(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍اگست۲۰۲۴ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: الحمدللہ گذشتہ ہفتے جلسہ سالانہ یوکے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے دکھاتا ہوا اختتام کو پہنچا۔ یہ تین دن بڑے برکتوں والے دن تھے جس نے اپنوں اور غیروں سب پر ایک مثبت اثر چھوڑا۔ بعض غیروں کے تاثرات بیان کروں گا۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ میں کام کرنےوالے کارکنان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کیا بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: مَیں کارکنان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے جلسہ سے پہلے بھی، جلسہ کے دوران بھی اور جلسہ کے بعد بھی ان انتظامات کے کرنے اور سمیٹنے میں اپنا کردار ادا کیا اور ابھی بھی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے افراد جماعت، عورتیں، مرد، بچے ان سب کی یہ ایسی خوبی ہے جس کی غیر بھی تعریف کرتے ہیں اور یہ خاموش تبلیغ ہوتی ہے جو یہ کارکنان اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے کر رہے ہوتے ہیں۔ جلسہ کے تمام شعبہ جات کے کارکنان کا اس میں اہم حصہ ہے چاہے وہ داخلی راستوں پر ہیں، گیٹ پر ہیں، چیکنگ پر ہیں، پارکنگ میں ہیں، کھانا کھلانے پر ہیں، کھانا پکانے پر ہیں، صفائی پر ہیں۔ بچوں کی ڈیوٹیاں ہیں پانی پلانے کی اس پہ ہیں یا اَور بچے جو مختلف جگہوں پر ڈیوٹی دے رہے ہیں ہر لحاظ سے ہر شعبہ جو جلسہ سالانہ میں کام کرتا ہے بڑا فعال نظر آتا ہے اور شکریہ کا مستحق ہے۔ چھوٹی موٹی کمزوریاں ہوتی ہیں بعضوں کو نظر بھی آتی ہوں گی لیکن اتنے بڑے انتظام میں ایسی کمزوریوں کو صَرفِ نظر کیا جانا چاہیے۔ بہرحال یہ جو ساری ڈیوٹیاں ہیں وہ دینے والے جو ہیں وہ علاوہ مہمانوں کی خدمت کے ایک خاموش تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ اس بارے میں تعریفی کلمات کارکنان کے لیے کہتے ہیں، لکھ کے بھیجتے ہیں، مہمان بھی جو غیر آئے ہوئے ہوتے ہیں اپنے تاثرات میں چھوڑ کے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا کے مختلف ممالک میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی شکرگزار ہیں کہ ہمیں جلسہ کا پروگرام احسن رنگ میں پہنچایا۔ پس ان سب کارکنان کا مَیں بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس سال برطانیہ کے کارکنان کے ساتھ ماریشس سے بھی پہلی دفعہ بڑی تعداد میں خدام اور کارکنان آئے اور بڑا اچھا کام کیا۔ اسی طرح کینیڈا سے خدام آئے ہیں جو وائنڈ اَپ (wind-up) میں مدد کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔ سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرنچ گیانا کے اسماعیل بیلن صاحب کےکیاتاثرات بیان فرمائے؟ جواب: فرمایا: اسماعیل بیلن صاحب جو جلسہ میں شامل ہوئے ان کا جماعت سے پرانا تعلق ہے لیکن بیعت نہیں کی ہوئی تھی۔ ان کو جلسہ کے دوران بیعت کی بھی توفیق مل گئی۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے اپنی زندگی میں اس طرح کی تقریب جہاں دنیا کی تمام بڑی زبانیں اور نسلیں جمع ہوں کبھی نہیں دیکھی۔ اس جلسہ میں شامل ہو کر خاکسار کا ایمان یقین میں تبدیل ہو گیا ہے کہ یہ سچی جماعت ہے اور یہ محمد ﷺ کی جماعت ہے۔ اگر ہم نے ہمارے نبی ﷺ کی آواز پر لبیک نہ کہتے ہوئے مسیح موعودؑ کو امام الزمان نہ مانا تو ہم گمراہ ہو جائیں گے۔ کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو اس رستہ پر ہدایت دی ہے اور آج اگر مسلمان متحد ہونا چاہتے ہیں تو ان کے لیے یہی ہے کہ جماعت احمدیہ میں شامل ہو کر خلافت کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس بابرکت جماعت میں شامل ہو جائیں۔ پھر کہتے ہیں جلسہ سالانہ کے انتظامات بھی لاثانی تھے۔ ہر کارکن ہمیشہ مسکراتا ہوا نظر آیا اور ان کے چہروں پر کوئی منافقت نہیں تھی۔ ہر کارکن دلی خوشی سے مہمانوں کی خدمت کر رہا تھا۔ میں کسی کو نہیں جانتا تھا مگر ہر کوئی ایسے مل رہا تھا جیسے ہم سالوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ کہتے ہیں جلسہ سے پہلے بھی میں کئی سالوں سے مسلمان تھا، میں مسلمان ہو گیا تھا اور اسلامی احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا مگر ہمیشہ لگتا تھا کسی چیز کی کمی ہے مگر اس جلسہ میں شامل ہو کر مجھے محسوس ہو ا کہ میری وہ کمی پوری ہو گئی ہے۔ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جاپان سےبدھ مت کےچیف پریسٹ یوشیداصاحب کے کیا تاثرات بیان فرمائے؟ جواب: فرمایا: جاپان سے آئے ہوئے بدھ مت کے چیف پریسٹ یوشیدا صاحب کہتے ہیں ہم نے جلسہ کے تمام سیشنز میں شرکت کی۔ میری اہلیہ خواتین کی مارکی میں بھی گئی۔ ہم نے نمائشیں بھی دیکھیں اور کچھ دیر کے لیے بازار کی طرف بھی گئے۔ ہر جگہ ایک بات مثالی تھی کہ خدمت کرنے والے رضاکار مستعد اور چوکس نظر آتے۔ پہلے دن سے لے کر آخری دن کے آخری لمحات تک کارکنان کا جوش و جذبہ ویسا ہی قائم و دائم تھا۔ جلسہ میں شامل ہونے والے احمدی احباب بھی نہایت مہمان نواز اور ملنسار تھے۔ دنیا کے سو سے زائد ممالک کے لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوں تو کئی چیزیں مختلف نظر آتی ہیں، کئی مسائل آ سکتے ہیں مگر یہاں ہر ایک کے اخلاق اور رویے ایک جیسے نظر آئے۔ جہاں کسی کو روک دیا گیا وہ وہیں رک گیا اور جہاں نماز کے لیے یا جلسہ کے لیے بلایا گیا وہاں بلاتاخیر پہنچ گئے۔ کہتے ہیں ہمارے لیے جلسہ کا یہ نظارہ ناقابل فراموش ہے۔ انہوں نے مجھ سے بھی ملاقات کی تھی اور مَیں نے ان کو کہا تھا کہ ایک خدا پر ایمان ضروری ہے۔ اس بارے میں سوچیں اور غور کریں اور اسی طرح انسانیت سے محبت کی تلقین بھی کی۔ کہتے ہیں کہ میں بدھ مت کا پیروکار ہونے کی وجہ سے روایتی طور پر تو ایک خدا کو نہیں مانتا مگر میرا دل یہی کہتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق اورمالک ہے اور ہم سب اس کی مخلوق ہیں اور ہم اس خالق و مالک ربّ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں۔بہرحال کچھ نہ کچھ ان میں اللہ تعالیٰ کی طرف قدم بڑھانے کا خیال پیدا ہوا۔ سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے چلّی کےعمرگیبورصاحب کےکیاتاثرات بیان فرمائے؟ جواب: فرمایا: چِلّی سے آنے والے ایک مہمان تھے عمر گیبور (Gaibur) صاحب جو چِلّی کی نیشنل حکومت میں ڈائریکٹر آف ورشپ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں، کہتے ہیں میرے فرائض میں شامل ہے کہ چِلّی کی حکومت کو ملک میں قائم تمام مذہبی تنظیموں کی رجسٹریشن اور دیگر معاملات میں راہنمائی کروں۔کہتے ہیں میں نے جماعت احمدیہ کے بارے میں ملک میں قائم مسلم تنظیموں سے رائے دریافت کی تو سب نے منفی تاثرات بیان کیے جن کا خلاصہ یہی تھا کہ یہ مسلمان نہیں ہیں۔ کہتے ہیں جلسہ میں آپ کے خلیفہ سے ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد میں آپ کی جماعت کے افرادسے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنا بھرپور کردار ادا کروں گا اور اپنے زیرِ اثر لوگوں کے سامنے اپنے ذاتی تجربات ظاہر کروں گا کہ احمدی نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ بہترین اور مثالی مسلمان ہیں۔ کہتے ہیں میں آپ کی جماعت کو چِلّی میں قائم کرنے کے اعتبار سے بھی اپنی بھرپور کوشش کروں گا۔ موصوف نے بیان کیا کہ مجھے بالخصوص خلیفہ کے پہلے دن کا خطاب بہت اچھا لگا جس میں انہوں نے ڈسپلن اور انتظامی امور پر بذاتِ خود خطبہ دیا۔ کہتے ہیں کہ میں نے کثرت سے مذہبی جلسوں میں شرکت کی ہے لیکن کبھی میں نے یہ نہیں دیکھا کہ کوئی مذہبی لیڈر خود انتظامی امور کی طرف راہنمائی کرے۔ مجھے یہ خطبہ سن کر بہت حیرت ہوئی اور ساتھ خوشی بھی کیونکہ یہ امر بتاتا ہے کہ آپ کے خلیفہ جماعت کی روحانی اور اخلاقی بہتری کے لیے اور انتظامی بہتری کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ سوال نمبر۶:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ارجنٹائن کے ٹامس رینل صاحب کے کیا تاثرات بیان فرمائے؟ جواب: فرمایا: ارجنٹائن سے آنے والے ایک مہمان ٹامس رینل (Tomas Randle) صاحب جنہوں نے ارجنٹائن کی نیشنل سیکرٹری آف ورشپ کی نمائندگی کی بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپ کی جماعت کے جلسہ کو رشک کی نگاہ سے دیکھا۔ کس عمدگی سے اور نظم و ضبط سے آپ لوگوں نے اس قدر بڑے مجمع کا انتظام کیا! کہنے لگے کہ ہمارے ملک میں ناممکن ہے بلکہ پولیس کی موجودگی میں بھی اس عمدگی سے اتنے بڑے مجمع کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور جو خلیفہ کا عورتوں سے خطاب تھا وہ اس پہلو سے بھی مجھے اچھا لگا کہ آپ لوگ معاشرے کے دباؤ اور مغربی دنیا کے اثر کے باوجود پختگی سے اپنے اصول پر قائم ہیں۔ کہتے ہیں گو کہ بحیثیت عیسائی میں تمام بیان فرمودہ نکات سے متفق تو نہیں لیکن بالخصوص جو فیملی لائف سے متعلقہ امور بیان کیے گئے وہ میرے لیے بحیثیت غیر مسلم بھی نہایت مفید تھے۔ سوال نمبر۷: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بیلیزکےرونلڈہائیڈصاحب کےکیاتاثرات بیان فرمائے؟ جواب: فرمایا: بیلیز سے آئے ہوئے مہمان رونلڈ ہائیڈ (Ronald Hyde) صاحب کہتے ہیں۔ وہ بیعت کی تقریب کے دوران اپنے جذبات کو بیان نہیں کر سکتے۔ انہیں اللہ کی موجودگی محسوس ہو رہی تھی۔ کہتے ہیں بہت سے مرد بغیر کسی دنیاوی فکر کے زور زور سے روتے اور اللہ کی مغفرت کی دعا مانگتے۔ بیعت کا یہ تجربہ ان کی زندگی پر گہرے اثرات چھوڑ گیا ہے۔ اتنے بڑے اجتماع کو اور لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کو بغیر کوئی شراب اور موسیقی کے دیکھنا واقعی حیرت انگیز تھا اور یہ دیکھنا کہ ہر کوئی صرف روحانیت میں اضافہ کرنا چاہتا ہے واقعی قابل تعریف تھا۔ یہ واقعی ایک زندگی بدلنے والا تجربہ تھا۔ صرف ڈیوٹی والے ہی نہیں بلکہ جو شاملین ہیں ان کو دیکھ کر بھی ان لوگوں میں خاموش تبلیغ ہوتی ہے۔ سوال نمبر۸: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یوراگوئےکی ماریہ سولس فرینکوصاحبہ کے کیا تاثرات بیان فرمائے؟ جواب: فرمایا: یوراگوئے سے آئی ہوئی ایک غیر از جماعت مہمان ماریہ سولس فرینکو (Maria Sol Caballero Franco) صاحبہ کہتی ہیں۔ جلسہ سالانہ میری توقّعات سے بہت بہتر ثابت ہوا۔ سب سے پہلے مہمانوں کی رہائش مثالی تھی۔ تقریریں مسحور کن تھیں۔ پہلا سیشن میرا پسندیدہ تھا۔ ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ کے پیغام کو بڑھانا اور پھیلانا بہت اہم ہے۔ میں نے مجموعی ماحول میں برادری کا خوشگوار احساس پایا۔ انتظامیہ نے بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ ایک بڑا ایونٹ ہونے کے باوجود اس میں کبھی بھیڑ نہیں دیکھی اور نہ یہ قابو سے باہر محسوس ہوا۔ کاروں کے لیے اچھی طرح منصوبہ بند راستے اور واضح اشارے، شاندار لاجسٹکس تھیں جس نے بلا شبہ بہت سے شرکاء کو متاثر کیا۔ جلسہ میں شرکت نے میری روحانیت پر مثبت اثر ڈالا۔ سب سے یادگار لمحات میں سے ایک اتوار کو احمدی عہد کو دہرانا تھا، یعنی بیعت، جہاں سب نے مل کر دعا کی اور آنسو بہائے۔ ایسا مضبوط ایمان کا جذبہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اگر مجھے تجویز کرنا ہو تو یہ ہو گا کہ مہمانوں کے لیے تقریبات کے درمیان مزید سرگرمیاں ہونی چاہئیں۔ مزید یہ کہ خواتین مہمانوں کو حجاب پہننے کا پابند نہیں کرنا چاہیے۔ یہ پابند تو نہیں کیا جاتا یا تو ان کو غلط فہمی ہوئی ہے یا کسی کارکن نے یونہی کہہ دیا ہو گا۔ عموماً تو میرا خیال ہے ہم یہ نہیں کہتے۔لیکن لباس بہرحال ہم کہتے ہیں کہ حیا دار ہونا چاہیے۔ بہرحال کہتی ہیں کہ حجاب دستیاب ضرور ہوں جو چاہے وہ پہن لے۔ سوال نمبر۹: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے روڈرگز آئی لینڈ کی ویمن افیئرز اور فیملی ویلفیئر کی کمشنر آگاتھےمَیری صاحبہ کےکیاتاثرات بیان فرمائے؟ جواب: فرمایا: کہتی ہیں پہلی بار اتنی بڑی تقریب میں شرکت کی جہاں سو سے زیادہ ممالک کے لوگ موجود تھے اور مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ تقریباً چوالیس ہزار شرکاء کے ساتھ یہ جلسہ میرے لیے روڈرگز جزیرے کی پوری آبادی کے جمع ہونے کے مترادف تھا۔ جس چیز نے میرے دل کو پگھلا دیا وہ یہ تھی کہ جلسہ سالانہ میں شامل لوگ کتنے نظم و ضبط کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ہر کوئی مسکرا رہا تھا، ہر ایک کو سلام کر رہا تھا۔ یہ قابل تعریف ہے۔ اور امام جماعت کا لجنہ سے خطاب بھی بہت معنی خیز تھاجس سے مجھے پتہ چلا کہ جماعت احمدیہ مسلمہ میں خواتین کا کردار کتنا اہم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ خطاب میری پالیسی میں بھی مثبت تبدیلیاں لائے گا۔ میں نے اس جلسہ میں بہت کچھ سیکھا جو یقینی طور پر میری اور میرے اردگرد کے لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لائے گا۔ میں نے ماضی میں کئی مذہبی پروگراموں میں شمولیت کی ہے لیکن میں ہمیشہ دل کی گہرائیوں سے جانتی تھی کہ میری زندگی میں کچھ روحانی پہلوؤں کی کمی ہے لیکن جلسہ وہ تقریب تھی جس کی وجہ سے میری زندگی میں جو بھی کمی تھی وہ بھی پوری ہو گئی۔