دوستو ہرگز نہیں یہ ناچ اور گانے کے دنمشرق و مغرب میں ہیں یہ دیں کے پھیلانے کے دن اس چمن پر جبکہ تھا دورِ خزاں وہ دن گئےاب تو ہیں اسلام پر یارو بہار آنے کے دن ظلمت و تاریکی و ضد و تعصب مٹ چکےآگئے ہیں اب خدا کے چہرہ دکھلانے کے دن جاہ و حشمت کا زمانہ آنے کو ہے عنقریبرہ گئے تھوڑے سے ہیں اب گالیاں کھانے کے دن ہے بہت افسوس اب بھی گر نہ ایماں لائیں لوگجب کہ ہر ملک و وطن پر ہیں عذاب آنے کے دن پیش گوئی ہو گئی پوری مسیحِ وقت کی’’پھر بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن‘‘ ان دنوں کیا ایسی ہی بارش ہوا کرتی تھی یاںسچ کہو کیا تھے یہ سردی سے ٹھٹھر جانے کے دن دوستو اب بھی کرو توبہ اگر کچھ عقل ہےورنہ خود سمجھائے گا وہ یار سمجھانے کے دن دَرْد و دُکھ سے آ گئی تھی تنگ اے محمودؔ قوماب مگر جاتے رہے ہیں رنج و غم کھانے کے دن (اخبار بدر جلد۶۔ ۲۸؍ فروری ۱۹۰۷ء بحوالہ کلامِ محمود)