خطاب حضور انور

برطانیہ کے جلسہ سالانہ 2016ء کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب

عدل اور احسان اور ایتایٔ ذی القربیٰ۔ یہی باتیں ہیں جو ماضی میں بھی دنیا کے امن اور دنیا کی سلامتی کے لئے ضمانت تھیں۔ آج بھی یہی باتیں دنیا کے امن اور سلامتی کے لئے ضمانت ہیں اور آئندہ بھی یہی چیزیں ہیں جو دنیا کے امن، سکون اور سلامتی کی ضمانت بنیں گی۔

قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق عدل اس وقت قائم ہوتا ہے جب کامل انصاف ہو اور پھر امن و سلامتی اور معاشرے کے حقوق صرف عدل سے ہی قائم نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ احسان کا سلوک بھی کرو۔ انصاف سے بڑھ کر حسن سلوک کرو اور پھر حسن سلوک اور
احسان کو صرف عارضی طور پر ہی قائم نہ کرو بلکہ ایتایٔ ذی القربیٰ کے معیار قائم کرو۔

قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ انسان پر خدا تعالیٰ کی ذات کے بعد سب سے زیادہ حق اس کے والدین کا ہے جو اس کی پرورش میں حصہ لیتے ہیں۔

والدین سے عدل و احسان کے متعلق اسلامی تعلیمات کا تذکرہ اور اس حوالہ سے اہم نصائح

جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر14اگست2016ء بروز اتوار سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حدیقۃالمہدی( آلٹن) میں اختتامی خطاب

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْـکَرِ وَالْبَغْیِ۔ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ (النحل:91)

اس آیت کے پہلے حصے میں جو مَیں نے ابھی تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے امن و سکون اور سلامتی کے لئے اور تباہی سے بچنے کے لئے تین بنیادی باتیں فرمائی ہیں۔ یعنی عدل اور احسان اور ایتایٔ ذی القربیٰ۔ یہی باتیں ہیں جو ماضی میں بھی دنیا کے امن اور دنیا کی سلامتی کے لئے ضمانت تھیں۔ آج بھی یہی باتیں دنیا کے امن اور سلامتی کے لئے ضمانت ہیں اور آئندہ بھی یہی چیزیں ہیں جو دنیا کے امن، سکون اور سلامتی کی ضمانت بنیں گی۔

اس آیت کا مضمون میں نے گزشتہ سال بھی جلسہ کی آخری تقریر میں بیان کیا تھا اور عمومی طور پر دنیاداروں کے اس الزام کا ردّ کیا تھا کہ مذہب دنیا کے فتنہ و فساد کی وجہ ہے۔ عام دنیا دار اپنے مفروضے کی توجیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ آج دنیا میں سب سے زیادہ فساد ان ملکوں میں ہے جو دین اور مذہب کے ساتھ منسلک ہیں یا مذہب کے ساتھ منسلک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس میں اوّل نمبر پر مسلمان ممالک ہیں۔ گویا مذہب مخالف طاقتوں نے یہ فیصلہ دے دیا کہ اصل میں اسلام ایسا مذہب ہے جو دنیا کے امن کی تباہی کا ذمہ دار ہے۔ اور پھر آجکل نام نہاد اسلامی تنظیمیں غیر مسلم ممالک میں بھی جو دہشتگردی اور شدت پسندی کا مظاہرہ کر رہی ہیں، اسلام کے نام پر جو قتل و غارت گری کر رہی ہیں اس سے مذہب مخالف یا مذہب سے لاتعلق یا اسلام مخالف طبقے کے خیالات کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ مذہب ہی دنیا کے فساد کی جڑ ہے اور مذاہب میں اسلام اس فتنہ و فساد میں نعوذ باللہ خدا نخواستہ اوّل نمبر پر ہے۔ دوسرے مذاہب میں عیسائیت ہے جس کے ماننے والوں کی تعداد اعداد و شمار کے لحاظ سے تو سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے لیکن عملاً عیسائیت سے تعلق رکھنے والے یا منسوب ہونے والے جو ہیں ان کی اکثریت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اسّی فیصد کے قریب عیسائیت سے لاتعلق ہے۔ صرف نام کے عیسائی ہیں یا مذہب سے انکاری ہیں۔ تو بہرحال یہ ایک المیہ ہے کہ ان نام نہاد مسلمان گروہوں کے عمل سے اسلام کے خلاف لوگوں کو، اسلام مخالف طاقتوں کو انگلی اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔ لیکن شدت پسند لوگوں کا یہ عمل بہرحال اس بات کا ثبوت نہیں بن جاتا کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کی وجہ سے دنیا کا امن و سکون برباد ہو رہا ہے۔

مَیں نے گزشتہ سال بھی یہ بات بیان کی تھی کہ دین اور مذہب میں بگاڑ پیدا کرنے والوں کی وجہ سے فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے اور امن و سکون بھی برباد ہوتا ہے۔ مذہب کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ گویا دوسرے لفظوں میں انسان کے اپنے اختراع کردہ اصولوں اور دین سے دور جانے کی وجہ سے، خودساختہ تفسیروں اور تشریحات سے فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے اور بظاہر دین اور مذہب فتنہ و فساد کی آماجگاہ بن جاتا ہے اور یہ حالات بعض دفعہ پیدا بھی ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ نہیں بلکہ ہر زمانے میں پیدا ہوتے ہیں تبھی اللہ تعالیٰ انبیاء بھی بھیجتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے کے لئے اپنے فرستادے بھیجتا ہے جو دنیاکی اصلاح کرتے ہیں۔ بیشک ہم مسلمان یہ مانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شرعی نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام کمالات نبوت ختم ہو گئے ہیں اور آپ خاتم النبیین ہیں اور قرآن کریم آخری شرعی کتاب ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری اور اس کی تعلیم اپنے کمال کو پہنچی ہوئی تعلیم ہے اور آئندہ قیامت تک کے مسائل اور معاملات اور علم کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس پاک کلام کو سمجھنے کے لئے اور اس کی تشریح اور تفسیر اور وضاحت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اس شخص کو بھیجا ہے جس نے دین کی تجدید کرنی تھی۔ جس نے قرآن کریم کی تفسیر و تشریح میں غلط باتوں کو شامل ہو جانے کی درستی کرنی تھی۔ قرآن کریم نے ایسے حالات کا جب دنیا میں ہر جگہ فتنہ و فساد پیدا ہو جاتا ہے یوں نقشہ کھینچا ہے۔ فرمایا ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ(الروم:42)خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا۔ یہ فساد کا برپا ہونا اور نمایاں ہونا اور خدا تعالیٰ کو بھلا دینا اور شرک میں مبتلا ہونا، ان لوگوں کا بھی مبتلا ہونا جو توحید کا اقرار بھی کرنے والے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو وہ لوگ تھے جو ظاہری مشرک بھی تھے اور وہ زمانہ فساد کے حساب سے عروج پر تھا تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر قرآن کریم جیسی کامل اور مکمل کتاب اتاری جس نے اس فساد کو دور کیا۔ مخلوق کو اپنے خالق کے قدموں میں لا کر ڈالا اور وہ لوگ پیدا کئے جنہوں نے امن کے قائم کرنے اور سلامتی پھیلانے اور عدل و انصاف قائم کرنے کے نمونے قائم کئے۔ لیکن پھر اگلی نسلیں دین پر عمل کو بھول گئیں۔ تب جیسا کہ مَیں نے کہا اِس زمانے میں بھی خشکی اور تری کے فساد کو دور کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسلمانوں کے دلوں کو پاک کرنے کے لئے، غیروں کو بھی توحید اور خدا تعالیٰ کے وجود کے راستے دکھانے کے لئے، اللہ تعالیٰ نے مہدی معہود اور مسیح موعود کو بھیجا جنہوں نے فرمایا کہ میں روحانی پانی ہوں جس کو استعمال کرو گے تو روحانیت میں ترقی کرو گے۔ امن اور سلامتی اور روحانی زندگی اب اسلامی تعلیم پر عمل کرنے سے وابستہ ہے۔ اس حقیقی تعلیم پر عمل کرنے سے وابستہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو حقیقی رنگ میں سمجھایا اور انہوں نے ہمیں آ کر بتایا۔ اس حقیقی اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے، جو ہر زمانے کے لئے زندہ تعلیم ہے، جس کی خوبصورتی اور نکھار کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے علم اور رہنمائی پا کر بیان کر رہا ہوں۔

پس ہم احمدی تو وہ ہیں جنہوں نے اس آواز کو سنا اور آپ کے علم کلام اور علم قرآن سے قرآن کریم جیسی عظیم کتاب کو سمجھا جو انسانیت کی روحانی اور جسمانی بقا اور امن و سلامتی اور محبت و بھائی چارے اور عدل وانصاف کی ضامن ہے۔

جیسا کہ میں نے کہا گزشتہ سال میں نے عدل و احسان اور ایتایٔ ذی القربیٰ کے مضمون کو عمومی طور پر بیان کیا تھا اور اس ضمن میں اسلامی تعلیم کی چند باتیں بتائی تھیں۔ آج میں اسلامی تعلیم کے بارے میں کچھ اور باتیں بیان کروں گا کہ اسلام ہر طبقے اور ہر سطح پر امن و سلامتی، عدل اور انصاف اور محبت اور پیار اور حقوق کی ادائیگی کو کس طرح دیکھتا ہے اور ان کے قائم کرنے کے لئے کیا حکم دیتا ہے۔

قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق عدل اس وقت قائم ہوتا ہے جب کامل انصاف ہو اور پھر امن و سلامتی اور معاشرے کے حقوق صرف عدل سے ہی قائم نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ احسان کا سلوک بھی کرو۔ انصاف سے بڑھ کر حسن سلوک کرو اور پھر حسن سلوک اور احسان کو صرف عارضی طور پر ہی قائم نہ کرو بلکہ ایتایٔ ذی القربیٰ کے معیار قائم کرو۔ یہ وہ معیار ہے جہاںحقوق العباد کی ادائیگی کی معراج انسانوں کے معاملات میں قائم ہوتی ہے۔ ایتایٔ ذی القربیٰ یہ ہے کہ قریبی رشتہ داروں جیسا سلوک لوگوں سے رکھنا۔ پس جب یہ جذبات اور احساسات ہیں انسانیت کے لئے جو کسی کے دل میں جب قائم ہو جائیں تو کیا اس سے یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ دنیا کے امن و سکون کو برباد کرنے اور نفرتیں پھیلانے اور فتنہ و فساد کرنے کے عمل اس سے سرزد ہوں گے۔ یقینا اس کا جواب یہی ہے کہ نہیں۔

اس کے بارے میں اسلام کی تعلیم کیا ہے کہ جس سے معاشرے کے ہر طبقہ میں امن و سکون پیدا ہو اور اس کو کس طرح پیدا کرنا ہے۔ معاشرے میں امن وسکون بھی پیدا ہو اور عدل و انصاف بھی قائم ہو جس سے احسان کے معیار بھی بلند ہوں۔ جس سے بے غرض تعلق کے معیاروں کا پتا چلے جس کا حصول گھر سے شروع ہوتا ہے اور معاشرے کی ہر سطح سے گزرتے ہوئے بین الاقوامی تعلقات پر حاوی ہو جاتا ہے۔ اس کو ہم قرآن کریم کی تعلیم کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ انسان پر خدا تعالیٰ کی ذات کے بعد سب سے زیادہ حق اس کے والدین کا ہے جو اس کی پرورش میں حصہ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس بارے میں قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓااِلَّا اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۔ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْکِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا۔ وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا (بنی اسرائیل:24۔25) اور تیرے رب نے فیصلہ صادر کردیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کا سلوک کرواور اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی، تو انہیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر۔ اور ان دونوں کے لئے رحم سے عجز کے پرجھکا دے اور کہہ کہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی۔

اس قرآنی حکم میں عدل، احسان اور احسان سے بڑھ کر سلوک کا ایک ایسا حکم ہے جو نسلوں تک کے لئے عدل، احسان اور ایتایٔ ذی القربیٰ کی ضمانت بنتا چلا جاتا ہے۔

اسلام پر اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ مذہب کی بنیاد ہی فتنہ و فساد ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میرے ساتھ تعلق جوڑو، میری عبادت کرو اور اس حق کو ادا کرنے کی معراج بھی تم اس وقت حاصل کرو گے جب حقوق العباد کی طرف توجہ ہو گی اور اس کے لئے قدم بقدم رہنمائی بھی فرمائی۔ اور اس کے لئے ابتدا والدین سے حسن سلوک سے شروع کی۔ والدین سے حسن سلوک کرو گے، ان کا مقام ان کو دو گے، ان کی عزت و احترام کرو گے، ان کے لئے عدل کے معیار تب قائم ہوں گے جب تم اس بات پر قائم ہو گے کہ والدین سے احسان کا سلوک کرنا ہے۔ ان کے بڑھاپے میں ان کا خیال رکھنا ہے۔ ان کی سخت بات سن کر بھی ان سے سختی سے کلام نہیں کرنا۔ پھر فرمایا کہ ان سے سختی سے بات نہ کر کے اور ان کی ڈانٹ سن کر خاموش رہنے سے تم نے ان کا حق ادا نہیں کر دیا۔ یہ تو والدین سے عدل کا ایک بنیادی خُلق ہے۔ اس کے بغیر تو تمہاری انسانیت ہی محلّ نظر ہو جاتی ہے۔ والدین کے احسان کا تو اوّل بدلہ نہیں اتار سکتے اور اگر کوئی چیز والدین سے احسان کا درجہ رکھ سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ان کی تمام تر سختیوں اور ناروا سلوک کے باوجود اس بات پر تم نے عمل کرنا ہے کہ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا۔ ان کو نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کرنا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھو کہ :

’’انسان بچہ ہوتا ہے اور کسی قسم کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس حالت میں ماں کیا کیا خدمات کرتی ہے اور والد اس حالت میں ماں کی مہمّات کا متکفل ہوتاہے۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ 13۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) یعنی ماں جب بچے کی خدمت کر رہی ہوتی ہے تو باپ بھی ماں کی اور بچے کی ضروریات کا خیال رکھنے والا ہے۔ اور ماں کو بچے کی خدمت کے لئے آزاد کرتا ہے۔ پس والدین کے اس احسان کو یاد رکھو جو انہوں نے بچے سے فطری محبت کے تحت اس وقت کیا جب بچہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس محبت کو پھر خدا تعالیٰ کے حق اور اس کے احسان کی طرف منسوب کیا ہے کہ ماں باپ کے دل میں یہ محبت خدا تعالیٰ نے ڈالی ہے جو انہوں نے احسان اور ایتایٔ ذی القربیٰ کا یہ نمونہ دکھایا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی محبت پہلے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی ماں باپ کے دل میں محبت پیدا کر دی۔

پھر والدین کے حق کے بارے میں ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف قول کریم تک ہی محدود نہیں رہنا بلکہ اپنے عملی نمونے خدمت کے دکھانے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ ۔ ان دونوں کے لئے رحم سے عجز کا پر جھکا۔ ان کی عاجزی سے خدمت کر۔ ان کے بڑھاپے میں ان کو یہ نہ احساس ہونے دے کہ یہ ہم پر بوجھ ہیں۔ پس یہ رحم اور عاجزی سے ان کی خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا والدین کے ساتھ ایتایٔ ذی القربیٰ کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم اپنے ماں باپ کا احسان اتار ہی نہیں سکتے۔

(صحیح مسلم کتاب العتق باب فضل عتق الوالد۔ حدیث3690)

پھر والدین کے لئے نیک جذبات اور ان کی خدمات جو انہوں نے بچوں کے لئے کی ہیں ہمیشہ کے لئے یاد رکھنے کے لئے یہ دعا سکھائی کہ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا کہ ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے میرے پر رحم کیا۔ اس رحم میں والدین نے پرورش کا حق بھی ادا کیا اور تربیت کا حق بھی ادا کیا۔

آجکل کی دنیا اس حق کو بھلا بیٹھی ہے۔ اس دنیا میں بچے ترقی یافتہ ملکوں میں اپنی مصروفیت کے نام پر ماں باپ کی خدمت کرنے کا تو سوال علیحدہ رہا انہیں روزانہ ملنے کے لئے بھی روادار نہیں ہوتے۔ جتنے یہ لوگ اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہتے ہیں اتنے ہی بنیادی اخلاق و فرائض کی ادائیگی سے دُور چلے گئے ہیں۔ ماں باپ کو بوڑھوں کے ہوسٹلوں میں داخل کروا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے ماں باپ کی بڑی خدمت کی ہے۔

گزشتہ دنوں جاپان میں خبر تھی کہ ایک سر پھرے نے بوڑھوں کے ہوسٹل پر حملہ کر کے کئی بوڑھوں کو قتل کر دیا۔ وہ اس بات کا نتیجہ تھا کہ بچے خیال نہیں رکھتے۔ اس قاتل نے بعد میں یہ کہا کہ یہ بوڑھے اس حالت میں تھے کہ میں نے بہتر سمجھا کہ ان کی زندگی ختم کر دی جائے۔ گویا کہ بچوں نے عدل سے کام لیتے ہوئے ماں باپ کو بوڑھوں کے گھر میں داخل کروایا اور اس سر پھرے نے اُن پر احسان کرتے ہوئے ان کو جان سے مار دیا۔ یہ ہیں ان کے عدل اور احسان کے نمونے۔ یہ لوگ ہیں جو اسلام کی تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں۔

والدین سے سلوک کی اسلام میں مثالیں کیا ہیں؟ ماں باپ کے حقوق اسلام کس طرح قائم کرتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ کی مجلس میں تین دفعہ یہ الفاظ دہرائے کہ مٹی میں ملے اس کی ناک۔ یعنی رسوا اور ذلیل ہو گیا وہ بدقسمت۔ اور بدبخت ہے وہ شخص۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ! کون ہے وہ شخص جس کی بات آپ فرما رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑا بدقسمت ہے وہ شخص جس نے بوڑھے ماںباپ کو پایا اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوسکا۔

(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب رغم انف من ادرک ابویہ … الخ۔ حدیث 6405)

پھر ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کا حق بیٹے پر یوں فرمایا۔ روایت میں آتا ہے کہ ایک بیٹا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرا باپ میری جائیداد کو اپنے تصرف میں لا رہا ہے۔ میرے باپ کو منع کریں کہ میرے معاملات اور میری جائیداد میں دخل نہ دے۔ باپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے۔ باپ نے عربی کے کچھ شعر پڑھے۔ اس کی آنکھوں میں بڑا دکھ تھا جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی محسوس کیا۔ ان شعروں کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ بچہ تھا اور اس کی ٹانگوں میں طاقت نہیں تھی کہ یہ چل سکے مَیں نے اسے گودوں میں اٹھایا اور جگہ جگہ لے کر گیا اور پھر جب یہ چھوٹا تھا اور اسے بھوک لگتی تھی اور اس میں اتنی بھی طاقت نہیں تھی کہ پاس پڑے ہوئے دودھ کو اٹھا کر پی لے۔ مَیں اسے دودھ پلایا کرتا تھا۔ باپ کہنے لگا یا رسول اللہ! اس کی کلائیاں کمزور تھیں ان میں اتنی بھی طاقت نہیں تھی کہ اپنا دفاع کر سکیں۔ یہ میری کلائیاں تھیں جنہوں نے اس کا دفاع کیا۔ میں نے اس کو تیر اندازی سکھائی۔ اب جب کہ یہ تیر اندازی سیکھ چکا ہے میرے پر ہی تیر چلا رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کی یہ بات سن کر شدت جذبات سے مغلوب ہو کر بیٹے کے گریبان کو پکڑ کر فرمایا ’جا تُو بھی اور جو کچھ تیرا ہے وہ بھی تیرے باپ کا ہے‘۔

(المعجم الأوسط باب المیم من اسمہ محمد جلد 5 صفحہ 57 ۔ حدیث 6570 دار الفکر 1999ء)

جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ ترقی یافتہ معاشرہ تو ماں باپ کو بوڑھوںکی رہائشگاہوں میں داخل کروا کر دنوں ان کی خبرگیری نہیں کرتے۔خدمت کا یہ حق تو ادا کیا کرنا ہے خبر گیری ہی نہیں ہوتی اور جوں جوں مادیت پرستی کی طرف قدم بڑھ رہے ہیں یہ احساسات، یہ اپنائیت، یہ خدمت کا جذبہ ان لوگوں میں بھی ختم ہوتا جا رہا ہے جو کچھ نہ کچھ خدمت کیا کرتے تھے جس کے نتیجہ میں صرف غیر ہی نہیں انہیں مار رہے بلکہ یہ بوڑھے لوگ خود اپنی اس حالت کی وجہ سے خود کشیاں بھی کر رہے ہیں۔ یہاں بھی اخباروں میں خبریں آتی ہیں کہ کس طرح بوڑھوں کی رہائشوں میں ان سے سلوک ہوتا ہے اور بعض اس کی وجہ سے خودکشیاں کر لیتے ہیں۔ بچے تو بے فکر ہوتے ہیں کہ ہم نے اپنے والدین کو بوڑھوں کی رہائش گاہ میں داخل کرا دیا لیکن جن کے سپرد یہ کام ہوتا ہے ان کے بارے میں بھی اخباروں میں آتا ہے کہ وہ بعض دفعہ بوڑھوں کو باندھ کر لٹا دیتے ہیں۔ بعضوں کے منہ تولیا سے باندھ کے بند کر دیتے ہیں کہ یہ ہمیں تنگ کرتے ہیں حالانکہ بوڑھوں کی خدمت کی ہی انہیں تنخواہ مل رہی ہوتی ہے۔ ایسی بھی خبریں ہیں کہ یہ سنبھالنے والے اپنی تفریح کی خاطر فلمیں وغیرہ دیکھنے کے لئے بوڑھوں سے انتہائی ظالمانہ سلوک انہیں چپ کروانے کے لئے کرتے ہیں۔

پس یہ اسلام ہے جو والدین کے حقوق قائم کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حق کے ساتھ والدین کے حق کو جوڑ کر مومنین کو یہ توجہ دلا رہا ہے کہ تم نے اس حسن و احسان کے سلوک سے کبھی غافل نہیں ہونا بلکہ والدین کے مرنے کے بعد بھی ایتایٔ ذی القربیٰ کے حق کو قائم کرنا ہے۔

ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والدین کی وفات کے بعد کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے لئے کر سکوں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں۔ تم ان کے لئے دعائیں کرو۔ ان کے لئے بخشش طلب کرو۔ انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے ہیں انہیں پورا کرو۔ والدین نے وعدے کئے، ان کی زندگی نے ساتھ نہیں دیا، فوت ہو گئے تو تم ان کے وہ وعدے پورے کرو۔ ان کے عزیز و اقارب سے اسی طرح صلہ رحمی کرو اور حسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے اور ان کے دوستوں کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آؤ۔

(سنن ابی داؤد کتاب النوم باب فی بر الوالدین۔ حدیث 5142)

اس حدیث میں ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کے متعلق جو یہ فرمایا ہے کہ جو انہوں نے وعدے کسی سے کر رکھے ہیں انہیں پورا کرو، اس میں معاشرے کے امن و سکون اور عدل کے قیام کے لئے یہ نکتہ بھی بیان فرمایا کہ والدین کے قرضوں کی ادائیگی اور ان کے وعدوں کو پورا کرنا بھی اولاد کی ذمہ داری ہے۔ وہ لوگ جو باوجود وسعت ہونے کے پھر اس سے انکاری ہو جاتے ہیں انہیں اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button