حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخطاب حضور انور

مجلس خدام الاحمدیہ انگلستان کے نیشنل اجتماع کے موقع پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے انگریزی زبان میں فرمودہ اختتامی خطاب کا اردو مفہوم فرمودہ 14جون 2015ء بروز اتوار بمقام اسلام آباد ،ٹلفورڈ یوکے

قرآن کریم کی سورۃ الکہف میں اللہ تعالیٰ نے عیسائیت کی پہلی چند صدیوں میں رہنے والے عیسائی نَوجوانوں کا ذکر کیا ہے۔ ان آیات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کس طرح ان عیسائی نو جوانوں نے اپنے مذہب اور اپنے عقیدہ کی حفاظت کی۔ اور کس طرح وہ خدا تعالیٰ کے حضور مخلصانہ دعائیں کرتے ہوئے اپنے دین اور ایمان پر ثابت قدم رہے۔ لیکن جب اس زمانہ کے بادشاہوں اور رہنماؤں نے عیسائیت قبول کی اور عیسائیوں کو دنیاوی طاقت مل گئی تو وقت کے ساتھ ساتھ اُن کا ایمان بھی تدریجی زوال کا شکار ہو گیا۔ اُن کی زندگیوں میں دنیاداری مقدم ہو گئی اور اُن کا مضبوط ایمان تدریجًا کمزور ہوتا گیا۔ آزادی اور خوشحالی کے نام پر انہوں نے اپنے ایمان کو کمزور ہونے دیا۔ دنیا وی کشش اور دنیا کی چیزوں کو اپنے دین پر مقدّم ہونے دیا۔چنانچہ اس کے بعد اُن کا ایمان صرف نام کا ہی باقی رہ گیا۔

ہمارے احمدی نَو جوان اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانیں اور اپنی اصلاح کریں۔ جب ایسا ہو گا تب ہی وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کی راہوں کو روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔ جب تک ایک احمدی اِس کوشش میں گامزن نہیں رہے گا تب تک اُس کا بیعت کرنا بے فائدہ ہے اور وہ اپنے اسلامی فرائض کو سر انجام دینے میں ناکام رہے گا۔ اگر ہمارے احمدی نَو جوان اس مِشن میں ناکام رہے تو وہ اُن راہوں پر چلنے لگ جائیں گے جن راہوں پر ابتدائی عیسائی چلے تھے جو ابتدا میں تو اپنے دین کے لئے پُر جوش تھے لیکن بعد میں اپنی تعلیمات سے اس حد تک دُور ہٹتے چلے گئے کہ آج کلیسا کو اپنے وجود کو کھو دینے کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

قرآن کریم کا ایک قدیم نسخہ دریافت ہونے کا ذکر اور حفاظت قرآن کریم کے عظیم الشان وعدہ کا ایمان افروز بیان

عیسائیت کا زوال بلا شبہ ہونا ہی تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد اسلام ہی وہ واحد حقیقی مذہب رہ گیا ہے جو پھیلا اور جس کی فتح مقدّر ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ یہاں اور دوسری جگہوں پر بھی غیر مسلمان کھلم کھلا اپنے خوف کا اظہار کر رہے ہیں کہ اسلام فائق ہو جائے گامَیں اپنے احمدی نَو جوانوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں بلکہ تمام احمدیوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ انہیں لازمًا ان اقوام کی حقیقی اسلام کی طرف رہنمائی کرنی ہے ۔یہ آپ کا اوّلین ہدف اور پختہ عزم ہونا چاہئے اور اس کا حصول صرف دعاؤں اور مخلصانہ کوششوں سے ہو گا۔ دنیا کو اس بات سے آگاہ کرنا آپ کا فرض ہے کہ قرآن کریم ہی تمام بنی نوع انسان کے لئے ایک کامل اور وقت کی قید سے آزاد تعلیم ہے۔

نَو مبائعین کے قبول احمدیت کے ایمان افروز واواقعات کا تذکرہ اور ایم ٹی اے سے وابستہ رہنے کے نتیجہ میں اُن کے ایمان میں اضافہ کا ذکر

ہر احمدی مسلمان کو ایم ٹی اے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کو پہچاننا چاہئے اور اس کی ہر گز ناقدری نہیں کرنی چاہئے۔

ہمیں چاہئے کہ ہم ایم ٹی اے کے ساتھ جُڑ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف موضوعات پر مشتمل اور مختلف حالات و واقعات کی روشنی میں ایم ٹی اے شاندار پروگرامزتیار کر رہا ہے۔ آپ کو چاہئے کہ ان پروگراموں کو دیکھ کر مختلف معاملات پر اور مختلف مسائل پر اسلام کے نقطۂ نظر کو سمجھیں تاکہ آپ کے دینی علم میں بھی اضافہ ہو۔ اور اس طرح انشاء اللہ آپ کا اسلام اور جماعت سے بندھن بھی مضبوط ہو جائے گا۔

آپ نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ آپ دین کا حقیقی علم حاصل کررہے ہیں اور دین کی گہرائیوں کو سمجھ رہے ہیں تاکہ آپ ذاتی طور پر اسلام کی خدمت کے لئے صف ِ اوّل میں کھڑے ہوکر اسلام کا دفاع کر سکیں۔ آپ انتظار مَت کریں اور نہ ہی ہچکچائیں۔ آپ کو چاہئے کہ آج ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے حقیقی خادم کے طور پر اپنا قدم آگے بڑھائیں اور اُن لوگوں میں شامل ہوجائیں جو اِس جہان میں بھی اور آخرت میں بھی روحانی انعام پانے والے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ماننے والوں کی حیثیت سے یہ ہمارا فرض ہے کہ اُن لوگوں سے اسلام کا دفاع کریں جو اُسے تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام کے دفاع کے لئے آپ کو ہمیشہ اس بات کو مدّنظر رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اپنی جماعت سے کیا چاہتے تھے اور آپؑ کی ہم سے کیا توقعات تھیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے حقیقی بندھن قائم کرنے کے لئے ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی جماعت سے کامل وفاداری، کامل اطاعت اور کامل اخلاص کے ساتھ وابستہ کر لے ۔
مجلس خدام الاحمدیہ انگلستان کے نیشنل اجتماع کے موقع پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے
انگریزی زبان میں فرمودہ اختتامی خطاب کا اردو مفہوم فرمودہ 14جون 2015ء بروز اتوار بمقام اسلام آباد ،ٹلفورڈ یوکے
(خطاب کا یہ اردو مفہوم ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر ہدیۂ قارئین کر رہا ہے۔ ترجمہ: فاروق محمود۔فرّخ راحیل)

تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔

قرآن کریم کی سورۃ الکہف میں اللہ تعالیٰ نے عیسائیت کی پہلی چند صدیوں میں رہنے والے عیسائی نوجوانوں کا ذکر کیا ہے۔ ان آیات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کس طرح ان عیسائی نو جوانوں نے اپنے مذہب اور اپنے عقیدہ کی حفاظت کی۔ اور کس طرح وہ خدا تعالیٰ کے حضور مخلصانہ دعائیں کرتے ہوئے اپنے دین اور ایمان پر ثابت قدم رہے۔ مخفی طور پر بھی اور دوسرے ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے بھی وہ مخالف دنیاوی بادشاہوں اور اُس زمانہ کی دوسری دنیاوی طاقتوں سے اپنے دین کی حفاظت کرنے کے قابل ہوئے۔وہ اللہ تعالیٰ سے مسلسل دعائیں کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے ایمان اور اپنے دین پر ثابت قدم رکھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اُس کی نصرت کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ جب تک وہ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں مضبوط رہے ان کی کوششیں بار آور رہیں۔ اورانہوں نے اپنے ایمان کو مخالفت اور ظلم و ستم سہنے کے باوجود کمزور نہیں ہونے دیا اور نہ ہی وہ اس وجہ سے حد سے زیادہ پریشان ہوئے۔اُس وقت اُن کا ایمان ہی اُن کی واحد ترجیح اور فوقیت تھی۔ لیکن جب اس زمانہ کے بادشاہوں اور رہنماؤں نے عیسائیت قبول کی اور عیسائیوں کو دنیاوی طاقت مل گئی تو وقت کے ساتھ ساتھ اُن کا ایمان بھی تدریجی زوال کا شکار ہو گیا۔ اُن کی زندگیوں میں دنیاداری مقدم ہو گئی اور اُن کا مضبوط ایمان تدریجًا کمزور ہوتا گیا۔ آزادی اور خوشحالی کے نام پر انہوں نے اپنے ایمان کو کمزور ہونے دیا۔ دنیا وی کشش اور دنیا کی چیزوں کو اپنے دین پر مقدّم ہونے دیا۔چنانچہ اس کے بعد اُن کا ایمان صرف نام کا ہی باقی رہ گیا۔ یہ بات سچ ہے کہ عیسائیت مسلسل پھیلتی اور ترقی کرتی رہی ہے۔ لیکن اس کے بعد جو انہوں نے حاصل کیا وہ روحانیت میں ترقی نہیں تھی بلکہ دنیاوی ترقی اور کامیابی تھی۔ اسی وجہ سے حال ہی میں سابق آرچ بشپ آف کینٹربری (Archbishop of Canterbury)نے کہا ہے کہ عیسائیت کا زوال اور اس میں عدم دلچسپی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اُسے فکر ہے کہ اب عیسائیت اپنی معدومیت سے محض ایک نسل ہی دُور رہ گئی ہے ۔ اپنی اس فکر کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ باقی مذاہب عیسائیت پر سبقت لے جائیں گے اور خاص طور پر انہوں نے اپنی فکر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام ایک فائق مذہب بن کر اُبھرے گا۔


ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے اور اس بات کو پہچاننا چاہئے کہ دوسرے مذاہب اور اقوام کا زوال اور اُن کے حالات ہمارے لئے ایک تنبیہ اور سبق ہیں۔ عیسائیت کا زوال بلا شبہ ہونا ہی تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد اسلام ہی وہ واحد حقیقی مذہب رہ گیا ہے جو پھیلا اور جس کی فتح مقدّر ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ یہاں اور دوسری جگہوں پر بھی غیر مسلمان کھلم کھلا اپنے خوف کا اظہار کر رہے ہیں کہ اسلام فائق ہو جائے گامَیں اپنے احمدی نَو جوانوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں بلکہ تمام احمدیوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ انہیں لازمًا ان اقوام کی حقیقی اسلام کی طرف رہنمائی کرنی ہے ۔یہ آپ کا اوّلین ہدف اور پختہ عزم ہونا چاہئے اور اس کا حصول صرف دعاؤں اور مخلصانہ کوششوں سے ہو گا۔ دنیا کو اس بات سے آگاہ کرنا آپ کا فرض ہے کہ قرآن کریم ہی تمام بنی نوع انسان کے لئے ایک کامل اور وقت کی قید سے آزاد تعلیم ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا عیسائیت کا زوال یقینی ہے اور اسلام کے علاوہ تمام مذاہب آہستہ آہستہ اپنا اثر کھو دیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے قبل مبعوث ہونے والے تمام انبیاء نے پیشگوئی کی تھی کہ ان کا لایا ہوا مذہب تدریجًا زوال پذیر ہو گا اور بالآخر معدوم ہو جائے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کا فائق ہونا اور اُس کا ہمیشہ قائم رہنا مقدّر کیا ہے۔ انشاء اللہ۔


مومنین سے کئے گئے کئی وعدوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُسی نے قرآن کریم کو نازل کیا ہے اور وہی اُس کی حفاظت کرے گا۔ چنانچہ اب ہم تقریبًا1400سال گزرنے کے بعد دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کا ایک نقطہ یا کوما (comma) بھی تبدیل ہونے نہیں دیا اور نہ ہی قرآن کریم کی اصل نص میں کوئی تبدیلی واقع ہونے دی۔ قرآن کریم کی نص ہر لحاظ سے اپنی اصل حالت میں ہے اور ہمیشہ رہے گی۔کتابی شکل میں نص ِ قرآن کریم کے علاوہ لاکھوں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے پورے قرآن کریم کو حفظ کیا ہے اور عَین اُس طرح حفظ کیا ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔
حال ہی میں ایک قدیم نسخہ ملا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نسخہ آٹھویں صدی کا ہے۔ یقینا مؤرخین اِس دریافت سے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا چاہتے تھے۔اُن کا یہ دعویٰ تھا کہ قرآن کریم جو اپنی موجودہ حالت میں محفوظ ہے اس کی حفاظت کا آغاز در اصل اُس آٹھویں صدی کے قرآن کریم کے نسخہ سے ہوتا ہے اور مؤرخین نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔ لیکن مزید تحقیق اورتجزیہ کے بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ جو قرآن کریم کا نسخہ ملا ہے وہ چھٹی صدی کا تھاناں کہ آٹھویں صدی کا۔عیسائی مؤرخین یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ نعوذ باللہ قرآن کریم کی موجودہ شکل اُس کی اصل شکل سے مختلف ہے لیکن بعد میں اُن کی اپنی تحقیق نے اس بات کو کلیۃً برعکس ثابت کیا۔ لہٰذا خدا تعالیٰ کا وعدہ کہ وہ خود قرآن کریم کی حفاظت کرے گا اور اُسے ہر گز تبدیل یا تحریف نہیں ہونے دے گا کس شان سے سچا ثابت ہوا۔


ایک اَور وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کیا ہے وہ آخرین کے زمانہ سے متعلق ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو مبعوث کرنے کا وعدہ کیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا غلامِ صادق ہو گا۔وہ شخص اسلام کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے مبعوث ہو گا اور اسلام کی حقیقی اور اصل تعلیمات کا آخری زمانہ میں دوبارہ احیاء کرے گا۔ ہم احمدی مسلمان خوش نصیب ہیں کہ ہم نے یا ہمارے آباو اجداد نے اُس شخص کی صداقت میں وہ نشانات دیکھے جسے خدا تعالیٰ نے مسیح موعود ؑ اور امام مہدی ؑ کے طور پر مبعوث کیا ہے۔ اور اس طرح ہم اس پر ایمان لانے کے قابل ٹھہرے۔یوں ہم اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت کی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں اور اُن برکات اور عنایات کو پا رہے ہیں جن کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آخرین کے دَور سے متعلق کی تھی ۔ اور اس پیشگوئی کی حقیقی تشریح اور اس کاحقیقی مفہوم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں سمجھایا ہے جس کے مطابق ہم اُس شخص پر ایمان لائے جسے اللہ تعالیٰ نے آخرین کے دَور میں مبعوث کیا ہے۔


ایک اَور وعدہ جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کیا ہے وہ نظامِ خلافت کے قیام سے متعلق ہے۔ اور یہ خلافت ہی ہے جس نے حقیقی مومنین کی قائم کردہ جماعت کی قیادت اور رہنمائی کرنی ہے۔لیکن اُس حقیقی خلافت کے قیام سے متعلق جو وعدہ کیا گیا ہے وہ ایک مشروط وعدہ ہے اور بعض شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے تاکہ یہ برکات اور عنایات مومنین کے شامل حال رہیں۔ ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ خلافت کا انعام اُن لوگوں کو دیا جائے گا جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور کسی کو اُس کا شریک نہیں ٹھہراتے۔ باقاعدگی سے عبادت کرنا اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنا بھی اُن کے لئے لازمی ہے۔ اُن کے لئے زکوٰۃ کی ادائیگی بھی لازمی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل اطاعت بھی لازم ہے۔ پس ان شرائط کے مطابق مومنین کا خدائے واحد کی عبادت کرنا اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم)کی اطاعت لازمی ہے۔ انہیں لازمًا نماز کے لئے وقف رہنا اور دین کے لئے مالی قربانی کے لئے بھی لازمًا تیار رہنا ضروری ہے۔ اگر ایسا ہو گا تب ہی وہ خلافت کے انعام کے مستحق ٹھہریں گے۔ اس لحاظ سے ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ آج جماعت احمدیہ ہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان انعام سے نوازا ہے۔


یہ سب باتیں ایک احمدی کو اس بات پر متوجہ کرنی چاہئیں کہ وہ اپنا جائزہ لے اور اپنا محاسبہ کرے کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پیروی کر رہا ہے یا نہیں۔


یہ ہمارے نَوجوانوں اور ہماری آئندہ نسلوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیاوی خواہشات کو ایک طرف رکھ کر اور دنیاوی اثرات سے دُور ہو کردین کے خادم بن جائیں تاکہ ہمارے مستقبل میں آنے والی نسلیں بھی اللہ تعالیٰ کے انعام کی مستحق ٹھہریں۔ جیساکہ مَیں نے کہا کہ آج کے عیسائی اپنے دین سے بہت دُور جا رہے ہیں اور وہ اِس حد تک دُور جا چکے ہیں کہ کلیسا کے رہنما اس بات سے انتہائی فکرمند اور پریشان ہیں۔ وہ کھلے طور پر اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ صرف چند عیسائی باقی رہ جائیں گے۔ وہ یہاں تک فکر مندی کا اظہار کر رہے ہیں کہ کہیں کلیسا بالآخر بالکل ختم نہ ہو جائے۔ اس خیال اور فکرمندی کا اظہار جائز ہے کیونکہ کلیسا کو قائم رکھنے کی کوششیں خالصۃً اُن کی دنیاوی کوششوں پر مبنی ہیں۔ اُن کے پاس کوئی الٰہی حفاظت نہیں ہے جو ان کی مدد کرے یا خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی وعدہ نہیں ہے جو اُن کے دین کے لئے ڈھال ہو۔ اِس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اسلام کو فائق رکھے گا اور اس کی حفاظت کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ اُس کی تعلیمات یعنی اُس کا دین اور شریعت اب کامل ہو گئی ہے۔ اور یہی تعلیمات تا قیامت قائم رہیں گی۔اس لئے مسلمانوں کو یہ فکر لاحق نہیں ہونی چاہئے کہ اُن کا دین ختم ہو جائے گا یا بالکل معدوم ہو جائے گا۔


پھر بھی مجھے جو فکر اور پریشانی مسلسل لاحق ہے وہ نو جوانوں سے متعلق ہے۔مَیں نہیں چاہتا کہ ہمارے نَو جوانوں میں سے ایک بھی اپنے ایمان سے دُورچلا جائے۔ کیونکہ یہ اپنی زندگیاں برباد کرنے اور اللہ تعالیٰ کی بے پناہ نعمتوں سے اپنے تئیں محروم کرنے کے مترادف ہو گا۔ اس لئے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری جماعت در اصل اللہ تعالیٰ کی تائید یافتہ جماعت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی نصرت ہی ہے کہ ہر سال لاکھوں نفوس جماعت احمدیہ میں داخل ہوکر حقیقی اسلام کو قبول کرتے ہیں۔ اُن کاجوش اور ولولہ دوسروں کے لئے نمونہ ہے۔ وہ جماعت میں اِس دلی عہد کے ساتھ شامل ہوتے ہیں کہ وہ ہمیشہ جماعت کے خادم رہیں گے۔ کئی لوگوں نے اپنے قبولِ احمدیت کے واقعات قلمبند کئے ہیں خاص طور پر افریقہ اور عرب ممالک کے لوگوں نے۔ انہوں نے کھلم کھلا اس بات کا اظہار کیا ہے کہ انہیں کسی ظاہری دنیاوی طاقت نے قبولِ احمدیت پر مجبور نہیں کیا بلکہ انہیں تو روحانی قوتوں نے احمدیت کی طرف رہنمائی کی ہے اور جلد ہی اُن پر احمدیت کی سچائی واضح ہوگئی۔


وہ اللہ تعالیٰ کی برکات حاصل کرنا چاہتے تھے جن کا وعدہ قرآن کریم میں مومنین سے کیا گیا ہے اور یہی بات اُن کو اس طرف متحرک کرنے والی تھی اور اُن کی دعائیں بھی انہیں برکات کے حصول کے لئے تھیں۔اس دَور میں دنیا بھر میں لوگوں پر یہ حقیقت آشکار ہو رہی ہے کہ صرف جماعت احمدیہ اسلام کی حقیقی تعلیمات پر ثابت قدمی کے ساتھ گامزن ہے۔ وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ صرف ہماری جماعت ہی حقیقی اسلام کو پھیلا رہی ہے اور ہماری جماعت ہی حقیقی مذہب کی گراں قدر خدمت سر انجام دے رہی ہے۔مَیں آئیوری کوسٹ کے ایک شہر میں بسنے والے ایک نَوجوان Bassamنامی کی مثال پیش کرتا ہوں۔ اُس نے بتایا کہ وہ ایک غیر احمدی مسلمان تھا اور اُس کی اسلام میں بہت دلچسپی تھی۔ وہ غیر احمدیوں کی مساجد میں جایا کرتا تھا لیکن وہ مسلمان ذاتی رنجشوں میں ملوث رہتے۔ یہ دیکھ کر وہ بہت دل شکستہ ہو جاتا ۔ اُسے بہت دُکھ ہوتا اور وہ اس بات پر بہت افسوس بھی کرتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُسے جماعت احمدیہ سے متعارف کروایا گیا۔ چنانچہ وہ اپنی نمازیں ہماری مسجد میں ادا کرنے لگ گیا اور لوکل درس القرآن بھی سنتا اور ساتھ ساتھ لوکل احمدیوں نے اُسے تبلیغ بھی کی۔ جلد ہی اس پر احمدیت کی سچائی ظاہر ہو گئی اور اُس نے بیعت کر لی۔ لیکن اُس نے صرف بیعت پر ہی اکتفا نہ کیا اور نہ ہی اُس نے فقط بیعت کرنا کافی سمجھا بلکہ وہ تندہی کے ساتھ لوکل مسجد میں ایم ٹی اے دیکھتا رہا اور ایم ٹی اے دیکھنے کے نتیجہ میں وہ اتنا متأثر ہوا کہ چند مہینوں میں ہی پیسے جمع کر کے اپنے گھر میں سیٹلائیٹ ڈِش لگوا لی۔ اُس نے بتایا کہ ہر پروگرام جو وہ جماعت احمدیہ کے بارہ میں دیکھتا اُس کے ایمان میں اضافہ کا باعث بنتا۔


گو کہ وہ فرانسیسی زبان بولتا ہے لیکن وہ ایسے پروگرام بھی دیکھتا جو فرانسیسی زبان میں نہیں تھے اور اُس نے ایم ٹی اے کا scheduleمکمل حفظ کر لیا تھا۔ اُس نے بتایا کہ میرے خطبات اُس کے لئے خاص طور پر اطمینانِ قلب کا باعث ہوتے اور اسی قسم کے دوسرے پروگرام بھی۔ پس ہر احمدی مسلمان کو ایم ٹی اے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کو پہچاننا چاہئے اور اس کی ہر گز ناقدری نہیں کرنی چاہئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئی کے مطابق دنیا مختلف ادوار سے گزری ہے اور اب اسلام اُس دائمی خلافت کے دَور میں داخل ہوا ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ اس لئے ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ خلافت کے ساتھ اپنا بندھن اور تعلق مضبوط کرے اور آئیوری کوسٹ کے نَوجوان کے نمونہ پر چلے۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کے خطبہ جمعہ یا حضرت خلیفۃ المسیح کے کسی پروگرام میں اُس نے کوئی ناغہ نہیں کیا اور ہر پروگرام دیکھا ہے۔ اُسے ہمیشہ ایسے نکات مل جاتے ہیں جو اُس کے ایمان میں مزید اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ اس لئے ہر احمدی نو جوان کو اپنی ترجیحات کو تبدیل کرنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے اُس انعام کا حقیقی شکر گزار ہونا چاہئے جو اُس نے ہمیں ایم ٹی اے کی صورت میں دیا ہے۔ہمیں چاہئے کہ ہم ایم ٹی اے کے ساتھ جُڑ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف موضوعات پر مشتمل اور مختلف حالات و واقعات کی روشنی میں ایم ٹی اے شاندار پروگرامزتیار کر رہا ہے۔ آپ کو چاہئے کہ ان پروگراموں کو دیکھ کر مختلف معاملات پر اور مختلف مسائل پر اسلام کے نقطۂ نظر کو سمجھیں تاکہ آپ کے دینی علم میں بھی اضافہ ہو۔ اور اس طرح انشاء اللہ آپ کا اسلام اور جماعت سے بندھن بھی مضبوط ہو جائے گا۔


جیساکہ مَیں نے پہلے کہا بہت سے لوگ ہیں جو اپنے جذبات اورتجربات بیان کرتے ہیں۔ ایک اور مثال مالی کے ایک شخص کی دیتا ہوں جس کا انٹریو احمدیہ ریڈیو اسٹیشن نے لیا۔ اُس نے بتایا کہ جب احمدیت کا پیغام ریڈیو پر سنا تو اُسے یوں لگا کہ گویا وہ اسلام کے بارہ میں پہلی دفعہ علم حاصل کر رہا ہے۔ اُس نے کہا کہ اُس پر اب یہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ ماضی میں جو کچھ اُس نے اسلام کے بارہ میں سنا اُس کی کوئی حقیقت اور اہمیت ہی نہیں۔اُس نے کہا کہ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ گویا احمدیت کی تعلیمات سے میری پیدائشِ نَو ہوئی ہے ۔ پس اِس زمانہ کے نَو جوانوں کو اپنے دین کے بارہ میں علم حاصل کرنا چاہئے تاکہ اُن کے ایمان میں اضافہ ہواور وہ دنیاداری میں نہ پڑ جائیں۔


جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمیشہ اسلام کی حفاظت کرے گا ۔ پس اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ احمدیت قبول کرنے کے لئے آتے چلے جائیں گے اور اپنے دین کے حقیقی خادم بن جائیں گے۔ آپ میں سے اکثریت پیدائشی احمدی ہیں۔ آپ میں سے سب کو، پیدائشی احمدی بھی اور بعد میں آنے والوں کو بھی اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ آپ بھی اُن خوش نصیبوں میں شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اُس کی نعمتوں کے وارث ہیں۔


آپ نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ آپ دین کا حقیقی علم حاصل کررہے ہیں اور دین کی گہرائیوں کو سمجھ رہے ہیں تاکہ آپ ذاتی طور پر اسلام کی خدمت کے لئے صف ِ اوّل میں کھڑے ہوکر اسلام کا دفاع کر سکیں۔ آپ انتظار مَت کریں اور نہ ہی ہچکچائیں۔ آپ کو چاہئے کہ آج ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے حقیقی خادم کے طور پر اپنا قدم آگے بڑھائیں اور اُن لوگوں میں شامل ہوجائیں جو اِس جہان میں بھی اور آخرت میں بھی روحانی انعام پانے والے ہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ ہمیں اُس طرح بننا ہے جس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ہم سے توقع کی ہے۔ اور یہ وہی توقعات ہیں جن کا اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے کی ہیں۔اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کیا ہے تاکہ آپؑ ایک جماعت قائم کریں جو اسلام کی حفاظت کرے ۔اس لئے آج اسلام کی خدمت اور اُس کی حفاظت کے لئے یہ بات لازم ہے کہ ہم اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ساتھ وابستہ کریں اور آپ کی تعلیمات پر عمل کریں۔ انتہائی تاکید کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ اگر آپ کی جماعت قائم نہ کی جاتی تو اِس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ مسلمان مُلّاؤں کی اسلام کے بارہ میں غلط تشریحات کی وجہ سے اسلام تباہ ہو جاتا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل اور اُس کی رحمت بذات خود اسلام پر انتہائی تاریکی کے دَور میں نازل ہوئی اور اُس نے اسلام کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے جماعت احمدیہ مسلمہ کو قائم کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اُس کی تائید کے ساتھ جماعت احمدیہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ مسلسل مخالفت اور ظلم و ستم سہنے کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا پیغام دنیا کے ہر کونے میں پہنچ چکا ہے۔ یقینا آج دنیا کے پڑھے لکھے اور معزز لوگ برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ صرف جماعت احمدیہ اسلام کی حقیقی تصویر پیش کر رہی ہے۔ اگر ہم دنیا کے موجودہ حالات پر نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ایک طرف تو اسلام اور خلافت کے نام پر ظلم و ستم ڈھائے جارہے ہیں اور ناانصافیوں کا بازار گرم ہے ۔نو جوانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے اور شدّت پسند بنایا جا رہا ہے۔ انہیں جہاد اور شہید ہونے کا غلط مفہوم بیان کر کے گمراہ کیا جارہا ہے۔ اس نتیجہ میں بیشمار معصوم جانوں کو قتل کیا جا رہا ہے یا اُن کے ساتھ انتہائی وحشیانہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ وہ نَو جوان جنہیں شدّت پسند بنایا جا رہا ہے وہ در اصل مایوس، مضطرب اور بے چین ہیں ۔ اُن میں سے اکثر اخلاص کے ساتھ اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اُن کی بد نصیبی ہے کہ اُن سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور انہیں جہاد کے انتہائی غلط مفہوم کے نام پر بدامنی پھیلانے کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جماعت احمدیہ مسلمہ خلافت کی قیادت اور رہنمائی میں پیار ، محبت اور امن کا پیغام پوری دنیا میں پھیلا رہی ہے۔ ہم ایسا کر رہے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ثابت کیا ہے کہ یہی حقیقی اسلام ہے۔ یورپ، شمالی امریکہ ، افریقہ، جنوبی امریکہ، آسٹریلیا، ایشیا اور دنیا کے ہر خطہ میں جہاں بھی ہماری جماعت موجود ہے ہم امن کے جھنڈے تلے متحد ہیں۔ دنیا کی ہر جگہ پر ہمارا ایک ہی پیغام ہے۔گزشتہ چند سالوں سے یہاں مغربی ممالک میں میڈیا کی جماعت احمدیہ کے بارہ میں خاص دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔یہاں یوکے میں، امریکہ میں اور دوسرے ممالک میں بھی میڈیا مسلسل جماعت کے متعلق رپورٹیں پیش کررہا ہے۔ اور میڈیا والے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ امن اور خیر سگالی پھیلا رہی ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ احمدیوں کا دعویٰ ہے کہ فقط اسلامی تعلیمات ہی اُن میں امن اور خیر سگالی پھیلانے کاجذبہ پیدا کر رہا ہے۔


ہر احمدی مسلمان کو خواہ جہاں کہیں وہ ہو اسلام کا حقیقی پیغام پھیلانا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زمانہ میں لوگ اسلام سے مرتد ہو رہے تھے اور شدّت پسند نام نہاد علماء کے شکنجے میں پھنس رہے تھے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اس بات کی تنبیہہ کی تھی کہ اگر ایسے حالات رہے تو وہ اسلام کی تباہی کا باعث بنیں گے اورآج بھی اسلام اِنہیں مصائب کا شکار ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ماننے والوں کی حیثیت سے یہ ہمارا فرض ہے کہ اُن لوگوں سے اسلام کا دفاع کریں جو اُسے تباہ کرنا چاہتے ہیں۔دشمنان اسلام انشاء اللہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت بذات خود کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ بہر حال ہمارے احمدی نو جوانوں کو ہراول دستہ کے طور پر سب سے آگے اسلام کی حقیقی تعلیمات کے دفاع میں ہونا چاہئے۔ اس weekend پر آپ نے یہاں اسلام آباد (ٹلفورڈ یوکے)میں اپنا اجتماع منعقد کیا ہے اور امریکہ میں بھی خدام الاحمدیہ نے اپنا اجتماع منعقد کیا ہے اور آج میرا خطاب بھی ایم ٹی اے کی وساطت سے براہ راست سُن رہے ہیں۔ پس آج آپ سب کو یہ پختہ عہد کرنا چاہئے کہ آپ اسلام پر کئے گئے ہر قسم کے حملہ کا دفاع کریں گے ۔ یہ بھی پختہ عہد کریں کہ آپ وہ لوگ ہوں گے جو اسلام کی حقیقی تعلیمات کو دُور دُور تک پھیلائیں گے۔ ہم حقیقی طور پر خوش نصیب ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنی جماعت کے لئے بہت خوبصورت اور تفصیلی ہدایات چھوڑ ی ہیں۔ پس اسلام کے دفاع کے لئے آپ کو ہمیشہ اس بات کو مدّنظر رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اپنی جماعت سے کیا چاہتے تھے اور آپؑ کی ہم سے کیا توقعات تھیں۔ ایک جگہ آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ یہ زمانہ ایک روحانی جنگ کا زمانہ ہے اوراچھائی اور شیطانی اثرات کے درمیان جنگ شروع ہو گئی ہے۔ آپ ؑ نے فرمایا کہ شیطانی اثرات اسلام پر حملہ کرنے اور اس کو شکست دینے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو قائم کیا تاکہ وہ شیطانی اثرات کو ہمیشہ کے لئے شکست دے۔

پس جب ایک احمدی نَوجوان اس نیت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بیعت کرتا ہے کہ وہ حقیقی مسلمان بنے گا تو اُسے مسلسل اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ شیطانی اثرات باہر سے بھی اور اندر سے بھی اسلام پر حملہ کر رہے ہیں۔ اسلامی دنیا باہمی تنازعات کا شکار ہے اور اسلام کی دشمن عالمی طاقتیں بخوشی مسلمانوں کے درمیان نفرتوں کے شعلوں کو مزید بھڑکا رہی ہیں۔ اور مسلم دنیا میں غیر ضروری بے چینی اور بد امنی کو ہَوَا دے رہی ہیں۔ آج کے مسلمانوں کی یہ بد قسمتی ہے کہ وہ اس صورتحال کو نہیں پہچان رہے۔ اور بیرونی طاقتوں کو مسلمانوں کی صفحوں میں بگاڑ ڈالنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ پس احمدی نَو جوانوں کو یہ عہد کرنا ہے کہ وہ اسلام کے دفاع میں پختہ ڈھال بن جائیں گے ۔ اور دنیا پر اس بات کو ثابت کریں گے کہ اسلام ایک پُر امن مذہب ہے۔احمدی نَو جوان اسلام کی حقیقی تعلیمات کو دنیا پر اُجاگر کرنے کی کوشش میں پُر عزم ہوں اور اِس عظیم کام کے لئے ہر کوشش اور قربانی کے لئے تیار رہیں۔ مزید بر آں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو اس لئے قائم کیا ہے کیونکہ انسان مسلسل خدا تعالیٰ سے دُور جا رہا ہے۔اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے ذرائع مخفی ہوتے چلے جا رہے تھے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کومبعوث کیا تاکہ آپؑ اُن مخفی ذرائع پر روشنی ڈالیں۔پس ہمارے احمدی نَو جوان اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانیں اور اپنی اصلاح کریں۔ جب ایسا ہو گا تب ہی وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کی راہوں کو روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔جب تک ایک احمدی اِس کوشش میں گامزن نہیں رہے گا تب تک اُس کا بیعت کرنا بے فائدہ ہے اور وہ اپنے اسلامی فرائض کو سر انجام دینے میں ناکام رہے گا۔ اگر ہمارے احمدی نَو جوان اس مِشن میں ناکام رہے تو وہ اُن راہوں پر چلنے لگ جائیں گے جن راہوں پر ابتدائی عیسائی چلے تھے جو ابتدا میں تو اپنے دین کے لئے پُر جوش تھے لیکن بعد میں اپنی تعلیمات سے اس حد تک دُور ہٹتے چلے گئے کہ آج کلیسا کو اپنے وجود کو کھو دینے کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ مغربی ممالک میں رہنے والے نَو جوان کبھی بھی اس بات کو روا نہ رکھیں کہ دنیاداری ، دنیاوی کشائش یا جدید ترین ٹیکنالوجی اُن کو دین سے دُور لے جانے والی ہو۔ اس کے بر عکس ہمیں صرف اُن راہوں کو اختیار کرنا چاہئے جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے کر جاتی ہیں۔ اُن راہوں کے حصول کے لئے آپ لازمًا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کتب پڑھیں کیونکہ آپؑ کے ملفوظات اور تعلیمات اللہ تعالیٰ تک پہنچے کا دروازہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے حقیقی بندھن قائم کرنے کے لئے ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی جماعت سے کامل وفاداری، کامل اطاعت اور کامل اخلاص کے ساتھ وابستہ کر لے ۔

آپ ؑ نے فرمایا ہے کہ ہر فردِ جماعت اپنی اَناؤں اور خودغرضی کو کلیۃً ختم کر دے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مضبوطی سے پکڑے رکھے۔ چند دنوں میں رمضان کے بابرکت مہینہ کا آغاز ہو رہا ہے اور اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے بہت اچھا موقع ہے ۔ روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ کو اللہ تعالیٰ کی بکثرت عبادت کرنی چاہئے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہئے۔ قرآن کریم میں علوم کے موتیوں کو تلاش کرنا چاہئے۔ہر گز یہ خیال نہ کریں کہ محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو قبول کرنا اور آپ کی بیعت کر لیناہی کافی ہے۔ بلکہ یہ ضروری ہے کہ ہر احمدی اللہ تعالیٰ سے اپنا ذاتی تعلق قائم کرے۔اور تقویٰ حاصل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے یہ فرمایا ہے کہ جب تک آپ کی جماعت تقویٰ حاصل نہیں کر لیتی وہ فلاح اور نجات حاصل کرنے میں ناکام رہے گی۔ ہمیشہ اپنے نفس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور حقیقی احمدی بن جائیں۔ آپ میں سے ہر ایک نَو جوان کو چاہئے کہ اپنے ایمان کی حفاظت کرے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے براہ راست تعلق قائم رکھے۔آپ اُن لوگوں کے نقش قدم پر مت چلیں جو دنیاوی آسائشیں اور اثر و رسوخ میسر آنے پر اپنے دین کی راہوں سے بھٹک جاتے ہیں۔ آپ اُن لوگوں کے نقش قدم پر مت چلیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنے خالق کو بھول گئے۔ آپ کو ایسا بننا ہے جو حقیقی طور پر بیعت کی شرائط پر عمل کرتے ہیں کیونکہ عہدوں کو پورا کرنا ایک ضروری امر ہے۔اللہ تعالیٰ آپ سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ سب خدام جو میرے اس خطاب کو آج یوکے میں سُن رہے ہیں اور امریکہ میں سُن رہے ہیں یا دنیا میں کہیں بھی سُن رہے ہیں اللہ کرے کہ آپ اپنے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے ہوں۔ خدا کرے کہ آپ اُن نَوجوانوں میں شمار کئے جائیں جو اپنے لوگوں کی اصلاح کرنے کے فرائض کو بخوبی سر انجام دینے والے ہیں اور قوموں کی ترقی کے لئے صف ِاوّل میں کھڑے ہیں۔ مَیں دعا کرتا ہوں کہ آپ کبھی ایسے نَو جوان نہ بنیں جواپنی قوموں پر بوجھ بنتے ہیں اور قوموں کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ یقینا ایسے نَو جوان اپنے مذہب کو بہت نقصان پہنچانے والے ہیں۔

پس آج آپ سب یہ عہد کریں کہ ہمارے اجتماعات ہماری روحانی ترقی کا ذریعہ بنیں گے۔ یہ عہد کریں کہ آپ ایسے بن جائیں گے جو دنیا کو روحانیت کی طرف لانے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی طرف لانے والے ہوں گے۔

آج دنیا کی نظریں ہماری جماعت پر ہیں تاکہ وہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو دیکھ سکیں۔ یہ وہ بات ہے جو مَیں اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتا ہوں جب میں دوسرے ممالک کا دورہ کرتا ہوں۔اس وجہ سے ہم نے دنیا کو ثابت کرنا ہے کہ ہماری باتیں کھوکھلی نہیں ہیں بلکہ ہم اپنی زندگیاں حقیقی امن کے سفیروں کی حیثیت سے گزارتے ہیں اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کی مشعل ہیں۔ کسی احمدی مسلمان کو کبھی بھی کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ دانش، علم اور سب سے بڑھ کر حق ہمارے ساتھ ہے۔ آخر میں مَیں ایک مرتبہ پھر کہوں گا کہ آپ سب اللہ تعالیٰ سے اپنا ذاتی تعلق قائم کریں اور ہمیشہ اُس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو کامیاب کرے اور جو باتیں آج مَیں نے کہیں ہیں اُن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ کرے کہ آپ اپنے آپ کو اسلام کی سچائی کے چمکتے ہوئے روشن ستارہ کے طور پر ثابت کرنے والے ہوں۔ انشاء اللہ۔

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اردو میں فرمایا:

یہاں بعض اسائلم سیکر بھی آئے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ایک دو سالوں میں آئے ہیں جو انگریزی کچھ حد تو سمجھتے بھی ہوں گے ،کچھ پڑھے ہوئے بھی ہیں۔ لیکن ان کے اپنے بھی بعض مسائل ہیں۔ اس لئے مَیں اُن کو یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ یہاں آنے کا مقصد اور یہاں آنے کی وجہ یہ تھی کہ اُن کو اپنے ملک میں صحیح طرح سے نہ عبادت کرنے کا حق دیا گیا تھا، نہ اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق دیا گیا تھا۔بعض براہ راست اس سے متأثر تھے اور بعض ایسے بھی ہوں گے جو دوسروں کو دیکھ کراتنا حوصلہ نہیں رکھتے کہ وہ یہ چیزیں دیکھ سکیں۔ اس لئے انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان سے نکلیں اور دوسرے ملکوں میں جائیں۔ پس یہاں آپ کا آنا احمدیت کی وجہ سے ہے۔ اُس حقیقی اسلام کی وجہ سے ہے جس کی یہ تعلیم ہے کہ تم نے دنیا میں فساد پیدا نہیں کرنابلکہ امن و محبت اور پیار بانٹنا ہے۔ پس جب آپ نے اس وجہ سے ملک چھوڑا ہے تو اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کا یہاں آنا جب خدا تعالیٰ کی خاطر ہے، اس وجہ سے ہے کہ آپ کو مذہبی آزادی نہیں تھی تو پھر اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ یاد رکھنا بھی آپ کا کام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے جو حق ہیں، اس کی عبادت کا حق ہے وہ بھی ادا کرنا آپ کا کام ہے۔ یہ نہیں کہ اسائلم جب تک کلیئر (clear) نہیں ہوتا اس وقت تک تو بڑی دعائیں اور عاجزی دکھاتے ہیں۔ اس کے بعد جب اسائلم پاس ہو گیا یا کوئی jobمل گئے ، مالی حالات بہتر ہو گئے تو بعض ایسے بھی ہیں جو خدا کو بھول جاتے ہیں، جو اپنی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں، جو جماعت کے احسانات کو بھول جاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے احسانات آپ پرجماعت کی وجہ سے ہیں کہ آپ کو یہاں آکر بہتر حالات میسر آئے۔یہاں اپنے ملک سے نکلنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مالی لحاظ سے بھی اکثریت کو کشائش عطا فرمائی ہے۔ پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننا ہے، اور بنیں!اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری یہی ہے کہ جو اس کے احکامات ہیں اُن پر عمل کیا جائے اور جماعت کا جو نظام ہے اور خلافت سے ایک احمدی کا جو تعلق ہونا چاہئے اُس میں آپ کو بڑھنا چاہئے۔ اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں۔ پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ہمیشہ صرف اجتماع کی حد تک نہیں، چند دنوں تک نہیں بلکہ ہمیشہ اپنے آپ کو احساس دلاتے رہیں ، اس کی جگالی کرتے رہیں کہ ہم نے جماعت کے نظام اور خلافت کے ساتھ کامل وابستگی دکھانی ہے تاکہ ہم اسلام اور احمدیت کی صحیح خدمت کر سکیں۔ اور اسی طرح یہ بھی کوشش کریں کہ ہر معاملہ میں اپنے نمونے قائم کریں۔ یہاں جب آپ کے اسائلم پاس ہو جائیں، بعض benefitsبھی لیتے ہیں، بعض دوسری آسائشیں بھی لیتے ہیں، اُنہیں اس حد تک لینے کی کوشش کریں جس حد تک قانون اور سچائی آپ کو اجازت دیتی ہے۔جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے اُن سے فائدہ نہ اُٹھائیں۔ جھوٹ کا سہارا لیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کے مقابلے میں جھوٹ کو کھڑا کر رہے ہیں۔اور جھوٹ کو اللہ تعالیٰ نے شرک قرار دیا ہے۔پس یہ عارضی خداؤں سے ہمیشہ اپنے آپ کو بچاتے رہیں اور اُس زندہ خدا کی طرف جھکیں جو ہمیشہ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اور وہی ہے جو آپ کی ضروریات کو پورا کرے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے۔

اب دعا کر لیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button