https://youtu.be/tD2Hto69KPU اسلام اور بانئ اسلامؐ کے خلاف اس شخص [پنڈت لیکھرام]کی زبان چھری اور کٹار سے کم نہ تھی۔اوریہی وجہ تھی کہ خداکی قہری تجلی نے اس بدزبان وبدباطن شخص کاانجام بھی چھری سے ہی کیا (گذشتہ سے پیوستہ)مخالفین نے زبانی لاف وگزاف سے توبہت کام لیالیکن براہین احمدیہ کے جواب میں دراصل کوئی ایک کتاب بھی نہیں لکھی گئی۔ اصولی طورپردیکھاجائےتو براہین احمدیہ کے مؤلف کی طرف سے بنیادی طورپریہ چیلنج نہیں تھاکہ براہین احمدیہ کاجواب لکھو۔ اصل یہ تھا :’’اگر کوئی صاحب منکرین میں سے مشارکت اپنی کتاب کی فرقان مجید سے اُن سب براہین اور دلائل میں جو ہم نے دربارہ حقیت فرقان مجید اور صدقِ رسالت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اُسی کتاب مقدس سے اخذ کرکے تحریرکیں ہیں اپنی الہامی کتاب میں سے ثابت کرکے دکھلاوے یا اگر تعداد میں ان کے برابر پیش نہ کرسکے تو نصف اِن سے یا ثلث ان سے یا ربع ان سے یا خمس ان سے نکال کر پیش کرے۔‘‘ اورپھر یہ ہے کہ اگر وہ عاجزہے اور اپنی مقدس کتاب سے ایساکچھ ثابت نہیں کرسکتا تو پھربراہین احمدیہ میں موجود دلائل کوتوڑکردکھادے ۔جیساکہ حضورؑ نے اسی اشتہارمیں لکھا:’’یا اگر بکلی پیش کرنے سے عاجز ہو تو ہمارے ہی دلائل کو نمبروار توڑ دے تو ان سب صورتوں میں بشرطیکہ تین منصف مقبولۂ فریقین بالاتفاق یہ رائے ظاہرکر دیں کہ ایفاء شرط جیساکہ چاہئے تھا ظہور میں آگیا میں مشتہر ایسے مجیب کو بلا عذرے وحیلتے اپنی جائیداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض و دخل دے دوں گا۔ مگر واضح رہے کہ اگر اپنی کتاب کی دلائل معقولہ پیش کرنے سے عاجز اور قاصر رہیں یا برطبق شرط اشتہار کی خمس تک پیش نہ کر سکیں تو اس حالت میں بصراحت تمام تحریر کرنا ہوگا جو بوجہ ناکامل یا غیر معقول ہونے کتاب کے اس شق کے پورا کرنے سے مجبور اور معذور رہے۔ اور اگر دلائل مطلوبہ پیش کریں تو اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ جو ہم نے خمس دلائل تک پیش کرنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس سے ہماری یہ مراد نہیں ہے جو اس تمام مجموعۂ دلائل کا بغیر کسی تفریق اور امتیاز کے نصف یا ثلث یا ربع یا خمس پیش کردیا جائے بلکہ یہ شرط ہر یک صنف کی دلائل سے متعلق ہے اور ہر صنف کے براہین میں سے نصف یا ثلث یا ربع یا خمس پیش کرنا ہوگا۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۵تا۳۱) حضورؑ کے اس چیلنج کوسامنے رکھتے ہوئے دیکھیں تو آج تک کسی مخالف کی طرف سے کبھی بھی کوئی کتاب سامنے نہیں آئی ۔اور نہ ہی کوئی سنجیدہ کوشش ہی ہوئی ۔چندایک کتابیں یامضامین ضرور شائع ہوئے لیکن انتہائی غیرسنجیدہ کوشش اور غیرعالمانہ سوقیانہ انداز۔ ابھی اوپرحضرت اقدسؑ کی ایک تحریرپیش کی گئی ہے کہ جس میں آپؑ نے یہ چیلنج دیاتھا کہ کوئی ارسطو اور بیکن کاروپ دھارسکے تومیدان میں آئے ۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص اٹھا جو بیکن کا روپ تو دھارنے کی حیثیت نہیں رکھتا تھا البتہ ابلیس کے ظِل کامل کا روپ دھارنے میں کامیاب ہوا او رافلاطون اور ارسطو کی نظرفکر تو نہ لا سکا البتہ ڈوموں اور اوباشوں کا استاد ثابت ہوا اور ان کے لیے ایک نظر فکر ضرور چھوڑ گیا۔ اور اس نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ رکھا گیا اور اس کا مصنف تھا پنڈت لیکھرام پشاوری۔ اسلام اور بانئ اسلامؐ کے خلاف اس شخص کی زبان چھری اور کٹار سے کم نہ تھی ۔اوریہی وجہ تھی کہ خداکی قہری تجلی نے اس بدزبان وبدباطن شخص کاانجام بھی چھری سے ہی کیا۔ گو کہ براہین احمدیہ کی مخالفت میں ریویو کی طرز پر پادری بی۔ ایل۔ ٹھاکر داس اور برہموؤں کی طرف سے پنڈت سیتانند اگنی ہوتری نے بھی لکھا اور اعتراضات کیے البتہ کتابی شکل میں ان اعتراضات کو جمع کرنے میں لیکھرام کی بدقسمتی کا قرعہ نکلا۔ ۱۸۶۰ء میں پیدا ہونے والا یہ شخص جو کہ پولیس میں ملازمت کرتے ہوئے آہستہ آہستہ آریہ سماج کے ایک پُرجوش کارکن کی حیثیت سے ابھرا۔ علم و تحقیق کے میدان میں تو اس کی حیثیت معمولی سی تھی لیکن اس کی کمی اس نے گالیوں، استہزا اور تمسخرانہ پن اور بدزبانی سے پوری کی اور بڑے بڑے بدزبان پادریوں اور کنہا لعل الکھ دھاری اور اندرمن مراد آبادی جیسوں کے بھی کان کاٹے۔ اور یوں یہ نوجوان آریہ، آریہ سماج میں، آریہ مسافر کی حیثیت سے جانا گیا۔ اس کی ۳۳ کے قریب کتب ہیں جن میں سے ایک’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ ہے۔ ’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ جیسے کہ نام سے ظاہر ہے کہ براہین احمدیہ کا جواب نہیں ہے۔ براہین احمدیہ میں موجود دلائل کا ردّ بھی نہیں ہے جیسا کہ مصنف براہین احمدیہ کا اعلان تھا بلکہ یہ تو ’’تکذیب‘‘ہے ان صداقتوں کی جو اس کتاب میں موجود ہیں۔ کتاب چھپنے سے بھی پہلے یہ اعلان ہو چکا تھا کہ ہم جواب لکھیں گے۔ مطلب یہ کہ جو مرضی مرزا صاحب لکھیں ہم نے اس کی تکذیب کرنی ہی کرنی ہے۔ اس لیے اس کا نام بھی ’’تکذیب‘‘ ہی رکھا اور کتاب پڑھ کر یہ بات بالکل سچ ثابت ہوتی ہے کہ مخالفت برائے مخالفت ہے۔ حالانکہ اصول تو یہ ہونا چاہئے کہ فریق مخالف کی بات سن کر اس پر غور کیا جائے، غور کا وعدہ کیا جائے اور پھر گہرے غور و فکر اور علمی تحقیق کے بعد اس کے حسن و قبح کا اظہار ہو۔ اور اگر حق کی تلاش ہو تو مزید سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو۔ لیکن یہ کتاب یکسر اس سے عاری ہے۔ یہ کتاب ہر قسم کے اخلاقی اصولوں اور تہذیب و شائستگی سے بھی عاری ہے۔ استہزا اور تمسخر اور ہنسی اور ٹھٹھے اور زبان درازیوں کی عفونت سے بھری ہوئی ایک پوٹلی ہے۔ جس کو بڑا ہی جی کڑا کر کے پڑھا جا سکتا ہے۔ میں قارئین کی طبع سلیم کو مکدر نہیں کرنا چاہتا لہٰذا اس کی تفصیلات کو چھوڑتا ہوں۔ البتہ اس کی اس کتاب کے بارے میں حَکم و عدل اور کرشن ثانی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے کیا فرمایا اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’ہماری کتاب براہین احمدیہ کے ردّ میں اسی ہندو نے جس کا نام عنوان میں درج ہے [عنوان تھا ’’لیکھرام پشاوری کے علم اور عقل کا نمونہ‘‘]چند اوراق چھپوائے ہیں اور جیسا کہ ان لوگوں کی عادت ہے بہت کچھ افتراء اور بے جا توہین اور ایک بدبودار بیوقوفی کے ساتھ قرآن شریف پر اعتراض کئے ہیں۔ یہ کتاب جس کا نام ’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ رکھا ہے اس شخص کی لیاقت علمی و اندازہ عقلی کا ایک آئینہ ہے ہمیں ہرگز امید نہیں کہ کوئی تمیزدار ہندو اس کتاب کو پڑھ کر پھر یہ رائے ظاہر کرسکے کہ اس کے مؤلف کو عقل اور فہم اور علم دین سے کچھ حصہ ہے یا تہذیب اور شرافت سےاس کی فطرت کو کچھ تعلق ہے۔ اس کتاب کی حقیقت سے ہمیں بخوبی واقفیت ہے اور ہمیں اس وقت ان ہندوؤں کی عقل پر نہایت افسوس ہے جنہوں نے ایک ایسے جاہل لایعقل کے سیہ کردہ کاغذات کو قیمتاً خریدنا چاہا ہے…‘‘(شحنۂ حق ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۲۵) قارئین کے ازدیادِ علم کے لیے عرض ہے کہ تکذیب براہین کی کچھ باتوں کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’شحنۂ حق‘‘ میں بھی ہے گو کہ اصولی جواب تو حضورؑ کی کئی کتب میں بار بار آ چکے ہیں مثلاً سرمہ چشم آریہ، شحنۂ حق، پرانی تحریریں، چشمہ معرفت وغیرہ۔ یہ کتاب یعنی تکذیب براہین احمدیہ دو حصوں میں ہے۔ حصہ اول اور حصہ دوم۔ لیکن ہوا یہ ہے کہ براہین احمدیہ کے ردّ میں جو کتاب شائع ہوئی وہ صرف حصہ اول تھا اور وہ بھی ۱۰۲؍صفحات جو کہ ۱۸۸۷ء میں شائع ہوا۔ باقی (دوسرا حصہ) کتاب کا، لیکھرام کی وفات کے بعد آریہ سماج کی طرف سے شائع کیا گیا ہےجو کہ لیکھرام کے صرف نوٹس تھے جن کو خود نئے سرے سے تیار کر کے شائع کیا گیا ہے۔ جیسا کہ تکذیب کو شائع کرنے والے ایڈیٹر ’’کلیات آریہ مسافر‘‘منشی رام جگیاسو لکھتے ہیں:’’… اس کتاب کی تکمیل میں بڑی بھاری رکاوٹوں کا سامنا پڑا۔ میں نے اس کام کو ہاتھ میں لیتے وقت سمجھا تھا کہ پنڈت جی کتاب کو مکمل کر چکے ہوں گےلیکن جب پڑتال کی گئی تو معلوم ہوا کہ اکثر باب بالکل نامکمل ہیں۔ بعض جگہوں میں فریق مخالف کے اعتراضات درج کر کے جوابوں کے لئے جگہ چھوڑی ہوئی تھی اکثر جگہوں میں عبارت پڑھی نہیں جاتی تھی اور کئی جگہ پنسل کا لکھا ہوا تھا…… قریباً ۱۰۲ صفحے کتاب کے پنڈت جی کی زندگی میں لکھے جا چکے تھے۔ ان میں کچھ میں نے چھپوائے لیکن چونکہ کتابت ٹھیک نہ تھی اس لئے باقی کل کاپیاں ردی کر دی گئیں۔ ‘‘(کلیات آریہ مسافر صفحہ۴۲۴ مطبع مفید عام لاہور اکتوبر ۱۹۰۳ء) خیر کچھ بھی ہو۔ ان صاحب نے کتاب لکھی۔ اس میں جو بھی لکھا اس کا بدلہ وہ ۱۸۹۷ء کو پا گیا۔ جب خدا کے غضب کی صفت کا اظہار اس نے خود دیکھ لیا۔ تکذیب براہین احمدیہ کے جواب میں مولوی ابو رحمت حسن نے بھی ’’تہذیب المکذبین‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔ لیکن انتہائی محققانہ طرز پرنہایت عالمانہ رنگ میں اور ٹھوس علمی دلائل سے مرصع ومسجع کتاب جومنظرعام پرآئی وہ نخبۃالمتکلمین، زبدۃ المؤلفین، حدید الفؤاد، فصیح اللسان، حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحبؓ کی تصنیف ’’تصدیق براہین احمدیہ‘‘ تھی۔ جس کے بارے میں خداکے مامورومرسل حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا:’’میرے دوستوں میں ایک دوست سب سے زیادہ محبوب اور میرے محبوں میں سب سے زیادہ مخلص، فاضل، علامہ، عالم رموز کتاب مبین، عارف علوم الحکم والدین ہیں جن کا نام اپنی صفات کی طرح مولوی حکیم نور الدین ہے۔‘‘(ترجمہ از عربی عبارت سر الخلافہ صفحہ ۵۳،روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۳۸۱) (جاری ہے) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: حضرت مصلح موعودؓ کا پیغام—جماعت کے نام