حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس اطفال الاحمدیہ ناروے کی (آن لائن) ملاقات

نماز میں دعائیں کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا قرب دے اپنے قریب لے کے آئے

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 20؍مارچ 2022ء کو ممبران مجلس اطفال الاحمدیہ ناروے سے آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ اطفال نے بیت النصر مسجد ناروے سے آن لائن شرکت کی۔

اس ملاقات کا آغاز حسب روایت تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ ملاقات کے پہلے حصے میں ایک طفل نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خلافت کے بارے میں ایک اقتباس پیش کیا۔ جس کے الفاظ یوں تھے :جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اِس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔

حضور انورنے اس اقتباس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات کہی ہے کہ میں جب جاؤں گا تو میرے بعد خلافت قائم ہوگی اور یہ میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ خلافت قائم ہو گی، جاری ہوجائے گی اور ایک کے بعد دوسرا خلیفہ اپنے اپنے وقت پہ آتے جائیں گے۔ اور یہ چلے گی جیسا کہ حدیث میں بھی آیا تھا قیامت تک اسی طرح خلافت کا سلسلہ چلتاجائے گا اور اس میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور تم لوگ جو مومن ہو،حقیقی مومن ہو ایمان رکھنے والے ہو True believer ہو خلافت کے ساتھ جڑے رہنا اور خلافت پہ یقین رکھنا۔ یہ مطلب ہے اس کاجو تم نے پڑھا ہے ۔

بعد ازاں اطفال کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انڈیا میں فوت ہونے کا اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انڈیا میں پیدا ہونے کا آپس میں کوئی تعلق ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ اللہ بہتر جانتا ہے لیکن یہ بہرحال اب ظاہر ہو گیا کہ اللہ تعلق کا تعالیٰ نے موسیٰ کے مسیح کو جہاں بھیجا اور اکثریت قبائل کی جو یہودی قبائل تھے انہوں نے ان کو مانا اور وہاں حضرت عیسیٰ کی وفات ہوئی اسی علاقے میں اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں جو مسیح محمدی تھا اس کو مبعوث کیا۔ تو اصل چیز تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی جو اکثریت تھی ان علاقوں میں رہتی تھی اور مختلف مذاہب والے لوگ بھی یہاں رہتے تھے اور قومیں جو بگڑی ہوئی تھیں یہاں رہتی تھیں۔ تو اللہ تعالیٰ کی حکمت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ ایسی جگہوں پہ نبی بھیجتا ہے جو زیادہ بگڑے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہےاس زمانے کے مسلمان جو تھے وہ زیادہ یہاں بگڑ رہے تھے اور مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ اسلام بھول رہے تھے اور عیسائیت کی تبلیغ زیادہ ہو رہی تھی۔ عیسیٰ علیہ السلام کی جو تعلیم تھی اس کو ماننے والے زیادہ تھے کئی لاکھ مسلمان عیسائی ہوگئے تھے اور دین کو بھی بھول چکے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا۔ تو وہ تعلق بھی جوہےاگر تم کہنا چاہتے ہو ایک ظاہری چیز نظر آتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو پتا تھا کہ اس علاقے میں مسلمان زیادہ بگڑ جائیں گے اور دوسرے مذاہب بھی یہاں ہوں گے اور عیسائیت کا غلبہ بھی یہاں زیادہ ہو گا اور یہ لوگ زیادہ جلدی پھیل کے دنیا پہ بھی چھا سکتے ہیں اس لیے مسیح موعود علیہ السلام کو یہاں اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے یہاں فوت ہونے اور مسیح موعود کے یہاں آنے میں کوئی اور حکمت اس کے علاوہ ہے کہ نہیں۔

ایک آٹھ سالہ طفل نے سوال کیا کہ میں ایک اچھا بچہ کیسے بن سکتا ہوں؟

حضور انور نے فرمایا کہ اب تم نماز پڑھا کرو، اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرو کہ اللہ میاں تمہیں اچھا بچہ بنائے۔ …جب قرآن شریف پڑھو اور ختم کر لو پھر اچھی اچھی باتیں کیا کرو۔ پڑھائی میں محنت کرو، اچھا بچہ بننے کے لیے اماں ابا کا کہنا مانا کرو، اپنے بھائی بہنوں سے لڑا نہ کرو۔ …نہ ان سے لڑا کرو اور زیادہ غصہ نہ کیا کرو ۔سکول میں جاتے ہو تو سکول کے بچوں سے لڑا نہ کرو اور زیادہ سے زیادہ دین کا علم سیکھو۔ یہ دیکھو کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا نصیحتیں کی ہیں اور یہ دیکھا کرو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں کیا کہا ہے۔ یہ دیکھا کرو کہ خلیفہ وقت ہمیں کیا کہتا ہے ہم نے کیا باتیں ماننی ہیں۔ اچھی اچھی باتیں کرنی ہیں، بری باتوں کو چھوڑ دینا ہے۔ اور ضد نہیں کرنی، لڑائی نہیں کرنی۔ بس یہ باتیں یاد رکھو تو اچھا بچہ بن جاؤ گے۔

ایک دوسرے طفل نے سوال کیا کہ جو یوکرائن میں جنگ ہورہی ہے اور دونوں ملکوں کے صدور کسی بات پر متفق نہیں ہورہے۔ حضور انور کا اس موجودہ صورت حال کے بارہ میں کیا خیال ہے؟

حضور انورنے فرمایا کہ متفق نہیں ہو رہے تو ان کو چاہیے کہ متفق ہوجائیں اور جنگ نہ کریں۔ میں تو یہ کہتا رہتا ہوں۔ شروع میں ہی جب جنگ شروع ہوئی تھی اس وقت بھی میں نے ایک پریس سٹیٹمنٹ دی تھی بیان دیا تھا کہ ان لوگوں کو جنگ نہیں کرنی چاہیے اور آپس میں agree ہونا چاہیے نہیں تو یہ جنگ پھیلتے پھیلتے ورلڈ وار بن جائے گی اور جب ورلڈ وار بن جائے گی تو پھر بہت خطرناک نتائج پیدا ہوں گے۔ اس لیے Russian president کو بھی عقل کرنی چاہیے یوکرائنین پریذیڈنٹ کو بھی عقل کرنی چاہیے اور نیٹو جو ہے اس کو بھی عقل کرنی چاہیے اور امریکہ کو بھی عقل کرنی چاہیے۔ تو ان سب کو عقل کرنی چاہیے تاکہ دنیا کو بچا سکیں نہیں تو بہت خطرناک نتائج ہوں گے۔ تو ہم تو سمجھا ہی سکتے ہیں اور دعا کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے جو ہمارے بس میں ہے وہ ہم کر رہے ہیں۔ تم بھی دعا کیا کرو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے، یوکرائنین پریذیڈنٹ کو بھی، رشین پریذیڈنٹ کو بھی تا کہ یہ جنگ کو آگے مزید نہ بڑھائیں بہت پہلے ہی آگے بڑھ چکی ہے اور کسی جگہ آکے یہ رک جائیں اور صلح صفائی ہو جائے اور معاملہ آرام سے سیٹل ہو جائے نہیں تو بڑے خوفناک نتائج ہوں گے آدھی دنیا تباہ ہو جائے گی۔ اللہ رحم کرے۔

ایک اور طفل نے سوال کیا کہ ہم واقفین نو مربی بننے کے علاوہ کس طرح جماعت کی خدمت کر سکتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ ڈاکٹر بن کے بھی خدمت کر سکتے ہیں، آپ انجنیئر بن کے بھی خدمت کر سکتے ہیں، وکیل بن کے بھی خدمت کر سکتے ہیں، آپ ٹیچر بن کے بھی خدمت کر سکتے ہیں اور جو آپ کی دلچسپی ہے پڑھائی کی وہ کریں جو انسانیت کو فائدہ دینے والی ہو۔ اور اس میں جماعت Directly اگر آپ کی خدمت نہیں بھی لیتی تو indirectlyآپ جماعت کی خدمت کر سکتے ہیں اپنے اپنے فیلڈ میں کام کرتے رہیں اور جہاں جہاں آپ ہیں وہاں جماعت کا پیغام پہنچائیں اور بتائیں کہ صحیح اسلام کی تعلیم کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ کس طرح ایک اچھے انسان کو رہنا چاہئے؟ کیوں ہمیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہئے؟ اسلام کے صحیح حکم کیا ہیں؟ اسلام کیوں آخری مذہب ہے اور اسلام میںکیا کیا اچھائیاں ہیں؟ تو اچھی اچھی چیزیں اسلام کے بارے میں بتائیں۔ یہی احمدیت اور اسلام کی خدمت ہے جو آپ کر رہے ہوں گے۔ بعض براہ راست کریں گے بعض indirectlyکریں گے۔ پھر آپ حکومت کے اداروں میں دفتروں میں بھی جا سکتے ہیں۔ بیورو کریسی میں بھی جا سکتے ہیں وہاں بھی ایمانداری سے ملک اور قوم کی خدمت کر رہے ہیں تو وہ بھی جماعت کی خدمت ہے۔ وہاں بھی ہر ایک کو پتا لگ جائے گا کہ یہ لڑکا یہ انسان honestly کام کرتا ہے اور بڑی محنت سے کام کرتا ہے اور ملک کی خدمت کر رہا ہے۔ اپنے ملک کے ساتھ بڑا sincereہے اور یہ احمدی ہے۔ اس سے بھی آپ احمدیت کی تبلیغ کر رہے ہوں گے۔ indirect تبلیغ ہو رہی ہو گی۔ تو بہت سارے رستے خود ہی کھلتے چلے جاتے ہیں۔

ایک اور طفل نے سوال کیا کہ یاجوج اور ماجوج سے کیا مراد ہے؟

حضور انور نے فرما یا کہ اس سے مراد بڑی طاقتیں ہیں۔ بعض جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے مراد روس بھی ہے اور یورپین طاقتیں بھی ہیں امریکہ بھی ہے انگلستان بھی ہو سکتا ہے اور عیسائی حکومتیں جب تھیں اس وقت عیسائی طاقتیں بھی تھیں۔ تو جو بھی بڑی طاقتیں ہیں جو اسلام کی مخالفت کر رہی ہیں یا دین سے ہٹی ہوئی ہیں اور دنیا کی نظر سے دیکھتے ہیں وہ لوگ یاجوج ماجوج ہیں۔ جن کی دین کی آنکھ اندھی ہے اور دنیا کی آنکھ صرف کام کرتی ہے۔ اور پھر اس کی وجہ سے پھر دجالی چالیں بھی چلتے ہیں اور دجال اور یاجوج ماجوج ایک ہی چیز کے دو تین نام ہیں۔

ایک اور طفل نے سوال کیا کہ میں قرآن شریف پڑھنے کے علاوہ اور نماز پڑھنے کے علاوہ کیسے اللہ کے قریب آسکتا ہوں؟

حضور انور نے فرمایا کہ نماز میں دعائیں کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا قرب دے اپنے قریب لے کے آئے۔ اور اچھی اچھی باتیں کیا کرو۔ کسی کو گالی نہیں دینی کسی کو برا نہیں کہنا بچوں سے لڑائی نہیں کرنی۔ اماں ابا کا کہنا ماننا ہے باتیں ماننی ہیں ان کو عزت دینی ہے ان کی respectکرنی ہے۔ اپنے ٹیچر سے بھی اچھا سلوک کرنا ہے۔ جو کلاس فیلو ہیں ان سے بھی اچھی باتیں کرنی ہیں۔ لڑائی نہیں کرنی ان کو بتانا ہے کہ میں احمدی مسلمان ہوں اور میں اچھی اچھی باتیں کرتا ہوں۔ میں گندی باتیں نہیں کرتا۔ میں گندی فلمیں نہیں دیکھتا، میں گندے پروگرام نہیں دیکھتا اور ہر وقت انٹرنیٹ یا آئی پیڈ پہ بیٹھ کے یا ٹیبلٹ پہ بیٹھ کے یا سیل فون پہ بیٹھ کے یا ٹیلی ویژن پہ بیٹھ کے فضول قسم کے پروگرام نہیں دیکھتا۔ اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔ میں گراؤنڈ میں جاکے آؤٹ ڈور گیم بھی کھیلتا ہوں۔ تو یہ چیزیں جو ہیں تمہیں اچھا انسان بنائیں گی۔ جب تمہیں اچھے انسان بنائیں گی تو تم اللہ تعالیٰ کے قریب بھی ہو جاؤ گے۔

ایک اور طفل نے سوال کیا کہ جب سکول میں کوئی مجھے گندا کہتا ہے کیونکہ میں foreignerہوں تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟

حضور انور نے فرمایا کہ کہو میں تو گندا نہیں، مَیں تو پانچ وقت وضو کرتا ہوں نماز پڑھتا ہوں مَیں تو اپنے آپ کو صاف رکھتا ہوں پاک رکھتا ہوں۔ اور اگر تمہیں یہ کہتے ہیں کہ تم مسلمان ہو غیر ملکی ہو اس لیے تم لوگ اچھے نہیں ہو۔ گندا کہنے سے مراد اگر یہ ہے کہ اچھے نہیں ہو تو کہنا کہ اصل چیز تو یہ ہے کہ morally good ہونا۔ اچھا ہونا۔ دیکھو میرے اخلاق اچھے ہیں، مَیں اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کرتا ہوں، میں تم لوگوں سے اچھی باتیں بھی کرتا ہوں، میں تم لوگوں کے بارے میں نیک باتیں سوچتا ہوں۔ میں تمہارے سے لڑائی نہیں کرتا، میں پڑھائی بھی پوری محنت سے کرتا ہوں تا کہ میں اچھے نمبر بھی لوں اور پھر بڑے ہو کے میں ملک کی خدمت کر سکوں۔ تو میں تو اپنا پوٹینشل اپنی صلاحیتیں ان کو اس لیے زیادہ بہتر کرتا ہوں تا کہ میں بڑا ہو کے اپنے ملک کے کام آؤں اور خدمت کر سکوں، اس لیے میں تو گندا ہوں ہی نہیں۔ تم جو مرضی میرے بارے میں سوچو۔ میں تو تمہارے بارے میں برا نہیں سوچتا کیونکہ ہم اگر ایک دوسرے کے بارے میں برا سوچیں گے تو اس طرح دل میں نفرتیں پیدا ہوں گی اور ہمارا تو نعرہ ہے کہ Love for all, Hatred for noneمحبت سب سے نفرت کسی سے نہیں۔ اس لیے تم جو مرضی مجھے کہتے رہو میں تمہیں برا نہیں کہوں گا اور میں تمہارے لیے دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری سوچ کو بدل دے۔ یہ باتیں ان کوکہہ دیا کرو ۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ اخلاق کیا ہیں اور ان کو روزمرہ زندگی کا حصہ کیسے بنا یا جا سکتا ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ قرآن کریم میں 700 سے زائد احکامات ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے۔ تو ہر وہ بات جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیاہے کہ کرو، وہ اچھی ہے اور جن باتوں سے روکا ہے وہ ہمارے لیے نقصان دہ اور بری ہیں۔ …ایک اچھے مسلمان کو اخلاقاً اچھا ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری دو ذمہ داریاں ہیں، ایک یہ کہ تم حقوق اللہ ادا کرو اور عبادت بجا لاؤ۔ اس میں وہ تمام فرائض شامل ہیں جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حوالہ سے ادا کرنے چاہئیں۔ دوسرے آپ کو اپنے ساتھ رہنے والے دیگر ا نسانوں کے حقوق ادا کرنے چاہئیں۔ ہمیشہ اپنے ساتھ رہنے والوں کے بارہ میں اچھا سوچیں، اللہ کی ہر مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ کئی اخلاقی ذمہ داریاں ہیں۔ آپ کو اپنے دوستوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے اور جیساکہ میں نے پہلے بتایاہے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، اپنے والدین کی بات مانیں، اپنے بڑوں کا احترام کریں، اپنے اساتذہ کی عزت کریں، اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ دیں اور اپنے علم کو بڑھانے کی کوشش کریں، دینی اور دنیاوی علم کو۔ تو یہ وہ چیزیں ہیں جو اخلاقی طور پر آپ کو اچھا بناتی ہیں۔ ہمیشہ خیال رکھیں کہ بری باتیں کون سی ہیں جو آپ کی اخلاقی حالت بگاڑ سکتی ہیں۔ کبھی بھی ایسے ٹی وی پروگرام نہ دیکھیں جوا ٓپ کی تعلیم کے لیے اچھے نہیں ہیں، جو آپ کو اچھی چیزوں سے دور لے جانے والے ہوں۔ جو آپ کو اخلاقی پسماندگی کی طرف لے جانے والے ہوں اور جو آپ کو معاشرے کی نقصان دہ چیزوں کی طرف مائل کرنے والے ہوں۔ کبھی بھی انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر ایسے پروگرام نہ دیکھیں جوآپ کے اخلاق کو تباہ کرنے والے ہوں، جو آپ کے لیے اچھے نہ ہوں، جو آپ کو گمراہی کی طرف لے جانے والے ہوں اور جو آپ کو بنیادی دینی تعلیمات سے ہٹانے والے ہوں۔ ہمارے سامنے ایک ہدایت ہے جو قرآن کریم کی صورت میں موجود ہے۔ قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی کوشش کریں اور یوں تمام احکام اور نواہی کا پتا لگائیں اور پھر اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں۔

ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے فرمایا کہ وقت ختم ہو گیا اب۔ اللہ حافظ ہو۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button