جو گلیوں سے گزرے نگر مسکرا دےاُداسی بھری ہر نظر مسکرا دےثمر مسکرا دے شجر مسکرا دےمیرے پیارے آقا کی مسکان ایسیاسے دیکھ کر تو قمر مسکرا دے وہ دِین مُحَمّد کی شمشیر کوئیہے ظلمت کی آندھی میں تنویر کوئیلکھے جب وہ ہاتھوں سے تحریر کوئیہر اک حرف زیر و زَبَر مسکرا دےاسے دیکھ کر تو قمر مسکرا دے خِلافت کی نعمت تو ہے جاودانیپیمبر کی کرتی ہے یہ ترجمانیفرشتے بھی کرتے ہیں جب پاسبانیہر اِک گام ہر اِک سفر مسکرا دےاسے دیکھ کر تو قمر مسکرا دے دعاؤں کا اک بے کراں وہ سمندرکہ سائے میں اس کے بنے ہے مقدرہمیں ہو خدارا زیارت میسرنگاہوں میں جس کی سِحر مسکرا دےاسے دیکھ کر تو قمر مسکرا دے