سیرت خلفائے کرام

حضرت حکیم مولوی نورالدین ؓ کے حالات زندگی (قبل از سکونتِ قادیان) (قسط اوّل)

(آصف محمود باسط)

دنیاوی سلطنت سے آسمانی بادشاہت تک

آپ کے خاندان کی علم دوستی مسلّم ومشہورتھی اور اس ماحول ،ابتدائی تربیت اور علمی اٹھان کا اندازہ آپ کے والد کی اس نصیحت سے بآسانی کیا جاسکتا ہے جب انہوں نے کہا: ’’اتنی دور جاکر پڑھو کہ ہم میں سے کسی کے مرنے جینے سے ذرا بھی تعلق نہ رہے۔‘‘

حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے متعارف ہونے اور پھر قادیان دارالامان ہجرت کرآنے سے قبل کی زندگی کے غیرمعمولی حالات وواقعات اکثر نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔ اس بھرپور دَورکے بارے میں میسر معلومات کاماخذ یا تو وہ یادداشتیں ہیں جو حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کی خودنوشت ہیں جن کوحضرت حکیم محمد حسین صاحبؓ (المعروف مرہم عیسیٰ والے) کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالہ ’’حکیم حاذق‘‘ (نومبر1907ء) میں شائع کردیا گیا تھااوریا پھراکبر شاہ نجیب آبادی کو لکھوائے ہوئے حالات زندگی ہیں جو بعد میں ’’مرقات الیقین فی حیات نورالدین‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیے گئے۔

زمانہ قبل از خلافت کے متعلق ’’حیات نور‘‘ اور ’’تاریخ احمدیت‘‘ کی متعلقہ جلد میں درج ابواب کے مواد کا بڑا حصہ مذکورہ بالا دونوں ذرائع سے ماخوذ ہے۔

لیکن یہاں یہ اظہار کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ احمدیت اور حیاتِ نور کے فاضل مصنفین و مرتبین نے اپنے زمانےتک میسر مختصر مواد اورمحدود وسائل سے کماحقہ استفادہ کرتے ہوئے نہایت عرق ریزی سےزمانہ قبل از خلافت کے متعلق قابلِ قدر ابواب تالیف کیے ہیں اوراِن سوانح نگاروں کو اُن ماخذوں اور مواد کے ذخیروں تک رسائی نہ تھی جن تک آج رسائی ہوسکی ہے گو آج بھی ان دستاویزات کا حصول بدقت ہی ہو پایا۔

یوں ان باہمت سوانح نگاروں کی مہیاکردہ معلومات سے راہ پکڑ کر کچھ مزید گوشوں کو تلاش کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی جو حضرت حکیم مولوی نورالدینؓ صاحب کی غیر معمولی عظمت کو مزید روشن کرنے والے ہیں۔

اس کام کے دوران مجھے بارہا احساس ہوا کہ حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ کی اس ابتدائی زندگی کے واقعا ت کے راوی چونکہ وہ خودتھےلہٰذاآپ کی منکسرمزاجی کے باعث یہ غیر معمولی دَور کماحقہ کھل کرسامنے نہیں آسکااور اس ابتدائی دَور کے مقابل پر بعد کا زمانہ حضرت امام الزمان ؑ کی بیعت میں آجانے اورپھر زمام خلافت سپرد ہونے کی وجہ سے جماعتی اخبارات و کتب میں مذکور ہونے لگا اور مفصل محفوظ ہوگیا۔

اسی طرح یہاں یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ بالا جماعتی تاریخ کے ماخذوں میں درج معلومات اور خاکسار کی پیش کردہ باتوں میں نظر آنے والےفرق کو ان بزرگان کی کسر شان پر محمول نہ کیا جائے کیونکہ تحقیق کا میدان ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور کسی بھی تاریخی معاملہ پر نئے پہلو سامنے آنا ایک عام بات ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آئندہ محققین زیادہ گہری اور وسیع تر تلاش سے ہماری تاریخی معلومات میں مزید قابل قدر اضافہ کرنےوالے ہوں۔

ابتدائی زمانہ

حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ 1841ءکے قریب بھیرہ میں پیدا ہوئے جو برطانوی ہندوستان میں ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ آپ کی پیدائش 1834 ء میں ہوئی ہو گی۔ اس اندازے کی بنیاد اس بات پر رکھی جاتی ہے کہ آپ کے کتبہ پر آپ کی عمر ہشتات (80) برس تحریر ہے۔ تاہم آپ کی وصیت کی مسل دستیاب نہیں۔نیز اُس دور میں پُر کی جانے والی مسل پر سنہِ پیدائش کا خانہ ہی نہ ہوتا تھا۔ زیر نظر مضمون میں ہم اسی سنہِ پیدائش کو لے کر چلیں گے جو آپ نے خود اپنے خودنوشت سوانحی حالات میں بیان فرمایا اور جس کی مطابق آپ نے دیگر سوانحی واقعات کی تعیین فرمائی۔

آپ کے خاندان کی علم دوستی مسلّم ومشہورتھی اور اس ماحول ،ابتدائی تربیت اور علمی اٹھان کا اندازہ آپ کے والد کی اس نصیحت سے بآسانی کیا جاسکتا ہے جب انہوں نے کہا: ’’اتنی دور جاکر پڑھو کہ ہم میں سے کسی کے مرنے جینے سے ذرا بھی تعلق نہ رہے۔‘‘ (مرقات الیقین، صفحہ195)

حضرت نورالدینؓ کے خاندان میں تحصیل علم کے شوق کی اس بلندی اور اس قدر واضح امتیاز کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا مفید رہے گا کہ تب برصغیر پر برطانوی راج کا سورج چمک رہا تھا،عام مسلمانوں میں حصول علم کا رجحان دن بدن کم ہوتا جارہا تھا اور مسلم سلطنت کے زوال سے ماضی کی عظمت رفتہ ایک قصہ پارینہ بنتی جارہی تھی۔

تب عام طور پر یہی تاثر تھا کہ اب مذہبی تعلیم کا حصول ہی مسلم تشخص کی بحالی کی واحد راہ ہے۔

(Details: Muhammad Tayyib, Dar al-UlumDeoband, Dar al-Isha’a, Deoband, 1965; ZiaulHaque, Muslim Religious Education in Indo-Pakistan, Islamic Studies, V 14, Issue 4, Islamic Research Institute, International Islamic University, Islamabad)

تب جس چیز کو علم سمجھاجاتا تھا وہ محض قرآن کریم اور احادیث مع تفسیر اور شروحات کے مطالعہ تک محدود تھا اور ان کتب سے استفادہ کے لیے عربی اور فارسی زبانوں سےواقفیت ضروری سمجھی جاتی تھی۔ گو بہت سے مسلم بادشاہوں نے فن تعمیر اور عمارت سازی میں شہرت کمائی لیکن علم کی یہ شاخ بھی علماء کے لیے نہ تھی اور اس کو دیگر ماہرین فن کے لیے مخصوص سمجھاجاتا تھا۔البتہ ان رفیع الشان عمارتوں کی شوکت بڑھانے کے لیے ان پر ہونے والی خطاطی کا فن تھا جس میں درک حاصل کرنا بھی گویا اسلامی تعلیم ہی کا حصہ خیال کیا جاتا تھا۔

طب یونانی بھی مسلمان طبیبوں کی بیش بہا خدمات اور وابستگی کے باعث مسلمانوں کی میراث خیال کیا جاتا تھا۔ اس علم کی تحصیل بھی ضروری خیال کی جاتی مگر اسے بطور پیشہ وہی اختیار کرتے جو اس میں مہارت حاصل کرتے۔

یہ وہ پس منظر تھا جس میں حضرت نورالدینؓ نے عین عنفوان شباب میں دوردرازملکوں کی طرف طویل سفر اختیار فرمائے۔

حضرت نورالدینؓ بتاتے ہیں کہ وہ پہلی دفعہ قریباً 12 سال کی عمر میں 1270 ہجری بمطابق 1853ء عیسوی میں لاہور شہر میں بطور طالب علم وارد ہوئے تھے۔اس بیان سے مزیدمعلوم ہوتا ہے کہ آپ کے بڑے بھائی سلطان احمد صاحب وہاں لاہور میں کابلی مل کی حویلی میں قائم ایک پرنٹنگ پریس بنام مطبع قادریہ کے مالک تھے یا کسی کی شراکت داری میں یہ مطبع چلاتے تھے۔

تاریخ احمدیت میں درج ہے کہ سلطان احمد صاحب نے لاہور میں مطبع قادری کھول رکھا تھا۔1880ء تک کا میسر ریکارڈ بتاتا ہے کہ یہ مطبع قادری منشی قادر بخش کی ملکیت تھا۔ مشرقی طب کے ایک رسالہ ’’تکمیل الحکمت‘‘ کے سرورق پر درج ہے کہ ’’مکتبہ قادری پریس لاہور بااہتمام منشی قادر بخش چھاپا گیا‘‘ اس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ حضرت نورالدین ؓکے بھائی سلطان احمد کی حیثیت مکتبہ قادری میں بطور شراکت دار یا مہتمم پریس کی تھی۔البتہ یہ واضح ہے کہ سلطان احمد صاحب کی لاہور سے وابستگی اور اس سفر کا محرک یہ پرنٹنگ پریس تھا۔

لاہور پہنچ کر حضرت نورالدین ؓکو خناق کا مرض ہوگیا اور آپ حکیم غلام دستگیر لاہوری ساکن سید مِٹھا بازار کے پاس زیر علاج رہے۔اوراسی موقع پر آپؓ کے دل میں طب یونانی پڑھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ گو آپ کا علم طب حاصل کرنے کا آغاز اُس وقت نہ ہوسکاکیونکہ آپ کے بھائی کے خیال میں فارسی زبان اور خوش خطی سیکھنا زیادہ موزوں تھا۔فارسی سیکھنے کے لیے آپ منشی محمد قاسم کشمیری کے پاس بھیجے گئے اورخوش خطی کے لیے آپ امام ویردی کے پاس۔آپ کے یہ دونوں اساتذہ ہی اپنے زمانہ کے معروف ماہر فن تھے جبکہ امام ویردی کو تو اسلامی فن خطاطی کے مورخین کی طرف سے ایک خاص مقام دیا جاتا ہے۔ لکھا ہے کہ ’’برصغیر کا وہ علاقہ جہاں اب پاکستان واقع ہے ، یہاں امام ویردی کی خدمات نہایت غیر معمولی رہیں۔امام ویردی ایران سے کشمیر وارد ہوئے تھے اورکشمیر کے سکھ حاکموں کے مسلمان گورنر امام الدین ان کو لاہور لے آئے۔ 1860ء اور 1870ء میں کرنل ہیل روئیڈ کے پاس ڈائریکٹرمحکمہ تعلیم لاہور کا عہدہ تھا اوروہ فن خوش نویسی کو عوام میں مقبول بنانے کا خواہاں تھا۔ لیکن امام ویردی بھی اپنے پیشرو ماہرین فن کی طرح اپنی فنی مہارت کے پوشیدہ راز کسی شاگرد کو بتانے کےقائل نہ تھے۔ تاہم آپ کے ایک شاگرد سید احمد نے کرنل ہیل روئیڈ کو وہ تمام اسباق دکھادیئے جو اسے امام ویردی نے مشق کرنے کے لئے تیار کرکے دیئے تھے۔ کرنل ہیل روئیڈ نے ان اسباق اور مشقوں کو طبع کرواکر عام فروخت کے لئے پیش کردیا تا ہر کوئی ان سے استفادہ کرسکے۔ امام ویردی کی فنکاری کا نمونہ لاہور میوزیم اور سوتر مسجد پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے اور اس سوتر مسجد کو تعمیر ہی امام ویردی نے کروایا تھا۔‘‘

(S Amjad Ali, Calligraphy in Indo-Pakistan, in The Proceedings of the Hijra Celebration Symposium on Islamic Art, Calligraphy, Architectur and Archaeology)

اسی حوالے سے لکھی گئی ایک اور کتاب میں مذکور ہے کہ ’’امام ویردی کاکام قابل قدر اور اہم ہے کیونکہ آپ ہی آخری معروف ترین استاد بلکہ لاہور میں فارسی نستعلیق کے دور کا آخری ،بڑا اور مستند نام ہوگزرے ہیں۔ آپ کی وفات کے محض نصف صدی کے اندر اندر لاہور سے فارسی نستعلیق قریباً ختم ہوکر رہ گیا تھایوں فارسی نستعلیق کے طویل عروج کی دو صدیاں دیلمی سے شروع ہوکر امام ویردی پر آن کر ختم ہوگئیں۔‘‘

(Seher A. Shah, A History of Traditional Calligraphy in Post-Partition Lahore, MA thesis for The Columbian College of Arts and Sciences of The George Washington University,2016)

حضرت نورالدینؓ کے شاندار تعلیمی سفر کاآغاز ہی کس قدر عالی شان تھا گومذکورہ بالا دونوں علوم ہی آپ کے مزاج کے مطابق نہ تھے۔ یوں آپ ان ماہر اساتذہ سے خاطر خواہ استفادہ تو نہ کر سکے لیکن آپ کا لاہور میں دو سالہ قیام آپ کے دل میں علم طب سیکھنے کی گہری تمنا پیدا کرنے والا ہوگیا۔علم طب کی طرف اس رجحان کا اوّل محرک تو آپ کے اپنےمعالج حکیم غلام دستگیر لاہوری ہی ہوئے اور بعد ازاں آپ کوحکیم اللہ دین لاہوری سے بھی نیاز حاصل ہوا جو علم طبابت میں حکیم غلام دستگیر لاہوری کےہی شاگرد تھے۔ یہ دونوں حکیم ہی اپنے وقت میں مانے ہوئے نام تھے اور کنہیا لال نے اپنی کتاب تاریخ لاہور میں ان کا ذکر خصوصی طور پر کیا ہے۔

پس لاہور میں حضرت حکیم مولوی نورالدین ؓصاحب کی حکیم اللہ دین لاہوری سے طب یونانی پر گفتگو رہی اور آپ اندازاً 1855ءمیں لاہور سے رخصت ہوگئے۔

معروف مورخ کنہیا لال کے مطابق اُس زمانے میں علوم اسلامی پر زیادہ تر کتب دہلی اور لکھنؤ میں ہی طبع ہوتیں اور پھران کی سارے ملک میں ترسیل ہوتی۔ حضرت نورالدینؓ کے خاندان کی گہری علم دوستی کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ بہت سے کتب فروش اس خاندان سے قریبی رابطے میں رہتے تھے۔اس خیال کو تقویت اس امرسے بھی ملتی ہے کہ دو تاجرانِ کتب آپ کے گھر مہمان بن کر رہا کرتے تھے ، لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص محمد امین نے حضرت نورالدینؓ کو قرآن کریم کے ترجمہ سے متعارف کروایا۔ جبکہ بمبئی سے تعلق رکھنے والے دوسرے تاجر کتب سے آپ کو ’’تقویۃ الایمان‘‘ اور ’’مشارق الانوار‘‘ لےکر پڑھنے کا موقع ملا۔

غالباًانہی کتب کے مطالعہ سے حضرت نورالدینؓ کے اندرعقائد اہل حدیث جاننے کارحجان پیدا ہوا اور اگلی کئی دہائیاں آپ انہی عقائد پر سختی سے کاربند رہے۔ کیونکہ مذکورہ بالا دونوں تاجر کتب راسخ العقیدہ اہل حدیث تھے۔ نیزآپ نے خود ذکر کیا ہے کہ یہ تاجرکتب برصغیر کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں برسرپیکار مجاہدین کے لیے اُس زمانے میں روپیہ لےکر جایا کرتے تھے۔

کچھ عرصہ بعد حضرت حکیم صاحبؓ پھر لاہور میں واپس وارد ہوئے اور حکیم اللہ دین لاہوری سے طب کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ لیکن یہ قیام بہت مختصر رہا کیونکہ آپؓ کو ایک دفعہ پھر واپس بھیرہ آنا پڑا اور یہاں سے آپ کو روایتی تعلیم کے اسکول میں داخلہ کے لیے راولپنڈی بھیج دیا گیا۔ تب آپؓ کے اپنے بیان کے مطابق یہ سنہ 1858ءتھا اور آپ کی عمر قریباًاٹھارہ سال تھی۔

نوجوانی کے سال

راولپنڈی کے قیام کے عرصے میں آپؓ نے حساب اور جغرافیہ کے مضامین میں خوب مہارت پیدا کر لی اور تحصیل کے امتحان میں بیٹھے جو گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی بھرتی کے لیے مخصوص تھا۔آپؓ نے تحصیل کے امتحان میں اس درجہ نمایاں کامیابی حاصل کی کہ آپ پنڈدادنخان کے انگریزی مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر بنادیے گئے۔اور یہ نئی جگہ آپ کے آبائی شہر بھیرہ کے قریب ہی واقع تھی۔

1857ء کے غدر کے پس منظر میں برطانوی راج کی مرتب کردہ تعلیمی پالیسی کو دیکھتے ہوئے حضرت نورالدینؓ کی یہ نئی ذمہ داری بھی کئی لحاظ سے اہم تھی کیونکہ انگریز تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے سے ہی مقامی ہندوستانیوں کے لیے خاص تعلیمی پالیسی بنانے کے لیے کوشاں تھے۔مگر1792ء میں چارلس گرانٹ کے وقت سے تعلیمی پالیسی پر ہونے والا کام 1830ء تک بھی اس نہج پر نہ پہنچ سکا تھا کہ یکساں پالیسی پیش کی جا سکے۔کیونکہ برطانوی ماہرین تعلیم انگریزی اور مشرقی میں سے کسی ایک ذریعہ تعلیم پرمتفق نہیں ہو پائے تھے۔ ایک گروہ کے مطابق انگریزی زبان ہی ذریعہ تعلیم ہونی چاہیےجبکہ اس کی مخالفت کرنے والوں کی رائے میں مشرقی زبانوں عربی، فارسی اور سنسکرت میں مقامی لوگوں کو تعلیم دینا موزوں تھااور ہندوستان کی مقامی زبانوں کو بطور ذریعہ تعلیم اپنانے کی پالیسی پر اتفاق رائے ہوتا دور دور تک نظر نہیں آرہا تھا۔

بالآخر ایلن میکالے کی کوششیں رنگ لائیں کہ مقامی ذرائع تعلیم کو حکومتی سرپرستی ملنی چاہیے اور چارلز ووڈ کی تحریرات جو 1854ءمیں سامنے آئیں انہوں نے اس بابت مزید راہنمائی کی۔ چارلس ووڈکی پُرزور تجویز تھی کہ جدید یعنی مغربی تعلیم کو عام کیا جائے تاہم علوم شرقیہ کی تحصیل بھی نظر انداز نہ ہو۔ اس تجربہ کار سیاست دان کا ماننا تھا کہ تعلیم تک رسائی مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہونی چاہیےاورملک کے مقامی تعلیمی نظام کی بھی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔

مسٹرایلن ہیوم نے مقامی تعلیمی نظام کےلیے کلیدی کام کیا اور اینگلو ورنیکولرسکول کھلنے لگے۔

اس وسیع سلسلہ کو تجرباتی بنیادوں پر 1849ء میں شروع کیا گیاجب شمال مغربی صوبہ میں 8 اسکول قائم کیے گئے اور یہ سلسلہ 1856ء تک سارے برصغیر میں پھیل چکا تھا۔ ان اسکولوں کا انتظام چونکہ ضلعی سطح پر چلایا جارہا تھااس لیے ان کو تحصیلی اسکول بھی کہا جاتا تھا۔

(Details: Anu Kumar, New Lamps for Old: Colonial Experiments with Vernacular Education, Pre- and Post-1857, in Economic and Political Weekly, V 42 No 19, 2007)

الغرض مذکورہ بالا پس منظر کے حامل تحصیلی اسکول میں ملازمت کے لیے حضرت نورالدینؓ نے امتحان دیااور کامیاب ہوئے۔ زیر نظر مضمون میں اب تک پیش کی گئی معلومات اور آئندہ آنے والے صفحات سے عیاں ہوتا ہے کہ حضرت نورالدین ؓکی شخصیت کی اٹھان میں مشرقی، مقامی اور جدید علوم کا یکساں رنگ تھا اوران تینوں طرح کے علوم کا یہ کامیاب اور حسین امتزاج ہی برصغیر کی مقامی آبادی کی سماجی اور سیاسی بیداری کا نسخہ تھا۔

عوام کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہوئےجب چار سال گزرے تو آپؓ نے مزید تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت محسوس کی ، آپ نے پنڈدادنخان کے اینگلو ورنیکولر اسکول کی ملازمت سے استعفیٰ دیا اور ہندوستان کے مختلف مراکز تعلیم کا رخ کیا، یہ 1862ء کی بات ہے۔

اعلیٰ تعلیم کا حصول

بھیرہ واپس پہنچنے پر آپؓ نے مولوی احمد الدین صاحب بگوی سے پڑھنا شروع کردیا جن کا تعلق بھیرہ کے قریب واقع قصبہ بگہ سے تھا۔ مولوی احمد الدین کے بڑے بھائی کانام مولوی غلام محی الدین بگوی تھا اوران دونوں بھائیوں کی علوم اسلامیہ پر دسترس کا زمانہ گواہ تھاکیونکہ یہ بھائی دہلی میں شاہ محمد اسحاق کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرچکے تھے، جو حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے پوتے اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پڑپوتے تھے۔ اور شاہ محمد اسحاق کو اپنے داداشاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے تحصیل علم کے بعد سند حاصل کرنے کا شرف حاصل تھا۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: حدائق الحنفیہ از فقیر محمد جہلمی)

مولوی احمد الدین کے حلقہ درس میں شامل ہونے سے جہاں حضرت نورالدین ؓنے عربی زبان میں اپنا علم پختہ کیا وہاں آپ کی اہل حدیث مکتب فکرسے شناسائی گہری ہوتی چلی گئی۔ لیکن قریبا ًایک سال بھیرہ میں تعلیم حاصل کرکے اندازاً 1863ء میں آپ لاہور چلے آئے اور حکیم محمد بخش سے طب پڑھنے لگے مگر جلد ہی آپؓ کا رامپور جانے کا ارادہ بن گیا۔

یہ رامپور جانے اور وہاں رہنے کا خیال کسی سرسری یا وقتی جذبے کے ماتحت نہ تھا بلکہ تب رامپور مسلمانوں کے لیے علوم دینیہ کی تحصیل کا مرکز تھا کیونکہ وہاں دہلی اور لکھنؤ سے تعلیم یافتہ معروف اساتذہ کا مسکن تھا اور نواب فیض اللہ خان ، بانی ریاست رامپور کے مخلصانہ اقدامات کی بدولت یہ راجشاہی ریاست علم و فن کا مرکز بن چکی تھی۔ نواب رامپور نے مولانا عبدالعلی فرنگی محلی کو رامپورمیں تعلیمی ادارہ قائم کرنے کے لیے بلایا اور اس ادارے کو مدرسہ عالیہ کانام دیا۔ مولانا نور سلام شاہ اور عبدالحق دہلوی جیسے ثقہ علماء کو رامپور بلا کر ان کے علم اور تجربہ سے استفادہ کیا گیا۔علاوہ ازیں درج ذیل مشہور و معروف علماء و فضلاء کو بھی رامپور میں بسایا گیا: ملاں غیاث الدین، فضل حق خیرآبادی، عبدالحق خیرآبادی، مولانا ارشاد حسین وغیرہ۔یوں رامپور بھی علم وفضل کے مرکز کے طور پر دیوبند، بریلی اور لکھنؤ کی طرح ممتاز نظر آنے لگا۔

(Barbara Metcalf, Islamic Revival in British India: Deoband 1860-1900, Oxford University Press, New Delhi, 1982)

تب رامپور میں علوم اسلامیہ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سےآنے والوں میں صرف ہندوستان کے باشندے ہی نہ تھے بلکہ مسلم دنیا سے، مثلاً افغانستان اور بخارا وغیرہ سے بھی لوگ رامپور کا رخ کرنے لگے۔(تفصیل:مدرسہ عالیہ رامپور، ایک تاریخی درسگاہ۔ از محمد عبدالسلام، رامپور، رضا لائبریری 2002ء)

یہاں رامپور میں حضرت نورالدینؓ کاتین سال تک قیام رہا اور سخت بے آرامی کے صبح و شام اور ہروقت مطالعہ میں منہمک رہنے کی وجہ سے آپ کو بے خوابی کا مرض لاحق ہوگیا اور آپ کو اس مرض کے علاج کے لیے کسی اعلیٰ ترین اور ماہر فن حکیم کی تلاش تھی۔ یوں آپ حکیم علی حسین لکھنوی کے پاس لکھنؤ پہنچے۔حضرت نورالدین کی خودنوشت زمانی ترتیب کے لحاظ سے یہ غالباً 1866ء کا سال بنتا ہے جب آپ رامپور سے لکھنؤ کی طرف عازم سفر ہوئے۔

آپؓ کے لکھنؤ شہرچھوڑنے کی بڑی وجہ کسی ایسے مشہور حکیم کی تلاش تھی جو طب یونانی میں مہارت رکھتا ہواور آپ کی خوش قسمتی کہ تلاش کامیاب رہی اور آپ ملک کے اسی پائے کے ماہر اور مشہور حکیم تک پہنچ گئے۔

حکیم علی حسین لکھنوی ایک تجربہ کار شخصیت تھےاورریاست رامپور کے والی نواب یوسف علی (متوفی:1865ء)کے شاہی طبیب کے طور پر خدمات بجا لاچکے تھے۔ ملتا ہے کہ ایک دفعہ نواب صاحب کلکتہ کی طرف سفر پر جارہےتھے تو حکیم علی حسین نے اپنے بیٹے کو کانپور بھیجا کہ وہ نواب صاحب سے درخواست کرے کہ وہ کانپور میں اپنے مختصر قیام کے دوران ان کی مہمان نوازی قبول فرمائیں۔ نواب صاحب نے یہ درخواست قبول کی اور ان کے اعزاز میں کانپور میں مولوی عبدالرحمٰن خان کی رہائش گاہ پر ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا۔ یہ مولوی عبدالرحمٰن خان مطبع نظامی کے مالک تھےاوران کے مطبع کا شہرہ سارے ملک میں تھا۔ (تفصیل: تذکرہ کاملین رام پور، صفحہ 255)

حکیم علی حسین کے شاگردوں کی طبی خدمات سے استفادہ کرنے والوں کا حلقہ جس قدر وسیع تھا اتنا ہی بلند بھی تھا کیونکہ آپ سے طب کا علم سیکھنےوالوں میں سے اکثر بطور شاہی طبیب متعدد راجشاہی ریاستوں سے منسلک ہوتے گئےمثلاً حکیم محمد سعید معالج نظام حیدر آباد دکن۔ حکیم سید الطاف حسین معالج رئیس ٹونک اور مہاراجہ کشمیر کے شاہی طبیب حضرت حکیم نورالدینؓ۔(تذکرہ کاملین رام پور، صفحہ 256)

حکیم علی حسین سے طب سیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد نے طب کی کتب کے تراجم کرنے میں بھی نام کمایا اور علم طب میں قابل قدر لٹریچر کا اضافہ بھی کیا ، آپ کے بعض شاگردوں کی تصنیفات آج بھی طب کی مستند کتب کا درجہ رکھتی ہیں۔

تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ لکھنؤ سے واپسی کے سفر میں حضرت نورالدینؓ نے بھی کانپور میں مذکورہ بالا مولوی عبدالرحمٰن خان کے گھر ہی قیام فرمایا ، کیونکہ وہ آپ کے بھائی سلطان احمد صاحب کے قریبی دوست تھے اوردونوں دوست ہی اپنے وقت میں کتابوں کی معیاری طباعت کے حوالے سے ایک معروف نام تھے۔

رامپور سے لکھنؤ کی راہ میں حضرت نورالدین ؓنے جہاں کانپور میں ایک رات کا قیام فرمایا وہاں آپ مرادآباد بھی رکے اور رامپور کے قیام کے دوران سخت دماغی محنت اور بےآرامی کے سبب پیدا ہونے والے بے خوابی کے مرض سے شفایاب ہوئے۔

’’حکیم حاذق‘‘ میں درج خودنوشت حالات کے مطابق آپ کے مرادآباد میں قیام کا عرصہ مہینہ ،ڈیڑھ مہینہ تھاپس مذکورہ بالا واقعات اوران کے وقوع کے سنین کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو حضرت نورالدینؓ 1866ء کے اواخر میں حکیم علی حسین صاحب کے مکان پر پہنچے ہوںگےاورتب تک آپ کے بےخوابی کے مرض سے بکلی شفایاب ہوجانے کامزید قرینہ یہ بھی ملتا ہے کہ جب حکیم علی حسین صاحب نے آپؓ سے آنے کا مقصد پوچھا تو آپؓ نے یہی بتایا کہ میں آپ سے طب پڑھنے کے لیے آیا ہوں۔

حکیم علی حسین صاحب کی شاگردی میں آنے کے بعد آپؓ نے شدت سے محسوس کیا کہ آپ کے پاس روزانہ بہت سا وقت بچ جاتا ہے اورطب کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بآسانی علوم اسلامیہ میں بھی اپنی مہارت بڑھا سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے آپ کی راہنمائی مولوی فضل اللہ فرنگی محلی کی طرف ہوئی جو برصغیر کے مسلم علماء میں ایک ممتاز نام تھے۔

مولوی فضل اللہ صاحب علوم دینیہ کے ہی ماہر نہ تھے بلکہ علوم جدیدہ پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ آپ کے اسی تبحر علمی کو دیکھتے ہوئے کیننگ کالج کی انتظامیہ نے بالکل آغاز میں ہی 1864ء میں آپ کو اپنے عملہ تدریس میں شامل کرلیا تھا۔

تب فرنگی محل کی شہرت کا باعث ایک بات یہ بھی تھی کہ یہاں ایسے طلبہ کو علم سے منور کیا جاتا جن کے گھرانوں میں پہلے سے کوئی مشہور صاحب علم موجود نہ ہو۔ اوراپنےزمانے میں اس ادارے کی طرف سے یہ ایک انوکھی تعلیمی خدمت تھی کیونکہ پیٹر ہارڈی نے بعض ابتدائی اعداد وشمار کا تجزیہ کرکے بیان کیا ہےکہ انیسویں صدی عیسوی میں وفات پانے والے ایک سو علماء میں سے پچاس ایسے تھے کہ جن کے والد ایک معروف عالم دین تھےاور باقی میں سے 14 علماء نے اپنی تعلیم فرنگی محل سے مکمل کی تھی۔

(Peter Hardy, The Ulama in British India, p 832)

اسی طرح ایوریل پاؤل، جو جنوبی ایشیامیں اسلامی تاریخ پر ایک موقر نام ہیں، بتاتی ہیں کہ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں بیک وقت سنی اور شیعہ مسالک کے طلبہ کی بھی خواہش ہوتی تھی کہ وہ طلبہ فرنگی محل سے تعلیم حاصل کریں۔

(Avril Powell, Contact and Controversy Between Islam and Christianity in Northern India, 1833-.1857)

یہاں حضرت نورالدینؓ کا فرنگی محل سے منسلک ایک استاد کی شاگردی اختیار کرنا مزیدعیاں کررہا ہےکہ آپ کی طبیعت ہر قسم کے علم کی جویاں تھی۔ آپ کو جتنا دینی علم عزیز تھااتنا ہی آپ دنیاوی علوم کےبھی متلاشی تھے۔

رامپور کے والی نواب کلب علی خان (تصویر بشکریہ وکی پیڈیا)

اُس زمانے میں مولوی فضل اللہ صاحب کی عام شہرت ایک معقولی استاد کی تھی جو بیک وقت عالم دین ہوتے ہوئے دنیاوی علوم سے بھی مس رکھتے تھے اور لکھنؤ کے معروف کیننگ کالج کے مدرس رہ چکے تھے۔ملتا ہے کہ رامپور کے والی نواب کلب علی خان نے آپ کو اپنے محل میں خصوصی نوکری کی پیشکش کی تھی مگر آپ نے معذرت کرکے کیننگ کالج میں تدریس اور ساتھ ساتھ فرنگی محل میں علوم دینیہ کی ترویج کو ترجیح دی تھی۔

(M Inayatullah Ansari FarangiMahali, Tazkira-i-Ulama-i-Farangi Mahal, IshaatulUloomBarqi Press, Farangi Mahal)

اب اگرحضرت نورالدین ؓکو اپنے زمانے کے اعلیٰ ترین اساتذہ میسر آئے جن کی علمی عظمت اور فنی مہارت بلندیوں کو چھورہی تھی تو یہ حقیقت بھی قابل توجہ ہے کہ یہ شاگرد رشید بھی علوم کا دلدادہ اور ہر فن میں مہارت تامہ کے حصول کے لیے کوشاں تھا۔ ان نامی اساتذہ سے استفادہ کے دنوں کا احوال یاد کرتے ہوئے آپؓ اپنی خود نوشت سوانح میں لکھتے ہیں کہ ’’میں نے چند ہی سبق پڑھے ہوںگے کہ تنہائی میں اپنی گزشتہ عمر کا مطالعہ شروع کیا اور اس بات کو پہنچ گیا کہ اگر تو اسی طرح پڑھے گا تو ان علوم سے متمتع ہونے کے دن تجھ کو کب ملیں گے اور میر ےدل نے فیصلہ کرلیا کہ اگر چھ سات سبق ہر روز نہ ہوئے تو پڑھنا گویا عمر کو ضائع کرنا ہے۔‘‘

خسرو باغ محل، رامپور (تصویر بشکریہ وکی پیڈیا)

یوں آپ نے لکھنؤ میں حکیم علی حسین صاحب سے چند ماہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہی ان سے اجازت طلب کی کہ میں واپس رامپور جاکر سلسلہ تعلیم کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔ تب حکیم علی حسین نے بتایا کہ ان کو بھی نواب کلب علی خان کی طرف سے دربار رامپور میں بطور شاہی طبیب منسلک ہونے کی پیشکش آئی ہوئی ہے۔حکیم علی حسین نے حضرت نورالدینؓ کو اپنا رفیق سفر بنانا چاہا اور آپ فوراً رضامند ہوگئے۔

یوں علم الحدیث کے حصول کے لیے اپنے اگلے تعلیمی سفر سے قبل آپؓ قریباًدو سال تک رامپور میں حکیم علی حسین کے پاس رہےاور حکیم علی حسین نے ہی آپ کودہلی جاکر علم حدیث میں مہارت حاصل کرنےکا مشورہ دیا۔تب دہلی شہر علم الحدیث کا مرکز سمجھاجاتا تھا اور یہ 1869ءکا سال بنےگا۔

اس زمانے میں دہلی میں مولوی نذیر حسین کا شہرہ تھا اور حضرت نورالدینؓ نے بھی دہلی پہنچ کر اسی مکتب کا انتخاب فرمایا مگر آپ بتاتے ہیں کہ تب مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی ’’مجاہدین کو روپیہ پہنچانے کے مقدمہ میں ماخوذ تھے‘‘۔ ان دنوں ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں جہادیوں کی انگریزی راج کے خلاف مہم جوئی جاری تھی جو تحریک مجاہدین کے نام سے معروف ہے۔

مزید آگے بڑھنے سے قبل یہاں ایک تاریخی سقم کی اصلاح مقصود ہے۔ تاریخ احمدیت کی جلد سوم میں حضرت نورالدینؓ کے سفر دہلی کو 1864ء اور 1865ء کا واقعہ بتایا گیا ہےمگرحضرت نورالدینؓ کےسفر زندگی کی مذکورہ بالاترتیب زمانی کے مطابق یہ سفر دہلی اندازاً 1869ء میں بنتا ہے نیز مولوی نذیر حسین صاحب کو درپیش معروف واقعات بھی 1869ء والے نظریہ کو تقویت دینے والے ہیں۔

مولوی نذیر حسین صاحب کو 1863ء میں معروف مقدمہ بابت انبالہ سازش کیس میں تفتیش کا سامنا تھا۔ تب دعویٰ کیا گیا کہ سرحدی علاقوں میں برسرپیکارتحریک مجاہدین کے کارکنان سے آپ کی خط و کتابت برآمد ہوئی ہے۔ اور آپ کو 1864ء میں حراست میں لیا گیا اور 1865ء میں بری کردیا گیا۔

بعدمیں نئے شواہد سامنے آنے پر1869ء میں یہی مقدمہ دوبارہ چلایاگیا اور نذیر حسین کے گھر کی تلاشی بھی ہوئی۔ اب یہ امر بالکل عیاں ہے کہ مولوی نذیر حسین کے حالات زندگی کواردو زبان میں قلمبند کرنے والے محققین کا کام تعصب کے رنگ میں رنگین ہے۔ایک طرف ان سے والہانہ عقیدت کا تعلق رکھنے والا گروہ تھا تو دوسرا عناد سے بھرا ہوا۔ اسی لیے مولوی نذیر حسین کے گھر کی تلاشی کے واقعات بیان کرنے والوں میں اکثریت کا یہی بتانا ہے کہ گو خانہ تلاشی ہوئی تھی مگر پولیس کے ہاتھ کوئی ایسے ٹھوس شواہد نہ آئے کہ وہ ان کو بنیاد بنا کرمولوی صاحب کوگرفتار کرسکتی۔ اب یہ بات اگر مکمل طور پر غلط نہیں تو درست بھی نہیں ہے۔

اس مقدمے کے سرکاری ریکارڈسے 26؍جنوری 1869ء کاایک دفتری خط بتاتا ہے جوکلکتہ سےپولیس کے سپیشل انسپکٹر جنرل کی طرف سے انسپکٹر جنرل پولیس زیریں صوبہ جات کے نام لکھا گیا تھا کہ ’’…میری رائے ہے کہ 1818ء کے قانون کےقاعدہ نمبر 3 کی روشنی میں پنجاب حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہ مولوی نذیر حسین کوبطورایک باقاعدہ قیدی زیرحراست رکھے۔‘‘

ایک دوسرا خط جو مجسٹریٹ کی طرف سے ڈپٹی کمشنر دہلی کے نام 19؍مارچ 1869ء کو روانہ کیا گیا، اس میں درج ہے کہ ’’…میں نے اُمید علی کو بطور سلطانی گواہ مقدمہ میں شامل کر لیا ہے اور اسی کی مہیا کردہ معلومات کی بناء پر ایزداہ بخش ، نذیر حسین اور عطاء اللہ کو گرفتار کیا گیا ہے…‘‘

اسی خط میں نذیر حسین ’’قیدی نمبر 4‘‘ کے طور پر مذکور ہیں اور درج ہے کہ ’’وہ تفتیشی کارروائی جو دہلی میں شروع کی گئی تھی وہ راولپنڈی اور پشاور میں جاری رکھی جائے گی جیسا کہ اُمید علی کے اقبالی بیان میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اور صرف امید علی کو ہی زیر حراست رکھا جائے گا…‘‘

منشی عرشی پرشاد ڈپٹی مجسٹریٹ کی 18؍مارچ 1869ء کی ڈائری میں درج ہے کہ ’’مسٹر کار سٹیفن اپنی رپورٹ کی تیاری میں مصروف تھے۔ ان کی ابتدائی رپورٹ کےمتن کو سن کر مجھے علم ہوا کہ مسٹر سٹیفن زیر حراست چاروں افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کے حق میں نہیں ہیں۔ یہ چار لوگ قاری اُمید علی، نذیر حسین، ایزداہ بخش اور عطاء اللہ پنجاب حکومت کے حکم پر 1841ء کے ایکٹ پنجم کے تحت زیر حراست تھے۔‘‘

(The above correspondence and records from: Selections from Bengal Government Records on Wahhabi Trials 1863.-1870, Asiatic Society of Pakistan, Dacca, 1961)

اب واضح ہے کہ مولوی نذیر حسین کو نہ توجیل بھیجا گیااور نہ ہی ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا بلکہ انبالہ سازش کیس کی 1869ء میں دوبارہ کارروائی کے موقع پرصرف زیر حراست رکھا گیا تھا۔ پس یہ معلومات مولوی نذیر حسین صاحب کی دوبارہ گرفتاری یا قید کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔

پس مقدمہ کی کارروائی کے اصل اورمحولہ بالا سرکاری کاغذات سے عیاں ہے کہ مولوی نذیر حسین صاحب فروری اور مارچ 1869ء میں زیر حراست تھے۔

یوں حضرت نورالدینؓ کے اوائل 1869ء میں دہلی پہنچنے کا واضح قرینہ مل جاتا ہے۔

اب جبکہ حضرت نورالدین کو اپنے ورودِ دہلی کا اکلوتا مقصد ہی پورا ہوتا نظر نہ آیا تو آپ دہلی سے بھوپال کی طرف عازم سفر ہوئے تا وہاں علم طب میں کمال حاصل کر سکیں۔ تب آپ کا بھوپال پہنچنے تک کا سفر کافی ہنگامہ خیز رہاکیونکہ مسلسل سفردرپیش تھا، جگہ جگہ مختصر قیام رہا اور آپ مشکلات سے پُر اس سفر میں بھی لوگوں کو اپنے علم طب سے فیضیاب کرتے اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے کئی ماہ بعد بھوپال پہنچے اورمذکورہ قرائن کی روشنی میں کہاجاسکتا ہے کہ یہ سفر سنہ 1869ءکے نصف آخر میں وقوع پذیر ہوا ہوگا۔

اُس زمانے میں بھوپال کی وجہ شہرت کچھ خاص تھی۔ تب اُس راجشاہی ریاست پر سکندر جہاں بیگم کی حکمرانی تھی اوروہ ہندوستان کے اندر اور باہر مذہبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی سرپرستی کے حوالے سے ایک معروف نام تھیں۔ بھوپال کو علم و ادب سے وابستہ شخصیات کی سرپرستی کے حوالے سے دربار دہلی کے ہم پلہ گردانا جاتا تھا جہاں سے غالب جیسے یگانہ روز گار وجود وظیفہ خوار تھے۔

سکندر جہاں بیگم کے دور حکمرانی میں بھوپال کا دربار محض شعرا ءاور ادباء سے زیادہ علمائے دین کا مرکز بن چکا تھا جن کو والیہ ریاست نے خود مدعو کرکے فکرمعاش سے آزاد کررکھا تھا۔

مؤرخین کا اتفاق ہے کہ منشی جمال الدین خان جو 1852ء سے لےکر اپنی وفات تک سکندر جہاں بیگم کے دیوان یعنی وزیراعظم کے طور پر کام کرتے رہے، خودایک ثقہ عالم اور دربار بھوپال کا سب سے معتبر نام تھے۔

(Claudia Preckel, The Roots of Anglo-Muslim Cooperation and Islamic Reformism in Bhopal, presented at Conference on Reciprocal Perceptions of Different Cultures in South Asia, Bonn, 15-18 December 1996)

حضرت نورالدینؓ کے عازم بھوپال ہونے کاسبب، علاوہ اس جگہ کے مرجع علوم وفنون ہونے کے، وہاں کی ریاست کے مذہبی رحجانات بھی تھے، کیونکہ منشی جمال الدین کی اہلِ حدیث سے وابستگی کا گہرا اثر بیگم بھوپال، اس کے دربار، درباریوں اور پھر عوام تک تھا۔

منشی جمال الدین کی ملک کے مسلم حلقوں میں شہرت بطور ایک ممتاز دینی عالم کے تھی جس نے دہلی میں شاہ ولی اللہ (1713-1763ء) کے خانوادے سے تحصیل علم کے بعد سید احمد بریلوی (1786ء – 1831ء) کی ہمراہی میں مذہبی تعلیم کے ارتقاء کی تحریک میں زبردست حصہ ڈالا تھااور بھوپال آکر بسنے سے پہلے آپ مذہبی تعلیم دینے کے رائج ذریعہ ’’طریقہ محمدیہ‘‘ کی ترویج کے لیے زبردست خدمات بجالاتے رہے تھے۔

تاہم منشی جمال الدین نے اپنے اہلِ حدیث عقائد کی چھاپ ریاستی پالیسی پر نہ پڑنے دی جو انگریز دوستی پر مبنی تھی۔ یہ بھی منشی جمال الدین کی ذہانت کا ثبوت ہے۔ورنہ ان کے اپنے عقائد تو انگریز کے خلاف جہاد کرنے کی تعلیم دیتے تھے۔

(Aziz Ahmad, Studies in Islamic Culture in the Indian Environment, Oxford University Press, New Delhi, 2000)

چونکہ منشی جمال الدین مختلف علوم کے چوٹی کے علماء کو بھوپال بلاتے اور بساتے رہتے تھے، یہ منشی صاحب ہی تھے جنہوں نے والیہ بھوپال سکندر جہاں بیگم کو قائل کیا تھا کہ وہ سید صدیق حسن خان ،جو تحریک اہل حدیث کا نمایاں نام تھے، کو بھوپال میں سرکاری ملازمت پر منظور کرلیں۔

معلوم ہوتا ہے کہ منشی جمال الدین صاحب کی صدیق حسن خان سے ہمدردی اور سرپرستی اس وجہ سے بھی تھی کہ صدیق حسن کے والد سید اولاد حسن کا تعلق سید احمد بریلوی سے بطور ایک شاگرد اور پیروکار کے تھا، جو شاہ عبدالعزیز کے بھی قریبی اور معتمد تھے۔

(Siobhan Lambert-Hurley, Muslim Women: Reform and Princely Patronage, Routledge, 2007)

منشی جمال الدین صاحب کی علماء کی تلاش اور قدردانی کا واضح اظہار ان کی حضرت نورالدینؓ سے پہلی ملاقات کے موقع پر ہی نظر آجاتا ہے۔ لکھا ہے کہ جب منشی صاحب نے حضرت نورالدین ؓکو ایک مسجد میں مقیم پایا اور ایک اجنبی سمجھ کر بات چیت شروع کی اور ان دونوں زیرک ذہنوں کا چند جملوں کا باہمی تبادلہ ہی ہوا تھا کہ منشی صاحب کو حضرت نورالدین کی غیر معمولی علمی بلندی کا اندازہ ہوگیا۔ غالباً اسی موقع پر ہی منشی صاحب نے اس نوجوان کے اہلِ حدیث رجحانات کوبھانپ لیا تھا۔ تب منشی صاحب کے حکم پر اس مسافر طالب علم کوریاست کی طرف سے مہیا کردہ رہائش گاہ میں جگہ بھی مل گئی اوراس متوکل نوجوان کومنشی صاحب نے کھانے پینے کے لیے اپنے ذاتی دستر خوان پرہر کھانے کے وقت باقاعدہ حاضر ہونےکا حکم بھی جاری کردیا۔(مرقات الیقین، صفحہ99)

منشی جمال الدین کو جہاں علم حاصل کرنے کا شوق تھا وہاں درس القرآن دینےکا بھی میلان تھااور آپ روزانہ عوام کو درس القرآن دیتے اور نجی طور پر سکندر جہاں بیگم کو بھی قرآن پڑھایا کرتے تھے۔ حضرت نورالدینؓ بھی منشی صاحب کے عام درس میں شامل ہونے لگے تو منشی صاحب نے تفسیر اور تاویل میں حضرت نورالدینؓ کے گہرے علمی نکات سے استفادہ کرنا شروع کردیا، یوں حضرت نورالدین کی علمی برتری اور گہری ذکاوت کا شہرہ ہوگیا اور بھوپال کے لوگ علوم قرآنی میں آپ سے استفادہ کرنے لگے۔

منشی جمال الدین صاحب نے حضرت نورالدینؓ کی محبت قرآن وحدیث کو دیکھتے ہوئے انہیں مولانا عبدالقیوم کی شاگردی میں دے دیا جو مولانا عبدالحئی بڈھانوی کے فرزند تھے اور یہ بڈھانوی صاحب سید احمد بریلوی کے خلیفہ تھے۔حضرت نورالدینؓ نے مولانا عبدالقیوم سے صحاح ستہ کی بعض کتب درساً پڑھنا شروع کیں ، تب مولانا عبدالقیوم ریاست بھوپال کے مفتی اعظم بھی تھےاورآپ نے سید احمد بریلوی سے روحانی بیعت اور شاہ ولی اللہ کے نظریہ و سوچ سے علمی اٹھان پائی۔(کاروان ایمان و عزیمت۔ از ابوالحسن ندوی۔ مطبوعہ:سید احمد شہید اکیڈمی، رائے بریلی، 1980ء)

الغرض آپ اپنے وقت میں برصغیر کے ایک مستند عالم اور بلند پایہ استاد تھے۔

حضرت نورالدینؓ قیام بھوپال کے دوران درس و تدریس پر قانع نہ ہوئے بلکہ مزیداور بہتر کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ کیونکہ اگر کوئی محض علم، شہرت ، عزت اور دولت کا خواہاں ہوتا تو بھوپال سے نکل کر کہیں جانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ لیکن حضرت نورالدینؓ کے پاس جس وقت حج بیت اللہ کے لیے زاد راہ جمع ہوا،آپ نے بھوپال کو خیرباد کہا اورارض حرم مکہ مکرمہ کا رخ کیا۔

تاریخ احمدیت میں آپؓ کے مکہ مکرمہ پہنچنے کا سنہ 1865ءیا 1866ء قرار دیا گیاہے۔ مگر مذکورہ بالا تین یا چار سال کافرق ہمیں بتاتا ہے کہ آپ یقیناً 1869ء یا 1870ء میں مکہ مکرمہ پہنچے ہوںگے۔

٭…٭…(باقی آئندہ)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button