حالیہ سفرِ یورپ پر یورپ: سرزمینِ انقلابِ صنعت و حرفت ہوں میںعصرِ حاضر کے دھڑکتے قلب کی حرکت ہوں میںانقلابِ فرانس بھی میرے ہی پہلو سے اُٹھااور جدیدیت کا جِن میرے ہی جادو سے اُٹھا میرے ہی نورِ بصیرت سے ہوئے جَلوَت نشیںراز جو بھی کھولتی ہیں دُوربین و خوردبیںہر ذریعہ میں نے ہی ابلاغ کا جاری کیااور پھر دنیا پہ اِس کا سحر بھی طاری کیامیں نے ہی اَفشا کیا رازِ نفوسُ زُوِّجَتمجھ سے ہی ظاہر ہوا رنگِ عشارُعُطِّلَتانگلیوں سے میری ہی الجھے ہیں سب اشیاء کے تار’’کیا بشر اور کیا شجر، اور کیا حجر اور کیا بحار‘‘معجزے میں نے علوم و فن کے تابع کر دیےسب صحیفے عقل اور دانش سے ضائع کر دیےاب کہو! میری زمیں پر کس لیے آئے ہو تم؟آج پھر مردہ خدا کو کیوں اٹھا لائے ہو تم؟ ……… حضرت خلیفۃ المسیح: بَر زمینِ سائنس و علم و ہنر آیا ہوں میںاور اُفق کے پار سے تازہ خبر لایا ہوں میںوہ افق جس سے پرے تیری نگہ جاتی نہیںاور دیارِ عقل تک وہ صبحِ نَو آتی نہیںآج تم نے ہے تراشی علم و حکمت کی پَریمادرِ ایجاد کی ہے گود بھی تم سے ہَریتم سے وابستہ ہے دنیا کی معیشت کا قیاساور زمانے بھر کے دستورِ سیاسی کی اساسفلسفے کے خُم تمہارے مے کدے کی شان ہیںصنعت و حرفت تمہارے روز و شب کی جان ہیںپر کچل ڈالا اسی تہذیب نے انسان کوکارخانوں کی مشینیں کھا گئیں ایمان کوبیج یوں تشکیک کا جب ذہن میں بویا گیااِس ترقی میں خدا، انسان سے کھویا گیاوہ خدا، بخشا تھا جس نے ذہن و عقل و فکر و فنذہن و عقل و فکر و فن سے ٹھہرا خارج از وطن پر خدا کے ساتھ سب قدریں بھی رخصت ہو گئیںاور نئی رسمیں عذابِ جانِ خلقت ہو گئیں دین کیا اُٹّھا، سبھی شرم و حیا جاتی رہیدل سے غیرت اور رشتوں سے وفا جاتی رہی ازدواجی بندھنوں کے تار ڈھیلے پَڑ گئےخانگی گلزار کے سب رنگ پیلے پَڑ گئے جنس کی تفریق پر اُٹھے ہیں لا یعنی سوالمرد کو عورت میں ڈھل جانے کا آیا ہے خیال پس تمہاری ہر روش اس بات کی تصدیق ہےشب تمہارے عہدِ روشن کی بہت تاریک ہے علم و دانش میں تمہارے کام کا قائل ہوں میںڈوبتی ناؤ بچانے پر مگر مائل ہوں میں اِس ترقی کے قلعے کی شان و شوکت میں کہیںگر خدائے قادرِ مطلق کی گنجائش نہیں یہ ترقی ہی تمہاری شان کو کھا جائے گیاور تمہارے جگمگاتے آج کو گہنائے گی پس خدا کا آخری پیغام اب لایا ہوں میںاور اِک زندہ خدا کے حکم پر آیا ہوں میں مسجدیں کچھ تیرے سینے پر بنا دیتا ہوں میںارضِ یورپ! برملا یہ بھی بتا دیتا ہوں میں’’آرہا ہے اِس طرف احرارِ یورپ کا مزاجنبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہ زندہ وار‘‘ ٭…٭…٭