سقوط بغداد اور اہل حدیث علماء کا کردار

(’ابن صدیق‘)

اگر مسلمانوں کی تکلیف دہ اور ابتری کی حالت کا حقیقی رنگ میں کسی کو دکھ اور درد تھا تو وہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی ہی ذات تھی

جماعت احمدیہ پر سیاسی نوعیت کا ایک بے بنیاد الزام لگایا جاتا ہے کہ احمدیوں نے حکومت برطانیہ کی ناجائز طرفداری کرتے ہوئے جنگ عظیم اول میںسلطنت عثمانیہ کی شکست پرخوشی کا اظہار کیا تھا۔ چنانچہ اس الزام کو اہل حدیث فرقہ سے تعلق رکھنے والے رسالہ ’’الاعتصام‘‘ میں مولوی داؤد ارشد صاحب نےکئی پرانے گھسے پٹے الزامات کے ساتھ ایک مرتبہ پھر دہرایا ہے۔ مخالفین کے اس الزام کا جائزہ لینے سے پہلے ہم اس الزام کا پس منظرقارئین کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔

سنہ 1916ء میں جنگ عظیم اول اپنے عروج پر تھی۔ آسٹریا کے آرچڈیوک فرانس فرڈیننڈ اور اس کی بیوی کے قتل سے شروع ہونے والی دو ملکوں کی لڑائی نے یورپ کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ سلطنت عثمانیہ، جس کا بظاہر اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہ تھا،اب کئی محاذوں پر برطانیہ اور اس کے اتحادیوں سے بر سرپیکار تھی۔ عربوں کی بغاوت، معاشی بدحالی،جنگی حکمت عملی کا فقدان، ملکی نظم و نسق پر کمزور پڑتی گرفت اور ان جیسے دیگر عوامل کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ روز بروز تنزلی کا شکار ہورہی تھی۔

سقوط بغداد سے قبل1916ء کا سال دولت عثمانیہ کے لیےاس لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ سلطنت عثمانیہ نے پے در پے ناکامیوں کے بعد ’’کوت ‘‘کے مقام پر ایک خونریز معرکہ کے بعد برطانوی افواج کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا تھا۔ برطانوی مصنف اور تاریخ دانChristopher Catherwoodکے مطابق برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ عظیم اول کے کسی بھی محاذ پر یہ بدترین شکست تھی۔

(The Battles of World War I, by Christopher Catherwood, pg 95)

معرکہ ’’کوت‘‘ کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق برطانوی فوج کے 23 ہزار اہلکار مارے گئے جن میں سے دو تہائی افراد کا تعلق صرف ہندوستان سے تھا، اور ان میں ایک بڑی تعداد ہندوستانی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔مزید 4 ہزار فوجی قید کے دوران گرمی، تشدد، بھوک اور دیگر وبائی امراض کا شکار ہوگئے۔ ایسے میں برطانیہ کو جنگ کے میدان میں افرادی قوت کی شدید ترین کمی کا سامنا تھا۔ جس کو پورا کرنے کے لیے برطانوی حکومت نے فوج کے لیے جبری بھرتیوں کا قانون پاس کیا۔

ان حالات و واقعات کے تناظر میں خاص طور پر ہندوستان کے اہل حدیث فرقہ سے تعلق رکھنے والے چوٹی کے علماء کہاں کھڑے تھے؟ آیا وہ سلطنت عثمانیہ کی ان تازہ بتازہ فتوحات پر مٹھائیاں تقسیم کرتے دکھائی دیتے تھے یا پھر برطانوی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کا موجب بن رہے تھے؟

پنجاب کے شہر امرتسر سے مولوی ثناء اللہ امرتسری کی ادارت میں چھپنے والے رسالہ ’’اہلحدیث‘‘ نے برطانیہ کی ان جبری بھرتیوں کے قانون کو کس نظر سے دیکھا۔وہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’یہ تجویز پیش ہوکر قریب قریب اتفاق سے پاس ہوگئی کہ انگلستان کے 18 سال سے 41 سال تک کے جوان جبریہ بھرتی کئے جاویں۔ جو جنگی خدمات سر انجام دیں۔ اس کا نتیجہ بہت خوشگوار ہوا۔ کہ انگلستان کو دشمن کے مقابلہ کے لیے قریباً پچاس لاکھ جوان مہیا ہوگئے۔ جو بہت کارآمد ثابت ہوںگے۔اختیاری بھرتی میں ایسا ہونا مشکل تھا۔ چونکہ مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ جس قسم کے قوانینِ تمدن کوئی سلطنت بناوےگی۔ جو واقعہ میں مفید ملک اور مفید کار ہوں وہ قرآن شریف نے پہلے ہی بتلائے ہوںگے…قرآن مجید بتلاتا ہے: اے مسلمانوں جب اللہ کی راہ میں لڑنے کے لئے تم کو بلایا جاتا ہے۔ توتمہیں کیا ہوتا ہے۔ کہ تم زمین سے چپک جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کوچھوڑ کر اس دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو…یہ آیات قرآنیہ صاف طور پر جبریہ بھرتی کی تائید کرتی ہیںکہ مسلمانوں کو دشمن کے مقابلہ کے وقت شاہی اعلان کو بخوشی قبول کرنا فرض ہے۔ اور اس کے قبول کرنے میں کسی قسم کی لیت و لعل کرنا ہرگز جائز نہیں جس کو جبریہ بھرتی نہیں بلکہ رضائی خدمت کہنا زیبا ہے۔‘‘(ہفت روزہ رسالہ اہلحدیث امرتسر 28؍جوئی 1916ء صفحہ 1، 2)قارئین خوب اچھی طرح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش رہنے والے اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھنے والےمولوی صاحبان کس طرح حکومت برطانیہ کے حق میں قرآنی آیات کا بے دریغ استعمال کرتے نظر آتے تھے لیکن آج اسی مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء نے پینترا بدلا اوراپنے بزرگان کے ماضی پر پردہ ڈالنے کی خاطر جماعت احمدیہ کو ان الزامات کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ورنہ اس وقت تو جماعت احمدیہ کے مخالفین سلطنت برطانیہ کے احکامات کو عین قرآن مجید کے مطابق قرار دے کر انہیں خوش کر رہے تھے۔

مولوی داؤد ارشد صاحب کے ’’الاعتصام‘‘ میں چھپنے والے سلسلہ وار مضامین کے جواب میں ایک محترم ابو نائل صاحب نےقرآن و حدیث اور بزرگان سلف کے اقوال اور ناقابل تردید تاریخی واقعات کی روشنی میں مولوی صاحب موصوف کے الزامات کی قلعی کھول کر رکھ دی تھی۔مثلاً ابونائل صاحب نے اپنے مضامین میں مولوی محمد حسین بٹالوی، ثناءاللہ صاحب امرتسری اور مولوی داؤد غزنوی صاحب سمیت اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھنے والے چوٹی کے علماء پر مشتمل وفد کا برطانوی عہدہ داروں سے ملاقات اور انہیں ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرانے کا ذکر بھی کیا تھا لیکن مولوی داؤد ارشد صاحب نے اس کا جواب دینے سے اعراض کیا۔(قارئین الفضل انٹرنیشنل کے 27؍اگست تا 21؍ستمبر 2021ء کے شمارہ جات میں محترم ابو نائل صاحب کے ان مضامین سے استفادہ کر سکتے ہیں)

اسی طرح مولوی داؤد ارشد صاحب نے جماعت احمدیہ پر بے بنیاد الزام منسوب کرنے کی خاطرجھوٹ کا سہارا لیتے ہوئےاپنے 28؍ مئی 2021ء کے مضمون میں مارچ 1917ء میں وقوع پذیرہونے والے سقوط بغداد کا سنہ 1918ء بیان کیاہے۔ مولوی داؤد ارشد صاحب کی اس مذموم حرکت کا واحد مقصد یہ تھا کہ قادیان کے علاوہ دنیا بھر میں جنگ کے خاتمہ اور امن کے قیام پر جو خوشیاں منائی جارہی تھیں اس میں صرف و صرف احمدیوں کو ہی مطعون کیا جائے۔

لیکن کسی نے سچ کہا ہے کہ ’’دروغ رو را حافظہ نہ باشد‘‘ یعنی جھوٹے آدمی کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔چنانچہ وہی جھوٹ جس کی طرف محترم ابو نائل صاحب نے اپنے مضمون کی پہلی قسط میں نشاندہی کی تھی، اسی الزام کو بغیر تحقیق کے مولوی صاحب موصوف نے ’’الاعتصام‘‘ کے 26؍نومبر 2021ء کے شمارہ میں ایک مرتبہ پھر دہرا دیا۔ چنانچہ ایک مرتبہ پھراپنے جھوٹ کی ملمع سازی کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’جنگ عظیم اول میں جب بغداد پر انگریزوں کا قبضہ ہوا تو قادیانیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، ’’الفضل‘‘ نے رپورٹ شائع کی…‘‘لیکن اس کے بعد موصوف نے جو حوالہ دیا وہ 1917ء کے کسی اخبار کی بجائے ’’الفضل‘‘03؍ دسمبر 1918ء کا حوالہ تھا، جبکہ سقوط بغداد پر بیس ماہ یا دوسرے لفظوں میں چھ سو (600)سے زائد ایام کا عرصہ گزر چکا تھا۔

قارئین کو بتاتے چلیں کہ 3؍دسمبر 1918ء کے ’’الفضل‘‘ میں جنگ عظیم اول کے خاتمہ اور امن کے قیام پر قادیان میں چراغاں کی خبرشائع کی گئی تھی جس کو مولوی داؤد ارشد صاحب بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سقوط بغداد اور ترکوں کی شکست سے جوڑنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔

جیسا کہ ہم نے بتایا کہ جنگ کے خاتمہ اور امن کے قیام کی خوشیاں دنیا بھر میں منائی جارہی تھیں جن کا اظہارعام مسلمان بھی کر رہے تھے۔ چنانچہ سید سلمان ندوی کے ماہوار رسالہ ’’معارف‘‘ کے ایک شمارہ میں علامہ شبلی نعمانی کے تلمیذِ رشید مولوی عبد السلام ندوی صاحب نے برطانیہ کی فتح پر اپنی خوشی کا اظہار ان الفاظ میں کیا:’’خدا کا شکر ہے یہ جہانسوز جنگ ختم ہوگئی، دنیا کے تمام کاروبار کے ساتھ علوم و فنون کی گرم بازاری پر بھی اس کا نہایت مضر اثر پڑتا اس لئے ہم خصوصیت کے ساتھ اس خونریزی کے انسداد پر مسرور ہیں۔ ہم جس گورنمنٹ کے زیر سایہ امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں، اس کی حدود سلطنت میں فتح کا جو نقارہ بج رہا ہے ہم بھی اپنی مبارکباد کی صدا کو اس میں شامل کرتے ہیں۔‘‘(رسالہ معارف مرتبہ سید سلمان ندوی، نمبر 5، جلد 3 صفحہ 226)اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھنے والے مولوی داؤد ارشد صاحب جماعت احمدیہ کی نفرت اور ترکوں سے بناوٹی محبت میں آج تو دیوانے ہوتے جارہے ہیں لیکن حقائق کو دیکھا جائے تو ایک اندازے کے مطابق جنگ عظیم اول کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ کےسات لاکھ سے زائد فوجی جوان اوربڑے بڑے جرنیل جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان لاکھوں ترک فوجیوں اور افسروں میں سے کسی ایک کی وفات کی خبر پر رسالہ ’’اہلحدیث‘‘ کو افسوس کے اظہار کا موقع نہ مل سکا۔ لیکن اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ کسی ایک برطانوی افسر کی ہلاکت پر بھی جماعت احمدیہ کے مخالف رسالہ ’’اہلحدیث‘‘ کے دفتر میں صف ماتم بچھ جاتی تھی۔مثلاًسلطنت عثمانیہ کے خلاف مختلف محاذوں پر کامیابیاں سمیٹنے والے برطانیہ کے وزیر جنگ لارڈ کیچنر جب ایک حادثہ میں ہلاک ہوگئے توان کی وفات کی خبر کواسی رسالہ ’’اہلحدیث‘‘نےہفتہ کا سب سے افسوسناک واقعہ قرار دیتے ہوئےکہا:’’اس ہفتہ کا سب سے اہم اور نہایت رنجیدہ واقعہ ہمارے انگلستان کے وزیر جنگ لارڈ کیچنرکی وفات ہے۔‘‘(ہفت روزہ رسالہ اہلحدیث امرتسر 16؍جون 1916ء)اسی طرح ’’اہلحدیث ‘‘ کے ایک اور شمارہ میں وائسرائے ہندکے بیٹے کی عراق میں وفات کی خبر ان الفاظ میں دی گئی:’’اس ہفتہ کی سب سے افسوسناک خبر ہمارے وائسرائے بہادر کے سب سے بڑے صاحبزادے کی وفات کی خبر ہے۔ جو عراق عرب کی لڑائی میں زخمی ہوکر فوت ہوئے ہیں۔‘‘(ہفت روزہ رسالہ اہلحدیث امرتسر 11؍مئی 1917ء)

محترم ابو نائل صاحب نے اپنے مضامین میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سمیت مختلف علمائے اہل حدیث کے گورنمنٹ برطانیہ کی تائید اور خوشامد میں دیے گئے بہت سے اقوال و بیانات نقل کیے۔ مولوی داؤد ارشد صاحب کے لیےممکن نہ تھا کہ وہ ان بیانات کی تردید کر سکتے اس لیے انہوں نے اس کا جواب دینے سے راہ فرار اختیار کرنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔لیکن مولوی صاحب موصوف کے لیےیہ ممکن نہ تھا کہ وہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور گورنمنٹ انگریزی کے گہرے تعلق کو نظر انداز کرتے چنانچہ انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو علمائے اہلحدیث کی صف سے خارج کرنے کی ایک آخری کوشش کی اور اہل حدیث مسلک کے ایک اور چوٹی کے عالم دین مولوی عبد اللہ شاہجہان پوری صاحب کی زبانی ان کی ’’وقعت‘‘ اور حیثیت واضح کردی۔ لیکن یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ مولوی داؤد ارشد صاحب اپنے مسلک کے بزرگ عالم دین یعنی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی رسوائی کا باعث بنتے ہوئے اپنی اس جستجو میں نا دانستہ طور پر ایک مرتبہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے 1880ء کے اس عظیم الشان الہام کے پورا کرنے والے بن گئے کہ ’’اِنِّی مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ‘‘ یعنی میں ہر اس شخص کو ذلیل و رسوا کروں گا جو تیری توہین کا ارادہ کرے گا۔ مولوی عبداللہ شاہجہان پوری مولوی محمد حسین بٹالوی کے متعلق یوں گویا ہوتے ہیں:’’وقعت مولوی (محمد حسین بٹالوی) صاحب کی جب سے علماء کے نزدیک کم ہوئی ہے جب انہوں نے بعض رسائل و مسائل (’’الاقتصاد‘‘ کی طرف اشارہ ہے) خلاف قرآن و حدیث و اجماع امت کے لکھ کر شائع کئے تھے۔‘‘(شفاء للناس، صفحہ 6، طبع مطبع الانصاری دہلی 1309ھ بحوالہ رسالہ الاعتصام، 10 تا 16 دسمبر 2021ء، صفحہ18، کالم 2)بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی سے دو قدم آگے بڑھ کر مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری حکومت برطانیہ کی کاسہ لیسی کرتے نظر آتے ہیں۔سقوط بغداد اور جنگ عظیم اول میں سلطنت برطانیہ کی فتح عظیم کے کچھ عرصہ بعد 1921ءمیں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے ایک رسالہ تحریر کیا جس کا عنوان تھا ’’شاہ انگلستان اور مرزا قادیان‘‘۔ اپنے اس رسالہ میں مولوی صاحب موصوف نے جماعت احمدیہ اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی المسیح الموعود علیہ السلام کے خلاف خوب زہر اُگلا۔ قارئین کو جان کر حیرانی ہوگی کہ اس زہر افشانی کی وجہ بیان کرتے ہوئے ایسا کوئی بہتان نہیں باندھا جارہا تھا کہ جماعت احمدیہ برطانوی سامراج کی پیداوار یا پھر انگریزوں کی ایجنٹ ہےبلکہ ان الزامات کے برعکس مولوی ثناء اللہ صاحب شاہ انگلستان کی آمد کو ’’خدائی حکمت‘‘ اور معاذ اللہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے جھوٹا ہونے کی علامت کے طور پر پیش کر رہے ہیں چنانچہ مولوی صاحب اپنے اس رسالہ کے سرورق پر تحریر کرتے ہیں:’’(اس رسالہ میں) ثابت کیا گیا ہے کہ جارج پنجم شاہ انگلستان کا دربار دہلی میں تشریف لانا خدائی حکمت میں مرزا صاحب قادیانی کی تکذیب کے لئے تھا۔‘‘

آگے چل کر مولوی ثناء اللہ صاحب کاسہ لیسی اور خوشامد کی انتہاء کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’خدا تعالیٰ نے اپنی مخفی مصلحت سے دنیا کا سب سے بڑی شان و شوکت کا آدمی جو نہ صرف ہم ہندوستانیوں کا بلکہ دیگر بہت سے ممالک کا بادشاہ ہےیعنی جارج پنجم شاہ انگلستان و قیصر ہند کو ہندوستان میں اس غرض کے لئے بھیجا کہ ہندوستان کے لوگوں کو عموماً اور مرزا صاحب کے معتقدین کو خصوصاً اعلان کر دے کہ مرزا صاحب کا دعویٰ الہام غلط بلکہ کذب ہے۔‘‘(رسالہ شاہ انگلستان اور مرزا قادیان، مصنفہ مولوی ثناء اللہ امرتسری، مطبع روزبازار سٹیم پریس ہال بازار امرتسر، اگست 1921ء صفحہ 1تا 2)ہم امید کرتے ہیں کہ مولوی داؤد ارشد صاحب، ان اقتباسات کو پڑھنے کے بعد اپنے کسی مضمون میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کی طرح مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی ’’وقعت ‘‘ اور ’’حیثیت‘‘ بھی واضح کردیں گے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں اہل حدیث فرقہ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ’’مرکزی جمیعت اہل حدیث‘‘ ہے اور اس جماعت کے موجودہ سربراہ مولوی ساجد میر صاحب ہیں۔مولوی صاحب کے دادا اور متحدہ ہندوستان کے نامور اہلحدیث عالم مولوی ابراہیم میر صاحب سیالکوٹی انگریز دور میں کسی مقدمہ میں گرفتار ہوگئے۔ گورنمنٹ کے افسران سے اہل حدیث علماء کی ملاقاتوں کے نتیجہ میں جب ان کی رہائی عمل میں آئی تو مولوی صاحب موصوف نے انگریزی گورنمنٹ کے عدل و انصاف کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے کہا:’’گو میری روش آگے بھی گورنمنٹ کے حق میں امن پسند اور وفا کیش رہی ہے لیکن اب میں خاص طور پر اپنے سب مخلصوں کو وفاداری و ہمدردی کی تاکید اس بنا پر کرتا ہوں کہ سابق زمانہ میں گورنمنٹ کے عدل و انصاف کی نسبت میرا علم استدلال کی حد پر تھا۔ لیکن اب تو اس سے اوپر کا مرتبہ حاصل ہوگیا کیونکہ اپنی ذات پر وارد ہونے سے میرا نفس گورنمنٹ برطانیہ کی معدلت گستری کا شاہد ہوگیا ہے۔ جس سے میرا حسنِ ظن آگے کی نسبت بہت بڑھ گیا ہے پس آپ صاحبان بھی اسے پہلے کی نسبت اپنے خیالات و اعتقادات کو زیادہ پختہ بناویں۔ ہاں میری سابق روش میں اتنی کسر تھی کہ میں وفاداری کو ایک فرض مذہبی جان کر اس کا تعلق محض خدا تعالیٰ سے رکھتا تھا۔ اور گورنمنٹ کے حضور میں اس کی بابت کبھی کوئی اطلاع نہیں کی۔ نہ تو کبھی احسان جتایا اور نہ کوئی صلہ طلب کیا جس سے احکام کو علم ہوجاتا کہ ہاں ہمارا کوئی گمنام وفادار بھی کسی گوشے میں بیٹھا ہماری نسبت نیک ظن رکھتا ہے۔ خدا کے فضل سے یہ روش اب بھی قائم رہےگی۔اور میں وفاداری کو اپنا مذہبی فرض قرار دےکر جو کچھ مجھ سے ہوسکے گا بغیر جتانے کے خیر خواہی میں کہتا رہوں گا۔ اور یقین ہے کہ خداوند تعالیٰ جو احکم الحاکمین ہےخود میری وفاداری اور سچائی کا اثر ظاہر کر دےگا جیسا کہ اُس نے اس سے پہلے کر دکھایا۔ عاجز ابراہیم سیالکوٹی 19 مارچ 1917ء من مقام شہر سیالکوٹ‘‘(ہفت روزہ رسالہ اہلحدیث امرتسر 30؍مارچ 1917ء)

یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ رسالہ ’’اہلحدیث‘‘ اس سارے پس منظر میں گورنمنٹ انگریزی کا ترجمان بنا ہوا تھا۔ہندوستان کے مسلمانوں میں حکومت برطانیہ کے متعلق مثبت رپورٹنگ ہو یا پھر برطانوی افواج میں مسلمانوں کے بھرتی کرانےکی ترغیب، یہ سب کام رسالہ ’’اہلحدیث‘‘ بخوبی انجام دے رہا تھا۔ یقیناً یہ بات ہم سب کے لئے باعث حیرت ہوتی اگر مسلک اہل حدیث کا یہ ترجمان ان باتوں کو احسن طریق پر سرانجام نہ دے رہا ہوتا۔ وہ اس لیے کہ رسالہ ’’اہلحدیث‘‘ کے ہر شمارہ کے سر ورق پر جلی حروف میں اس کی تین اغراض و مقاصد کا اعادہ کیا جاتا تھا۔ اور ان تین اغراض میں سے ایک یہ ہوا کرتی تھی:’’گورنمنٹ اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی نگہداشت کرنا۔‘‘

مورخہ 19؍نومبر 2021ء کو چھپنے والے ’’الاعتصام‘‘ کے شمارہ میں مولوی داؤد ارشد صاحب نےہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کی انتہا ہی کردی۔ چنانچہ موصوف نے محترم ابو نائل صاحب پر کذب بیانی کا الزام لگاتے ہوئے کہا:’’ابو نائل کہتے ہیں: الاعتصام کے سرورق پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ رسالہ اہل حدیث فرقے کا ترجمان ہے۔ حالانکہ ’’الاعتصام‘‘ کے سرورق پر ایسا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔‘‘

نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جھوٹ بولنا اورپھراس پر ڈٹے رہنا مولوی داؤد ارشد صاحب کا شیوہ معلوم ہوتا ہے۔ مولوی صاحب کی اس حرکت پر ہم اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں کہ ’’اپنی کرتوت پر شرمانے کی بجائے ٹوکنے والے کو آنکھیں دکھانا‘‘ ان صاحب کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔

قارئین کو بتاتے چلیں کہ سلطنت ترکیہ کے خلاف برطانوی افواج کی شاندار کامیابی پر شادیانے بجانا ہندوستان کے اہل حدیث علماء تک محدود نہ تھا بلکہ دیگر مسالک کے علماء کے علاوہ سب سے بڑھ کر عرب مسلمان تھے جو بغداد کی فتح کی خوشی میں آپے سے باہر ہورہے تھے چنانچہ جنگ عظیم اول کے دوران برطانیہ کے نہایت اہم اتحادی اور حجاز کے حکمران حسین ابن علی (شریف مکہ) نے بغداد کی فتح پر مصر میں تعینات برطانوی سفیر کو مبارکباد کا خط ارسال کیا، جس کا ذکر نیو یارک ٹائمز نے ان الفاظ میں کیا:

The Kingdom of Hejaz evinced deep interest in the fall of Baghdad and the King sent a congratulatory telegram to the British high commissioner in Egypt praying that Allah grant victory and success to all those who are defending justice, civilization, and liberty of nations.

(New York Tribune, 21 June 1917 p 3)

ترجمہ: حجاز کی بادشاہت سقوط بغداد میں گہری دلچسپی رکھتی ہے۔ بادشاہ (شریف مکہ) نے مصر میں برطانوی ہائی کمشنر کو مبارکباد کی تار دی ہے اور دعا کی ہے کہ اللہ ان تمام لوگوں کو فتح اور کامیابی سے نوازے جو انصاف، تہذیب اور قوموں کی آزادی کا دفاع کر رہے ہیں۔

یہ تو تھا سلطنت عثمانیہ کے متعلق ان علماء اور حکمرانوں کا رویہ! لیکن اس کے برعکس حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جہاں ترکوں کو اپنی اصلاح کرنے کی طرف توجہ دلائی وہیں عالمی منظر نامہ میں اس کے باقی اتحادیوں یعنی جرمنی، بلغاریہ، آسٹریا وغیرہ کے مقابلہ میں مظلوم قرار دیتے ہوئے فرمایا:’’ترک جس نےخود یوروپین طاقتوں کے اقوال کے مطابق مجبور ہو کر جرمن دباؤ کے نیچے جنگ کی تھی۔ اور جس نے جنگ کے دوران میں نہایت شرافت، نہایت دلیری اور بہادری سے کام کیا تھا اور بحیثیت قوم کسی قسم کاظلم نہیں کیا اس کو ناقابل حکومت قرار دیا جاکر نہ صرف یہ کہ اسے اس کے دوسرے مقبوضات سے محروم رکھا جاتا ہے بلکہ جس ملک میں وہ بستا ہے اور دوسری آبادی اس قدر کم ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے اس میں بھی اس کی حکومت کو مٹانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔‘‘(ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض، انوار العلوم جلد 4، صفحہ 443)

’’الاعتصام‘‘ کے مضمون نگار نے ناانصافی اور بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مضمون سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ احمدی دیگر مسلمانوں کو سیاسی میدان میں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں حالانکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے اس دور کےخطبات کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اگر مسلمانوں کی تکلیف دہ اور ابتری کی حالت کا حقیقی رنگ میں کسی کو دکھ اور درد تھا تو وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ہی ذات تھی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button