متفرق مضامین

بدرسوم ۔گلے کاطوق

(وحید احمد رفیق۔ مربی سلسلہ ربوہ)

وحید احمد رفیق

قسط نمبر 5

ولیمہ پر بہت بڑی دعوت ضروری نہیں

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

’’دوسرے ولیمہ ہے جو اصل حکم ہے کہ اپنے قریبیوں کو بلا کر ان کی دعوت کی جائے ۔ اگر دیکھا جائے تو اسلام میں شادی کی دعوت کا یہی ایک حکم ہے۔ لیکن وہ بھی ضروری نہیں کہ بڑے وسیع پیمانے پر ہو حسب توفیق جس کی جتنی توفیق ہے بلا کر کھانا کھلاسکتا ہے ۔‘‘

(خطبہ جمعہ مورخہ 15-01-2010 شائع شدہ الفضل انٹر نیشنل5 فروری 2010 ء )

ہماری تمام تقریبات میں سادگی نظر آنی چاہیے ۔ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت عطا فرمائی ہے اور وہ وَاَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ پر عمل کرتے ہوئے اپنی تقریبات میںاپنی حیثیت کے مطابق روپیہ خرچ کرے تو اسے دیگر غربا کابھی خیال رکھنا چاہیے اور اسراف کے اصول کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔ ایک جگہ فرمایا کہ ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ اور جن کو اللہ تعالیٰ نے اتنی مالی وسعت نہیں دی ان کو یہ نہیں چاہیے کہ امرا کی نقل کرتے ہوئے اپنے اوپر غیر ضروری بوجھ لاد لیں جسے اتارنا مشکل ہو۔

آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ بد ترین کھانا ولیمہ کاوہ کھانا ہے جس میں امراء کو بلایا جائے اور غرباء کو چھوڑ دیا جائے۔

(مسلم کتاب النکاح باب الامر باجابۃ الداعی الی دعوۃ)

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم میں سے چند ایک لوگ ہی بد رسوم میں مبتلا ہیں ،تو پھر جماعت میں اتنے وسیع پیمانے پر لٹریچر شائع ہورہا ہے ،ہر سطح پر اس موضوع سے متعلق آگاہی کیوں کی جارہی ہے؟ تو یاد رکھنا چاہیے کہ ہر بیماری شروع میں معمولی ہی ہوتی ہے ۔ عقلمندی اسی میں ہوتی ہے کہ تکلیف کے آغاز میں ہی اس کے متعلق حد درجہ احتیاط برتی جائے اور بروقت علاج سے اپنی جان کو محفوظ بنایا جائے۔اسی طرح جو باتیں ایمان کو خطرے میں ڈالنے کاموجب ہوتی ہوں ان کو بھی آغاز ہی میں روکنا ایک مومن کاکام ہے۔اگر چہ ایسے لوگ جماعت میں تھوڑے ہی ہیں کہ جو بدرسوم میں مبتلا ہیں ، لیکن اگر جماعت ان کے خلاف مؤثر کارروائی نہ کرے تو آہستہ آہستہ لوگوں کی بڑی تعداد اس مرض میں مبتلا ہوسکتی ہے۔

مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں شادی سے متعلقہ پائی جانے والی رسوم کاجائزہ منگوایا ۔ موصول ہونے والی رسوم کی فہرست ذیل میں درج کی جارہی ہے تاکہ ہم ان سے آگاہی حاصل کرکے بچنے کی بھر پور کوشش کریں ۔ان میں سے بعض رسمیں بعض علاقوں کے ساتھ مخصوص ہیںاور بعض ملک گیر سطح پر پائی جاتی ہیں۔

-1 گھروں کی چھت پر ڈھول بجایاجاتاہے۔

-2 لڑکے کو شادی پر کھارے چڑھایاجاتاہے۔

-3 لڑکے کو گاناباندھاجاتاہے اور ہاتھ میں چھری پکڑائی جاتی ہے۔

-4 گھڑولی بھرتے ہیں۔

-5 دولہے کو سہرا باندھاجاتاہے اورسرخ چادر اوڑھائی جاتی ہے ۔بہنیں باگ پکڑائی

لیتی ہیں۔

-6 فائرنگ کی جاتی ہے۔

-7 ناچ گانا ہوتاہے۔

-8 گولا باری کی جاتی ہے۔

-9 نوٹ نچھاور کیے جاتے ہیں۔

-10 بینڈ باجے بجائے جاتے ہیں۔

-11 ہیجڑے نچائے جاتے ہیں۔

-12 آتش بازی کی جاتی ہے۔

-13 دودھ پلائی کا لاگ لیاجاتاہے۔

-14 بَری اور جہیز کی نمائش کی جاتی ہے۔

-15 لڑکی والے کام کرنے والوں کالاگ طلب کرتے ہیں۔

-16 دلہن کے سر پر رخصتی کے وقت قرآن کاسایہ کیاجاتاہے۔

-17 دولہا کے گھر داخل ہونے سے پہلے دلہن چوکھٹ پکڑ لیتی ہے اور جیٹھ/ سسر

سے لاگ لے کر داخل ہوتی ہے اور ساس چوکھٹ پر تیل ڈالتی ہے۔

-18 دلہن سے گھٹنا پکڑائی لی جاتی ہے۔

-19 دلہن کی گود میں قرآن رکھاجاتاہے ۔اس کی رقم مولوی لیتاہے۔

-20 جوتا چھپائی کالاگ لیاجاتاہے۔

-21 سرمہ لگائی کی رسم کرتے ہیں۔

-22 مہندی میں دولہے کے کپڑے پھاڑتے ہیں۔

-23 دونوں گھر والے ایک دوسرے کے گھر مہندی لے کر جاتے ہیں۔

-24 غیر محرم لوگ عورتوں کو کھانا تقسیم کرتے ہیں۔

-25 زیورات اور کپڑوں کی نمائش ہوتی ہے۔

-26 گھوڑوں کاناچ ہوتاہے۔

-27 نوٹوں کے ہارپہنائے جاتے ہیں۔

-28 حق مہر استطاعت سے زیادہ لکھواتے ہیں۔

-29 جائیداد بچی کے نام کروانے کامطالبہ ہوتاہے۔

-30 بارات سے پہلے کئی دن دولہا کے کپڑوں پر رنگ پھینکے جاتے ہیں ۔بارات والے دن رنگ برنگے کپڑے اُتارکردولہانئے کپڑے پہنتاہے۔

-31 شادی سے ایک دودن پہلے اہلِ محلّہ مجراکی محفلیں سجاتے ہیں۔شراب پی جاتی ہے۔

-32 دولہے کو سونے کی انگوٹھی پہنائی جاتی ہے۔

-33 مراثی بلاکر ہزاروں روپے کی ویل دی جاتی ہے۔

-34 شادی کے موقع پر انتہائی مہنگا لہنگا پہنا جاتاہے۔جو صرف ایک ہی دفعہ پہناجاتا ہے۔

-35 دولہا اور دلہن کو سجانے کے لیے بیوٹی پارلر لے جاکر ہزاروں روپے خرچ کردیے جاتے ہیں۔

-36 نکاح کے وقت لڑکی کاجیب خرچ اور گھر کاخرچ لکھوایا جاتاہے۔

-37 باگ کی رسم ہوتی ہے۔

-38 دلہن ہزاروں کے قیمتی تحائف لے کر دولہا کو بیڈ پر بیٹھنے کی اجازت دیتی ہے۔

-39 شادی کے بعد 7 دن تک دولہا دلہن کے گھر گزارتاہے،جسے ستوواڑا کہتے ہیں۔

-40 شادی کے اگلے دن دولہا اکیلا مٹھائی لے کر ساس سسر کے پاس جاتاہے اور ناشتہ وہیں کرتاہے۔

-41 لڑکی اور لڑکے کے رشتہ داروں کے لیے کپڑے لے کر جاتے ہیں۔

-42 بھاجی تقسیم کرتے ہیں۔

-43 برات سے پہلے ہی دعوتِ طعام کردیتے ہیں ۔ ولیمہ نہیں کرتے۔

-44 وَٹہ سَٹہ کی رسم پائی جاتی ہے۔

-45 بہنیں بھائیوں کی شادی پر لاگ مانگتی ہیں۔

-46 برات پہنچنے پر لڑکی والے گائوں کی دوسری لڑکیوں کو دولہے کی طرف سے پیسے دیتے ہیں۔

-47 رخصتی کے دوسرے دن دلہن والے دولہا کے گھر ناشتہ لے کرجاتے ہیں ۔

-48 دولہا کی والدہ کو سونے کا کوئی زیور دیا جاتاہے۔

-49 روانگی برات کے وقت لڑکے مسجد یادربار پر سلام کرکے جاتے ہیں۔

-50 جب لڑکے والے دن رکھنے جاتے ہیں تو دو من بتاشے لے کر جاتے ہیں۔

-51 بموقع نکاح دولہے کوکلمہ پڑھوایاجاتاہے۔

-52 برات کے وقت سورۃ یٰسین اور کچھ دوسری سورتیں لکھی ہوئی تقسیم کرتے ہیں۔

-53 برات کے ساتھ مرحباً اور یارسول اللہ کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔

-54 لڑکی کی شادی پر پیچھے کی طرف چاول پھینکے جاتے ہیں۔

-55 سسرال پہنچ کر قرآن کے اندر پیسے رکھ دیے جاتے ہیں۔

-56مایوں کی رسم کی جاتی ہے۔

-57 جائیداد کو اپنے خاندان میں رکھنے کے لیے لڑکی کی شادی قرآن ِ کریم سےکروادی جاتی ہے۔

-58 رشتہ آنے والی نسلوں سے مشروط کرلیتے ہیں۔

-59 دولہاماں اور ساس کے پائوں کو ہاتھ لگاتاہے۔

-60 دولہا وفات پاجائے تو لڑکی ساری عمر شادی نہیں کرتی۔

-61 دولہا کے دوست دولہا کی گاڑی کے آگے ناچتے ہیں۔

-62 شادی کے موقع پر جو لوگ پیسے دیتے ہیں اُن کا حساب رکھتے ہیں تاکہ بعد میں واپس کریں۔

-63 لڑکی پردہ کے بغیر رخصت کردیتے ہیں۔

-64 لڑکے زرد رنگ کاسکارف پہن کر ڈانس کرتے ہیں۔

-65 لڑکی رخصتی کے وقت ہاتھوں اور پائوں سے چاول پھینکتی ہے۔

وفات سے متعلقہ بد رسوم

وفات پر بدعات اور رسومات

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں-

’’اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کاایک یہی طریق ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سچی فرمانبرداری کی جاوے۔ دیکھاجاتاہے کہ لوگ طرح طرح کی رسومات میں گرفتار ہیں۔کوئی مرجاتا ہے تو قسم قسم کی بدعات اور رسومات کی جاتی ہیں ۔حالانکہ چاہیے کہ مردہ کے حق میں دعا کریں۔ رسومات کی بجاآوری میں آنحضرت ﷺ کی صرف مخالفت ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ہتک بھی کی جاتی ہے اور وہ اس طرح سے کہ گویا آنحضرت ﷺ کے کلام کو کافی نہیں سمجھاجاتا۔اگر کافی خیال کرتے تو اپنی طرف سے رسومات کے گھڑنے کی کیوں ضرورت پڑتی۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 316 )

میّت کے لیے صدقہ دینا اور قرآن شریف پڑھنا

سوا ل کیامیّت کو صدقہ و خیرات اور قرآن شریف کا پڑھنا پہنچ سکتا ہے ؟

جواب ’’میّت کو صدقہ خیرات جو اس کی خاطر دیا جاوے پہنچ جاتا ہے ۔ لیکن قرآن شریف کاپڑھ کر پہنچانا آنحضرتﷺاور صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے ۔ اس کی بجائے دعاہے جو میّت کے حق میں کرنی چاہیے۔ میّت کے حق میں صدقہ خیرات اور دعا کاکرنا ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کی سنت سے ثابت ہے لیکن صدقہ بھی وہ بہتر ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے دے جائے ۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسان اپنے ایما ن پر مہرلگاتا ہے ۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 1-2 )

مردہ کی اسقاط

سوال سوال ہوا کہ مُلّا لوگ مُردوں کے پاس کھڑے ہو کر اسقاط کراتے ہیں ۔ کیا اس کا کوئی طریق جائز ہے؟

جواب حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا’’ اس کا کہیں ثبوت نہیں ہے ۔ مُلّائوں نے ماتم اور شادی میں بہت سی رسمیں پیدا کرلیں ہیں۔ یہ بھی ان میں سے ایک ہے ۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 228 )

چہلم جائز ہے یا نہیں

ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ چہلم کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب فرمایا’’یہ رسم سنت سے باہر ہے۔‘‘

(البدر 14 فروری 1907 ء صفحہ 4 )

میّت کے لیے فاتحہ خوانی

سوال میّت کے لیے فاتحہ خوانی کے لیے جو بیٹھتے ہیں اور فاتحہ خوانی پڑھتے ہیں ؟

جواب ’’یہ درست نہیں ہے۔ بدعت ہے۔ آنحضرتﷺ سے یہ ثابت نہیں کہ اس طرح سب صف بچھا کر بیٹھتے اور فاتحہ خوانی کرتے تھے۔

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 606 )

فاتحہ خوانی

ایک صاحب نے عرض کی کہ میرا اللہ تعالیٰ سے معاہدہ تھا کہ جب میں ملازم ہوں گا تو اپنی تنخواہ میں سے آدھ آنہ فی روپیہ نکال کر اللہ کے نام پر دیا کروں گااسی لیے جو کچھ مجھے ملتا ہے اسی حساب سے نکال کر کھانا وغیرہ پکا کر اس پر ختم اور فاتحہ وغیرہ پڑھوا دی جاتی ہے حضورکا اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟

فرمایا ’’مساکین وغیرہ کی پرورش کردینی چاہیے یا اور کسی مقام پر ۔مگر فاتحہ خوانی کرانی یہ توایک بدعت ہے اسے نہ کرنی چاہیے ۔‘‘

(البدر 3 اپریل 1903 ء صفحہ 83 )

مرنے پر کھانا کھلانا

سوال ہوا کہ دیہات میں دستور ہے کہ شادی غمی کے موقعہ پر ایک قسم کا خرچ کرتے ہیں کوئی چودھری مرجاوے تو تمام مسجدوں، درباروں اور دیگرکمیّوں کو بحصہ رسدی کچھ دیتے ہیں اس کی نسبت حضورعلیہ السلام کا کیا ارشاد ہے ؟

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا

’’طعام جو کھلایا جاوے اس کا مردے کو ثواب پہنچ جاتا ہے گو ایسا مفید نہیں جیسا کہ وہ اپنی زندگی میں خود کرجاتا ۔ عرض کیا گیا حضور وہ خرچ وغیرہ کمیّوںمیں بطور حق الخدمت تقسیم ہوتا ہے ۔ فرمایا تو پھر کچھ حرج نہیں یہ ایک علیحدہ بات ہے کسی کی خدمت کا حق تو دے دینا چاہیے ۔ عرض کیا گیا کہ اس میں فخرو ریاء تو ضرور ہوتاہے یعنی دینے والے کے دل میں یہ ضرور ہوتا ہے کہ مجھے کوئی بڑا آدمی کہے ۔ فرمایا بہ نیت ایصال ثواب تو وہ پہلے ہی وہ خرچ نہیں حق الخدمت ہے بعض ریاء شرعاً بھی جائز ہیں مثلاً چندہ وغیرہ نماز باجماعت ادا کرنے کا جو حکم ہے تو اسی لیے کہ دوسرو ں کو ترغیب ہو۔ غرض اظہارو اخفاء کے لیے موقع ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ شریعت سب رسوم کو منع نہیں کرتی اگر ایسا ہوتا توپھر ریل پر چڑھنا تار اور ڈاک کے ذریعے خبر منگوانا سب بدعت ہوجاتے ۔ ‘‘

(البدر 17 جنوری 1907 ء صفحہ 4 )

قبر پکّی بنانا

ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ میرا بھائی فوت ہوگیا ہے میں اس کی قبر پکی بنائوں یا نہ بنائوں؟

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا

’’ اگر نمود اور دکھلاوے کے واسطے پکی قبریں اور نقش و نگار اور گنبد بنائے جائیںتو یہ حرام ہے لیکن خشک ملاّ کی طرح یہ کہا جائے کہ ہر حالت اور ہر مقام میں کچی ہی اینٹ لگائی جائے تو یہ بھی حرام ہے ۔ اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔ عمل نیت پر موقوف ہے ۔ ہمارے نزدیک بعض وجوہ میں پکی کرنا درست ہے مثلاً بعض جگہ سیلاب آتا ہے بعض جگہ قبرمیں سے میّت کو کتے اور بجّو وغیرہ لے جاتے ہیں ۔مردے کے لیے یہی ایک عزت ہوتی ہے ۔ اگر ایسی وجوہ پیش آجائیں تو اس حد تک نمود اور شان نہ ہو بلکہ صدمہ سے بچانے کے واسطے قبر کا پکا کرنا جائز ہے ۔ اللہ اور رسول نے مومن کی لاش کے واسطے بھی عزت رکھی ہے ۔ ورنہ عزت ضروری نہیں تو غسل دینے، کفن دینے، خوشبو لگانے کی کیا ضرور ت ہے ۔ مجوسیوں کی طرح جانوروں کے آگے پھینک دو ۔ مومن اپنے لیے ذلت نہیں چاہتا ۔حفاظت ضروری ہے ۔ جہاں تک نیت صحیح ہے خدا تعالیٰ مواخذہ نہیں کرتا دیکھو مصلحت الٰہی نے یہی چاہا کہ حضرت رسول کریمﷺ کی قبر پختہ گنبد ہو اور کئی بزرگوں کے مقبرے پختہ ہیں مثلاً نظام الدین ، فرید الدین ، قطب الدین ،معین الدین رحمۃاللہ علیھم‘‘

(الحکم 17 مئی 1901 ء صفحہ 12 )

ختم وغیرہ کے متعلق ایک سوال

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں

’’خدا تعالیٰ کے پاک کلام قرآن کو ناپاک باتوں سے ملاکر پڑھنا بے ادبی ہے وہ تو صرف روٹیوں کی غرض سے مُلاّں لوگ پڑھتے ہیں ۔اس ملک کے لوگ ختم وغیرہ دیتے ہیں تو مُلاّں لوگ لمبی لمبی سورتیں پڑھتے ہیں کہ شوربا اور روٹی زیادہ ملے ۔ وَلا تَشْتَرُوْا بِاٰ یٰتِیْ ثَمَناً قَلِیْلاً یہ کفر ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 158 )

مردے کے لیے دعایا صدقہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں

’’اس ترقی کی ایک یہ بھی صورت ہے کہ جب مثلاً ایک شخص ایمان اور عمل کی ادنیٰ حالت میں فوت ہوجاتاہے تو تھوڑی سی سوراخ بہشت کی طرف اس کے لیے نکالی جاتی ہے ۔ کیونکہ بہشتی تجلی کی اس قدر اس میں استعداد موجود ہوتی ہے ۔ پھر بعد اس کے اگر وہ اولاد صالح چھوڑ کر مرا ہے جو جدوجہد سے اس کے لیے دعا ء مغفرت کرتے ہیں اور صدقات و خیرات اس کی مغفرت کی نیت سے مساکین کو دیتے ہیں یا اسے ایسے کسی اہل اللہ سے اس کی محبت تھی جو تضرعات سے جناب الٰہی سے اس کی بخشش چاہتا ہے یا کوئی ایساکوئی خلق اللہ کے فائدہ کا کام وہ دنیا میں کرگیا ہے جس سے بندگانِ خدا کو کسی قسم کی مدد یا آرام پہنچا ہے تو اس خیر جاری کی برکت سے وہ کھڑکی اس کی جو بہشت کی طرف کھولی گئی دن بدن اپنی کشادگی میں زیادہ ہوتی جاتی ہے اور سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ عَلٰی غَضَبِیْکا منشا ء اس کو اور بھی زیادہ کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ کھڑکی ایک بڑا وسیع دروازہ ہوکر آخر یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ شہیدوں اور صدیقوں کی طرح وہ بہشت میں ہی داخل ہوجاتا ہے ۔ اس بات کو سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بات شرعاً اور انصافاً و عقلاً بے ہودہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ اب اور ثواب اور اعمال صالح کی بعض وجوہ اس کے لیے کھلی رہیں مگر پھر بھی وہ کھڑکی جو بہشت کی طرف اس کے لیے کھولی گئی ہے ہمیشہ اتنی کی اتنی ہی رہے جو پہلے دن کھولی گئی تھی۔‘‘

(ازالہ اوہام صفحہ نمبر 285)

میّت کے لیے قُل

سوال میّت کے قل جو تیسرے دن پڑھے جاتے ہیں ان کا ثواب اسے پہنچتا ہے یا نہیں ۔?

جواب ’’قل خوانی کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے۔ صدقہ ،دعا اور استغفار میّت کو پہنچتی ہے ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ملانوں کو اس سے ثواب پہنچ جاتا ہے ۔ سو اگراسے ہی مردہ تصور کر لیا جاوے اورواقعی ملاّ لوگ روحانیت سے مردہ ہی ہوتے ہیں تو ہم مان لیں گے۔ ہمیں تعجب ہے کہ یہ لوگ ایسی باتوں پر امید کیسے باندھ لیتے ہیں ۔ دین تو ہم کو نبی کریمﷺ سے ملا ہے ۔ اس میں ان باتوں کا نام تک نہیں ۔ صحابہ کرام ؓ بھی فوت ہوئے کیا کسی کے قل پڑھے گئے ۔صد ہا سال کے بعد اور بدعتوں کی طرح یہ بھی ایک بدعت نکل آئی ہوئی ہے ۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 605 )

میّت کے صدقے کے متعلق

سوال ایک شخص نے سوال کیا کہ میّت کے ساتھ جو لوگ روٹیاں پکا کر یا اور کوئی شے لے کر باہر قبرستان میں لے جاتے ہیں اور میّت کو دفن کرنے کے بعد مساکین میں تقسیم کرتے ہیں اس کے متعلق کیا حکم ہے ۔

فرمایا’’ سب باتیں نیت پر موقوف ہیں اگر یہ نیت ہو کہ اس جگہ مساکین جمع ہوجایا کرتے ہیں اور مردے کو صدقہ پہنچ سکتاہے ادھر وہ دفن ہو، ادھر مساکین کو صدقہ دے دیا جاوے تاکہ اس کے حق میں مفید ہو اور وہ بخشا جاوے تو یہ ایک عمدہ بات ہے لیکن اگر صرف رسم کے طور پر یہ کام کیا جاوے تو جائز نہیںہے کیونکہ اس کا ثواب نہ مردے کے لیے اور نہ دینے والوں کے واسطے اس میں کچھ فائدے کی بات ہے ۔ ‘‘

(البدر 16 فروری 1906 ء صفحہ 2 )

مُردہ کی فاتحہ خوانی

سوال کسی کے مرنے کے بعد چند روز لوگ ایک جگہ جمع رہتے اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ فاتحہ خوانی ایک دُعا مغفرت ہے ۔ پس اس میں کیامضائقہ ہے؟

جواب فرمایا’’ہم تو دیکھتے ہیں کہ وہاں سوائے غیبت اور بے ہودہ بکواس کے اور کچھ نہیں ہوتا ۔ پھر یہ سوال ہے کہ آیا نبی کریم ﷺ یا صحابہ کرام وائمہ عظام میں سے کسی نے یوں کیا۔جب نہیں کیاتو کیاضرورت ہے۔خواہ مخواہ بدعات کادروازہ کھولنے کی ۔ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں ۔ناجائز ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 213-214 )

فاتحہ خوانی

ایک مرتبہ سوال کیاگیا کہ احمدی حضرات کسی غیر احمدی کی وفات پر جاکر فاتحہ خوانی کیوں نہیں کرتے؟

اس کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ہم ہر مسلمان کی وفات پر اظہار ہمدردی کرتے ہیں ۔ان کے گھر جاتے ہیں…فاتحہ خوانی جس کو آپ کہتے ہیں ہمیں اس فاتحہ خوانی کے لفظ سے اختلاف ہے۔فاتحہ خوانی کی اصطلاح آنحضرت ﷺ یا خلفائے راشدین کے زمانے میں کہیں نہیں ملتی۔ایک بھی حدیث آپ ایسی پیش نہیں کرسکتے۔نہ قرآن کریم میں سے دکھا سکتے ہیں کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمان دوسروں کے گھر جاکر جن کے گھروفات ہوئی ہو ہاتھ اٹھا کر فاتحہ خوانی کی ہو۔ہم آپ کو یہ سمجھاتے ہیں کہ اسلام میں نئی رسمیں نہ چلائیں۔حضور اکرمﷺ کا دین ہی کافی ہے۔ اسلام وہی حسین اسلام ہے جو سنّت سے ثابت ہے اس سے باہر جب بھی قدم رکھیں گے رسم ورواج میں پڑ جائیں گے۔

سوال کرنے والے نے کہاکہ ہمارے بزرگوں نے جو ہمیں بتایا۔وہ زیادہ اسلام جانتے تھے یانہیں جانتے تھے کہ اس کی ابتدا کب اور کیوں ہوئی؟اس میں نقص کیا ہے؟

حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’نقص یہی ہے کہ جو چیز سنت سے زائد ہو وہ اسلام نہیں ہے ‘‘۔

سوال کرنے والے نے پھر کہا کہ کیاہمارے بزرگ غلط تھے؟

حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ کیا محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ غلط تھے ؟ کیا عجیب بات آپ کرتے ہیں۔ سوال کرنے والے نے پھر پوچھا کہ کیا یہ رسم ہے؟حضو رنے فرمایا ہاں یہ رسم ہے ۔ہر وہ چیز جو سنت نہیں وہ رسم ہے۔جو رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ سے ثابت نہ ہو وہ رسم ہے۔رسمیں اچھی بھی ہوسکتی ہیں اور بُری بھی ہوسکتی ہیں لیکن سنت نہیںبن سکتیں۔اصل بات یہ ہے کہ جب پرانے بزرگ ہندستان میں تشریف لائے تو وہاں بے انتہا جہالت تھی ۔ ہندو مذہب کی وجہ سے بد رسوم بے حد رائج تھیں۔زبان کے اختلاف کی وجہ سے اور دوسرے مسائل کی وجہ سے وہ کسی بہانے سے ان کو کم سے کم دینی تعلیم دینا چاہتے تھے۔اس کی وجہ سے کئی چیزیں نیک نیتی سے داخل ہوئی ہوئی ہیں لیکن بعد میں رسمیں بن گئیں ۔ مثلاً سورۃ فاتحہ کا سکھانا اور فاتحہ کو بطور دعا کے پڑھانا۔

فرمایا مجھے یقین ہے کہ اسی طرح انہوں نے شروع کیا ہوگا اور کہا ہوگا کہ جب تم کسی بزرگ کے لیے یا کسی فوت شدہ کے لیے دعا کرتے ہو تو چونکہ سورۃ فاتحہ کامل دعا ہے یہ چھوٹی سی دعا تم سیکھ لو،تمھیں عربی نہیں آتی یہ ہر جگہ کا م آئے گی۔اور نماز میں بھی کام آئے گی۔چنانچہ کم علمی کی بناء پر ہندوئوںکی تعلیم وتربیت کی خاطر ہمارے صوفیاء اور بزرگوںنے یہ طریق اختیار کیااور جب اسلام زیادہ پھیل گیا۔جب اسلام کی تعلیم عام اور روشن ہوگئی توان کو سنت کی طرف واپس لے جاتے اور یہی کوشش ہم کررہے ہیں۔ اس کے سوا چالیسواں ہے، گیارہویں ہے، شیرینیاں بانٹنا ہے، وفات کے بعد کھیریں تقسیم کرنا ہے، کھانے دینے ہیں ۔ اتنے جھگڑے ہیں جن کا کوئی وجود قرون ِ اولیٰ کے اسلام میں نہیں ملتا ۔ اور یہ توجذباتی بات ہے کہ ہمارے بزرگ غلط نہیں ہوسکتے۔یہ تو ایسی بات ہے جیسے قرآن کریم بار بار کہتا ہے کہ اسلام کے مخالف یہ کہاکرتے تھے کہ کیا ہمارے بزرگ غلط تھے۔ قرآن فرماتا ہے کہ تمہارے بزرگ کیوں غلط نہیں ہوسکتے۔ صرف وہی غلط نہیں جس پر الہام نازل ہوتاہے۔وہی درست ہوتا ہے جس کو خدا روشنی عطافرماتاہے۔اس میں اختلاف کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آتی۔ مَیں تو آپ کو یہ پیغام دیتا ہوں اور جماعت احمدیہ یہ پیغام دیتی ہے کہ ہمارے لیے سنت کافی ہونی چاہیے کیونکہ سنت میں مذہب کی تکمیل ہوگئی۔ حسن کامل میں نہ اضافہ ہوسکتاہے اور نہ اس میں کمی ہوسکتی ہے۔اس لیے بعد کی رسموں نے ہمیں نقصان پہنچایاہے۔ اسلام سے رفتہ رفتہ ہم دور اس لیے گئے ہیں کہ بعد میں جو رسمیں جاری کی گئیں خواہ نیک نیّتی سے جاری کی گئی تھیں ہم ان کو خالی برتنوں کی طرح لے کر بیٹھ گئے ہیں۔اس لیے رسم ورواج سے باہر نکلیں سنت کوقائم کریں۔قرونِ اولیٰ کے اسلام کی طرف واپس جائیں۔ بیاہ شادی میں سادگی (اختیار) کریں۔موت اور تدفین میں سادگی کریں۔یہ سارے بوجھ آپ سے اتر جائیں گے جو بلاوجہ پڑے ہوئے ہیں۔

فرمایا رسول اکرم ﷺ کی سنّت تھی کہ نماز جنازہ پڑھتے تھے اور دعا کرتے تھے اور ایک دوسرے سے ہمدردی کرتے تھے۔ہم بھی یہی کرتے ہیں۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

سوال کرنے والے دوست نے کہا کہ فاتحہ خوانی توہے ہی دعا۔اس پر حضو ر نے فرمایاکہ دعا کی خاطر سورۃ فاتحہ ہم بھی پڑھ لیتے ہیں لیکن مَیں تو رسم کے خلاف ہوں ۔ جب کہیں تعزیت کے لیے جاتے ہیں اور مَیں کئی دفعہ گیا ہوں ۔ایک آدمی ہاتھ اُٹھاتا ہے۔ سارے ہاتھ اُٹھا لیتے ہیں ۔یہ کوئی فاتحہ خوانی ہے؟ یہ غلط طریقہ ہے ۔فاتحہ کی دعا معنی خیز ہے۔دعا میں دل حرکت کرتا ہے تو دعا قبول ہوتی ہے۔ دعا کوئی رسم تونہیں ۔ فاتحہ کے معنی آنے چاہئیں۔ انسان سوچ سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی صفات میں ڈوب کر اس سے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کی التجا کرے۔اس پہلو سے دعا کے طور پر فاتحہ پڑھنا ہرگز منع نہیں ۔ لیکن یہ جو رسم بنی ہوئی ہے کہ ضرور پڑھو اور دیکھا دیکھی پڑھواور جب بھی کوئی آدمی جائے تو ایک آدمی ہاتھ اُٹھائے سارے اُٹھالیں۔یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔اس کی اسلام میں کوئی سند نہیں۔یہ اسلام کے ساتھ تمسخر ہے ۔ اس لیے ہم آپ سے یہ گذارش کرتے ہیں کہ ہم سے ناراض ہونے کی بجائے آپ اپنی اصلاح کریں۔ آخر اس دین میں حرج کیا ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ نے عملاً کرکے دکھایا تھا۔ وہ ہمارے لیے کیوں کافی نہیں ہوناچاہیے۔‘‘

(ماہنامہ اخبار احمدیہ لندن اپریل 1992 ء صفحہ 4 بحوالہ ماہنامہ مصباح جولائی ،اگست 2009 ء صفحہ 108 تا 110)

ختم یا قُل وغیرہ کا کھانا

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا ’’ہمارے ہمسائے ختم یا قُل وغیرہ کرواتے ہیں اور کھانے پینے کی چیزیں وہ اس طرح تقسیم کرتے ہیں بقول ان کے کہ نہ تو وہ صدقہ ہوتے ہیں نہ خیرات ۔ نہ ہی اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر وہ چیزیں پکائی جاتی ہیں ۔ان حالات میں ان اشیاء کو قبول کرکے کھالینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟‘‘

حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا ’’یہ تو بڑا خطرناک اور لپیٹ کرکیا ہوا سوال ہے۔اس کے اندر ایسے نکات ہیں کہ ان کو نظر انداز کریں گے تو کئی قسم کی جماعت میں رسمیں پھیل جائیں گی۔ہم نے ان رسوم کے خلاف جہاد کیاہے اور کرتے رہیں گے ۔یہ جتنی رسمیں آپ نے بیان فرمائی ہیں یہ تمام وہ ہیں جن کا کوئی وجود حضرت اقدس محمد مصطفٰی ﷺ کے زمانہ میں نہیں تھا۔نہ آپ کے خلفاء کے زمانہ میں تھا۔خلفاء راشدین کے زمانہ میں۔ نہ ان صدیوں میں پایا جاتا ہے جو روشن صدیاں ہیں۔پس یہ کہنا کہ کھانا خداکے سوا کسی اور کے لیے نہیں کیاجارہا اس لیے حرام نہیں ہے یہ الگ بات ہے ،حرام حلال کی بحث کو سردست ایک طرف رکھیں یہ سوال ہے کہ کیا ان رسموں کے خلاف جماعت احمدیہ نے جہاد کرتے رہنا ہے یا چھوڑ دینا ہے ۔ اگر جہاد کرنا ہے تو ان کا کھانا کھا کر اس جہاد کے خلاف پھر کوشش شروع کرنے والی بات ہوجائے گی۔اب یہ جہاد سے متصادم رجحانات پیدا کرنے کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوگا۔اب ایک طرف وہ ان کو کہیں گے کہ بہت بری بات ہے ۔دوسری طرف اس بری بات کے نتیجہ میں آپ کو کھانے کو کچھ مل جائے تو کھالیں۔ یہ بہت گھٹیا بات ہے ۔آپ ان سے کہیں کہ ہم اس وجہ سے اس کو جائز نہیں سمجھتے ۔مناسب نہیں سمجھتے کہ آنحضرت ﷺ کے قائم کردہ معاشرہ میں ان چیزوں کو وجود نہیں تھا۔ہمیں دین کی پاکیزہ نورانی اصلیت کی طرف لوٹنا چاہیے ۔ لیکن اگر وہ غیراللہ کے نام پر نہیں ہے جبکہ بسا اوقات ہوتا ہے اور وہ تفریق کرنا احمدیوں کے لیے عامۃ الناس کے لیے بہت مشکل ہوجائے گا۔ اس لیے ویسے بھی اجازت نہیں دینی چاہیے ۔ لیکن اگر وہ غیراللہ کے نام پر نہیں ہے تو آپ کو حرام کہنے کا حق نہیں ہے۔یہ دو الگ الگ باتیں ہیں۔ان کو کھول کر سمجھ لیں۔ان باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔جو شرطیں آپ نے بیان کی ہیں اگر وہ واقعۃً درست ہیں،سو فیصدی درست ہیں ،ان میں شک ہے کہ یہ درست ہیں ۔ کیونکہ اکثر اوقات مجھے پتا ہے کہ بعض پیروں فقیروں کے نام پر چڑھایا جاتا ہے جو غیراللہ کی طرف چیزیں بھیجنے کے مترادف ہے ۔ان کی رضا کی خاطر نہ کہ اللہ کی رضا کے لیے تو اس لیے اس بحث کو چھوڑتے ہوئے اگر یہ درست ہے تو ایسے کھانے کو حرام نہیں کہا جاسکتا۔مگر عقل کے خلاف ہے اس کو قبول کرکے کھانا۔کیونکہ آپ نے جو پاک غرض کی خاطر ایک مہم شروع کی ہے۔دین کو ہر پہلو سے اس کی اصلیت کی طرف لوٹاکر اسی کے مطابق دین پر عمل کیاجائے ۔ یہ اس مہم کی روش کے اس کے رُخ کے خلاف بات ہوگی۔‘‘

(مجلس عرفان 4 نومبر 1994 ء ۔ روزنامہ الفضل 4دسمبر2002 ء )

مُردہ پر نوحہ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں-

’’ماتم کی حالت میں جزع فزع اور نوحہ یعنی سیاپا کرنا اور چیخیں مار کر رونااور بے صبری کے کلمات زبان پرلانا یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کے کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ سب رسمیں ہندوئو ں سے لی گئی ہیں ۔ جاہل مسلمانوں نے اپنے دین کو بھلا دیا اور ہندوئوں کی رسمیں اختیار کرلیں ۔ کسی عزیز اور پیارے کی موت کی حالت میں مسلمانوں کے لیے یہ حکم قرآن شریف میں ہے کہ صرف اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِناَّ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہیں یعنی ہم خدا کا مال اور ملک ہیں ۔ اسے اختیار ہے جب چاہے اپنا مال لے لے اور اگر رونا ہو توصرف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے اور جو اس سے زیادہ کرے شیطان ہے۔ برابر ایک سال تک سوگ رکھنا اور نئی نئی عورتوں کے آنے کے وقت یا بعض خاص دنوں میں سیاپا کرنا اور باہم عورتوں کا سر ٹکراکر چلانا رونا اور کچھ کچھ منہ سے بھی بکواس کرنااور پھر برابر ایک برس تک بعض چیزوں کا پکا ناچھوڑ دینا اس عذر سے کہ ہمارے گھر میں یا ہماری برادری میں ماتم ہوگیا ہے یہ سب ناپاک رسمیںاور گناہ کی باتیں ہیں جن سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ ‘‘

(فتاوٰی حضرت مسیح موعود ؑ صفحہ103 بحوالہ فقہ احمدیہ صفحہ264)

وفات کے موقع پر غیراحمدی مسلمانوں میں رائج بعض دیگر رسومات

مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں وفات سے متعلقہ پائی جانے والی رسوم کاجائزہ منگوایا ۔ موصول ہونے والی رسوم کی فہرست ذیل میں درج کی جارہی ہے تاکہ ہم ان سے آگاہی حاصل کرکے بچنے کی بھر پور کوشش کریں ۔ان میں سے بعض رسمیں بعض علاقوں کے ساتھ مخصوص ہیںاور بعض ملک گیر سطح پر پائی جاتی ہیں۔

-1 میّت پر بہت زیادہ رویاجاتا ہے۔چیخ چلا کر ماتم کیاجاتاہے۔

-2 سوئم کی رسم کرتے ہیں۔

-3 دسویں کی رسم کرتے ہیں۔

-4 ہرجمعرات کو دیگ پکاتے ہیں۔

-5 نیاز کرتے ہیں۔

-6 وفات کے ایک سال تک گھر میں کسی قسم کی خوشی نہیں مناتے۔

-7 بیوہ عورتوں کی شادی نہیں کی جاتی۔

-8 رسم اوچھاڑ پائی جاتی ہے۔جس میں 7 کپڑے دیے جاتے ہیں ۔کچھ اوپر ڈال دیتے ہیں کچھ ساتھ رکھ دیتے ہیں ۔یا اس کے گھر والوں کو اتنی رقم دیتے ہیں ۔ یہ اوچھاڑ دفنانے کے بعد کمہار کے سپرد کردیتے ہیں ۔اور وارث کے پاس رہتی ہے۔

-9 وفات کے بعد تین دن لوگ آتے رہتے ہیں ۔فاتحہ خوانی کرتے ہیں اور نیوندرا بھی لکھواتے ہیں۔

-10 دفنانے کے بعد اگلی صبح قبر پر جاکر قرآن خوانی کرتے ہیں۔

-11 مرنے والے کی بیوہ 4 ماہ 10 دن تک نہ کسی کی شکل دیکھے گی نہ گھر سے باہر نکلے گی۔

-12 مرنے کے بعد پہلا جمعہ پھر کئی جمعراتیں مولوی صاحب کو خیرات بھجوائی جاتی ہے۔جسے ارواح دیناکہتے ہیں۔

-13 کئی روز تک مولوی مرنے والے کے گھر جاکر درود شریف پڑھتاہے ۔اور ان کے کھانے پر ارواح بھیجی جاتی ہیں۔

-14 ستواں اور دسواں کے موقع پر طالب علم آکر قرآن خوانی کرتے ہیں۔

-15 مرنے والے کے گھر پہلی عید یا پہلے محرم کے بعد دوبارہ وہی وفات کی رسومات ہوجاتی ہیں۔

-16 اس کے گھر والے کئی سال تک کسی شادی میں شریک نہیں ہوتے۔شادی کی روٹی اُن کے گھر پہنچائی جاتی ہے۔

-17 محرم کی آٹھ تاریخ کو قبروں کی لپائی کرتے ہیں۔

-18 ہرجمعرات کو قبر پر اگر بتیاں اور دیے جلاتے ہیں۔

-19 وفات کی برسی مناتے ہیں۔

-20 شب برات کو قبرستان میں چراغاں کرتے ہیں۔

-21 قل خوانی میں رشتہ دار دوست احباب نیوندرا کی شکل میں پیسے دیتے ہیں۔ قُل خوانی کے موقع پر مصلّے، تسبیح، لوٹا، کپڑے، برتن وغیرہ مولوی کو دیتے ہیں۔ سات رنگ کے فروٹ اور دودھ کا گلاس ارواح دی جاتی ہیں تاکہ میّت کے پاس یہ چیزیں پہنچ جائیں۔

-22 گیارہویں شریف ،پیر عبدالقادر جیلانی ؒکی یاد میں دودھ اور مختلف قسم کے کھانے پکا کر تقسیم کئے جاتے ہیں۔

-23 جنازہ پڑھنے کے بعد امام کے ساتھ مل کر دعا کرتے ہیں۔پھر میّت کو قبر میں ڈالنے کے بعد پتھر یامٹی کے ڈھیلے پر قل شریف پڑھ کر کمہار کو دے دیتے ہیں کہ میّت کے چہرے کے پاس رکھ دیے جائیں۔اور ایک عہد نامہ میّت کے دائیں طرف لکڑی میں پھنسا کر دیوار میں لٹکایا جاتاہے یا کفن کے اندر میّت کے سینے پر رکھا جاتا ہے۔ قبرستان سے باہر آکر ایک شخص اذان دیتاہے۔

-24 اہل تشیع قبر میں جب میّت کو اتارتے ہیں تو شیعہ ذاکر میّت کے پائوں کی طرف کھڑے ہوکر مجلس کرتا ہے۔ پھر سرہانے کی طرف آجاتاہے۔میّت کے سینے پرکفن کے اندر عہد نامہ اور علَم رکھتے ہیں۔ قبر تیار کرکے دعا اورپھر رسمی طور پر گھر آکر خیرات کی جاتی ہے۔قُل خوانی کے لیے امام باڑوں میں مجلس کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اور اعلان ہوتاہے کہ قُل خوانی کا کھانا میّت کے مکان پر جاکر کھائیں۔کھانا کھانے کے بغیر کسی نے نہیں جانا۔ اگر کھانا کھانے کی گنجائش نہیں تو پانچ منٹ اس کے گھر ضرور بیٹھے گا۔

-25 وفات کے موقع پر جو لوگ تعزیت کرنے کے لئے آتے ہیں وہ ہاتھ اٹھا کر میّت کے لئے دعا مانگتے ہیں۔

-26 میّت کو قبرستان لے جاتے وقت راستے میں نعتیں پڑھی جاتی ہیں۔

-27 میّت کے کان میں اڑھائی پارے پڑھ کر پھونکا جاتاہے ۔کہاجاتاہے کہ یہ مردے کی راہداری بنائی گئی ہے۔

-28 قبروں کو سجدہ کیاجاتاہے۔

-29 کفن کے بعض حصوں پر قرآنی آیات لکھی جاتی ہیں۔

-30 فاتحہ خوانی کی مجلس میں کھجوروں کی گٹھلیاں رکھ دی جاتی ہیں۔انہیں گن گن کر ورد کیاجاتاہے ۔

-31 چالیس دن تک مولوی کے گھر روٹی بھیجی جاتی ہے۔

-32 لڑکی کا سسر یاساس فوت ہونے پر لڑکی کے والدین لڑکی کو لاہا دیتے ہیں۔جو کہ کپڑوں یانقدی کی صورت میں ہوتاہے۔

-33 جنازہ لے جانے کے وقت کلمہ شہادت پڑھا جاتاہے۔جنازے کو بار بار روک کر ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتے ہیں۔

-34 قبر پرکمرہ بنادیتے ہیں۔

-35 اگر کوئی بڑی عمر کا فوت ہو تو اس کے لیے وڈّا کرنے کی رسم کرتے ہیں اس میں دیگررشتہ دار اس میّت کی اولاد کے سوٹ لے کر جاتے ہیں۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button