس کہ ہمارے پاس حضر ت نورالدینؓ کے لکھے ہوئے خطوط محفوظ نہیں ہیں مگر وہ سب بیش بہا جوابات جو حضور علیہ السلام کی طرف سے بھیجے گئے مکتوباتِ احمد کی شکل میں محفوظ اور شائع شدہ ہیں اور ان جوابات کو پڑھ کر حضرت نورالدینؓ کی طرف سے بھیجے گئے خطوط کے مضمون کا اندازہ کرنا کچھ بھی مشکل نہیں رہتاہے۔

ملتا ہے کہ وہ تمام قریبی’’معتمدین‘‘ جنہیں مہاراجہ کے دربار میں ملازمت ملی ہوئی تھی ان سب کو نئے کشمیر میں مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی اپنی ملازمت کی شرائط والے معاہدوں کی تجدید کروائیں اوربتایا گیا کہ اب سے تمام نئے معاہدات کی شرائط ریاستی کونسل خود طے کرکے تجدید کیاکرے گی۔ ان ہدایات پر مشتمل ڈیورنڈ کے خطوط بنام ریذیڈنٹ (مرسلہ 26؍مارچ 1889ء اور محولہ بالا خطوط) سے معلوم ہوتا ہے کہ

’’تمہاری ذمہ داری ہے کہ اس تجربہ کار ماتحت عملہ کی بھی تعیین کرو جو ریاست کو چلانے کے لیے ضروری ہوگا۔ نیز وہ معین شرائط بھی طے کرلوجن کے مطابق مہاراجہ نے عملہ کی منظوری دینی ہے۔ مہاراجہ کا مشاہرہ مناسب و معقول تو ضرور ہو مگر بلاوجہ کے شاہانہ مشاہروں پر مکمل قدغن ہوگی، تا ریاست کے اموال کسی طور پر غیروں کے پاس نہ جائیں۔‘‘

لگتا ہے کہ حضرت نورالدینؓ نے اوائل موسم گرما 1886ء میں ریاست کشمیر کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے آپ کے نام خط محررہ 20؍جون 1886ء میں تحریر فرمایا:

’’آپ کے نوکری چھوڑنے سے بظاہر دل کو رنج ہے مگر آپ نے کوئی مصلحت سوچ لی ہوگی۔‘‘

پھرآپ علیہ السلام نے اپنے 7؍جولائی 1886ء کے خط میں بنام حضرت نورالدینؓ فرمایا:

’’یہ بات عین منشاء اس عاجز کے مطابق ہوئی کہ آپ کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا۔ انشاء اللہ کسی موقعہ پر ترقی بھی ہوجائے گی۔‘‘

مگر لگتا ہے کہ یہ عظیم نابغۂ روز وجود وہاں کشمیر میں بہت غیر مطمئن دن بسر کر رہا تھا۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے 1886ء (تاریخ معین نہیں )کے خط سے ظاہر ہوتا ہے جس میں آپؑ نے لکھا:

’’اس عاجز کی یہی رائے ہے کہ آپ نوکری نہ چھوڑیں۔ اگر اِس سے بھی کم تنخواہ ہوجو آپ کو دیتے ہیں تب بھی اس کو قبول کریں اور ہر ایک کے ساتھ اخلاق اور بُردباری سے معاملہ کریں۔ مومن پر یہی لازم ہے کہ بغیر مشورہ کے کوئی امر عجلت سے نہ کر بیٹھے۔ سو میں آپ کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ آپ علیحدگی ہرگز اختیار نہ کریں۔ مجھے اس بات سے افسوس ہوا کہ آپ نے استعفیٰ کیوں دیا حالانکہ آپ نے لکھا تھا کہ میرا اس علیحدگی میں دخل نہیں۔ اب بہرحال جہاں تک ممکن ہے۔ ایسے ارادہ کے لئے کوشش کریں کہ آپ اپنی نوکری پر قائم رہیں۔‘‘

اوائل 1887ء کے خطوط سے عیاں ہوتا ہے کہ حضرت نورالدینؓ کشمیر کے نامناسب ماحول کے باعث بہت زیادہ تکلیف اور پریشانی میں مبتلاتھے۔ مثلاً جنوری 1887ء کے خط میں لکھا:

’’مرض کسل اور حزن اگر عوارض اور اسباب جسمانی میں سے ہو، تو آپ تدبیر اور علاج اس کا مجھ سے بہتر جانتے ہیں اور اگر اسباب روحانی سے ہے تو اس سے بہتر کوئی علاج نہیں۔ جو اللہ جلشانہ نے فرمایاہے…

سو خدا تعالیٰ کو اپنا متولّی اور متکفل سمجھنا اور پھر لازمی امتحانون اور آزمائشوں سے متزلزل نہ ہونا اور مستقیم الاحوال رہنا بھی خوف اور حزن کا علاج ہے۔‘‘

مورخہ 13؍فروری 1887ء کو تحریر فرمایا:

’’اللہ جلشانہ ایسی قدرت ربوبیت سےجس سے اس نے خلقِ عالم کو حیران کر رکھا ہے آپ کو حزن اور خوف اور اندوہ سے مخلصی عطافرمائے… نوکری قبول کرنے میں آں مخدوم نے بہت ہی مناسب کیا۔‘‘

الغرض سال 1887ء کے دوران لکھے گئے خطوط سے حضرت نورالدینؓ کو پہنچنے والے ہموم و غموم اور بیماری کا جابجا تذکرہ ملتا ہےجبکہ آپ کے روحانی آقا و طبیب علیہ السلام آپ کے لیے دعامیں مصروف رہے اور آپ کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔

اسی طرح سال 1888ء کے خطوط بھی حضرت نورالدینؓ کو درپیش طرح طرح کی مشکلات کی تصویر ہی دکھاتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 5؍جنوری 1888ء کولکھےہوئے خط میں حضرت نورالدینؓ کی علالت طبع پر اپنے تردد کا ذکرکرتے ہوئے ان کے پاس عیادت کے واسطے جموں آنے کی خواہش کا بھی اظہار فرمایاتھا۔

22؍جنوری 1888ء کے خط میں آپ علیہ السلام نے حضرت نورالدین کو مصائب و شدائد کی شدت کےسامنےصبر اور دعا کا نسخہ آزمانے کی تلقین فرمائی اور اسی طرح 22 فروری کے خط سے حضرت نورالدینؓ کو درپیش معاشی مشکلات کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ تب حضرت نورالدین کو رقم قرض لینی پڑرہی تھی۔

اسی عرصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے سلسلہ کی بنیاد بھی رکھنے والے تھے اور دفاع اسلام میں آپؑ کی تصنیفات کی تیاری اور طباعت کا سلسلہ بھی تیزی سے جاری تھا۔ دوردرازکے شہروں میں واقع مطبع خانوں کی الجھنوں اور طباعت کے بھاری مصارف کو دیکھتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام چاہتے تھے کہ قادیان میں اپنا پرنٹنگ پریس لگوالیا جائے۔ مکتوبات احمد کی متعلقہ جلد کے اوراق بتاتے ہیں تب قریباً ہر دوسرا خط مطبع لگانے کے بھاری اخراجات اور اس کے لیے حضرت نورالدین کے بھیجے ہوئے فیاضانہ چندوں پر شکریہ اور ان کے لیےدلی دعاؤں سے عبارت تھا۔

29؍ فروری کےمکتوب میں آپ علیہ السلام نے حضرت نورالدینؓ کو اپنے اخراجات پر قابو پانے اور قرض لینے سے اعراض کی تلقین فرمائی اور کہا کہ آپ اپنی آمدن میں سے صرف ایک ثلث حصہ خرچ کیا کریں اور باقی رقم بچا لیا کریں۔ لکھا:

’’آپ اپنے مصارف کی نسبت ہوشیار ہوجائیں کہ انہیں اموال سے قوام معیشت ہے اور دینی ضروریات کے وقت بھی موجب ثواب عظیم ہوجاتے ہیں۔‘‘

الغرض اس زمانہ کے مکتوبات میں بین السطور یہی ابھرتا ہے کہ ریاست کشمیر کے یکسرناموافق ماحول میں طرح طرح کی پریشانیوں اور مشکلات پر صبر سے کام لیتے ہوئے حضرت نورالدینؓ اپنے اموال کی قربانی کے ذریعہ دین کے معاون و مددگار بنے ہوئےتھے۔ اِس ابتدائی دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے نورِ فراست سے پہچاننے والوں میں حضرت نورالدینؓ اپنی مالی قربانی میں بھی صف اول میں کھڑے تھے۔

جماعت احمدیہ کی تاسیس کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعلان فرمایا کہ جو لوگ آپؑ کے دعاوی پر صدق دل سے ایمان لانے والے اور اس نئی جماعت کے ممبر بننے پر تیارہیں آپؑ ان کے لیے اواخر مارچ 1889ء میں باقاعدہ سلسلہ بیعت شروع فرمانے والے ہیں۔ تب 20 فروری 1889ء کے ایک مکتوب سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ تاریخیں حضرت نورالدین کے لیے کچھ موزوں نہ تھیں۔ لکھا ہے کہ

’’جو کچھ پرچہ’تکمیل تبلیغ‘میں تاریخ لکھی گئی ہے وہ فقط انتظامی امر ہے…کوئی ضروری امر نہیں ہے۔ آپ کے لئے اجازت ہے کہ جب فرصت ہو اور کسی طرح کا ہرج نہ ہوتو اس رسم کے پورا کرنے کے لئے تشریف لے آویں۔‘‘

اب ایک طرف فروری 1889ء کے اس مکتوب کا مضمون ہے اور دوسری طرف عین اسی عرصہ میں مہاراجہ کشمیر کے خلاف زار روس کو لکھے گئے خطوط کو لےکر ایک سازش کا ہنگامہ ہے۔ یوں یہ وقت صرف مہاراجہ کے لیے ہی کٹھن نہ تھا بلکہ اس کا سارا عملہ و دربار بھی ایک ہجوم ِمشکلات میں گھرا ہوا تھااور مزعومہ قریبی معتمدین سمیت سب کو ریشہ دوانیوں کی آگ کی تپش برابر جھلسا رہی تھی۔ ایسے میں کہاجاسکتا ہے کہ حضرت نورالدینؓ ریاست کشمیر کے اندر مہاراجہ اور اس کے قریبی ساتھیوں کے خلاف اس محاذ آرائی کے ماحول میں غیرحاضرہونے سے بچنا چاہتے تھے۔

تاہم آپ کچھ اہتمام کرکے 23؍مارچ 1889ء کو پہلی بیعت کے تاریخ ساز موقع پر حاضر ہوئے اور پھر بخیریت واپس جموں پہنچ گئے، واپس پہنچ کر آپ کو معلوم ہوا کہ مہاراجہ کوتو معزول کر دیا گیا ہے اور تمام انتظامی امور ریاستی کونسل کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں۔

لیکن ابھی اور مشکلات آپ کا صبر آزمانے والی تھیں۔ مثلاً یکم اپریل 1889ء کو ڈیورنڈ نے مراسلہ بھیجا جس میں ریذیڈنٹ کے نام حکم تھا کہ حکومت کو بالکل ناپسند ہے کہ ریاست کشمیر کے اندر پنجاب سے آئے غیر ملکیوں کا عمل دخل ہو۔ لہٰذا تم ریاست کاانتظام چلانے کے لیے درکار ماتحت عملہ کی ایک سکیم تیار کرو اور اسے حکومت کو منظوری کے لیے پیش کرو… تاکہ کشمیر کے انتظامی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جاسکیں۔

(IOR, Durand to Nisbet, 1 april 1889)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خطوط بنام حضرت نورالدینؓ سے صاف طور پر ظاہر ہے کہ اس دوران جموں میں رہتے ہوئے حضرت نورالدین آفات و مصائب کی آندھیوں کا مردانہ وار مقابلہ کررہے تھے۔ مثلاً 21؍مارچ 1891ء کے مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو ان الفاظ میں تسلی دیتے ہیں:

’’آنمکرم کی نوکری ہمارے ہی کام آتی ہے۔ ظاہر اس کا دنیا اور باطن سراسر دین ہے۔ اگرچہ بظاہر صورت تفرقہ میں ہے…خداتعالیٰ نے جو حکیم و علیم ہے۔ بعض مصالح کی رو سے اس مقام میں آپ کو متعین فرمایا ہے۔ پس قیام فی ما اقام اللہ ضروری ہے۔ اس راہ سے آپ کو فیض رحمانی پہنچیں گے۔ ان شاء اللہ۔‘‘

مگر ریاست کشمیر کا کھولتا ہوا آتش فشاں اب پھٹنے کو تھااور صورت حال اس حد تک دگرگوں ہوچکی تھی کہ 16؍اگست 1891ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا:

‘‘تعلقات دنیا میں حاسدوں کا ہونا ایک طبعی امر ہے۔ وَلِکُلِّ مُقَبّل حاسِدٌ۔حفاظت و حمایت الٰہی آپ کے لازم حال رہے۔ بےشک ایسے تعلقات بہت خطرناک ہیں… رفق اور نرمی اور اخلاق میں تو پہلے ہی سے آنمکرم سبقت لے گئے ہیں۔ لیکن امید رکھتا ہوں کہ حاسدوں اور دشمنوں سے بھی یہی طریق جاری رہے اور حتیٰ الوسع ریاست کے کاموں میں بہت دخل دینے سے پرہیز رہے۔‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے آپؓ کو ایسی ہی قیمتی نصائح ملنے کا سلسلہ جاری تھا کہ بالآخر اگست 1892ء میں کشمیر کی ریاستی کونسل نے آپ کو ملازمت سے برطرف کردیا۔ ہمیں 26؍اگست کو تحریر فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوب میں ذکر ملتا ہےکہ

’’کل کی ڈاک میں آنمکرم کا محبت نامہ پہنچ کر بوجہ بشریت اس کے پڑھنے سے ایک حیرت دل پر طاری ہوئی۔ مگر ساتھ ہی دل پھر کھل گیا۔ یہ خداوند حکیم و کریم کی طرف سے ایک ابتلاء ہے۔ ان شاء اللہ القدیر کوئی خوف کی جگہ نہیں۔ اللہ جلشانہ کی پیار کی قسموں میں سے یہ بھی ایک قسم پیار کی ہے کہ اپنے بندے پر کوئی ابتلاء نازل کرے… مجھےمعلوم نہیں کہ ایسا پُر اشتعال حکم کس اشتعال کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ کیا بدقسمت وہ ریاست ہے جس سے ایسے مبارک قدم، نیک بخت اور سچے خیر خواہ نکالے جائیں اور معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔‘‘

پس پردہ مصروفیات

ریاست کشمیر میں حضرت نورالدینؓ کو درپیش مصائب اور پریشانیوں کاکچھ احوال بیان ہوچکا اب یہاں کچھ ذکر ہوجائے کہ کشمیر میں آپ کے شب و روز کیسے گزرتے رہے، اور آپ کی کیاکیا مصروفیات تھیں۔

آپ کی سوانح عمریوں میں درج معلومات کی بنا پر کشمیر میں آپ کی مصروفیات کو بڑے بڑے تین شعبوں میں بانٹا جاسکتا ہے:

اول: مہاراجہ کشمیر، اس کے عزیز رشتہ داروں اور دیگر ضرورت مندوں کا علاج معالجہ کرنا۔ کشمیر میں آنے والی متعدد قحط سالیوں اور ہیضہ کی وباؤں کے دوران آپ نہایت بے نفسی سے مخلوق خدا کی ہمدردی، خبر گیری اور علاج کے لیےدن رات کمربستہ رہے۔

دوم: اپنی علمی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ ہر نئی اور مفید بات کی جستجوآپ کی پہچان رہی۔ آپ خاص لطف لےکر بتایا کرتے تھے کہ میں نے قیام کشمیر کے دوران پنڈت ہرنامداس سے ہندی طب سیکھی تھی۔ جموں میں قیام کے دوران آپ نے جرمنی میں مقیم عربی زبان کے ماہرین سے خط و کتابت کرکے عربی زبان اور ادب کی بنیادی کتب کی فہرست پر کام کیا۔ آپ نے متعدد نوجوانوں کو تیار کیا کہ وہ آپ کے مہیاکردہ خرچ پر مختلف زبانیں سیکھیں تا تبلیغ اسلام کے کام کو مزید پھیلایاجاسکے۔

سوم: کشمیر میں قیام کے دوران آپ تعلیماتِ اسلام پر نہ صرف خود مکمل عمل کرتے رہےبلکہ اس کی اشاعت و ترویج میں مصروف رہے۔ آپ بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ مجھ سے مہاراجہ کے دربار کے بعض احباب نے قرآن کریم پڑھا تھا، یہاں تک کہ راجہ امر سنگھ بھی آپ سے قرآن کریم پڑھتا رہا۔ تب آپ کا شہرہ بطور اسلام کے مانے ہوئے عالم و فاضل کے طور پر ریاست کشمیر بلکہ پورے ہندوستان میں پھیل چکا تھا۔ آپ کواسلامی موضوعات پر وعظ کرنے کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں مدعو کیا جاتا تھا اور لوگ آپ کے بیان کردہ اچھوتے نکات سےاستفادہ کرتے۔

جس زمانہ میں درباری سازشیں اپنے عروج پر تھیں اور آپ کا وہاں قیام ہرروزمشکل تر بنایا جارہا تھا تب بھی آپ اپنے ایمان وعقائد پر نہ صرف ثابت قدم رہے بلکہ آپ کی پہچان ہی یہی تھی کہ یہ شخص اپنے دھرم کا پکا ہے۔

عامر نثار علی شہرت، مدیراخبار روزنِ پنجاب (سابق نگران شعبہ تعلیم جموں )نے مسلمانان کشمیر کے متعلق اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ میں شائع شدہ اپنے ایک خط میں لکھا کہ

’’مجھے اکثر مولوی نورالدین، شاہی طبیب کے ساتھ نمازیں ادا کرنے کا موقع ملتا ہے، آپ نماز وں سے قبل بڑی باقاعدگی سے بآواز بلند اذان دیتے ہیں، پس اگر دربار کشمیر کی طرف سے اذان کی ممانعت ہوتی تو مولوی نورالدین کبھی کھلم کھلا ایسا نہ کرتے۔‘‘

(Civil & Military Gazette, Lahore, 7 March, 1889)

ان پُر آشوب دنوں میں بھی آپ مسلمانوں کے بڑے بڑے اجتماعات سے اسلامی موضوعات پر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ اخبارسول اینڈ ملٹری گزٹ نے انجمن ِحمایتِ اسلام کے سالانہ جلسہ کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھاکہ

’’دوپہر2بجے حکیم نورالدین آف جموں نے مقامی زبان میں ایک طویل خطاب کیا جس میں آپ نے امت کی موجودہ حالت کا نقشہ کھینچا اور سب کو تسلی دلائی کہ اگر مسلمان شریعت پر کاربند اور برٹش حکومت کے وفادار رہیں گے تو ان کواسلام کی ترقی اور مستقبل کی فکرنہیں ہونی چاہیے۔‘‘

(CMG, Lahore, 25 February, 1890)

حتی کہ 1892ء میں جب ریاست کشمیر کے لیے آپ کی خیرخواہی کے مقابل پرآپ کو دی جانے والی تکالیف حدوں کو چھو رہی تھیں آپ تب بھی مسلمانوں کے اجتماعات میں وعظ کرنے میں مصروف تھے۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ نے خبر شائع کی:

’’مولوی نورالدین جو عزت مآب مہاراجہ کشمیر کے معالج ہیں۔ آپ نے 8 تاریخ کی رات کو راجہ دیان سنگھ کی حویلی میں ایک بہت بڑے مجمع کے سامنے اسلام کے موضوع پر ایک نہایت عالمانہ لیکچر دیا۔ یہ لیکچر ساڑھے سات بجے شام شروع ہوا اورساڑھے گیارہ بجے تک جاری رہا۔‘‘

(Ibid, 10 March, 1892)

اشارہ ملتا ہے کہ تب آپؓ مہاراجہ کشمیر کے قافلہ کے رکن تھے جو اُن ایام میں لاہور کے دورہ پر تھا۔ کیونکہ اسی اخبار نے جہاں حضرت نورالدین کے مذکورہ بالا لیکچر کی خبردی، وہاں ساتھ ہی قارئین کو بتایا کہ مہاراجہ نے دورہ پنجاب کے دوران پنجاب چیف کورٹ لاہور کا معائنہ کیا ہے۔

حضرت نورالدینؓ کے حالات زندگی سے ملتا ہے کہ آپ مسلمانان ہند کے فائدہ کے لیے ہر موقع پر نہایت فیاضی سے خرچ کرنے والے وجود تھے۔ آپ کے سرمایہ فیض سے سر سید احمد خان جیسے نامی لوگ بھی مستفید ہوتے رہے۔ انجمن حمایت اسلام کے مصارف کے لیے آپ خطیر رقوم بطور چندہ دیا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمات دینیہ کے لیے تو آپ اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کوتیار رہتے تھے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مکتوبات بنام حضرت نورالدینؓ سے ملتا ہے کہ آپ نے بہت سے اہل اور ضرورت مند لوگوں کو ریاست کشمیر میں ملازمت حاصل کرنے میں مدد کی، اور یہ قومی خدمت اس عرصہ میں بھی جاری رہی جبکہ آپ کو خود بھی وہاں بے یقینی اور مشکلات کا سامنا تھا حتی کہ آپ کی اپنی ملازمت کوبھی خطرات لاحق تھے۔

ایک مرتبہ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے ریاست کے معاملات میں بہت ہی غور کیا ہے۔ وہاں چار نقص بڑے ہیں۔

’’اول یہ کہ رئیس کے خدمت گار جس قدر اجہل ہوں اسی قدر ان کا زیادہ رسوخ ہوتا ہے۔

دوسرا نقص یہ ہے کہ یہ لوگ چونکہ شرفا کو زیرو زبر کرتے رہتے ہیں ۔ اس واسطے ارکان و عمائد میں رئیس کی نسبت بھی اور آپس میں بھی بدظنی بہت پھیل جاتی ہے۔ اس بدظنی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ کسی کام کو وہ دل لگا کر نہیں کرتے۔ بلکہ ایام گزاری ہی کرتے ہیں۔

تیسرا نقص یہ ہوتا ہے کہ اپنی ناپائداری کو دیکھ کر طمع کا دامن بہت دراز کر لیتے ہیں۔

چوتھا نقص یہ ہوتا ہے کہ ایجنٹوں اور ریذیڈنٹوں کے کانوں میں عجیب در عجیب متضاد باتیں پہنچتی ہیں جس سے ان کو رئیس سے بڑا تنفر پیدا ہوجاتا ہے۔‘‘ (مرقاۃ الیقین صفحہ181۔182)

گو یہاں حضرت نورالدینؓ نےریاست کشمیر کا نام لیے بغیریہ چار بڑے بڑے نقائص بیان فرمائے ہیں مگر اس زیر نظر مضمون میں مندرجہ بالا حالات وواقعات سے صاف نظر آجاتا ہے کہ یہ وہ تلخ حقیقتیں ہیں جو آپ نے بطور جگ بیتی نہیں بلکہ کشمیر میں قیام کے دوران بطور آپ بیتی اخذ کی تھیں۔

قیام کشمیر کے دوران آپ نے وہاں ہر ایک سے اچھا برتاؤہی رکھا قطع نظر اس سے کہ دوسرے لوگ اس برتاؤ کو لوٹا سکے یا نہیں۔ آپ اپنے قیام جموں کے زمانہ کو یاد کرکے بعض لوگوں کا بڑی محبت سے نام لیا کرتے تھے مثلاً شیخ فتح محمد۔ گوبند سہائے۔ لچھمن داس۔ راجہ موتی سنگھ آف پونچھ وغیرہ وغیرہ

اب عجیب اتفاق ہے یہی وہ تمام نام ہیں جن کو برٹش ریذیڈنٹ اور اس کی دم ساز اور ہم راز ریاستی کونسل کے اراکین کی وجہ سے سخت مشکل دن دیکھنے پڑے تھے۔ پہلے وزیر اعظم لچھمن داس کو بے دخل کیاگیا اور پھر اس کے پیشرو گوبند سہائے کو بھی۔

(The Englishman, 23 September, 1885)

(The Pioneer, 21 October, 1886; Minutes of meeting between the Maharaja and the Viceroy, Lord Dufferin, National Archives of India, Foreign Department, Progs, Sec E, December 1886)

باقی لوگ حضرت نورالدینؓ سمیت وہ تھے جن کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ریاست سے بے دخل کیا گیاتھا اور ان کے ناموں کی فہرست پر راجہ امر سنگھ اوراس کے ساتھیوں نے تصدیق کی تھی۔

پلوڈن جب سےریذیڈنٹ بن کر آیا تھا اسے ریاست کشمیر کے ملازمین ایک آنکھ نہ بھاتے تھے اور وہ انہیں ہر قیمت پر ریاست سے نکالنے پرتلا ہوا تھا۔ اس نے محکمہ خارجہ کو لکھا کہ اگر میں ان ملازموں کو یہاں سےچلتا کردوں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ خواہ یہ از خود ہی چلے جائیں…

He wrote to the Foreign Department that if he could have them depart, “even on leave on [their] own accord, it will be a great gain

(NAI, DP Reel 530, Plowden to Durand, 8 August, 1886)

پس یہ چند لوگ جو کبھی علم و فضل کا گہوارہ کہلانے والے دربار کشمیر کے ماتھے کا جھومر تھے، وہ خود ہی ریاست سے جانے لگے جبکہ حضرت نورالدینؓ سمیت بعض نے جب تک ممکن رہا دربارسے منسلک رہنے کا فیصلہ لیا۔ کیونکہ آپؓ تو 1885ء کے بعد سے ہی اس نئے اور تبدیل شدہ کشمیر سے کنارہ کرنے کو تیارتھے مگر اپنے روحانی آقا کے ارشاد پر اس ارادہ سے اجتناب فرمایا۔ آپ کی سوانح عمری میں ملتا ہے کہ ایک دفعہ کشمیر کے بعض معتبر لوگوں کی طرف سے آپ کو کہاگیا کہ اگر آپ ان کشیدہ حالات میں استعفیٰ دے دیں تو اس میں بڑے مصالح ہیں۔ توآپ نے ان سے کہا کہ بنے ہوئے روزگار کو خود چھوڑنا ہماری شریعت میں پسند نہیں کیا گیا، بانیٔ اسلامﷺ نے ہدایت فرمائی ہوئی ہے کہ الاقامۃ فی ما اقام اللٰہ ضروری ہے۔ الغرض استعفیٰ کی ترغیب پر بھی آپ نے شرعی امر کو مقدم سمجھا۔ کیونکہ آپ کی یہ نوکری صرف آپ کا وسیلہ رزق ہی نہیں تھی بلکہ آپ کے آقاو مطاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احیائے اسلام کے واسطے قائم کردہ نوزائیدہ سلسلہ احمدیہ کے متعدد مالی ضروریات کو پورا کرنے کا ذریعہ بھی تھی۔

جب مہاراجہ پرتاب سنگھ کو معزول کیا گیاتھاتو ریاستی کونسل میں دو نئے ارکان سورج کول اور بھاگ رام کوشامل کیا گیا۔

(IOR, 194, Constitution of the Council,folio 193)

ریاستی کونسل کے چاروں اراکین کوامور سلطنت کے مختلف شعبوں کی نگرانی تفویض ہوئی تو سورج کول کے ذمہ ریونیو اور مالیات کے محکمے آئے۔ نئی ذمہ داری ملنے پر سورج کول نے مشہور کرنا شروع کردیا کہ مہاراجہ کے ’’معتمدین‘‘ کی طرف بہت بھاری رقمیں نکلتی ہیں جو ان لوگوں کو واپس کرنی ہوںگی اور حضرت نورالدینؓ کے ریاست کشمیر میں آخری دن تک ریاست کے ’’باقی اداروں‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔

حضرت نورالدینؓ نے بیان فرمایا کہ یہی بھاگ رام، جو ریاستی کونسل کا چوتھا ممبر اور انگریز ریذیڈنٹ کابہت قریبی اوربھروسے کا شخص تھا میرے پاس آیا اور مجھے مستعفی ہونے کی راہ دکھائی، مگر آپ کو تو کسی دنیاوی فائدے یانقصان سے زیادہ شریعت کا حکم مقدم تھا۔ یوں آپ کے متعلق ان سازشیوں کی یہ تجویز بھی کارگر نہ ہو سکی۔

مگر اس پر ابھی زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ آپ کو ریاست کشمیر کی نوکری سے برخاست کرنے کا حکم اور کشمیر چھوڑنےکا پروانہ پہنچ گیا۔

حضرت نورالدینؓ کی سوانح عمری سے آپ کے ریاست کے باقی دار ہونے کا براہ راست کوئی ذکر تو نہیں ملتا؟ تاہم آپ کا ایک جملہ ایسا ضرور ہے جس سے بات کو کسی حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔ فرمایا کہ مجھ کو جموں سے نکلتے وقت’’ ایک لاکھ پچانوے ہزار روپیہ دینا تھا۔ ‘‘

حضرت نورالدینؓ کے جہاں مہاراجہ سے اچھے تعلقات تھے وہاں آپ کے راجہ امر سنگھ کے ساتھ بھی قریبی مراسم رہے۔ البتہ آپ نے لکھا ہے کہ سورج کول جو آپ کو ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرکے ریاست سے بے دخل کرنے پر تلا ہوا تھا، اس نے ’’ باقی داری ‘‘کا بہانہ بناکر آپ کے خلاف مہاراجہ کو خوب اکسایا، اور مہاراجہ کے بھائی تو طاقت و حکومت کے کھیل میں پہلے ہی ہر حد تک جانے کوتیار بیٹھے تھے۔

لیکن یہ سب امور حضرت نورالدینؓ محض اندازے سے بیان فرمارہے ہیں کیونکہ آپ نے کہا کہ ’’ وہ (سورج کول)پھر ناراض ہو گئے۔ گو مجھے پورا علم نہیں ہے۔ مگر قرائن قویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے پھر میرا وہاں رہنا اور مجھ کو دیکھنا پسند نہ کیا۔ ‘‘

کچھ آگے چل کر آپؓ بتاتے ہیں بعد میں مہاراجہ پرتاب سنگھ جن کو تب تک پھرسےتخت پر بحال کر دیا گیا تھا، کوآپؓ کو پہنچنے والی تکالیف پر رنج ہوا اوراس نے آپؓ کو دوبارہ ریاست کشمیر میں آنے اور ملازمت کرنے کی پیشکش کی۔

پس مذکورہ بالا حقائق و حوالہ جات کی روشنی میں غالب گمان یہی ہے کہ کشمیر کی ریاستی کونسل کے اراکین بشمول راجہ امر سنگھ آغاز سے ہی حضرت نورالدین سے کدورت رکھتے تھے۔ اور تب مہاراجہ کشمیر بھی درباری ریشہ دوانیوں سے گھبرایا ہواتھا اوروہ تو اپنی گدی بچانے کے لیے کسی بھی تحریر پر دستخط کرنے کو تیارتھا اور یہی تخت تھا جس پر وہ دوبارہ بحال بھی ہوچکا تھا۔

تاہم جو بھی ہوا، حضرت نورالدینؓ نے جموں سے رخت سفر باندھا اور چل پڑے۔ آپ نے کسی سے ذاتی ملال اور رنجش کو دل میں جگہ نہ دی کیونکہ جب بعد میں پھر کسی تقریب پر آپؓ کو وہاں جانا پڑا تو مہاراجہ کشمیر پرتاب سنگھ نے بعد بحالی حقیقت حال کھل جانے پر آپ سے فرمایا کہ آپ پر بھی بہت بے جا ظلم ہوا ہے آپ معاف کردیں۔ تو آپ نے کہا یہ تو خدا تعالیٰ کا گناہ ہے۔ خدا کا گناہ خدا تعالیٰ ہی معاف کر سکتا ہے۔ بندے کی کیا طاقت ہے۔

پس آپؓ نے اُس دنیاوی سلطنت سے کوچ کی جو لالچ، دھوکے، سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے آلودہ تھی تو خداتعالیٰ نے آپ کو وہاں پہنچا دیا جو واقعی آپ کے مناسب حال تھی۔ آپ نے باقی زندگی قادیان دارالامان میں بسر فرمائی جہاں آپ اپنے محبوب و مخدوم آقا حضرت مسیح موعود ومہدی مسعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ذریعہ قائم ہونے والی آسمانی بادشاہت کے جانشین ٹھہرے۔

آپ کے ریاست کشمیر سے چلے آنے کے بعد جس شخص نے آپ پر ہونے والے ظلم پر سب سے زیادہ افسوس کا اظہار کیا وہ خود مہاراجہ کشمیرہی تھااوراسی نے بعدازاں آپ کے ذمہ واجب الاداایک لاکھ پچانوے ہزار روپے کی ادائیگی کا انتظام بھی کردیا۔

کیا حضرت نورالدین جاسوس تھے؟

چونکہ یہاں حضرت نورالدین کے قیام کشمیر کے دور کا ذکر چل رہا ہے تو اس اعتراض کا بھی جائزہ مناسب معلوم ہوتا ہے جو جماعت احمدیہ کے مخالفین آپؓ کے خلاف دہراتے رہتے ہیں۔

کچھ مخالف کہہ دیتے ہیں کہ آپ وہاں انگریز گورنمنٹ کے جاسوس کے طور پر بھیجے گئے تھے اور بعض کا الزام ہے کہ آپ مہاراجہ کی طرف سے روسی حکام کے لیے جاسوسی کا کام کرتے تھے۔

آپ پر برطانوی حکومت کے جاسوس ہونے کا الزام تو عام طور پر مخالفین احمدیت کی اردو میں لکھی ہوئی عمومی کتب میں جابجا مل جاتا ہے جیسا کہ رفیق دلاوری کی کتاب ’’ائمہ تبلیس‘‘ اور ’’رئیس قادیان‘‘ وغیرہ۔ اور سب جانتے ہی ہیں کہ اس پائے کی کتب میں نہ تو کوئی حوالہ ہوتا ہے اور نہ ثبوت۔ اور لکھنے والے اپنے تعصب میں اعتراض برائے اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں۔

البتہ انگریزی زبان میں ایک کتاب ایسی ہے جس میں اس اعتراض کو خوب دہرایا گیا ہے، وہ ہے بشیر احمد کی کتاب: “Ahmadiyya Movement: British-Jewish Connections”

1994ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کا انداز بظاہر بہت عالمانہ اور محققانہ رکھا گیا ہے لیکن اس کو شائع کرنے والا ادارہ کوئی مستند ناشر نہیں بلکہ کوئی اسلامک سٹڈیز فاؤنڈیشن، راولپنڈی،ہے۔

اس کتاب کا مصنف حضرت نورالدینؓ کو ایک ’’ چالاک اور شاطرانسان‘‘ بتا کرصفحہ 60 پر لکھتا ہےکہ آپ رنبیر سنگھ کی طرف سے جاسوسی پر متعین تھے تا زار ِروس سے سازباز کرکے برطانوی حکومت سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے۔

پھر مصنف نے ان دو جاسوسی کےمشنوں کا ذکر کیا ہے جو مہاراجہ رنبیر سنگھ کی طرف سے روسی علاقوں میں بھیجے گئےتھے اور ان لوگوں کے نام بھی بتاتا ہے کہ سرفراز خان، عبدالرحمٰن خان، باباکرم پرکاش وغیرہ کو جاسوسی کرنے بھیجا گیا تھا۔ لیکن اپنی اگلی بات کا کوئی ثبوت یا دلیل نہیں لاتا اور نہیں بتاتا کہ ان جاسوسی مشنوں سے حضرت نورالدینؓ کا کیا لینا دینا تھا۔

اپنی بات میں وقعت پیدا کرنے کی کوشش میں بشیر احمدایک مصنف دیواندرا کوشک کی کتاب“Central Asia in Modern Times” کا بھی ذکر کردیتا ہے لیکن حضرت نورالدینؓ کا کسی بھی سازش سے ربط دکھانے میں یکسر معذور نظر آتا ہے۔ حضرت نورالدینؓ تو کجا ان جاسوسی مشنوں سے تو خود مہاراجہ کا تعلق بھی ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ان مشنوں پر بھیجے گئے لوگوں سے جنرل چرنوو نے ملاقات کرکے تفتیش کی تو یہ لوگ مہاراجہ کے ایماکے متعلق کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ جب مہاراجہ کے کسی تصدیقی خط کا پوچھا تو جواب ملا کہ وہ خط تو راستے میں کہیں کھوگیا ہے۔

(DevandraKaushir, Central Asia in Modern Times, Moscow, 1970, p 104; National Archives of India, Foreign Department, Secret E, Pros April 1889, titled “Affairs of the Kashmir State. Discovery of treasonable letters. Maharaj‘s resignation of power. Reorganization of the Government”.)

کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور دروغ گو کا حافظہ ساتھ نہیں دیتا، پس بشیر احمد تو اپنا لکھا ہوا ہی بھولنے لگتاہے، مثلاً ایک مقام پر حضرت نورالدینؓ پر مہاراجہ کی طرف سے روسی علاقوں میں جاسوسی کرنے کا الزام لگاتا ہے اور اگلے صفحہ پر لکھ دیتا ہے کہ

’’نورالدین نے امر سنگھ کو اپنے دام میں اچھی طرح پھنسا لیاہوا تھا اور اس کو مکمل قائل کرلیا کہ برطانوی مدد کے بغیر تم تخت حاصل نہیں کرسکتے ہو۔ اسی طرح نورالدین نے ایک اور سازش تیارکی کہ کشتواڑ میں برطانوی قبضہ ہوجائے مگر یہ منصوبہ برطانیہ کے پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے مسترد کردیا گیا۔ ‘‘

بشیر احمد اپنی ان متضاد باتوں کے ثبوت کے طور پر رفیق دلاوری کی کتاب ’’ائمہ تبلیس‘‘ کا حوالہ پیش کرتا ہے جبکہ رفیق دلاوری کا متعصبانہ الزام بھی وہاں بغیر حوالہ کے درج ہے۔

پس یہاں بشیر احمد باہم متضاد الزامات لگا کر خوداپنی بات کو بے وقعت ثابت کررہا ہے کیونکہ تعصب میں ڈوبے یہ مخالفین احمدیت عبث میں اپنی سوچوں کے گھوڑے دوڑاتے ہیں اور پھر قارئین سے توقع رکھتے ہیں کہ ان کی باتوں کو مستند تاریخی حقائق سمجھ کر قبول کریں۔

مزید برآں ہم اس مضمون میں اصل ماخذوں کی روشنی میں ثابت کرچکے ہیں کہ حضرت نورالدینؓ سے نہ تو راجہ امر سنگھ خوش تھا کیونکہ اسی شخص نے دستخط کرکے انگریز ریذیڈنٹ کویادداشت بھیجی تھی کہ نورالدین کو ناپسندیدہ شخص قرار دےکر ریاست سے بے دخل کیاجائے۔ اور نہ ہی کوئی برٹش ریذیڈنٹ آپؓ سے راضی تھا، ان سب لوگوں کی کوشش تھی کہ کسی طرح آپ کو دربار کے معاملات سے دور کردیا جائے۔

راقم الحروف کو اب تک مغربی محققین میں سے صرف ایک شخص کی کتاب سے جاسوسی کے الزام کا ذکر ملا ہے اور وہ ہے: “Victoria‘s Spymasters: Empire and Espionage” by Stephen Wade

وہ لکھتا ہے کہ

’’…عرب بیورو کے قیام سے قبل، ہندوستانی جاسوسوں کا ایک گروپ حکیم نورالدین جو کشمیر شاہی طبیب تھے، نے برطانیہ کے لیے جاسوسی کرنے مصر بھیجا تھا۔ حکیم صاحب 1870ء سے برطانوی راج کے پولیٹکل افسران کےساتھ منسلک تھے، انہوں نے ایک جاسوسی کامشن تیار کرکے تاشقند بھیجا تا وہاں معلوم کرسکیں کہ روس کے متعلق کیا سفارتی اقدامات ہورہے ہیں۔‘‘

(Victoria‘s Spymasters, pg 140)

یہاں یہ مصنف بھی بغیر کوئی حوالہ دیئے، نہایت اعتماد سے کہانیاں سنائے جاتا ہےاور تاریخ کے واقعات ایسی تحدی سے لکھ رہا ہے جیسے وہ خود عینی شاہد ہواورگمان کر رہا ہے کہ اس کی باتوں کو محض اس وجہ سے مستند سمجھاجائے کیونکہ وہ کہہ رہا ہے۔ اس شخص کی ساری کتاب ہی حوالہ جات سے یکسر خالی ہے۔ تعجب ہے کہ University of Hull جیسے ادارے میں پروفیسر کے رتبے تک پہنچنے والے اس انسان کو اتنا نہیں معلوم کہ جھوٹ اور سنسنی کےسہارے اس کی کتابیں شاید کچھ منافع کما لائیں، اس کو سستی شہرت بھی مل جائے مگر علمی دنیا میں ایسے بے بنیاد قصوں کی کوئی جگہ نہیں۔ کتاب کے آخر پر کتابیات کے عنوان سے طویل فہرست لکھ دینےسے کہاں ثابت ہوجاتا ہے کہ مصنف نے اس ذخیرہ سے استفادہ بھی کیا ہے اور اس کی تحریر باحوالہ اور ثبوتوں پر مبنی ہے۔

Stephen Wade کی اس صریح علمی بددیانتی کو دیکھ کر یہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ بعض ناشرین مصنف کےبڑے نام اور رتبے سے مرعوب ہوکر ان کی کتاب کے مواد کی تصدیق اور نظر ثانی کے ضروری مرحلے بھی ترک کردیتے ہیں۔

حضرت نورالدینؓ پر جاسوسی کے الزام کواوّل اوّل گھڑنے اور پھراسے ہَوا دینے میں قدرت اللہ شہاب کا ہاتھ ہے۔ کیونکہ اس کی آپ بیتی ’’ شہاب نامہ‘‘سے یہ بے سروپاالزام پڑھ کرمعاندین احمدیت اسے لے اڑے ہیں۔ جبکہ قدرت اللہ شہاب کے متعلق سب کو ہی خبر ہے کہ یہ افسر شاہی کا پیادہ پاکستان کی روایتی افسر شاہی کے زعم میں حقائق کو مسخ کر کےپیش کرنے اور جھوٹ کو سچ دکھانے میں ید طولیٰ رکھتا تھا، نیز جماعت احمدیہ کے خلاف اس کا بغض و عناد کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں۔

پس حضرت نورالدینؓ کے بارہ میں یہ الزام تراشنے والے قدرت اللہ شہاب کاپس منظر یہ تھا کہ اس نے تصوف کی آڑ میں ملک کے پڑھے لکھے طبقے کو اپنی باتوں سے اپنے پیچھے لگا رکھا تھا حتی کہ بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کو اپنا مرید بنا رکھا تھا۔ لیکن ملک کے آزاد خیال اور ذی شعور طبقہ کی نگاہ میں یہ شخص محض ایک موقع پرست اور طوطاچشم انسان تھا۔

(For a better understanding: Akhtar Abbas, From Bhutto to Zia to Musharraf, The Daily Dawn, 2 January 2016)

جاسوسی کے الزام کا مزید ذکر کرنے سے قبل ضروری ہے کہ یہاں بتادیا جائے کہ قدرت اللہ شہاب کیونکر اور کیسے پاکستان میں بڑے بڑے رتبوں تک پہنچ گیا۔ اب چونکہ خاکسار پر جانبداری کا شبہ کیا جاسکتا ہے اس لیے کوئی ذاتی تبصرہ کرنے سے بہتر ہے کہ میں یہاں عالمی شہرت کی حامل اورمنجھی ہوئی سیاسی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کی کتاب سے کچھ جملے درج کردوں۔ لکھتی ہیں:

’’جنرل ضیاء الحق کے فوجی اقتدار کے زمانہ میں کوشش کی گئی کہ تمام مکاتب فکر اور بالخصوص سنی فرقوں کو ساتھ ملایاجائے اوریوں دیوبندی اور اہل حدیث فرقوں کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھایا گیا، ان کے ذریعہ نوجوانوں کو بھرتی کرکے جہاد میں جھونکا گیا۔ بریلویوں اور صوفی اسلام والوں کو بھی سینے سے لگا کر رکھا گیا۔

یہی وہ دَور تھا جب ریاست طاہر القادری جیسے لوگوں کو ڈھونڈ کر اوپر لائی اور ضیاء الحق نے ملک کاعلمی طبقہ قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد اور ممتاز مفتی کے ٹولے کے حوالے کردیا کہ وہ ان کے سامنے جگہ جگہ مخصوص نقطۂ نظر بیان کرتے پھریں…1980ء کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کے سیکرٹری اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن نے جوزف گوئبلر ثانی بن کر دانشورانہ ماحول کو یکسر بدل کر رکھ دیا اور ہر موضوع کو اسلام اور قومیت کا رنگ دینا شروع کردیا۔ یہی وہ دور تھا جب قدرت اللہ شہاب جیسوں کی خوب چاندی ہوئی۔ ‘‘

(Dr Ayesha Siddiqa, Old Men‘s Tales, www.drayeshasiddiqa.com, accessed 13 December 2021)

آئیےاب ہم قدرت اللہ شہاب کی زیربحث موضوع پر تحریر کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں:

’’مہاراجہ پرتاب سنگھ بے اولاد تھا۔ اپنی جانشینی کے لئےاس نے اپنی برادری کا ایک لڑکا منتخب کرکے متبنیٰ بنا رکھا تھا۔ لیکن ہری سنگھ کے باپ راجہ امر سنگھ کو یہ بات گوارا نہ ہوئی۔ کیونکہ وہ اپنے بیٹے کو ریاست کا وارث بنانا چاہتا تھا۔ اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے اس نے ریاست کےطول و عرض میں سازشوں کا جال بچھا دیا۔ اس سازباز میں راجہ امر سنگھ کو حکیم نوردین سے بڑی مدد ملی۔‘‘ (شہاب نامہ۔ صفحہ 358۔ سنگ میل پبلیشر لاہور۔ ایڈیشن جنوری 1988ء)

یہاں بھی مصنف کی روایتی غیرذمہ داری ملاحظہ ہوکہ اتنی اہم تاریخی بات لکھی اور نہ کوئی حوالہ، نہ ہی ثبوت۔ یا تو قدرت اللہ شہاب لکھ دیتا کہ میں نے حکیم نوردین کو ریاست کشمیر کے طول و عرض میں سازشوں میں معاونت کرتے خود دیکھا تھا اور ہم خود کو سمجھا لیتے کہ یہ جعلی صوفی 1885ء سے 1892ء کے دوران کشمیر کا ایک ذی ہوش اور باخبر باشندہ رہ چکا ہے۔

مگر زیب داستاں کے لیے کہانیاں گھڑنے اور اپنے تخیل کو حقیقت بنا کر بیچنے والےاس شخص نےاپنی کتاب میں حضرت نورالدینؓ پر حملہ کرنا شاید اس لیے ضروری سمجھاہو کہ اس طرح وہ اپنے آقا جنرل ضیاء الحق کو خوش کرلے گا۔

قدرت اللہ شہاب کی تحریر سے جاسوسی کے الزام کا یہ دلچسپ پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ یہاں آپؓ کو نہ تو برطانیہ کا جاسوس بتایا گیا ہے اور نہ ہی روسیوں کا اور نہ ہی کسی اور کا۔ بلکہ آپؓ کو تو راجہ امر سنگھ سے ساز باز کرنے والا لکھا گیا ہے حالانکہ یہ وہی امر سنگھ تھا جو آپ کو ہر قیمت پر کشمیر سے بے دخل کرنا چاہتا تھا۔

پس ثابت ہواکہ حضرت نورالدینؓ جیسا بلند پایہ عالم اور عظیم روحانی وجود سازشیں اور جاسوسیاں کرنے سے بہت ہی رفیع الشان درجے پر فائز تھا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button