خلافت خامسہ کے مبارک دَورکے ابتدائی پندرہ سال(قسط نمبر8)

(طارق حیات مربی سلسلہ شعبہ آرکائیو)

جماعت احمدیہ مُسلمہ عالمگیر کی خدمت دین وخدمت انسانیت کے مختلف میدانوں میں عظیم الشان اورروزافزوں ترقیات اورالٰہی نصرت وتائید کے روشن نشانات سے معمور

تعلیم القرآن کے متعلق تحریک

حضور انور نے خطبہ جمعہ24ستمبر2004ء میں فرمایا:

’’بہرحال ایک احمدی کو خاص طورپر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس نے قرآن کریم پڑھنا ہے، سمجھناہے، غور کرنا ہے اور جہاںسمجھ نہ آئے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وضاحتوں سے یا پھر انہیں اصولوں پر چلتے ہوئے اور مزید وضاحت کرتے ہوئے خلفاءنے جو وضاحتیں کی ہیں ان کو ان کے مطابق سمجھنا چاہئے۔ اور پھر اس پر عمل کرنا ہے… پس ہر احمدی کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دیں۔ پھر ترجمہ پڑھیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیر پڑھیں۔ یہ تفسیر بھی تفسیر کی صورت میں تو نہیں لیکن بہرحال ایک کام ہوا ہوا ہے کہ مختلف کتب اور خطابات سے، ملفوظات سے حوالے اکٹھے کرکے ایک جگہ کر دئیے گئے ہیں اور یہ بہت بڑا علم کا خزانہ ہے۔ اگر ہم قرآن کریم کو اس طرح نہیں پڑھتے تو فکرکرنی چاہئے اور ہر ایک کو اپنے بارے میں سوچنا چاہئے کہ کیا وہ احمدی کہلانے کے بعد ان باتوں پر عمل نہ کرکے احمدیت سے دور تو نہیں جا رہا۔‘‘

( الفضل انٹرنیشنل8اکتوبر2004ء)

حضور انور نے خطبہ جمعہ 21اکتوبر2005ء میں فرمایا:

’’پس آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس رمضان میں اس نصیحت سے پُر کلام کو، جیسا کہ ہمیں اس کے زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی توفیق مل رہی ہے، اپنی زندگیوں پر لاگو بھی کریں۔ اس کے ہر حکم پر جس کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کریں۔ اور جن باتوں کی مناہی کی گئی ہے، جن باتوں سے روکا گیا ہے ان سے رکیں، ان سے بچیں، اور کبھی بھی ان لوگوں میں سے نہ بنیں جن کے بارے میں خود قرآن کریم میں ذکر ہے۔ فرمایا کہ

وَقَالَ الرَّسُوْلُ یَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا (الفرقان 31:)

اوررسول کہے گا اے میرے رب! یقیناً میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے…آج ہم احمدیوں کی ذمہ داری ہے، ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآنی تعلیم پر نہ صرف عمل کرنے والا ہو، اپنے پرلاگو کرنے والا ہوبلکہ آگے بھی پھیلائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو آگے بڑھائے۔ اور کبھی بھی یہ آیت جو مَیں نے اوپر پڑھی ہے کسی احمدی کو اپنی لپیٹ میں نہ لے۔ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ فقرہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہئے کہ ’’جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے‘‘۔ ہم ہمیشہ قرآن کے ہر حکم اور ہر لفظ کو عزت دینے والے ہوں۔ اور عزت اس وقت ہو گی جب ہم اس پر عمل کر رہے ہوں گے۔ اور جب ہم اس طرح کر رہے ہوں گے تو قرآن کریم ہمیں ہر پریشانی سے نجات دلانے والا اور ہمارے لئے رحمت کی چھتری ہو گا۔ جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَ شِفَآئٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُالظّٰلِمِیْنَ اِلَّاخَسَارًا(بنی اسرائیل83:)۔

اور ہم قرآن میںسے وہ نازل کرتے ہیں جو شفا ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور وہ ظالموں کو گھاٹے کے سوا اور کسی چیز میںنہیں بڑھاتا…ہمیں چاہئے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے تمام اوامر و نواہی کو سامنے رکھیں اور اس تعلیم کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں ۔اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔تبھی ہم روحانی اور جسمانی شفا پانے والے بھی ہوں گے۔…پس اب یہ احمدی کا فرض ہے کہ اس زمانے میں قرآن کریم کی تلاوت کو بھی اور اس پر عمل کرکے بھی اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنائیں تاکہ ہر احمدی کے عمل سے ان ظالموںکے منہ خود بخود بندہوتے چلے جائیں‘‘۔

( الفضل انٹرنیشنل11نومبر2005ءص6)

قرآن کریم کی نمائش لگانے کی تحریک

حضور انور نے امریکہ میں ایک پادری کی طرف سے قرآن کریم کو جلانے کی مذموم حرکت پر قرآنی صفات واضح کرنے کے لئے قرآن کریم اور اس کے تراجم کی نمائشیں لگانے کا ارشاد فرمایا۔آپ نے خطبہ جمعہ 25 مارچ 2011ء میں فرمایا:

’’ باقاعدہ آرگنائز کرکے امریکہ میں بھی اور دوسری دنیا میں بھی نمائشوں کا اہتمام ہو۔ چاہے ہال کرایہ پر لے کر کیا جائے کیونکہ بعض دفعہ جب مساجد میں نمائشیں ہوتی ہیں تواسلام کے بارہ میں کیونکہ غلط تاثر اتناپیدا کر دیا گیا ہے کہ دنیا میں بلا وجہ کا ایک خوف پیدا ہو گیا ہے اس لئے بعض لوگ شامل نہیں ہوتے۔ تو اگر ہال وغیرہ کرائے پر لئے جائیںاور اُس میں نمائش کی جائے ،قرآنِ کریم کے تراجم رکھے جائیں، اُس کی خوبصورت تعلیم کے پوسٹر اور بینر بنا کے لگائے جائیں، خوبصورت قسم کا وہاںڈسپلے ہو تویہ لوگوں کی توجہ کھینچے گا، میڈیا کی توجہ بھی اس طرف ہو گی۔ آج کل اسلام کی طرف توجہ ہوئی ہوئی ہے تو بعض جائز باتیں بھی لکھ دیتے ہیں۔ جماعت کے بارہ میں جو بھی خبریں آتی ہیں اکثر صحیح بھی لکھ دیتے ہیں۔ ان کی نیت کیا ہے یہ تو خدا بہتر جانتا ہے لیکن بہر حال ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ سٹالوں اور عمومی نمائشوں کے ذریعے بیشک ہم حصہ لیتے ہیں لیکن اس کی کوریج میڈیا پر نہیں ہوتی کیونکہ وہاں اور بڑے بڑے سٹال لگائے ہوتے ہیں، لوگ آئے ہوتے ہیں، مختلف قسم کی توجہات ہوتی ہیں، ترجیحات ہوتی ہیں۔تو خاص طور پر اگرہم علیحدہ نمائش کریں گے تو اس کا بہر حال زیادہ اثر ہو گا۔ ایک اہتمام سے علیحدہ انتظام ہو تو دنیا کو پتہ چلے گا کہ قرآنِ کریم کیا ہے؟ اور اس کی تعلیم کیا ہے؟

( الفضل انٹرنیشنل 15اپریل2011ءص8)

وقف عارضی میں شمولیت کی تحریک

حضور انور نے ڈاکٹرز کو متعدّد بار وقف عارضی کی تحریک فرمائی ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجلس مشاورت پاکستان 2004ء کے ممبران کے نام اپنے پیغام میں وقف عارضی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا۔

’’گزشتہ سالوں میں کئی دفعہ وقف عارضی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ جماعتوں نے اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ گو اس سال شایدیہ تجویز نہیں ہے لیکن میری ممبران شوریٰ سے یہ درخواست ہے کہ یہ ارادہ کرکے جائیں کہ اس سال ہم نے ربوہ کے علاوہ باہر سے پانچ ہزار واقفین عارضی مہیا کرنے ہیں، جو وفود کی شکل میں مختلف جماعتوں میں جائیں۔ انشاء اللہ ان وفود کی اپنی تربیت بھی ہوگی اور جماعت کی تربیت میں بھی مدد ملے گی۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے آمین۔‘‘

(روزنامہ الفضل 5اپریل 2004ء)

حضور نے3نومبر 2006ء کو تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا :

’’پھر ایک مطالبہ وقف عارضی کا ہے اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ باہر کی دنیا میں (باہر سے مراد یورپ اور مغربی ممالک، افریقہ وغیرہ) اگر آرگنائز کرکے اس مطالبے پر سارے نظام پر کام کیا جائے تو اپنوں کی تربیت کے لحاظ سے بھی اور تبلیغ کے لحاظ سے بھی بہت بہتری پیدا ہو گی، جماعتیں اس طرف بھی توجہ کریں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 24تا30نومبر2006ء)

وقف بعد از ریٹائر منٹ

حضور انور نے فرمایا:

’’پھر وقف بعد از ریٹائرمنٹ ہے۔ ان مغربی ممالک میں بھی جماعتی ضروریات بڑھ رہی ہیں اور یہاں کیونکہ حکومت کی طرف سے، اداروں کی طرف سے سہولتیں ملتی ہیںاس لئے جو احمدی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ سہولیات لے رہے ہیں ان کو اپنے آپ کو جماعتی خدمات کے لئے پیش کرنا چاہئے ۔جماعت سے مالی مطالبہ نہ ہو کیونکہ ان کی ضروریات تو ان سہولتوں سے جو وہ حکومت سے یا اداروں سے لے رہے ہیں یا پنشن وغیرہ سے جو رقم ملی ہے اس سے پوری ہو رہی ہیں۔ بعض لوگ تو ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ کام تلاش کرتے ہیں کیونکہ بعض ایسی ذمہ داریاں ہوتی ہیں جن کو پورا کرنا ہوتا ہے، بچے وغیرہ ابھی پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ تو بہرحال جن کی ذمہ داریاں ایسی نہیں ہیںاوراگر صحت اچھی ہے تو ان کو اپنے آپ کو جماعتی خدمات کے لئے رضاکارانہ طور پر پیش کرنا چاہئے۔ لیکن بعض دفعہ ذہنوں میں یہ بات آ جاتی ہے کہ شاید ہم رضا کارانہ کام کرکے جماعت پر کوئی احسان کر رہے ہیں، تو اگر اپنے آپ کو پیش کرنا ہو تو اس سوچ کے ساتھ آئیں کہ اگر ہم سے کوئی جماعتی خدمت لے لی جائے تو جماعت اور خداتعالیٰ کا ہم پر احسان ہو گا۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 24تا30نومبر2006ء)

دعوت الیٰ اللہ کی تحریک

حضور انور نے خطبہ جمعہ8اکتوبر 2004ء میں فرمایا:

’’ دعوت الی اللہ کریں۔حکمت سے کریں، ایک تسلسل سے کریں، مستقل مزاجی سے کریں، اور ٹھنڈے مزاج کے ساتھ، مستقل مزاجی کے ساتھ کرتے چلے جائیں۔ دوسرے کے جذبات کا بھی خیال رکھیں اور دلیل کے لئے ہمیشہ قرآن کریم اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوںسے حوالے نکالیں۔ پھر ہر علم، عقل اور طبقے کے آدمی کے لئے اس کے مطابق بات کریں۔ خدا کے نام پر جب آپ نیک نیتی سے بات کر رہے ہوں گے تو اگلے کے بھی جذبات اَور ہوتے ہیں۔ نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کے نام پر کی گئی بات اثر کرتی ہے۔ ایک تکلیف سے ایک درد سے جب بات کی جاتی ہے تو وہ اثر کرتی ہے۔ تمام انبیاء بھی اسی اصول کے تحت اپنے پیغام پہنچاتے رہے۔ اور ہر ایک نے اپنی قوم کو یہی کہا ہے کہ میں تمہیںاللہ کی طرف بلاتا ہوں، نیک باتوں کی طرف بلاتا ہوں اور اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا۔ یہی ہمیںقرآن کریم سے پتہ لگتا ہے۔‘‘

(الفضل انترنیشنل 22اکتوبر2004ء ص6)

ہر احمدی دعوت الی اللہ کے لئے سال میں کم از کم دو ہفتے وقف کرے

حضور انور نے خطبہ جمعہ 4جون 2004ء میں فرمایا:

’’دُنیا میں ہر احمدی اپنے لئے فرض کر لے کہ اس نے سال میں کم از کم ایک یا دو دفعہ ایک یا دو ہفتے تک اس کام کے لئے وقف کرنا ہے۔ یہ میں ایک یا دو دفعہ کم از کم اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جب ایک رابطہ ہوتا ہے تو دوبارہ اس کا رابطہ ہونا چاہئے اور پھر نئے میدان بھی مل جاتے ہیں۔ اس لئے اس بارے میں پوری سنجیدگی کے ساتھ تمام طاقتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہر ایک کو پیش کرنا چاہئے۔چاہے وہ ہالینڈ کا احمدی ہو یا جرمنی کا ہو۔ یا بیلجیم کا ہو یا فرانس کا ہو یا یورپ کے کسی بھی ملک کا ہو، یا دُنیا کے کسی بھی ملک کا ہو چاہے، گھانا کا ہو افریقہ میں یا بورکینا فاسو کا ہو، کینیڈا کا ہو یا امریکہ کا ہو یا ایشیائی کسی ملک کا ہو، ہر ایک کو اب اس بارے میں سنجیدہ ہو جانا چاہئے اگر دُنیا کو تباہی سے بچانا ہے۔ ہر ایک کو ذوق وشوق کے ساتھ اس پیغام کو پہنچائیں، اپنے ہم وطنوں کو اپنے اس پیغام کو پہنچائیں اور جیسا کہ میں نے کہا دُنیا کو تباہی سے بچائیں کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے بغیر کوئی قوم بھی محفوظ نہیں۔ اس لئے اب ان کو بچانے کے لئے داعیان الی اللہ کی مخصوص تعداد یا مخصوص ٹارگٹ حاصل کرنے کا وقت نہیں ہے یا اسی پہ گزارا نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اب تو جماعتوں کو ایسا پلان تیار کرنا چاہئے، جیسا کہ میں نے کہا کہ ہر شخص، ہر احمدی اس پیغام کو پہنچانے میں مصروف ہو جائے۔‘‘

( الفضل انٹرنیشنل18جون2004ء ص6)

نومبائعین سے رابطوں کی تحریک

حضور انور نے2جنوری2006ء کو دورہ قادیان کے دوران مربیان سے میٹنگ میں فرمایا:

’’ نو مبائع صرف وہ ہے جس نے گزشتہ تین سال میں بیعت کی ہو۔اس سے اوپر نومبائع نہیں ہے۔ ہر بیعت کرنے والے کو تین سال بعد جماعت کا فعال حصہ ہوناچاہئے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ آپ لوگوں کی کمزوری اور سستی ہے۔ اس لئے استغفار کریں اورخدا سے اپنی سستی کی معافی مانگیں اور اب ان کو نظام میں شامل کریں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل24فروری2006ء ص13)

حضور انور نے اس میٹنگ میں مزید فرمایا:

’’: مَیں گزشتہ سال میٹنگ میں کہہ چکاہوں کہ گزشتہ سالوں میں ہونے والی بیعتوں سے 70فیصد واپس لائیں ۔ یہ ہر مربی کا کام ہے کہ اپنے علاقوں میں واپس جائیں اوراس کا م کوآرگنائز کریں اوراپنی رپورٹ بھیجیں۔ان کو مالی قربانی میں شامل کریں۔ افریقہ ،انڈونیشیا ،پاکستان میںآپ سے زیادہ غریب لوگ ہیں وہ مالی قربانیاں کرتے ہیں۔

حضور انور نے فرمایا :غیب پرایمان لانے والوں کی یہ شرط بھی ہے کہ وہ غیب پرایمان لاتے ہیں اور وہ مالی قربانی بھی کرتے ہیں ۔

حضورنے فرمایا :یہ نئے آنے والے کچھ نہ کچھ ضرور دیں تاکہ ان کوعادت پڑجائے اوران کو پتہ لگے کہ ہم کس مقصد کے لئے دیتے ہیں۔حضور انور نے مربیان کوہدایت فرمائی کہ سب مل کرکوشش کریں کہ 2008ء تک 70فیصد کوواپس لے کرآناہے ۔فرمایا اگر کوشش کریں گے تو سب سے بڑا ذریعہ دعا ہے ۔دعائیں کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مد د مانگیں‘‘۔

(الفضل انٹرنیشنل24فروری2006ء ص13)

تحریک جدید اور وقف جدید میں نومبائعین کوخاص طورپر شامل کریں

حضور انور نے فرمایا:

’’جس سعید فطرت نے احمدیت قبول کی ہے اس نے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور مومنین کی جماعت میںشامل ہونے کے لئے احمدیت قبول کی ہے۔ عہدیداران بھی اور مربیان بھی اُسے جب تک ان باتوں کا صحیح ادراک نہیں پیدا کروائیں گے ان کو کس طرح پتہ چل سکتا ہے کہ ان تحریکات کی کیا اہمیت ہے۔ پس جیسا کہ مَیں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تحریک جدید اور وقف جدید میں نومبائعین کو خاص طور پر ضرور شامل کریں۔ چاہے وہ معمولی سی رقم دے کر شامل ہوں اور اُن کو اُن خصوصیات میں سے کسی سے بھی محروم نہ رہنے دیں جو مومنین کی جماعت کا خاصّہ ہیں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل30نومبر2007ءص8)

حضور انور نے نیشنل مجلس عاملہ سویڈن کو ہدایات دیتے ہوئے 13ستمبر2005ء کو فرمایا:

’’ تمام نو مبائعین کو جن کو بیعت کئے ہوئے تین سال کا عرصہ ہو چکا ہے نظام جماعت کا باقاعدہ حصہ بنائیں اور اس کے بعد وہ نو مبائع نہیں رہیں گے۔

حضو رانور نے فرمایا جن سے رابطہ نہیںہے ان سے بھی رابطہ کریں ۔جنہوں نے بیعتیں کروائی ہیں ان کے ذریعہ سے رابطہ کریں ،ان کو ساتھ لے کر جائیں اور ایک دفعہ رابطہ کر کے پھر اپنے نظام میں لے آئیں اور خود ان سے رابطہ رکھیں اور یہ رابطہ ہر ہفتہ ہونا چاہئے ۔آجکل رابطے کے کئی ذرائع ہیں ۔ ٹیلیفون پر کر لیں ،emailکے ذریعہ کرلیں۔فرمایا اگلے دوماہ میں ان سب لوگوں سے رابطہ قائم ہونا چاہئے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل28اکتوبر2005 ء ص16)

خلافت سے زندہ تعلق رکھنے کی تحریک

٭خلافت سے چمٹے رہیں

حضور انورنے خطبہ جمعہ2مئی2008ءبمقام ابوجہ (نائیجیریا) میں فرمایا:

’’نائیجیریا کی جماعت تو خلافت کی برکات کا براہ راست مشاہدہ کر چکی ہے۔ آپ لوگوں کو تو بہت زیادہ اس انعام کی قدر کرنی چاہئے۔ آپ جانتے ہیں کہ جو لوگ یہاں مساجد سمیت خلافت سے علیحدہ ہو گئے تھے آج ان کی کیا حیثیت ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ لیکن جو لوگ خلافت کے انعام سے چمٹے رہے، جنہوں نے اپنے عہد بیعت کو نبھانے کی کوشش کی، اللہ تعالیٰ نے انہیں بے شمار انعامات سے نوازا۔ آج ہر شہرمیں آپ جماعت کی ترقی کے نظارے دیکھتے ہیں۔ آج آپ کی یہاں ہزاروں میںموجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ خلافت کے ساتھ ہی برکت ہے‘‘۔

(الفضل انٹرنیشنل23مئی2008ء ص6)

٭خلیفۂ وقت کے تمام احکامات کی پیروی کریں

حضور انور نے خطبہ جمعہ 19ستمبر2003ء میں فرمایا:

’’جب تم بیعت میں شامل ہو گئے ہو اور حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کی جماعت کے نظام میں شامل ہو گئے ہوتو پھر تم نے اپنا سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دیا اور اب تمہیں صرف ان کے احکامات کی پیروی کرنی ہے،ان کی تعلیم کی پیروی کرنی ہے ۔ اور آپ کے بعد چونکہ نظام خلافت قائم ہے اس لئے خلیفۂ وقت کے احکامات کی ، ہدایات کی پیروی کرنا تمہارا کام ہے‘‘۔

(الفضل انٹرنیشنل14نومبر2003ء ص5)

٭خلیفۂ وقت کی کامل اطاعت ضروری ہے

حضور انور نے خطبہ جمعہ 31جنوری2014 ء میں فرمایا:

’’اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود ؑسے جوڑ کر اور پھر خلافت سے کامل اطاعت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہی چیز ہے جو جماعت میں مضبوطی اور روحانیت میں ترقی کا باعث بنے گی۔ خلافت کی پہچان اور اس کا صحیح علم اور ادراک اس طرح جماعت میں پیدا ہونا چاہئے کہ خلیفہ وقت کے ہر فیصلے کو بخوشی قبول کرنے والے ہوں‘‘۔

(الفضل 18مارچ 2014ء ص6)

٭خلیفہ وقت کے خطبات کے نوٹس لیں

حضور انورنے سنگاپور میں ہدایت فرمائی کہ مربیان حضور کے خطبات کے نوٹس بنا کر جماعت کو پہنچایا کریں۔ (الفضل 26؍اکتوبر 2013ء)

٭خلیفۃ المسیح کے خطبات سننے کی طرف توجہ

حضور انور نے فرمایا:’’کم از کم آپ کو میرے خطبات، تقاریر اور میرے دیگر پروگرام دیکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے‘‘۔(الفضل 5نومبر 2013ء)

وقف نو کے لئے تحریک

حضور انور نے واقفین نو کی تربیت اور مختلف شعبہ جات میں ان کی ترقیات کے لئے تفصیلی خطبات ارشاد فرمائے ہیں:

٭واقفین نو زبانیں سیکھیں

حضور انور نے خطبہ جمعہ18جون2004ء میں فرمایا:

’ ’ اس ضمن میں مَیں واقفین نو سے بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ واقفین نو جو شعور کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور جن کا زبانیں سیکھنے کی طرف رجحان بھی ہے اور صلاحیت بھی ہے خاص طور پر لڑکیاں وہ انگریزی، عربی، اردو اور ملکی زبان جو سیکھ رہی ہیں جب سیکھیں تو اس میں اتنا عبور حاصل کر لیں، (میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر لڑکیوں میں زبانیں سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے) کہ جماعت کی کتب اور لٹریچر وغیرہ کا ترجمہ کرنے کے قابل ہو سکیں تبھی ہم ہر جگہ نفوذ کر سکتے ہیں۔ ‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 2جولائی2004ء)

٭لاکھوں کی تعداد میں وقف نو چاہئیں۔

حضور انور نے جامعہ احمدیہ برطانیہ کے افتتاح کے موقعہ پر فرمایا:

’’حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جب وقف نَو کی تحریک فرمائی تھی تو فرمایا تھا کہ ہمیں لاکھوں واقفین نَو چاہئیں۔اب تک تو واقفین نو کی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن جس طرح جماعت کی تعداد بڑھ رہی ہے اور جس طرح والدین کی اس طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے انشاء اللہ لاکھوں کی تعداد ہو جائے گی اور پھر ظاہر ہے ہر ملک میں جامعہ احمدیہ کھولنا پڑ ے گا اور یہ انشاء اللہ ایک دن ہوگا۔‘‘

(الفضل 7 دسمبر 2005ء ص3)

نظام وصیت میں شمولیت کی تحریک

نظام وصیت 1905ءسے جاری ہے۔ حضور انور نے یکم اگست 2004ء سے2005ء تک ایک سال میں 15ہزار نئی وصایا کرنے اور 2008ء تک ہر ملک اور ہر جماعت میں تمام کمانے والے افراد کے کم از کم 50 فیصد کے نظام وصیت میں شامل ہونے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:

’’تقریباً 1905ء سے لے کر آج تک صرف اڑتیس ہزار کے قریب احمدیوں نے وصیت کی ہے۔ اگلے سال انشاء اللہ تعالیٰ وصیت کے نظام کو قائم ہوئے سَو سال ہو جائیں گے۔ میری یہ خواہش ہے اور مَیں یہ تحریک کرنا چاہتاہوں کہ اس آسمانی نظام میں اپنی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے، اپنی نسلوں کی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے شامل ہوں۔ آگے آئیں اور اس ایک سال میں کم از کم پندرہ ہزارنئی وصایا ہو جائیں تا کہ کم از کم پچاس ہزار وصایا تو ایسی ہوں کہ جو ہم کہہ سکیں کہ سو سال میں ہوئیں۔

میری یہ خواہش ہے کہ 2008ء میں جو خلافت کو قائم ہوئے انشاء اللہ تعالیٰ سَو سال ہو جائیں گے تو دنیا کے ہر ملک میں ،ہر جماعت میں جو کمانے والے افراد ہیں ،جو چندہ دہند ہیں اُن میں سے کم از کم پچاس فیصد تو ایسے ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس عظیم الشان نظام میں شامل ہو چکے ہوں۔

(الفضل انٹرنیشنل 10دسمبر2004ء ص10)

٭تمام عہدیداران کو نظام وصیت میں شمولیت کی تحریک

حضور انور نے دورہ سوئیٹزرلینڈ کے دوران مورخہ 6ستمبر2004ءکو نیشنل مجلس عاملہ سوئٹزرلینڈ کے ساتھ میٹنگ میں فرمایا کہ سب سے پہلے اپنی مجلس عاملہ کو وصیت کے نظام میں شامل کریں۔اس طرح دوسری جماعتوں کے عہدیدار بھی وصیت کے نظام میں شامل ہوں۔

(الفضل 15 ستمبر 2004ء ص3)

عملی اصلاح کی تحریک

حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے دورِ خلافت کے آغا ز سے ہی عملی اصلاح کے بارہ میں توجہ دلائی ہے۔حضور انور نے 22نومبر2013ء سے عملی اصلاح کے متعلق خطبات کا سلسلہ شروع فرمایاجن میں حضور انور نے احباب جماعت کے ساتھ بالخصوص مربیان ومعلمین اور جماعتی عہدیداران کو ان کے فرائض سے آگاہ فرمایا ہے۔حضور انور نے مورخہ13ستمبر2005ء کو نیشنل مجلس عاملہ سویڈن کے ساتھ میٹنگ میں فرمایا۔’’ آپ اپنی اصلاحی کمیٹی کو بھی Activeکریں ۔ حضو رانور نے فرمایا اصلاح کا کام بہت بڑا ہے ۔کسی کی اصلاح کرنے میں ہر گز تھکنا نہیں بلکہ چار ہزار دفعہ بھی کہنا پڑے تو کہیں۔نہ تھکنا ہے اور نہ مایوس ہونا ہے۔ نرمی سے سمجھاتے چلے جانا ہے‘‘ ۔

(الفضل انٹرنیشنل28اکتوبر2005ء ص16)

حضور انور نے ممبران مجلس مشاورت پاکستان 2014ء کے نام پیغام میں فرمایا:

’’میرا یہ پیغام ہر عہدیدار تک پہنچا دیں اور خود بھی اس پر عمل کریں کہ ہم نے عملی اصلاح کی طرف ایک خاص جذبے اور شوق سے پہلے سے بڑھ کر قدم اٹھانا ہے‘‘۔

(الفضل 27 مارچ 2014ء)

حضور انور نے خطبہ جمعہ 6دسمبر2013ء میں فرمایا:

’’کیا ہم میں سے ہر ایک بھرپور کوشش کرتے ہوئے اپنی اس طرح عملی اصلاح کر رہا ہے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے جو ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے، یہ پوچھتی ہے کہ کیا ہم نے سچائی کے وہ معیار قائم کر لئے ہیں کہ جھوٹ اور فریب ہمارے قریب بھی نہ پھٹکے؟ کیا ہم نے اپنے دنیاوی معاملات سے واسطہ رکھتے ہوئے آخرت پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے؟ کیا ہم حقیقت میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہیں؟ کیا ہم ہر ایک بدی سے اور بدعملی سے انتہائی محتاط ہو کر بچنے کی کوشش کرنے والے ہیں؟ کیا ہم کسی کا حق مارنے سے بچنے والے اور ناجائز تصرف سے بچنے والے ہیں؟ کیا ہم پنجگانہ نماز کا التزام کرنے والے ہیں؟ کیا ہم ہمیشہ دعا میں لگے رہنے والے اور خدا تعالیٰ کو انکسار سے یاد کرنے والے ہیں؟ کیا ہم ہر ایسے بد رفیق اور ساتھی کو جو ہم پر بد اثر ڈالتا ہے، چھوڑنے والے ہیں؟ کیا ہم اپنے ماں باپ کی خدمت اور اُن کی عزت کرنے والے اور امورِ معروفہ میں اُن کی بات ماننے والے ہیں؟ کیا ہم اپنی بیوی اور اُس کے رشتہ داروں سے نرمی اور احسان کا سلوک کرنے والے ہیں؟ کیا ہم اپنے ہمسائے کو ادنیٰ ادنیٰ خیر سے محروم تو نہیں کر رہے؟ کیا ہم اپنے قصور وار کا گناہ بخشنے والے ہیں؟ کیا ہمارے دل دوسروں کے لئے ہر قسم کے کینے اور بُغض سے پاک ہیں؟ کیا ہر خاوند اور ہر بیوی ایک دوسرے کی امانت کا حق ادا کرنے والے ہیں؟ کیا ہم عہدِ بیعت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی حالتوں کی طرف نظر رکھنے والے ہیں؟ کیا ہماری مجلسیں دوسروں پر تہمتیں لگانے اور چغلیاں کرنے سے پاک ہیں؟ کیا ہماری زیادہ تر مجالس اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کرنے والی ہیں؟ اگر ان کا جواب نفی میں ہے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے دُور ہیں اور ہمیں اپنی عملی حالتوں کی فکر کرنی چاہئے۔ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو ہم میں سے وہ خوش قسمت ہیں جن کو یہ جواب ہاں میں ملتا ہے کہ ہم اپنی عملی حالتوں کی طرف توجہ دے کر بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں‘‘۔

(الفضل انٹرنیشنل27دسمبر2013ءص6)

……………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button