حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخطاب حضور انور

قادیان دار الامان میں جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر کے جلسہ سالانہ کے موقع پر 28دسمبر2016ء کو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا طاہر ہال بیت الفتوح لندن سے ایم ٹی اے کے مواصلاتی ذرائع سے براہ راست اختتامی خطاب

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو، اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنے، اللہ تعالیٰ کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ہمیں ایک اصول بیان فرما دیا کہ یہ باتیں تم تبھی حاصل کر سکتے ہو جب تم اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلو اور اس اُسوہ کو دیکھنے کے لئے، سمجھنے کے لئے، اس پر عمل کرنے کے لئے یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے صحابہ رضوان اللہ علیہم کے ذریعہ وہ سب باتیں بھی ہمیں پہنچا دیں جن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عمل فرمایا کرتے تھے۔یہ بات بھی سمجھنی ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر وہ کام کرنے والے اور بات کرنے والے تھے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مبارک زندگی سے قیام توحید، قیام عبادت، صدق و صفا، عاجزی و انکساری، جود و سخا، شکر گزاری، تعلیم اخلاق، تربیت اولاد اور پڑوسیوں سے حسن سلوک وغیرہ کے متعلق متفرق واقعات کا روح پرور تذکرہ اور اس حوالہ سے احباب جماعت کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوۂ حسنہ کو اپنانے کی تاکیدی نصیحت۔

خدا کرے کہ ہم زبانی دعوے سے نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلتے ہوئے
حقیقی عمل کرنے والے اور آپ کی پیروی کرنے والے ہوں اور اپنی بخشش کے سامان کرنے والے ہوں۔

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔


قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (آل عمران32:)


اس آیت کا ترجمہ ہے کہ تُو کہہ کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، میری پیروی کرو۔ اس صورت میں اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے قصور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو، اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنے، اللہ تعالیٰ کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ہمیں ایک اصول بیان فرما دیا کہ یہ باتیں تم تبھی حاصل کر سکتے ہو جب تم اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلو اور اس اُسوہ کو دیکھنے کے لئے، سمجھنے کے لئے، اس پر عمل کرنے کے لئے یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے صحابہ رضوان اللہ علیہم کے ذریعہ وہ سب باتیں بھی ہمیں پہنچا دیں جن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عمل فرمایا کرتے تھے۔ لیکن یہ بات بھی سمجھنی ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر وہ کام کرنے والے اور بات کرنے والے تھے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ پوچھنے پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور عمل کیا تھے؟ نہایت خوبصورت انداز میں تین الفاظ میں آپ کا اُسوہ بیان فرما دیا کہ کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآن (مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 144 حدیث 25108 مسند عائشہؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) کہ آپ کے اخلاق اور اعمال وہی تھے جو قرآن کریم جیسی عظیم کتاب اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اور پھر اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر مزید احسان کرتے ہوئے اپنے فرستادے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق اور زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود کو بھیجا جنہوں نے ہمیں انبیاء کے مقام اور خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اسؤہ حسنہ کا مزید اِدراک دیا۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء ورُسل اور ائمہ کے آنے سے کیا غرض ہوتی ہے؟ وہ دنیا میں اس لیے نہیں آتے کہ ان کو اپنی پوجا کرانی ہوتی ہے۔ وہ تو ایک خدا کی عبادت قائم کرنا چاہتے ہیں اور اسی مطلب کے لئے آتے ہیں اور اس واسطے کہ لوگ اُن کے کامل نمونہ پر عمل کریں اور اُن جیسے بننے کی کوشش کریں اور ایسی اتباع کریں کہ گویا وہی ہو جائیں۔ مگر افسوس ہے کہ بعض لوگ ان کے آنے کے اصل مقصد کوچھوڑدیتے ہیں اور ان کو خدا سمجھ لیتے ہیں۔ اس سے وہ ا ئمہ اور رُسُل خوش نہیں ہوسکتے کہ لوگ ان کی اس قدر عزت کرتے ہیں۔ کبھی نہیں۔ وہ اس کو کوئی خوشی کا باعث قرار نہیں دیتے۔ ان کی اصل خوشی اسی میں ہوتی ہے کہ لوگ ان کی اتباع کریں اور جو تعلیم وہ پیش کرتے ہیں کہ سچے خدا کی عبادت کرو اور توحید پر قائم ہوجائو، اس پر قائم ہوں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حکم ہوا۔قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ(آل عمران32:) یعنی اے رسول ان کو کہہ دو کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے پیار کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اس اتباع کا یہ نتیجہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تم سے پیار کر ے گا۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کا طریق یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع کی جاوے۔ پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء علیہم السلام اور ایسا ہی اور جو خدا تعالیٰ کے راستبازاور صادق بندے ہو تے ہیں وہ دنیا میں ایک نمونہ ہو کر آتے ہیں جو شخص اس نمونہ کے موافق چلنے کی کوشش نہیں کرتا لیکن ان کو سجدہ کر نے اور حاجت روا ماننے کو تیار ہو جاتا ہے وہ کبھی خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر نہیں ہے بلکہ وہ دیکھ لے گا کہ مرنے کے بعد وہ امام اُس سے بیزار ہو گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 6 صفحہ288-289۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس سب سے پہلی چیز جو انبیاء سکھاتے ہیں اور جس کے انتہائی مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فائز تھے وہ توحید کا قیام ہے اور یہی بات ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں میں پیدا فرمائی اور اس کے بھی اعلیٰ نمونے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں ملتے ہیں۔ صحابہ نے براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عبودیت کے مقام کو دیکھا اور توحید کے قیام کے لئے تڑپ کو دیکھا۔ اللہ تعالیٰ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عبادت گزاری کے معیاروں کو دیکھا تو اس چیز نے ان میں بھی حقیقی توحید کی تڑپ پیدا کر دی۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کو ہم تک پہنچانے میں صحابہ رضوان اللہ علیہم کا بھی کردار ہے بلکہ بہت بڑا کردار ہے بلکہ احسان ہے۔ چند ایک روایات پیش کرتا ہوں۔

ایک موقع پر ایک دفعہ حضرت عمرؓ اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن لی اور فرمایا کہ سنو! اللہ تعالیٰ نے تمہیں باپوں کی قسمیں کھانے سے منع کیا ہے۔ جسے قسم کھانے کی ضرورت ہے وہ اللہ کی قسم کھائے یا پھر چُپ رہے۔(صحیح البخاری کتاب الادب باب من لم یر اکفار … الخ حدیث 6108) پس اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بھی قِسم کی قَسم جائز نہیں۔ بعض لوگ بچوں کی قسم کھا جاتے ہیں، قریبیوں اور پیاروں کی قسم کھا جاتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے پیارے ہیں ان کی قسم کھائیں گے تو دوسرا یقین کر لے گا۔ لیکن مومن کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ باتیں توحید سے دُور کرنے والی ہیں۔

ایک دفعہ ایک سوال کرنے والے کے اس سوال پر کہ یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) کوئی اپنی غیرت کے لئے لڑتا ہے۔ کوئی اپنی بہادری دکھانے کے لئے لڑتا ہے۔ کوئی مال غنیمت کے لئے لڑتا ہے۔ ان میں سے جہاد کرنے والا کون ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس لئے لڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو اور توحید کا قیام ہو حقیقت میں وہی خدا تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والا شمار ہو گا۔(صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیاء حدیث 2810)

پس ہر عمل جو توحید کے قیام کے لئے ہے وہی ایسا عمل ہے جو خدا تعالیٰ کو بھی پسند ہے اور وہی ایسا عمل ہے جس کے قائم کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔

ایک مرتبہ جب مکہ کے سرداروں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بات چیت کرنے کے لئے بلایا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا کہ شاید ان لوگوں کو کچھ خیال آ گیا ہے اور ان کا سیدھے راستے پر آنے کا ارادہ ہے۔ چنانچہ آپ جلدی سے وہاں تشریف لے گئے تو ان سب سرداروں نے متفقہ طور پر یہ کہا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے آپ کو گفتگو کرنے کے لئے بلایا ہے۔ ہم عرب میں سے کسی کو ایسا نہیں جانتے جس نے اپنی قوم کو اس قدر مشکل میں مبتلا کر دیا ہو جیسا کہ آپ نے مشکل میں ڈالا ہے۔ آپ ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ ہماری جماعت کے ٹکڑے کر دئیے ہیں۔ کوئی خرابی نہیں جو آپ کی وجہ سے پیدا نہ ہو گئی ہو۔( یعنی ان کی نظر میں، دنیا داری کی نظر میں جو خرابی ہو سکتی تھی۔ اصل میں تو آپ دنیا کی اصلاح کے لئے آئے تھے تو کہنے لگے کہ) اگر آپ کا مقصد مال جمع کرنا ہے تو ہم اس قدر مال دیتے ہیں کہ قوم میں سے امیر کبیر شخص بن جائیں۔ اگر سردار بننا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا سردار بنا لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مجھے غلط سمجھے۔ یہ باتیں تو نہ مجھ میں ہیں، نہ مَیں ظاہری عزت و شہرت چاہتا ہوں۔ مجھے خدا تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ مجھ پر کتاب نازل فرمائی ہے اور حکم فرمایا ہے کہ میں بشیر و نذیر بن کر خوشخبریاں بھی دوں اور ڈراؤں بھی۔ توحید کا قیام کروں۔ پس میں نے تمہیں خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا ہے اگر تم اسے قبول کرو تو اس میں تمہارا اپنا فائدہ ہے اور اگر تم قبول نہ کرو تو تم اس وقت تک صبر کرو اور میں بھی صبر کرتا ہوں جب تک خدا تعالیٰ ہم میں فیصلہ نہ فرما دے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا اور کس طرح توحید کا قیام ہوا۔ (سیرت ابن ہشام باب قول عتبۃ بن ربیعۃ فی امر رسول اللہؐ صفحہ 220 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبودیت کا ذکر فرماتے ہوئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔

’’قرآن کریم کو پڑھ کر دیکھ لو۔ اَور تو اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں کسی کامل انسان کا نمونہ موجود نہیں اور نہ آئندہ قیامت تک ہوسکتا ہے۔ پھر دیکھو کہ اقتداری معجزات کے ملنے پر بھی حضورؐ کے شامل حال ہمیشہ عبودیت ہی رہی اور باربار اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ(الکہف 111:)ہی فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ کلمہ توحید میں اپنی عبودیت کے اقرار کا ایک جزو لازم قرار دیا۔ جس کے بِدُوں مسلمان، مسلمان ہی نہیں ہوسکتا۔ سوچو! اور پھر سوچو!! پس جس حال میں ہادی اکمل کی طرزِ زندگی ہم کو یہ سبق دے رہی ہے کہ اعلیٰ ترین مقامِ قرب پر بھی پہنچ کر عبودیت کے اعتراف کو ہاتھ سے نہیں دیا تو اَور کسی کا تو ایسا خیال کرنا اور ایسی باتوں کا دل میں لانا ہی فضول اور عبث ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 117-118۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس یہ ہے وہ اِدراک جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں دیا کہ جب ایک مسلمان یہ اعلان کرتا ہے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہ تو یہ اعلان بھی ضروری ہے کہ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہ۔ پس جب نبی کامل اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں تو پھر وہ لوگ جو پیروں فقیروں کو اس سے زائد مقام دے کر ان کی قبروں پر سجدے کرتے ہیں ان کے فعل کو کس طرح جائز قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ یہ سخت گناہ اور شرک ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے توحید کے بنیادی نکتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبودیت کا صحیح ادراک ہمیں عطا فرمایا اور ہمیں ہر قسم کے شرک سے پاک فرمایا ۔

پھر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں:

’’پس مَیں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمدؐ ہے۔( ہزار ہزار درود اور سلام اس پر۔) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیساحق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اس لئے خدانے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 118-119)

توحید کے قیام کی معراج اس وقت ہوتی ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بھی حق ادا کرنے والا ہو اور اس میں بھی میرے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ ترین مقام حاصل کیا جس کی اللہ تعالیٰ نے اس طرح گواہی دی۔ فرمایا اَلَّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ وَ تَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ(الشعراء220-219:)یعنی جو دیکھ رہاہوتا ہے جب تُو کھڑا ہوتا ہے اور سجدہ کرنے والوں میں تیری بے قراری کو بھی۔ پس اللہ تعالیٰ اعلان فرما رہا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام سجدے کرنے والوں میں تیرے جیسا بے قرار سجدہ کرنے والا کوئی نہیں۔ تُو نے توحید کے قیام سے مخلصین کی ایک ایسی جماعت بنا لی جو اللہ تعالیٰ کی عبادتوں میں بھی طاق ہے، جن کی راتیں عبادتوں میں گزرتی تھیں۔ لیکن یہ سب عبادتیں اور سجدے تیرے سجدوں کے نمونے اپنانے کی کوشش تھی۔ ان سجدوں کی بیقراری میں جہاں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توحید کے قیام کے لئے تڑپ نظر آتی ہے وہاں یہ بھی نظر آتا ہے کہ آپ اپنے ماننے والوں میں ایسے سجدے کرنے والے پیدا کرنا چاہتے تھے جو خالص ہو کر صرف اللہ تعالیٰ کے ہی آگے جھکیں اور اس کی عبادت کریں۔ دلوں میں بسے ہوئے جھوٹے معبودوں کو نکالیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ ہر نبی کی کوئی خواہش ہوتی ہے اور میری دلی خواہش رات کی عبادت ہے۔(کنز العمال جلد 7 صفحہ 323 کتاب الصلوٰۃ من قسم الاقوال حدیث 21398 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء) ایک راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ اس وقت شدت گریہ و زاری سے آپ کے سینے سے ایسی آواز آ رہی تھی جیسے چکّی کے چلنے کی آواز آتی ہے۔(سنن ابی داؤد کتاب الرکوع والسجود باب البکاء فی الصلوٰۃ حدیث 904)( دانہ پیسنے کے لئے چکی چلاتے ہیں، جو گرائنڈر کی آواز ہوتی ہے۔) اسی طرح ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایسی آواز آتی تھی جیسے ہنڈیا ابل رہی ہو۔ (سنن النسائی کتاب السحو باب البکاء فی الصلوٰۃ حدیث 1214)

حضرت اُمّ سلمہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر سوتے پھر جاگ کر کچھ دیر نماز میں مصروف ہو جاتے پھر سو جاتے پھر اٹھ بیٹھتے۔ غرض صبح تک یہی حالت جاری رہتی۔(سنن النسائی کتاب قیام اللیل … باب ذکر صلاۃ رسول اللہؐ باللیل حدیث 1628)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ بیماری یا کسی اور وجہ سے اگر آپ کی تہجد رہ جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن کو بارہ رکعت نوافل ادا کیا کرتے تھے۔ (سنن النسائی کتاب قیام اللیل … باب کم یصلی من نام … حدیث 1789)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے ماننے والوں کے لئے بھی یہی خواہش اور توقع تھی کہ وہ عبادت گزار ہوں اور عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ نصیحت کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش کے زیر اثر کہ آپ کی اُمّت کے افراد کے عبادت کے معیار بلند ہوں فرمایا کہ قیام اللیل مت چھوڑنا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چھوڑتے تھے۔ یعنی راتوں کی نمازیں نوافل نہ چھوڑنا اور جب آپ بیمار ہو جاتے، جسم میں سستی محسوس فرماتے تو بیٹھ کر تہجد کی نماز ادا فرماتے۔(مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 222-223 مسند عائشہؓ حدیث 25458 مطبوعہ عالم الکتب العلمیۃ بیروت 1998ء)

یہ جو میں نے ابھی روایت پڑھی ہے کہ اگر تہجد چھٹ جاتی تو بارہ نفل دن کو ادا فرماتے۔ یہ صورت شاذ ہی پیش آتی ہو گی۔ ورنہ آپ نے ایک دفعہ باوجود بیماری کے جس کا اثر صحابہ بھی اس وقت آپ کے جسم پر محسوس کر رہے تھے، چہرے پر محسوس کر رہے تھے آپ نے فرمایا کہ کمزوری کے باوجود آج رات بھی مَیں نے لمبی سورتیں ہی پڑھی ہیں۔(کنز العمال جلد 2 صفحہ 133 کتاب الاذکار من قسم الافعال … فصل فی فضائل السور … حدیث 4069 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)اور ساری دعاؤں میں اور عبادتوں میں اس بات پر زور تھا کہ میری اُمّت حقیقی عبادت گزار بنے اور اپنے خدا کے حضور جھکی رہے۔ آپ کے صحابہ نے آپ کی یہ تڑپ دیکھی اور آپ کی صحبت کا اثر پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو اپنایا۔ تو وہی جو مشرک تھے ایسے عبادت گزار بنے جو بعد میں آنے والوں کے لئے ایک نمونہ بن گئے۔ ایک انقلاب تھا جو اُن میں آیا۔

اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ خواہ کیسا ہی پکّا دشمن ہو اور خواہ وہ عیسائی ہو یا آریہ جب وہ ان حالات کو دیکھے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عرب کے تھے اور پھر اس تبدیلی پر نظر کرے گا جو آپ کی تعلیم اور تاثیر سے پیدا ہوئی تو اسے بے اختیار آپ کی حقّانیت کی شہادت دینی پڑے گی۔ موٹی سی بات ہے کہ قرآن مجید نے ان کی پہلی حالت کا تو یہ نقشہ کھینچا ہے۔ یَأْکُلُوْنَ کَمَا تَأْکُلُ الْاَنْعَامُ(محمد13:)‘‘ (کہ جانوروں کی طرح کھانا کھانا ہی ان کا کام تھا) ’’یہ تو ان کی کفر کی حالت تھی۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تاثیرات نے ان میں تبدیلی پیدا کی تو ان کی یہ حالت ہوگئی یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا(الفرقان65:) یعنی وہ اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے راتیں کاٹ دیتے ہیں۔ جو تبدیلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے وحشیوں میں کی اور جس گڑھے سے نکال کر جس بلندی اور مقام تک انہیں پہنچایا۔‘‘آپ فرماتے ہیں’’ اس ساری حالت کے نقشہ کو دیکھنے سے بے اختیار ہو کر انسان رو پڑتا ہے کہ کیا عظیم الشان انقلاب ہے جو آپ نے کیا۔ دنیا کی کسی تاریخ اور کسی قوم میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی‘‘۔(ملفوظات جلد 9 صفحہ 144-145۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

یہ نری کہانی نہیں۔ یہ واقعات ہیں جن کی سچائی کا ایک زمانہ کو اعتراف کرنا پڑا ہے۔ اور اسی سچائی کو قائم کرنے کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے۔

پس ہمارا بھی یہ کام ہے کہ اپنی عبادتوں کے معیار کو بلند کریں اور اس اُسوہ پر چلیں جو قیامت تک قائم رہنے والا ہے۔

مَیں نے نوافل کے حوالے سے روایات بیان کی ہیں۔ جب نوافل کے بارے میں یہ ہدایت ہے اور یہ حال ہے تو جو فرائض ہیں ان میں کتنی باقاعدگی کی ضرورت ہے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے اور اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

انبیاء دنیا میں آتے ہیں سچائی پھیلانے کے لئے۔ سچائی پر اپنے ماننے والوں کو چلانے کے لئے۔ سچے خدا کی طرف جھکانے کے لئے۔ اور اس میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اعلیٰ مقام عطا ہوا۔ بچپن سے ہی آپ میں یہ وصف اس قدر نمایاں تھا کہ دشمن بھی آپ کی سچائی کے معترف تھے۔ ایک مرتبہ سرداران قریش جمع ہوئے جن میں آپ کے اشد ترین دشمن ابوجہل اور نضر بن حارث بھی شامل تھے۔ جب آپ کے متعلق یہ کہا گیا کہ آپ کو جادوگر مشہور کر دیا جائے، جھوٹا مشہور کر دیا جائے یا کہا جائے کہ یہ جھوٹا ہے۔ تو نضر بن حارث نے کھڑے ہو کر کہا کہ اے قریش! ایک ایسا معاملہ تمہارے سامنے آیا ہے جس کے مقابلے کے لئے تم کوئی تدبیر بھی نہیں لا سکے یا لا سکتے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں جوان تھے اور تمہیں سب سے زیادہ پسند تھے۔ سب سے زیادہ سچ بولنے والے تھے۔ تم میں سب سے زیادہ امانتدار تھے۔ اب تم ان کی کنپٹیوں پر سفید بال دیکھتے ہو (بڑی عمر ہو گئی ہے) اور جو پیغام وہ لے کر آئے ہیں اس پر تم نے کہا کہ وہ جھوٹے ہیں، وہ جادوگر ہیں۔ ہم نے بھی جھوٹے لوگ دیکھے ہیں، جادوگر بھی دیکھے ہیں۔ تم نے کہا وہ کاہن ہیں۔ ہم نے کاہن بھی دیکھے ہیں۔ تم نے کہا وہ شاعر ہیں۔ ہم نے شاعر بھی دیکھے ہیں۔ تم نے کہا مجنون ہو گیا ہے پاگل ہو گیا ہے( نعوذ باللہ)۔ ہم نے بھی مجنون دیکھے ہیں۔ نہ وہ جھوٹے ہیں، نہ وہ جادوگر ہیں، نہ وہ کاہن ہیں، نہ وہ شاعر ہیں، نہ مجنون ہیں۔ کوئی بھی علامت ان میں ان باتوں کی نہیں ہے۔ پس تم غور کر لو تمہارا واسطہ ایک بڑے معاملے سے ہے‘‘۔(سیرت ابن ہشام باب ما دار بین رسول اللہ ﷺ و بین رؤساء قریش … الخ صفحہ 224 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء) یہ دشمن کہہ رہا ہے۔

پھر ایک دفعہ ابوجہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا کہ مَیں تمہیں جھوٹا نہیں کہتا تمہاری تعلیم کو جھوٹا سمجھتا ہوں۔(سنن الترمذی ابواب تفسیر القرآن باب من سورۃ الانعام حدیث 3064) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان اتنا عرصہ رہا ہوں لیکن کبھی تم میرا جھوٹ ثابت نہیں کر سکے۔ جھوٹا نہیں مجھے کہہ سکے۔ تو کیا آج اس تعلیم لانے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے معاملے میں میں جھوٹ بولوں گا؟

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’انبیاءوہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنی کامل راستبازی کی قوی حجت پیش کر کے اپنے دشمنوں کو بھی الزام دیا جیسا کہ یہ الزام قرآن شریف میں ہے حضرت خاتم الانبیاصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے موجود ہے جہاں فرمایا ہے کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (یونس17:) یعنی میں ایسا نہیں کہ جھوٹ بولوں اور افترا کروں۔ دیکھو مَیں چالیس برس اس سے پہلے تم میں ہی رہتا رہا ہوں۔ کیا کبھی تم نے میرا کوئی جھوٹ یا افترا ثابت کیا۔ پھر کیا تم کو اتنی سمجھ نہیں۔ یعنی یہ سمجھ کہ جس نے کبھی آج تک کسی قسم کا جھوٹ نہیں بولا وہ اب خدا پر کیوں جھوٹ بولنے لگا۔ غرض انبیاء کے واقعات عمری اور ان کی سلامت روشی ایسی بدیہی اور ثابت ہے کہ اگر سب باتوں کو چھوڑ کر ان کے واقعات کو ہی دیکھا جائے تو ان کی صداقت ان کے واقعات سے ہی روشن ہورہی ہے۔ مثلاً اگر کوئی منصف اور عاقل ان تمام براہین اور دلائل صدق نبوت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے… قطع نظر کرکے محض ان کے حالات پر ہی غور کرے تو بلاشبہ انہیں حالات پر غور کرنے سے ان کے نبی صادق ہونے پر دل سے یقین کرے گا۔ اور کیونکر یقین نہ کرے۔ وہ واقعات ہی ایسے کمال سچائی اور صفائی سے معطّر ہیں کہ حق کے طالبوں کے دل بلااختیار ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں‘‘۔(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 107-108)

آپ کی سچائی کا آپ کا بچپن بھی گواہ ہے۔ آپ کی جوانی بھی گواہ ہے۔ اور نبوت کے بعد تو اس کی شان ہی کمال تک پہنچی ہوئی ہے۔ پس اس نبی کے ماننے والوں کو اپنے جائزے لینے کی بھی ضرورت ہے کہ ہماری سچائی کے معیار کیا ہونے چاہئیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور وصف عاجزی اور انکساری کے اعلیٰ معیار کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابیاں اگرچہ ایسی تھیں کہ تمام انبیائے سابقین میں اس کی نظیر نہیں ملتی مگر آپ کو خدا تعالیٰ نے جیسی جیسی کامیابیاں عطا کیں آپ اتنی ہی فروتنی اختیار کرتے گئے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص آپؐ کے حضور پکڑ کر لایا گیا۔ آپ نے دیکھا تو وہ بہت کانپتا تھا اور خوف کھاتا تھا۔ مگر جب وہ قریب آیا تو آپ نے نہایت نرمی اور لطف سے دریافت فرمایاکہ تم ایسے ڈرتے کیوں ہو؟ آخر مَیں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہی ہوں اور ایک بڑھیا کا فرزند ہوں۔‘‘(ملفوظات جلد 10 صفحہ 258۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

ایک حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزی اور انکساری کا بھی پتا چلتا ہے اور آپ کے ماننے والوں کے لئے اس میں نصیحت بھی ہے کہ انہیں کس طرح زندگی گزارنی چاہئے۔

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے اعمال کی وجہ سے نجات نہیں پائے گا۔ صحابہ نے عرض کی۔ یا رسول اللہ! کیا آپ بھی؟ آپ نے فرمایا ہاں میں بھی اپنے اعمال کی وجہ سے نجات نہیں پاؤں گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت کے سائے میں لے لے گا۔ فرماتے ہیں پس تم سیدھے رہو اور شریعت کے قریب رہو اور صبح شام اور رات کے اوقات میں عبادت کرو اور میانہ روی اختیار کرو تو تم اپنی مراد کو پہنچ جاؤ گے۔ (صحیح البخاری کتاب الرقائق باب القصد والمداومۃ علیٰ العمل حدیث 6463)

پس جس نبی کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی بیعت میری بیعت ہے اور اس کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی خشیت اور عاجزی کا یہ مقام ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ میں بھی اس کے رحموں اور فضلوں سے ہی بخشا جاؤں گا اور پھر آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے اعمال کی طرف نظریں رکھو۔ اپنی عبادتوں کی طرف نظر رکھو۔ اور کبھی اپنے خدا سے بے وفائی نہ کرو۔ کبھی عبادتوں سے لاپرواہی نہ کرو۔

پھر دیکھیں آپ کا کامیابی اور فتح پر عاجزی اور انکساری کا نظارہ۔ دنیا کے لیڈر کامیابیاں حاصل کرتے ہیں تو فرعون بن جاتے ہیں بلکہ عام آدمی کو بھی اگر کوئی کامیابی ملے تو گردن فخر سے اور تکبر اور غرور سے اکڑ جاتی ہے۔ لیکن انسانِ کامل کا اُسوہ کیا ہے۔ وہ شہر جس کے لوگوں نے آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو ظلم کر کے نکالا اور اسی پر بس نہیں بلکہ بعد میں مسلسل یہ کوشش کرتے رہے کہ اسلام کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ لیکن ہوتا تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہوا ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے وہ وقت بھی آیا جب مکہ فتح ہوا۔ آپ اس شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ لیکن کس حال میں؟ تاریخ کہتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب دس ہزار قدوسیوں کے جلو میں فاتحانہ شان سے مکّہ میں داخل ہوئے۔ (سیرت ابن ہشام باب عدۃ من فتح مکہ من المسلمین صفحہ 750 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء) وہ دن آپ کے لئے بہت خوشی اور مسرت اور عظمت کے اظہار کا دن تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے ان فضلوں کے اظہار پر خدا کی راہ میں عاجزی کے انتہائی مقام پر پہنچے ہوئے تھے۔ خدا نے جتنا بلند کیا آپ انکسار میں اتنا ہی جھکتے جاتے تھے یہاں تک کہ جب آپ فاتح کی حیثیت سے مکّہ میں داخل ہوئے تو آپ کا سر جھکتے جھکتے اونٹ کے کجاوہ سے جا لگا تھا۔(سیرت ابن ہشام باب اسلام ابی سفیانؓ صفحہ 740 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس واقعہ کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ:’’عُلوّ جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کو دیا جاتا ہے‘‘ (یعنی بڑائی اور فتح) ’’وہ انکسار کے رنگ میں ہوتا ہے اور شیطان کا عُلوّ اِستکبار سے ملا ہوا‘‘۔ وہ تکبر کرتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکّہ کو فتح کیا تو آپؐ نے اسی طرح اپنا سر جھکایا اور سجدہ کیا جس طرح ان مصائب اور مشکلات کے دنوں میں جھکاتے اور سجدے کرتے تھے جب اسی مکّہ میں آپؐ کی ہر طرح سے مخالفت کی جاتی اور دکھ دیا جاتا تھا۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 65حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انکسار کا ذکر کرتے ہوئے نصیحت فرماتے ہیں کہ:

’’خالی شیخیوں سے اور بے جا تکبّر اور بڑائی سے پرہیز کرنا چاہئے اور انکساری اور تواضع اختیار کرنی چاہئے۔ دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ حقیقتاً سب سے بڑے اور مستحقِ بزرگی تھے ان کے انکسار اورتواضع کا ایک نمونہ قرآن شریف میں موجود ہے ۔لکھا ہے کہ ایک اندھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر قرآن شریف پڑھاکرتا تھا۔ ایک دن آپ کے پاس عمائد ِمکّہ اور رئوسائے شہر جمع تھے اور آپ ان سے گفتگو میں مشغول تھے۔ باتوں میں مصروفیت کی وجہ سے کچھ دیر ہوجانے سے وہ نابینا اٹھ کر چلا گیا۔ یہ ایک معمولی بات تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق سورۃ نازل فرمادی۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر میں گئے اور اسے ساتھ لاکر اپنی چادر مبارک بچھا کربٹھایا‘‘ ۔ فرماتے ہیں کہ ’’ اصل بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں عظمتِ الٰہی ہوتی ہے ان کو لازماً خاکسار اورمتواضع بننا ہی پڑتا ہے کیونکہ وہ خداتعالیٰ کی بے نیازی سے ہمیشہ ترساں ولرزاں رہتے ہیں۔‘‘ پھر ایک فارسی کا مصرع آپ نے بیان فرمایا:’’آ نانکہ عارف تراند ترساں تر‘‘ ۔ کہ وہ لوگ جو عارف ہیں، جو زیادہ پہچان رکھنے والے ہیں وہ زیادہ ڈرتے ہیں ’’کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نکتہ نواز ہے اسی طرح نکتہ گیر بھی ہے‘‘۔ اگر وہ باریک فراست عطا کرتا ہے تو اسی طرح بعض باتوں پرپکڑتا بھی ہے۔ فرمایا کہ ’’ اگر کسی حرکت سے ناراض ہوجاوے تو دم بھر میں سب کارخانہ ختم ہے۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’پس چاہئے کہ ان باتوں پر غور کرو اور ان کو یاد رکھو اور عمل کرو‘‘۔ (ملفوظات جلد 10 صفحہ 343-344۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حسنہ تو ہر وصف کا مکمل احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ تمام کے تمام تو ایک مجلس میں کیا کئی مجلسوں میں بیان نہیں ہو سکتے۔ اس وقت ایک اور خوبصورت پہلو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بیان کروں گا جو آپ کی جُودو سخا کا ہے۔

حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بہادر، معزز، سخی اور نورانی وجود نہیں دیکھا‘‘۔ (سنن الدارمی باب فی حسن النبیﷺ حدیث 60 مطبوعہ دار المعرفہ بیروت 2000ء) لگتا ہے کہ صحابہ کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان کرنے کی طاقت ہی نہیں تھی۔ ایک اعلیٰ وصف بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو چار ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔

پھر ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض انصار نے کچھ مانگا۔ آپ نے ان کو دیا۔ انہوں نے پھر مانگا۔ پھر دیا۔ انہوں نے پھر مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرمایا یہاں تک کہ اس وقت آپ کے پاس جو کچھ تھا وہ ختم ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس جو مال ہوتا ہے اسے تم سے روک کر نہیں رکھتا۔ (صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب الاستعفاف عن المسٔلۃ حدیث 1469)

ایک دفعہ آپ کے پاس کہیں سے نوّے ہزار درہم آئے۔ آپ نے وہیں تقسیم فرما دئیے۔(عیون الاثر جلد 2 صفحہ 398 باب ذکر جمل من اخلاقہ … الخ مطبوعہ دار القلم بیروت 1993ء) ایک موقع پر ایک آنے والے کو بکریوں کا اتنا بڑا ریوڑ عطا فرمایا کہ جو پوری وادی میں پھیلا ہوا تھا۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب ما سئل رسول اللہ ﷺ اشیاء … الخ حدیث 2312) ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین سے مال لایا گیا۔ ڈھیروں ڈھیر مال تھا۔ آپ نے مسجد میں اس کا ڈھیر لگوا دیا۔ آپ نماز پڑھنے کے لئے تشریف لائے تو آپ نے اس طرف نظر نہیں کی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو نماز کے بعد تمام مال تقسیم فرما دیا۔(صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ باب القسمۃ وتعلیق القنو فی المسجد حدیث 421) آپ کی نرمی اور جود و سخا کی وجہ ہی تھی کہ بدُّو بھی بعض دفعہ بڑے کرخت اور بے ادبانہ طریق سے آپ سے مانگتے تھے لیکن آپ تمام تر طاقت ہونے کے باوجود، حکومت ہونے کے باوجود، ان کی بے ادبی کو نظر انداز کرتے تھے اور انہیں عنایت فرماتے تھے۔(صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب الشجاعۃ فی الحروب والجبن حدیث 2821)(صحیح البخاری کتاب اللباس باب البرود والحبرۃ والشملۃ حدیث 5809)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے کہ انبیاء اور اولیاء پر تنگی کا زمانہ بھی آتا ہے اور کشائش کا اور فتوحات کا زمانہ بھی آتا ہے، فرماتے ہیں کہ یہ دونوں زمانے ضروری ہیں تا کہ ہر قسم کے حالات میں ان کااُسوہ دنیا کے سامنے آئے۔ دنیا دار تو تنگ دستی اور کمزوری کے زمانے میں عاجز بھی ہوتا ہے۔ مشکلات میں پڑا ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف بھی جھکتا ہے۔ لوگوں سے اچھے اخلاق سے بھی پیش آ جاتا ہے۔ حسب توفیق غریبوں کی مدد بھی کر دیتا ہے۔ اپنے دکھ دینے والوں کے مقابلے پر جواب دینے کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے خاموش رہتا اور کہتا ہے ہم نے صبر کیا اور صبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔ لیکن جب اقتدار اور طاقت آئے اس وقت لوگوں کا خیال رکھنا اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا اور معاف کرنا ہی اصل وصف ہے۔ پس کمزوری اور طاقت کی حالتیں ہی اصل میں کسی کے اعلیٰ اخلاق کے ماپنے کا پیمانہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ طاقت اور فاتح ہونا اور اقتدار ہونا اس لئے ضروری ہے ’’ کیونکہ اپنے دکھ دینے والوں کے گناہ بخشنا اور اپنے ستانے والوں سے درگذر کرنا اور اپنے دشمنوں سے پیار کرنا اور اپنے بداندیشوں کی خیر خواہی بجا لانا، دولت سے دل نہ لگانا، دولت سے مغرور نہ ہونا، دولتمندی میں اِمساک اور بخل اختیار نہ کرنا اور کرم اور جُود اور بخشش کا دروازہ کھولنا اور دولت کو ذریعۂ نفس پروری نہ ٹھہرانا اور حکومت کو آلۂ ظلم و تعدّی نہ بنانا یہ سب اخلاق ایسے ہیں کہ جن کے ثبوت کے لئے صاحبِ دولت اور صاحبِ طاقت ہونا شرط ہے اور اسی وقت بہ پایۂ ثبوت پہنچتے ہیں کہ جب انسان کے لئے دولت اور اقتدار دونوں میسر ہوں۔ پس چونکہ بجز زمانۂ مصیبت و اِدبار و زمانۂ دولت و اقتدار یہ دونوں قسم کے اخلاق ظاہر نہیں ہو سکتے اس لئے حکمتِ کاملہ ایزدی نے تقاضا کیا کہ انبیاء اور اولیاء کو ان دونوں طور کی حالتوں سے کہ جو ہزارہا نعمتوں پر مشتمل ہیں متمتّع کرے۔ لیکن ان دونوں حالتوں کا زمانۂ وقوع ہر یک کے لئے ایک ترتیب پر نہیں ہوتا بلکہ حکمت الٰہیہ بعض کے لئے زمانۂ امن و آسائش پہلے حصہ عمر میں میسر کر دیتی ہے اور زمانۂ تکالیف پیچھے سے۔ اور بعض پر پہلے وقتوں میں تکالیف وارد ہوتی ہیں اور پھر آخر کار نصرت الٰہی شامل ہو جاتی ہے۔ اور بعض میں یہ دونوں حالتیں مخفی ہوتی ہیں اور بعض میں کامل درجہ پر ظہور و بروز پکڑتی ہیں۔ اور اس بارے میں سب سے اوّل قدم حضرت خاتم الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کمال وضاحت سے یہ دونوں حالتیں وارد ہو گئیں اور ایسی ترتیب سے آئیں کہ جس سے تمام اخلاقِ فاضلہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثل آفتاب کے روشن ہو گئے اور مضمون اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ(القلم5:)کا بہ پایہ ثابت پہنچ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا دونوں طور پر علی وجہ الکمال ثابت ہونا تمام انبیاء کے اخلاق کو ثابت کرتا ہے کیونکہ آنجنابؐ نے ان کی نبوت اور ان کی کتابوں کو تصدیق کیا اور ان کا مقر ّبُ اللہ ہونا ظاہر کر دیا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 282 تا 285حاشیہ نمبر 11)

شکرگزاری ایک اور اعلیٰ وصف ہے جس کا صحیح ادراک اور جس کا اعلیٰ ترین معیار ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ میں نظر آتا ہے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے شکر کے بھی اعلیٰ ترین نمونے قائم فرمائے ہیں اور بندوں کے شکر کے بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے اپنا شکر بجا لانے اور ذکر کرنے والا بنا دے۔(سنن ابی داؤد ابواب الوتر باب ما یقول الرجل اذا سلم حدیث 1510) آپ پہلی بارش پر بارش کے قطرے اپنی زبان پر لیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی شکر گزاری کا یہی طریق ہے۔آپ کا کھانا نہایت سادہ ہوتا تھا لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر فرماتے تھے۔ یہی دعا ہمیں بھی آپ نے سکھائی ۔ کبھی ایک کھجور کے ساتھ روٹی تناول فرما رہے ہیں تو کبھی صرف سرکہ کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا فرما رہے ہیں کہ اس نے یہ کھانے پینے کے سامان مہیا فرمائے۔(صحیح البخاری کتاب الاطعمۃ باب ما یقول اذا فرغ من طعامہ حدیث 5459)(سنن ابو داؤد کتاب الاطعمۃ باب فی التمر حدیث 3830) (صحیح مسلم کتاب الاشربۃ باب فضیلۃ الخل والتادم بہ حدیث 169(2052) ) نئے کپڑے پر اللہ تعالیٰ کا شکر۔(سنن الترمذی کتاب اللباس باب ما یقول اذا لبس ثوبا جدیدا حدیث 1767) غرض کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس پر آپ اس کے استعمال سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور شکر نہ فرماتے ہوں۔ جب آپ کو اپنی عبادتوں میں بے انتہا گریہ و زاری کرتے ہوئے دیکھ کر یہ پوچھا گیا کہ آپ عبادت کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو آپ کے پاؤں سوج جاتے ہیں۔ سجدوں میں بے انتہا بے چین ہوتے ہیں اور اس قدر روتے ہیں کہ زمین آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہے۔ آپ کے تو اللہ تعالیٰ نے گزشتہ اور آئندہ سب گناہ بخش دئیے ہیں۔ اب کوئی گناہ تو آپ سے سرزد بھی نہیں ہونا۔ نہ پہلے کبھی ہؤا تو پھر اس قدر آپ کا رونا اور چلّانا کیوں ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ کیا میں اس بات پر اللہ کا شکر گزار بندہ بن کر اس کے آگے نہ روؤں کہ اس نے مجھے اس قدر نوازا ہے۔(صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک … الخ حدیث 4836)(تفسیر ابن کثیر جلد دوم صفحہ 189 تفسیر سورۃ آل عمران مطبوعہ دار طیبۃ للنشر والتوزیع ریاض 1999ء)

بندوں کی شکر گزاری کے کیا معیار تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے بچپن کے دوست تھے جنہوں نے ہر مشکل کے وقت آپ کا ساتھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جذبات کا بے انتہا خیال رکھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کسی شخص نے کسی اختلاف کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کچھ کہہ دیا تو آپ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا تو تم سب نے مجھے جھوٹا کہا اور ابوبکر نے میری سچائی کی گواہی دی اور اپنی جان اور مال سے میری مدد کی۔ کیا تم میرے ساتھی کی دلآزاری سے باز نہیں رہ سکتے۔ آپؐ نے ایک موقع پر فرمایا کہ مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر نے کیا ہے۔(صحیح البخاری کتاب التفسیر باب قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا … الخ حدیث 4640)(صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ باب الخوخۃ والممر فی المسجد حدیث 466) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی نے کیا احسان کرنا تھا۔ آپؐ کے لئے کچھ بھی قربان کرنا اس قربان کرنے والے کے لئے ایک اعزاز تھا اور پھر ظاہری لحاظ سے بھی آپؐ نے ہر ایک کی خدمت کا بدلہ بہت بڑھ کر دیا۔ لیکن پھر بھی شکر کے جذبات کا اظہار آپ کر رہے ہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بار بار حضرت خدیجہؓ کے بارے میں تعریفی ذکر پر کہا کہ آپ کیا ہر وقت اس بڑھیا کا ذکر کرتے رہتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بڑھ کر بیویاں عطا کی ہیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تو انہوں نے مجھے قبول کیا۔ جب لوگوں نے میرا انکار کیا تو وہ ایمان لائیں۔ جب مجھے مال سے محروم کیا گیا تو انہوں نے اپنے مال سے میری مدد کی اور اللہ تعالیٰ نے اولاد بھی مجھے انہیں سے عطا فرمائی۔(اسد الغابہ الجزء السابع حرف الخاء صفحہ 86 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2008ء)پس آپ نے حضرت خدیجہؓ کی ان خدمات کو جو انہوں نے اپنے خاوند کے لئے کی تھیں کبھی نہیں بھلایا اور اس کو احسان سمجھا اور ہمیشہ اس کی شکرگزاری کی۔ آجکل کے خاوندوں کے لئے یہ سبق ہے کہ بیویوں کا مال بھی کھا جاتے ہیں اور پھر یہ احسان کہ دیکھو میں نے ابھی تک تمہیں بیوی کا مقام دیا ہوا ہے۔

پھر بادشاہ نجاشی نے جو کفار کے ظلم سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو اپنے ملک میں پناہ دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہ نجاشی جو حبشہ کا بادشاہ تھا اس کے اس احسان کو ہمیشہ یاد رکھا اور اپنے ہر قول اور اپنے عمل سے اس کی شکرگزاری کا اظہار فرمایا۔ ایک دفعہ جب اس کا وفد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ خود ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہوئے۔ صحابہ نے کہا کہ ہم استقبال کے لئے کافی ہیں، ہم کھڑے ہوتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ بادشاہ نے ہمارے ساتھیوں کی عزت کی تھی اور ان کے ساتھ اخلاق کے ساتھ پیش آیا تھا اس لئے مَیں پسند کرتا ہوں کہ اس کے احسان کا بدلہ خود اتاروں۔ (سیرت الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 72 باب غزوۃ خیبر مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم معلّم اخلاق کے طور پر دیکھتے ہیں تو یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کی عجب شان نظر آتی ہے۔ جب ایک موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چھوٹے قد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مذاق کے رنگ میں کچھ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عائشہ! یہ ایک ایسا کلمہ ہے کہ اگر سمندر میں ملا دیا جائے تو اسے بھی گندہ کر دے۔(سنن الترمذی کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع باب منہ حدیث 2502)

بچوں کی تربیت اور اعلیٰ اخلاق سکھانے کے لئے آپؐ کے نمونے کیا تھے۔ ایک صحابی عبداللہؓ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے۔ مَیں اس وقت چھوٹا تھا۔ مَیں کھیلنے کے لئے باہر جانے لگا تو میری ماں نے کہا عبداللہ ادھر آؤ مَیں تمہیں ایک چیز دوں گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اسے کچھ دینا چاہتی ہو؟ میری ماں نے کہا ہاں میں کھجور دوں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر واقعہ میں تمہارا یہ ارادہ نہ ہوتا اور صرف بچے کو بلانے کے لئے ایسا کہا ہوتا تو تمہیں جھوٹ بولنے کا گناہ ہوتا اور جھوٹ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔(سنن ابو داؤد کتاب الأدب باب فی التشدید فی الکذب حدیث 4991)

پس یہ معیار ہیں سچائی کو قائم کرنے کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماننے والوں میں چاہتے ہیں۔

پڑوسیوں سے حسن سلوک کی اسلامی تعلیم ہے۔ اس بارے میں کس طرح آپ نے تربیت فرمائی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ یارسول اللہ مجھے کس طرح پتا چلے کہ میں اچھا کر رہا ہوں یا برا کر رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم اپنے پڑوسی کو یہ کہتے سنو کہ تم بہت اچھے ہو تو سمجھو کہ تمہارا طرز عمل اچھا ہے اور جب تم پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم بہت برے ہو تو سمجھ لو کہ تمہارا رویّہ برا ہے اور تم غلط کر رہے ہو۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب بالثناء الحسن حدیث 4222)

یہ تو چند باتیں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے چند نمونے تھے جو مَیں نے اس وقت پیش کئے۔ کسی بھی خُلق میں آپ اعلیٰ ترین اخلاق پر فائز تھے اور یہی آپ اپنے ماننے والوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ خدا کرے کہ ہم زبانی دعوے سے نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلتے ہوئے حقیقی عمل کرنے والے اور آپ کی پیروی کرنے والے ہوں اور اپنی بخشش کے سامان کرنے والے ہوں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے، اپنی صفات سے، اپنے افعال سے، اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قُویٰ کے پُر زور دریا سے کمالِ تام کا نمونہ عِلماً و عملاً و صِدقاً و ثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا۔ …وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسانِ کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالَم کا عالَم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا، وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخر النبیین جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداءِ دنیا سے تُو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔ اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میں آئے جیسا کہ یونس اور ایوب اور مسیح بن مریم اور ملاکی اور یحییٰ اور زکریا وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگرچہ سب مقر ّب اور وجیہ اور خداتعالیٰ کے پیارے تھے۔ یہ اِسی نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔(اتمام الحجۃ، روحانی خزائن جلد 8صفحہ 308)

اب دعا کر لیں۔ [ اس کے بعد حضور انور نے ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کروائی جس میں ایم ٹی اے کے توسط سے دنیا بھر کے ناظرین و سامعین شامل ہوئے۔دعا کے بعد فرمایا:]

اس وقت جو قادیان کے جلسہ کی حاضری بیان کی گئی ہے وہ چودہ ہزار دو سو بیالیس ہے۔ اس دفعہ پاکستان سے تو احباب نہیں شریک ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود باہر سے کافی احباب تشریف لائے اور انڈونیشیا سے بھی وہ ایک چارٹرڈ جہاز وہاں لے کے گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت چودہ ہزار دو سو بیالیس حاضری ہے اور یہاں اِس وقت بیٹھے ہوئے لوگوں کی حاضری پانچ ہزار دو سو تیس ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button