تعارف کتاب

تحفہ بنارس

(شیخ مجاہد احمد شاستری۔ ایڈیٹر البدر (ہندی) قادیان)

کتب مینار: تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

(مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ)

جناب موصوف نے نہایت ہی سیمپل اور عام فہم مثالیں دے کر خدا کے سچے مذہب ( دین اسلام )کو سچا اور خدا تعالیٰ کو قادر مطلق اور واحد ثابت کر دکھایا ہے

٭…سنِ اشاعت1911ء

٭…’’چھپنے سے قبل اس کا مسودہ ملاحظہ کر کے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل مولانا مولوی حکیم نور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ’’جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ پڑھ لیا ہے بہت عمدہ ہے۔‘‘ (بحوالہ کتاب تحفہ بنارس صفحہ ب)

تعارف مصنف

حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓسیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک جلیل القدر صحابی تھے۔ آپ مفتی عنایت اللہ صاحب وفیض بی بی صاحبہ کے یہاں بھیرہ ضلع شاہ پور میں 11؍جنوری 1872ء میں پیدا ہوئے۔انٹرنس تک بھیرہ میں تعلیم پائی اس کے بعد ایف اے کا امتحان جموں ہائی سکول میں مدرس ہونے کے زمانے میں پرائیویٹ طور پر پاس کیا 1890ء میں جموں میں ریاست کے مدرسہ میں مدرس ہو گیا۔ حضرت مولانا نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے توسط سے آپ کو امام الزمان سیدنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی توفیق ملی۔ جلد ہی آپ اپنے ایمان و ایقان میں نمایاں ترقی کرتے چلے گئے۔ 1905ء میں ایڈیٹر البدر حضرت منشی محمد افضل صاحب کی وفات کے بعد آپ کو بطور ایڈیٹر البدر خدمات کی نمایاں توفیق ملی۔ اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’میں بڑی خوشی سے یہ چند سطریں تحریر کرتا ہوں کہ اگرچہ منشی محمد افضل مرحوم ایڈیٹر اخبار البدر قضائے الٰہی سے فوت ہو گئے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے شکر اور فضل سے اُن کا نعم البدل اخبار کو ہاتھ آگیا ہے یعنی ہمارے سلسلہ کے ایک برگزیدہ رکن جوان ، صالح اور ہر ایک طور سے لائق جن کی خوبیوں کو بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں ۔ یعنی مفتی محمد صادق صاحب بھیروی قائم مقام منشی محمد افضل صاحب مرحوم ہو گئے ہیں۔

میری دانست میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اس اخبار کی قسمت جاگ اُٹھی ہے کہ اس کو ایسا لائق اور صالح ایڈیٹر ہاتھ آیا ۔ خدا تعالیٰ یہ کام اُن کے لئے مبارک کرے۔ آمین ثم آمین‘‘

(البدر16؍اپریل1905ء)

کتاب تحفہ بنارس کا پس منظر

25؍اپریل 1911ء بروز منگل حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب ؓ،حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ اور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی ہدایت پر بنارس لیکچر دینے کے لیے گئے۔ اس سفر میں بنارس کے علاوہ مونگھیر، شاہ آباد شاہجہان پور گوجرانوالہ اور بھیرہ بھی جانا ہوا۔ تا ہم اصل اور اوّل مقصد اس سفر کا بنارس تھا۔ اس لیے اس کتاب کا نام تحفہ بنارس رکھا گیا۔ سفر کے شروع میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓنے نصیحت فرمائی کہ ’’اپنے علم پر ہر گز گھمنڈ نہ کرو۔ صرف خدائے تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کرو۔ میں اس معاملہ میں بہت تجربہ کار ہوں صرف اس کا فضل ہے جو کام آتا ہے۔‘‘

(البدر 8؍جون1911ء صفحہ 2)

30؍اپریل 1911ء کو بروز اتوار ٹاؤن ہال بنارس میں یہ لیکچر منعقد ہوا۔ جو بعد میں کتابی شکل ’’تحفہ بنارس‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔

لیکچر کے متعلق حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کا ایک کشف

لیکچر کےساتھ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت خاص طور پر شامل حال تھی۔اس بارے میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی ؓ بیان فرماتےہیں کہ ’’سیدنا حضرت مفتی صاحب کے لیکچر کے لئے جب ہم بنارس کے ٹاؤن ہال میں گاڑی پر سوار ہو کر جا رہے تھے تو صاحب ممدوح نے اپنا لیکچر میرے ہاتھ میں دیا کہ اس کی کامیابی کے لئے اس کو ہاتھ میں لے کر دُعا کرو۔ مجھے اس بے نفس انسان کی اس بات پربہت ہی تعجب ہوا کہ آپ اس ناچیز کو دعا کے لئے فرما رہے ہیں۔ مجھےبہت ہی شرم آئی لیکن اس لئے کہ یہ اپنا ہی کام ہےاور اسلام کی نصرت اور تائید کے لئے الامر فوق الادب کے ماتحت لیکچر کو ہاتھ میں لے کر دعا کے لئے توجہ کی اور دعا کی کہ الٰہی اس صادق انسان کی صداقت اور اخلاص کے طفیل میری دُعا اس کی تائید میں قبول کراور حضرت خلیفۃ المسیح اور مسیح موعود علیہ السلام کی عزت کے لئے اسے عزّت دے اور اپنی توحید اور تقدیس کی خاطر اس کی نصرت فرما۔ اسی طرح دُعا کر رہا تھا کہ ایک دفعہ مجھے انشراح ہو گیا اور معاً میری روحانی آنکھ کھل گئی جس سے آسمان سے مجھے بارش کی طرح انوار نظرا ٓئے اور دیکھا کہ گویا آسمان کے دروازے کھل گئے اور بشارت معلوم ہوئی کہ کامیابی کامیابی ، میں نے یہ سب ماجرا حضرت ممدوح سے راستہ ہی میں عرض کر دیا جو بعینہٖ اسی طرح ظہور میں آیا۔ الحمد للہ علی ذالک‘‘

(اخبار البدر8؍جون 1911ء صفحہ6)

یہ لیکچر انتہائی کامیابی کے ساتھ ہوا۔ اور اس کے نتیجے میں سارے بنارس میں احمدیت کے متعلق ایک شور مچ گیا۔ مخالفین بھی اس لیکچر کے اثر سے اپنے محلوں میں احمدی علماء کالیکچر کروانے کی درخواست کرنے آئے۔چنانچہ اُن کی خواہش کے پیش نظر حضرت میر قاسم علی صاحب ؓ ، حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ تین دن بنارس میںموجود رہے اور محلوں میں تقاریر کیں۔

تحفہ بنارس کی عبارت کا نمونہ

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے دل کی گہرائیوں سے خدا کی تائید و نصرت کے ساتھ یہ لیکچر دیا تھا۔ اس لیے جب یہ کتابی شکل میں شائع ہوا تو سارے ہندوستان میں مقبول و مشہور ہوا۔ آپ کے لیکچر کا ایک حصہ بطور نمونہ پیش ہے۔ آپ کا لیکچر یوں شروع ہوتا ہے: ’’اللہ اکبر! خدا کےپیاروں کی باتیں ہر وقت اور ہر زمانہ میں سچی نکلتی ہیں۔ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ البرکات اور نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے جس توحید کو دنیا میں پھیلایا اور انسان کو ناکارہ بوجھوں سے آزاد کیا اُس توحید کا پیام میں آ ج اہل بنارس کو پہنچانا چاہتا ہوں اور خدائے واحد سے دعا کرتا ہوں کہ وہ میرے کلام میں برکت ڈالے اور اس میں ایک ایک تاثیر رکھ دے۔ جو اس مرکز ہنود کو ایسی جنبش دے کہ محیط ہنود تک سارے رقبہ ہند کے لئے موجب ہدایت ہو جائے۔‘‘

مزید فرماتےہیں:’’اے کاشی! [سر زمین کاشی ،بنارس کا دوسرا نام ]تو ہندو مت کا مقدس شہر ہے اور ہندو دنیا کا مرکز ہے میرا تجھے مخاطب کرنا ساری ہندو جاتی کو مخاطب کرنا ہے۔ میری باتوں کی قدر کر کہ یہ دردِ دل سے نکلی ہیں۔‘‘

’’اے بنارس تو بُت خانوں اور بتوں سے بھرا پڑا ہے۔ جتنے مندر بتوں کی پوجا کے لئے تیرے اندر ہیں کبھی کسی شہر میں نہ ہوں گے۔ پر کیا کبھی تونے سوچا ہے کہ ان بتوں نے تجھے کیا فائدہ دیا۔ میں اُن بزرگوں پر حملہ نہیں کرتا جن کے نام پر یہ بُت بنائے گئے ہیں۔ اور کرشنا اور راما ایسے ہی بہت سے پرم ایشور کےپیارے اس زمین پر گزرےہیں جنہوں نے اپنے رب کی بھگتی کی اور اس درجہ تک پہنچے۔‘‘

ہندو قوم کو توحید کی طرف دعوت دیتےہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’اے پیارو! اُس قادر مطلق ہستی کی طرف دوڑو جس کو کوئی توڑ ہی نہیں سکتا وہ جو زندگی ہےاور زندگی بخش ہے وہ جو قدیم ہے جو ہمیشہ سےہےاور ہمیشہ رہےگا۔ سینکڑوں سال کے تجربہ سے فائدہ اٹھاؤ۔

نہیںتو خود تجربہ کر لو ایک مورتی کا پجاری جس نے ساری عمر بھی اُس مورتی کی پوجا کی ہو ۔ اگر کوئی شخص اُس مورتی کو تجربۃً اس پجاری کے سر پر دے مارے تو وہ اس پجاری کا سر پھوڑ ڈالے گی اور اُسے ہلاک کر دے گی۔‘‘

اہل کاشی کو امام الزمان کی دعوت دیتے ہوئےآپ فرماتےہیں کہ ’’اے کاشی کے بسنے والو! تم نے کرشن مہاراج کے قصے سُنے۔ تمہارےدل میں بسا اوقات یہ آرزو پیدا ہوئی ہوگی اور یہ خواہش گد گدی کرتی ہوگی کہ کاش! ہم بھی کرشن مہاراج کے وقت میں ہوتے تو اُن کا ساتھ دیتے ۔ ہم دشٹوں کو ہلاکر کرتے…

ہاں اے کاشی کے بسنےوالو! اُس کرپالو دیالو ایک خدا کے آگے شکریہ میں اپنا سر زمین پر رکھ دو کہ اُس نے تمہیں میں سے تمہارے ہی ملک میں پھر رودر گوپال کو پیدا کر دیا اس نے تمہارےسامنے عجیب کام دکھائے۔ اس کی سانس سے وہ دشٹ ہلاک ہوئے۔‘‘

تحفہ بنارس پر تبصرہ جات و ریویو

تحفہ بنارس پر اُس وقت کے کئی مشہور اخبارات نے ریویو لکھے۔ جو حضرت مفتی صاحبؓ نے اخبار البدر میں شائع کیے۔ایڈیٹر صاحب اخبار ریواڑی کا ریویو بطور نمونہ پیش ہے۔ آپ لکھتےہیں: ’’تحفہ بنارس یہ اُس لیکچر کا مجموعہ ہے جو جناب مولوی محمد صادق صاحب احمدی ایڈیٹر اخبار بدر قادیان نے 30؍ اپریل 1911ء کو بہ مجمع اہل ہنودبعد نماز مغرب ٹاؤن ہال بنارس میں دیا تھا۔ اور جسے اب کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔ جناب موصوف نے نہایت ہی سیمپل اور عام فہم مثالیں دے کر خدا کے سچے مذہب ( دین اسلام )کو سچا اور خدا تعالیٰ کو قادر مطلق اور واحد ثابت کر دکھایا ہے ممکن نہیں بغیر ختم کئے چھوڑ دیا جائے ۔ ایک مثال بطور نمونہ لیکچر میں سے یہاں نقل کی جاتی ہے۔ جس سے عاقل اور فہمیدہ اصحاب خود اندازہ لگا لیں گے کہ یہ لیکچر کا مجموعہ کیسا ہے

سوال: ہندو۔ ’’آپ کے نزدیک اوتار کی کیا تعریف ہے؟‘‘

جواب: صادق۔ جہاں تک میںنے غور کیا ہے اوتاروں کی مثال ایسی ہے جیسے کہ بجلی بعض ذرائع سے ایک تار کے اندر ڈال دی جاتی ہے تو وہ تار کا ٹکڑا معمولی تاروں کی طرح نہیں رہتا بلکہ ایسے عجیب کام اس سے ظاہر ہوتےہیں جو دوسرے تاروں سے نہیں ہو سکتے۔ اور ہم نہیں کہہ سکتے دوسرے ٹکروں کی طرح یہ بھی ایک تار ہے لیکن ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ تار بجلی بن گیا۔ اور دنیا میں جو بجلی پیدا ہوئی وہ سب اس کے اندر گھس گئی ہے بلکہ سچ بات یوں ہے کہ بجلی بجائے خود اپنی جگہ قائم ہے اور اس کی طرف سے ایک خاصیت اس ٹکڑے کو عطا ہوئی ہے۔ ایسا ہی خدا کے پیارے بندوں پر ایک چادر ڈالی جاتی ہے اور وہ ایسے کام کر دکھاتے ہیں جو دوسرے انسان نہیں کر سکتے۔ وہ دوسرے انسانوں سے ممتاز ہیں۔ اعلیٰ ہیں۔ برتر ہیں لیکن وہ خدا نہیں بن جاتے بلکہ خداوند تعالیٰ اپنی ذات میں دائم قائم ازلی ابدی ہے۔

دیکھئے ناظرین کیا عام فہم مثال دی ہے۔ الغرض یہ لیکچر نہایت دلچسپ ہے۔‘‘

(اخبار بدر قادیان17؍مارچ 1912ء صفحہ 3)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button