آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا:اَلَا تَرْضٰى أَنْ تَكُوْنَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰى إِلَّاأَنَّهٗ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي کہ اے علی! کیا تم خوش نہیںکہ تم میرے لیے ویسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لیے سوائے اس کے کہ تم میرے بعد نبی نہیں یہ بنیادی اصول یاد رکھنا چاہیے کہ نظام کے خلاف اگر کوئی بات ہو تو پھر سختی بھی کی جاتی ہے، وہاں پھر نرمی کا سوال نہیں میں تو بخدا جو قَسم بھی ایسی کھا بیٹھوں کہ پھر اس کے سوا کسی اَور بات کو بہتر سمجھوں تو انشاءاللہ ضرور وہی بات کروں گا جو بہتر ہو گی اور اس قَسم کا کفارہ ادا کر دوں گا (الحدیث) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ ٔتبوک میں سب سے بڑا جھنڈا حضرت ابوبکرؓ کو عطا فرمایا۔ اس کے علاوہ حضرت زبیرؓ، حضرت اُسَیْدْ بِنْ حُضَیْرْؓ،حضرت اَبُوْ دُجَانَہْؓ یا بعض روایات کے مطابق حضرت حُبَابْ بِنْ مُنْذِرْؓ کو بھی جھنڈے عطا کیے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کی تیاری کے لیے ہر قسم کے ظاہری اسباب کرنے کے بعد دعا کی طرف متوجہ ہوئے اور تیاری کے آغاز سے لے کر تبوک کی طرف روانگی تک یہ دعا کرتے رہے: اَللّٰہُمَّ اِنْ تُہْلَکْ ہٰذِہِ الْعِصَابَۃُ فَلَنْ تُعْبَدَ فِی الْأَرْضِ۔ اے خدایا! اگر یہ چھوٹی سی جماعت ہلاک ہو گئی تو پھر اس روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔عجیب اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پہلے غزوہ یعنی غزوۂ بدر کے موقع پر بھی اس دعا کا ذکر ملتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس آخری غزوہ کے موقع پر بھی اس دعا کا ذکر ملتا ہے غزوۂ تبوک کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کے دن نکلے اور آپ جمعرات کے دن سفر کرنا پسند کرتے تھے غزوۂ تبوک کے حالات و واقعات کی روشنی میں سیرت نبوی ﷺ کا پاکیزہ بیان مکرم غلام محیّ الدین سلیمان صاحب مربی سلسلہ انڈونیشیا ،مکرم ڈاکٹر محمد شفیق سہگل صاحب نائب وکیل التصنیف تحریک جدیدربوہ اور مکرمہ بشریٰ پرویز منہاس صاحبہ کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍ اکتوبر 2025ء بمطابق 24؍اخاء 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾ آج بھی مَیں غزوۂ تبوک کے واقعات کی مزید تفصیل بیان کروں گا۔ ایک شخص جَدّبِنْ قَیْس کا واقعہ بیان ہو اہے۔ یہ بھی منافقین میں سے ایک شخص تھا جو عبداللہ بن اُبَیّ کے بعد منافقین کا ایک دوسرا بڑا لیڈر تھا۔ عبداللہ بن ابی کے ساتھ مل کر مختلف سازشوں میں مصروف تھا۔ یہ وہی تھا جس نے صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی بیعت نہیں کی تھی۔ اس نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر جنگ پر نہ جانے کا عذر پیش کیا لیکن یہ عذر بھی ایک عجیب و غریب اور بیہودہ قسم کا عذر تھا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جَدّ بن قَیْسسے جو بنو سَلِمَہکا رئیس تھا، فرمایا :اے جدّ!کیا تُو اس سال بَنُوْاَصْفَر یعنی رومیوں کے جہاد میں چلے گا؟ اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!مجھے رخصت دیں اور فتنہ میں نہ ڈالیں۔ خدا کی قَسم!میری قوم میرے بارے میں خوب جانتی ہے کہ مجھ سے زیادہ کوئی شخص عورتوں کوچاہنے والا نہیں ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے بَنُوْاَصْفَر یعنی رومیوں کی عورتوں کو دیکھ لیا تو صبر نہیں کر پاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیہودہ جواب سن کر اس سے اعراض کیا اور فرمایا ٹھیک ہے نہ جاؤ ۔ تمہیں اجازت ہے ۔تمہیں جانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اس کے بیٹے حضرت عبداللہ بن جَدّؓجو بدری صحابی تھے اور بہت مخلص تھے اپنے والد کے پاس آئے اور اس سے کہا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کیوں ردّ کی؟ اللہ کی قَسم! بنو سَلِمَہ میں تجھ سے زیادہ مالدار کوئی نہیں ہے۔ نہ تم خود نکل رہے ہو اور نہ کسی کو سوار کر رہے ہو۔ یعنی کسی مجاہد کی سواری وغیرہ کا انتظام بھی نہیں کر رہے۔ اس نے کہا اے میرے بیٹے!مجھے کیا ہوا کہ میں گرمی اور اس تنگی کے زمانے میں بَنُوْ اَصْفَر کی طرف نکلوں۔ میرے بیٹے! میں اپنے گھر اور اپنے علاقے میں رہتے ہوئے بھی رومیوں کے خوف سے لرزتا ہوں۔ اپنے بیٹے کو یہ جواب دیا۔ تو ایسے لوگوں سے جنگ لڑنے کے لیے مَیں ان کے علاقے میں کس طرح جا سکتا ہوں۔ میں تو گھر بیٹھے ہی خوفزدہ ہوں۔ اے بیٹے!اللہ کی قَسم!مَیں بڑا دانشور اور تجربہ کار ہوں۔ مجھے جنگوں سے بڑی واقفیت ہے۔ گویا وہ یہ کہہ رہا تھا کہ سپر پاور روم سے جنگ کرنا کوئی دانائی کی بات نہیں ہے۔ یہ ساری بات سن کر اس کا مخلص بیٹا ناراض ہو گیا اور کہنے لگا: نہیں۔ اللہ کی قَسم!یہ نفاق ہے جس کی وجہ سے تم جنگ پر نہیں جا رہے اور اللہ کی قَسم تمہارے بارے میں اللہ کے رسول پر ضرور قرآن نازل ہو گا۔ کہتے ہیں ان کے باپ نے اپنا جوتا اٹھایا اور ان کے منہ پر دے مارا۔ اس کا بیٹا واپس چلا گیا اور اس سے کوئی بات نہیں کی۔ ایک روایت میں ہے کہ جَدّ بن قَیْسْ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی: وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّيْ وَلَاتَفْتِنِّيْ۔ (التوبۃ: ۴۹) اور ان میں سے وہ بھی ہے جو کہتا ہے مجھے رخصت دے اور مجھے فتنہ میں نہ ڈال۔ کہا جاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں اس نے توبہ کر لی تھی اور اچھی توبہ کی تھی اور حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں وفات پائی۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 815دارالکتب العلمیۃ2001ء) ( شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد4صفحہ72 دارالکتب العلمیۃ1996) ( اللؤ لؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9 صفحہ463 تا 465دارالسلام) (تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 181-182، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء) (اسدالغابہ جلد 1 صفحہ 521 دارالکتب العلمیۃ2003ء) بعد میں یہ منافقت نہیں رہی بلکہ پکا مسلمان ہو گیا۔ جو سازشی لوگ تھے وہ وہاں کی ایک جگہ جمع ہو کر اس جنگ کے حوالے سے سازشیں بھی کیا کرتے تھے۔ا س کی تفصیل کچھ پہلے بھی بیان ہوئی ہے، یعنی انہوں نے اپنا ایک مرکز بنایا ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرکز کو ختم کرنے کا حکم دیا۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ مدینہ میں منافقین اور یہود ان سازشوں میں مصروف تھے یعنی جھوٹی افواہیں پھیلا کر مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی کوشش اور مسلمانوں کو جنگ پر جانے سے روکنے کی بھرپور کوشش اور اس کے لیے وہ طرح طرح کے حربے استعمال کرتے تھے۔ مخلص اور پختہ ایمان والے مومن منافقین کے اس گھناؤنےکردار سے نہ صرف واقف تھے بلکہ ان پر نظر رکھے ہوئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان لوگوں کی رپورٹس پہنچ رہی تھیں۔ گو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رحمت اور شفقت کی وجہ سے ان لوگوں سے درگذر فرماتے تھے لیکن جب نظام کے خلاف کوئی خطرناک سازش ہوتی تو اس کو بڑی حکمت لیکن سختی کے ساتھ ختم کرنے کے لیے کارروائی بھی کی جاتی تھی۔ یہ بنیادی اصول یاد رکھنا چاہیے کہ نظام کے خلاف اگر کوئی بات ہو تو پھر سختی بھی کی جاتی ہے، وہاں پھر نرمی کا سوال نہیں۔ چنانچہ اسی طرح کی ایک کارروائی اس موقع پر بھی کی گئی۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی کہ منافقین سُوَیْلِمْ یہودی کے گھر میں اکٹھے ہو رہے ہیں جس کا گھر جَاسُومْ کے پاس ہے۔ جاسوم مدینہ میں ایک کنواں تھا اس کو بِئْرِجَاسِمْ بھی کہتے ہیں۔ اور یہ منافقین لوگوں کو غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جانے سے روک رہے ہیں۔ دراصل مدینہ میں مسلمانوں کو اس جنگ پر نہ جانے کے لیے ہر قسم کے منفی پراپیگنڈا کی ساری سازشیں یہاں تیار کی جاتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہ بن عُبَیْدُاللہ ؓکو بعض افراد کے ساتھ اس کی طرف روانہ کیا اور حکم دیا کہ سُوَیْلِمْ کے گھر کو آگ لگا دی جائے یعنی اس کو ختم کرو، گرا دو۔ ختم کر و اور جلا دو۔ کچے گھر ہوتے تھے۔ حضرت طلحہؓ نے ایسا ہی کیا جس پر اس جگہ پر موجود تمام لوگ بھاگ گئے۔ ان بھاگنے والوں میں سے ایک ضَحَّاکْ بِنْ خَلِیْفَہْ بھی تھا جو کہ منافقین کے ساتھ ملا ہوا تھا۔ وہ گھر کی چھت پر چڑھ گیا اور اس کی عقبی جانب سے نیچے کود گیا جس کی وجہ سے اس کی ٹانگ اور کلائی ٹوٹ گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت اور آپ کا عفو پھر بھی ایسا غالب آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کو بھی گرفتار نہ کرنے کا ارشاد فرمایا اور نہ ہی کوئی مزید سزا دی البتہ سازشوں کے اس اڈے یعنی ہیڈ کوارٹر کو ختم کر دیا گیا۔ (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد4صفحہ72 دارالکتب العلمیۃ1996ء) (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 816دارالکتب العلمیۃ2001ء) (اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیاجلد9 صفحہ467دارالسلام) (فرہنگ سیرت صفحہ84 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء) تبوک کے سفر کے لیے ہر کوئی تیاری میں مصروف تھا۔ مالی قربانی کا سلسلہ بھی جاری تھا تا کہ اخراجاتِ سفر کا انتظام ہو سکے۔ غریب اور نادار صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے تو تیاری کے لیے ان کی مدد کی جاتی۔ اسی طرح صاحب حیثیت لوگ ان صحابہ کو بھی سواریاں وغیرہ مہیا کر رہے تھے جن کے پاس سواری نہ تھی کیونکہ سواری کے بغیر یہ سفر ممکن بھی نہ تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد تھا کہ ہمارے ساتھ وہی شخص جائے جو قوی ہو اور سفر کی مشقت برداشت کر سکتا ہو اور اسے سواری اور زادِ راہ میسر ہو۔ اس موقع پر کچھ صحابہ روتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے آپ سے سواری کی درخواست کی اور وہ اس کے ضرورتمند تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس تو اَب کچھ نہیں جس پر تمہیں سوار کر سکوں۔ اس پر وہ روتے ہوئے واپس لوٹ گئے۔ ان صحابہ کے اخلاص و وفا اور بےبسی کی اس کیفیت کا بیان اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس طرح کیا ہے کہ وَّ لَا عَلَی الَّذِیۡنَ اِذَا مَاۤ اَتَوۡکَ لِتَحۡمِلَہُمۡ قُلۡتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحۡمِلُکُمۡ عَلَیۡہِ تَوَلَّوۡا وَّ اَعۡیُنُہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوۡا مَا یُنۡفِقُوۡنَ (التوبۃ:92) اور نہ ان لوگوں پر کوئی الزام ہے جو تیرے پاس اس وقت آئے جب جنگ کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس لیے کہ تو ان کو کوئی سواری مہیا کر دے۔ تو تُو نے جواب دیا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے جس پر میں تمہیں سوار کراؤں اور یہ جواب سن کر وہ چلے گئے اور اس غم سے ان کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے کہ افسوس! ان کے پاس کچھ نہیں جسے خدا کی راہ میں خرچ کریں۔ یہ سورۂ توبہ کی آیت ہے۔ اس محرومی کے سبب سے ان کے کثرت سے رونے کی وجہ سے تاریخ و سیرت کی کتب میں ان کو بَکَّاؤُوْن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی بہت زیادہ رونے والے۔ ان کی تعداد کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض کتب میں تو اٹھارہ کے قریب نام ملتے ہیں البتہ زیادہ تر سات کے ناموں پر اتفاق ہے۔ اس میں سَالِمْ بن عُمَیْر، عُلْبَہْ بن زَیْد، ابو لَیْلٰی عبدالرحمٰن بن کعب، عَمْرْو بن حُمَامْ، عبداللہ بن مُغَفَّلْ مُزَنِی،ھَرَمِیْ بن عبداللّٰہاور عِرْبَاضْ بن سَارِیَہشامل تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت یَامِیْن بن عُمَیْرْ بن کعب نَضْرِیْ کی حضرت ابو لَیْلٰی عبدالرحمٰن بن کعب اور حضرت عبداللہ بن مُغَفَّلْؓ سے راستے میں ملاقات ہوئی۔ یہ دونوں رو رہے تھے۔ انہوں نے ان دونوں سے پوچھا کیوں روتے ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تھے کہ آپ ہمیں سواری مرحمت فرمائیں مگر وہاں بھی ہمیں کوئی سواری نہیں ملی اور خود ہمارے پاس اتنا مال و دولت میسر نہیں ہے کہ سواری کا بندوبست کر سکیں اور آپ کے ساتھ جہاد کے لیے جا سکیں۔ اس پر انہوں نے ان کو ایک پانی اٹھانے والا اونٹ دیا۔ ان دونوں نے اس پر کجاوہ رکھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے زادِ راہ کے لیے کچھ کھجوریں بھی ان کو دیں اور اس طرح یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کے لیے روانہ ہوئے۔اس طرح ان کا انتظام ہوا۔ اسی طرح حضرت عباسؓ کو پتہ چلا تو انہوں نے بھی دو صحابہ کو سواری اور زادِ راہ مہیا کردیا اور بقیہ تین کو حضرت عثمانؓ نے سواری اور زادِ راہ دے دیا۔ یوں یہ ساتوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ816دارالکتب العلمیۃ2001ء) (انارۃ الدجیٰ فی مغازی خیرالوریٰﷺ،صفحہ721دارالمنھاج 2006ء) (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد4صفحہ74-75دارالکتب العلمیۃ1996ء) (تاریخ الطبری جلد2صفحہ182دارالکتب العلمیۃ1987ء) (اللؤلؤالمکنون سیرت انسائیکلوپیڈیاجلد9صفحہ469دارالسلام) اسی طرح حضرت ابوموسیٰ اَشْعَرِیؓ کے قبیلے کے لوگوں نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سواری کے لیےدرخواست کی۔ یہ بھی چھ لوگ تھےانہوں نے حضرت ابوموسیٰ اَشْعَرِیؓ کو اپنا نمائندہ بنا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ انہیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں جو میں تم لوگوں کو دے سکوں۔ بخاری کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قَسم کھا کر کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے کہ مَیں دے سکوں۔ اس پر وہ لوگ روتے ہوئے وہاں سے واپس ہوئے لیکن اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عُبَادَةؓ سے اونٹ خریدے اور حضرت ابو موسیٰ اَشْعَرِیؓ کو بلا بھیجا اور فرمایا یہ اونٹ لے جاؤ اور خود اور اپنے ساتھیوں کو دے دو۔ اس واقعہ کی تفصیل حضرت ابوموسیٰ اَشْعَرِیؓ نے خود بیان فرمائی۔ چنانچہ بخاری میں ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اَشْعَرِیؓ بیان کرتے ہیں کہ بعض اَشْعَرِیؓ لوگوں کے ساتھ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کہ آپؐ سے سواری مانگیں۔ آپؐ نے فرمایا بخدا!میں تمہیں سواری نہیں دوں گا اور میرے پاس سواری کے جانور نہیں کہ تمہیں سوار ہونے کے لیے دوں۔ اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غنیمت کے اونٹ لائے گئے اور آپؐ نے ہمارے متعلق دریافت کیا۔ فرمایا وہ اَشْعَرِی لوگ کہاں ہیں؟ اور آپؐ نے پانچ اونٹ جو سفید کوہان والے تھے ہمیں دینے کے لیے ارشاد فرمایا۔ جب ہم چلے گئے تو ہم نے کہا کہ ہم نے جو کیا ہے وہ ہمیں کبھی مبارک نہیں ہو گا۔ ہم یہ خیال کر کے آپ کے پاس واپس گئے اور ہم نے کہا کہ آپ سے ہم نے درخواست کی تھی کہ ہمیں سواری دیں اور آپ نے قَسم کھائی کہ آپ ہمیں سواری نہیں دیں گے۔ کیا آپ بھول گئے ہیں کہ آپ نے قَسم کھائی ہے کہ تمہیں سواری نہیں دوں گا۔ آپؐ نے فرمایا میں نے تمہیں سواری نہیں دی بلکہ اللہ ہی نے تمہیں سواری دی ہے اور میں تو بخدا جو قَسم بھی ایسی کھا بیٹھوں کہ پھر اس کے سوا کسی اَور بات کو بہتر سمجھوں تو انشاءاللہ ضرور وہی بات کروں گا جو بہتر ہو گی اور اس قَسم کا کفارہ ادا کر دوں گا۔ یہ قَسم مَیں نے کھائی ہے لیکن بعد میں انتظام ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے انتظام کیا ہے اور اگر مجھے شک بھی ہو کہ میں نے ایسی قسم کھائی ہے لیکن اس کے مقابلے میں کوئی بہتر بات سامنے آتی ہے تو میں وہ قَسم ختم کر دیتا ہوں اور اس کا کفّارہ ادا کر دیتا ہوں۔ ایک دوسری روایت میں ہے اور یہ حضرت ابوموسیٰ اَشْعَرِی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میرے ساتھیوں نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ میں آپ سے ان کے لیے سواریاں مانگوں کیونکہ وہ بھی آپ کے ساتھ جیشِ عُسرہ میں ہیں اور یہی غزوۂ تبوک ہے۔ میں نے کہا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!میرے ساتھیوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ انہیں سواریاں دیں۔ آپؐ نے فرمایا اللہ کی قَسم!کوئی سواری نہیں کہ تمہیں دوں اور میں نے اتفاقاً آپ سے ایسے وقت میں مطالبہ کیا کہ جب آپ ذرا غصہ میں تھے اور میں نہیں جانتا تھا۔ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس انکار سے نیز اس خوف سے کہ کہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دل میں مجھ پر ناراض نہ ہو گئے ہوں غمگین ہو کر لوٹ آیا۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آ گیا اور جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا میں نے ان کو بتایا۔ بہت تھوڑی دیر گزری تھی کہ میں نے بلال کو سنا کہ وہ عبداللہ بن قیس پکار رہے تھے۔ میں نے ان کو جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ تمہیں بلا رہے ہیں۔ یہ اعلان کرنے کا، بلانے کا وہاں طریقہ تھا۔ لاؤڈ سپیکر تو تھے نہیں اسی طرح اعلان کیا جاتا تھا۔ جب میں آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ اونٹوں کے جوڑے لے لو اور یہ جوڑے یعنی چھ اونٹ آپ نے حضرت سعد سے اسی وقت خریدے تھے۔ فرمایا: جاؤ ان کو اپنے ساتھیوں کے پاس لے جاؤ اور انہیں کہو کہ اللہ یا فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں یہ سوار ہونے کے لیے دیتے ہیں اور اس پر سوار ہو جاؤ۔ چنانچہ میں وہ اونٹ لے کر ان کے پاس چلا گیا۔ میں نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ اونٹ تمہیں سواری کے لیے دیتے ہیں مگر میں اللہ کی قَسم تمہیں سوار ہونے نہیں دوں گا تاوقتیکہ تم میں سے کوئی میرے ساتھ اس شخص کے پاس نہ جائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ بات سنی تھی۔ یہ نہ سمجھو کہ میں نے خود تم سے کوئی بات بیان کی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی تھی۔ وہ کہنے لگے ہم تو آپ کو اپنے نزدیک سچا سمجھتے ہیں ۔ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے انکار کیا تھا ناں۔تو انہوں نے کہا اور بڑے محتاط تھے کہ کہیں یہ نہ سمجھو کہ پہلی دفعہ میں نے تمہیں اپنے پاس سے بات کر دی تھی کیونکہ تھوڑی دیر بعد اونٹ لے آیا ہوں۔ لیکن حقیقت یہی ہے۔ اگر کوئی آدمی تم میں سے وہاں موجود تھا تو اس کو بلاؤ تا کہ وہ میرا گواہ بنے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے یہی جواب دیا تھا اور پھر بعد میں اونٹوں کا انتظام ہوا۔ بہرحال لوگوں نے کہا کہ ہم تو آپ کو اپنے نزدیک سچا سمجھتے ہیں اور ہم ضرور وہی کریں گے جو آپ پسند کریں گے۔ حضرت ابوموسیٰ ان میں سے چند آدمی لے کر چلے گئے یہاں تک کہ ان لوگوں کے پاس آئے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی تھی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کو سواری دینے سے انکار کرنا اور پھر اس کے بعد ان کو دینا۔ تو انہوں نے ان سے وہی بیان کیا جو حضرت ابوموسیٰ نے ان سے بیان کیا تھا۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ تبوک … حدیث 4415) (بخاری کتاب فرض الخمس باب ومن الدلیل علی ان الخمس لنوائب المسلمین حدیث 3133) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قَسم کھانے کے متعلق کہ اس کی کیا وجہ ہے اورپھر یہ کہ قسم کی کیا اہمیت ہے حضرت مصلح موعودؓنے بھی ایک جگہ تفسیر میں اس کی وضاحت بیان کی ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کے پاس سواری تھی ہی نہیں تو آپ نے یہ قَسم کیوں کھائی کہ خدا کی قَسم!میں تمہیں سواری نہیں دوں گا۔ قرآن کریم، احادیث اور تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت آپ کے پاس سواری تھی ہی نہیں اور قسم کے معنی یہ ہیں کہ کوئی چیز موجود ہو اور دینے سے انکار کر دیا جائے۔ اب کیا کوئی یہ قَسم کھا سکتا ہے کہ میں چاند کے پاس نہیں جاؤں گا یا میں سورج کے پاس نہیں جاؤں گا یا کوئی یہ قَسم کھاتا ہے کہ میں ایک ہی دفعہ ہاتھی نہیں نگلوں گا۔ اسی طرح سوال یہ ہے کہ جب آپ کے پاس سواری ہی نہ تھی تو آپ نے قَسم کیوں کھائی؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ غیر متمدن اور غیر مہذب لوگ دوسرے کی بات کا اعتبار نہیں کرتے جب تک قَسم نہ کھائی جائے۔ ہمارے پاس بعض اوقات ایسے لوگ آتے رہتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارا فلاں کام کرادیں۔ ہم کہتے ہیں یہ کام ہم نہیں کر سکتے۔ وہ کہتے ہیں آپ سب کچھ کر سکتے ہیں گویا ہم کام تو کرسکتے ہیں مگر جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم نہیں کر سکتے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی غیرمتمدن اور غیر مہذب تھے وہ نئے نئے آئے تھے اور ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت، وقار، عظمت اور اعلیٰ اخلاق کا پتہ نہ تھا جب آپ نے ان سے فرمایا کہ میرے پاس سواری نہیں ہے تو انہوں نے سمجھا کہ سواری تو ہے مگر آپ انکار کر رہے ہیں۔ اس لیے اصرار کیا کہ آپ تو بادشاہ ہیں، آپ کے پاس سواریاں کیوں نہ ہوں گی۔ مزید یہ کہ عرب لوگوں کی عادت ہے کہ ان کی کسی بات پر تسلی نہیں ہو سکتی جب تک قَسم نہ کھائی جائے۔ معمولی معمولی باتوں پر وہ وَاللّٰہِ بِاللّٰہِ ثُمَّ تَاللّٰہِ کہتے رہتے ہیں۔ اس لیے ان کے سواری مانگنے کے اصرار کا ایک ہی جوا ب تھا کہ آپ قَسم کھاتے۔ چونکہ ان لوگوں نے آپ کے جواب کو عذر اور بہانہ سمجھا تھا اس لیے آپ نے ان کی تسلی کے لیے اور پیچھا چھڑانے کے لیے قَسم کھائی۔ وہ چلے گئے تو سواری بھی آگئی ’’بعد میں ‘‘اور آپ نے دوبارہ ان کوبلا کر سواری دے دی۔ پس وہ قَسم اس لیے تھی کہ میرا وقت ضائع نہ کرو’’اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا یہ ایک اظہار تھا۔ گو منہ سے تو نہیں کہا لیکن اظہار یہی تھا کہ میرا وقت ضائع نہ کرو’’اور اصرار نہ کرو اور سواری آپ نے اس لیے دی کہ یہ نیکی کا موقع تھا اور آپ اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔‘‘ (نیکی کی تحریک پر فوراً عمل کرو، انوار العلوم جلد 18صفحہ 571-572) سورہ توبہ کی آیت بانوے جو میں نے پہلے بھی پڑھی تھی کہ وَّ لَا عَلَی الَّذِیۡنَ اِذَا مَاۤ اَتَوۡکَ لِتَحۡمِلَہُمۡ قُلۡتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحۡمِلُکُمۡ عَلَیۡہِ تَوَلَّوۡا وَّ اَعۡیُنُہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوۡا مَا یُنۡفِقُوۡنَ (التوبۃ : 92) اور جس طرح کہ پہلے ترجمہ بیان ہوا ہے، اور نہ ان لوگوں پر کوئی حرف ہے کہ جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تاکہ تُو انہیں (جہاد کے لیے ساتھ) کسی سواری پر بٹھالے تو تُو انہیں جواب دیتا ہے کہ میں تو کچھ نہیں پاتا جس پر تمہیں سوار کر سکوں۔ اس پر وہ اس حال میں واپس ہوتے ہیں کہ ان کی آنکھیں اس غم میں آنسو بہا رہی ہوتی ہیں کہ وہ کچھ نہیں رکھتے جسے راہِ مولی میں خرچ کر سکیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی تفسیر میں لکھا کہ’’یہ آیت اپنے اطلاق کے لحاظ سے عام ہی ہے مگر جن اشخاص کی طرف اشارہ ہے وہ سات غریب مسلمان تھے جو جہاد پر جانے کے لیے بیتاب تھے مگر اپنے دل کی خواہش کو پورا کرنے کے سامان نہیں رکھتے تھے۔ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے لیے سواری کا انتظام فرما دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افسوس ہے میں کوئی انتظام نہیں کر سکتا تو ان کو بڑی تکلیف ہوئی۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور وہ واپس چلے گئے۔ کہتے ہیں کہ ان کے چلے جانے کے بعد حضرت عثمانؓ نے تین اونٹ دیے اور چار دوسرے مسلمانوں نے دیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک آدمی کو ایک ایک اونٹ دے دیا۔ قرآن نے یہ واقعہ اس لیے بیان کیا ہے تا کہ ان غریب مسلمانوں کے اخلاص کا مقابلہ کر کے دکھائے جو تھے تو مالدار اور سفر پر جانے کے ذرائع بھی رکھتے تھے مگر جھوٹے عذر تلاش کرتے تھے۔‘‘ایک طرف تو یہ حالت ہے غریبوں کی لیکن ایک جوش ہے، جذبہ ہے، ایمان ہے اور دوسری طر ف مالدار لوگ ہیں جو کہتے تو اپنے آپ کو مسلمان تھے لیکن منافقت سے بھرے ہوئے۔ ’’اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مدینے میں پیچھے رہ گئے تھے وہ سب منافق نہ تھے‘‘ بلکہ بعضوں کے پاس سامان نہیں تھا اس لیے بھی ان کو پیچھے رہنا پڑا ’’بلکہ ان میں مخلص مسلمان بھی تھے مگر وہ اس لیے نہیں جا سکے کہ ان کے پاس جانے کے سامان نہ تھے۔‘‘ (دروس حضرت مصلح موعودؓ (غیر مطبوعہ ) تفسیر سورة التوبہ زیر آیت 92) حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ’’مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس اعلان پر کہ ہم شام کی طرف جانے والے ہیں اخلاص اور جوش سے بڑھ بڑھ کر قربانیاں کر رہے تھے۔ غریب مسلمانوں کے پاس جنگ کے سامان تھے کہاں ؟‘‘ ان کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا۔ ’’حکومت کا خزانہ بھی خالی تھا۔ ان کے آسودہ حال بھائی ہی ان کی مدد کےلیے آسکتے تھے۔ چنانچہ ہر شخص قربانی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ حضرت عثمان ؓنے اس دن اپنے روپے کا اکثر حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا جو ایک ہزار سونے کا دینار تھا یعنی…’’ جس وقت آپ نے بیان کیا اس وقت ’’پچیس ہزار روپے‘‘ آجکل تو اس کی لاکھوں میں قیمت ہے۔ ’’اِسی طرح اور صحابہ ؓنے اپنی اپنی توفیق کے مطابق چندے دیے اور غریب مسلمانوں کے لیے سواریاں یا تلواریں یا نیزے مہیا کئے گئے۔ صحابہؓ میں قربانی کا اِس قدر جوش تھا کہ یمن کے کچھ لوگ جو اسلام لا کر مدینہ میں ہجرت کر آئے تھے اور بہت ہی غربت کی حالت میں تھے ان کے کچھ افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا، یا رسول اللہ! ہمیں بھی اپنے ساتھ لے چلیے۔ ہم کچھ اور نہیں چاہتے ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں وہاں تک پہنچنے کا سامان مل جائے۔ قرآن کریم میں ان لوگوں کا ذکر ان الفاظ میں آتا ہے‘‘جیسا کہ پہلے پڑھا گیا ہے ’’وَّ لَا عَلَی الَّذِیۡنَ اِذَا مَاۤ اَتَوۡکَ لِتَحۡمِلَہُمۡ قُلۡتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحۡمِلُکُمۡ عَلَیۡہِ تَوَلَّوۡا وَّ اَعۡیُنُہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوۡا مَا یُنۡفِقُوۡنَ (التوبۃ: 92) یعنی اِس جنگ میں شریک نہ ہونے کا ان لوگوں پر کوئی گناہ نہیں جو تیرے پاس اس لیے آتے ہیں کہ تُوان کے لیے ایسا سامان مہیا کر دے جس کے ذریعہ سے وہ وہاں پہنچ سکیں مگر تُو نے انہیں کہا کہ میرے پاس تو تمہیں وہاں پہنچانے کا کوئی سامان نہیں۔ تب وہ تیری مجلس سے اٹھ کر چلے گئے اور ان کی آنکھوں سے اس غم میں آنسو بہتے تھے کہ افسوس ان کے پاس کوئی مال نہیں جس کو خرچ کرکے وہ آج اسلامی خدمت کرسکیں۔ا بوموسیٰ ان لوگوں کے سردار تھے جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مانگا تھا؟ توا نہوں نے کہا خدا کی قَسم!ہم نے اونٹ نہیں مانگے، ہم نے گھوڑے نہیں مانگے، ہم نے صرف یہ کہا تھا کہ ہم ننگے پاؤں ہیں۔‘‘ ہمارے پاس تو پاؤں میں جوتی بھی نہیں ہے۔ بوٹ بھی نہیں ہیں۔ ہمارے پاس جوتی بھی نہیں ‘‘اور اتنا لمبا سفر پیدل نہیں چل سکتے۔اگر ہم کو صرف جوتیوں کے جوڑے مل جائیں تو ہم جوتیاں پہن کر ہی بھاگتے ہوئے اپنے بھائیوں کے ساتھ اِس جنگ میں شریک ہونے کے لیے پہنچ جائیں گے۔‘‘(دیباچہ تفسیرالقرآن، انوارالعلوم جلد20 صفحہ360-361)یہ جذبہ تھا۔ اس غزوہ پر جاتے ہوئے مدینہ میں قائمقام بنانے کے بارے میں کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس کو اپنا نائب بنایا۔ اس کے بارے میں مختلف اقوال ملتے ہیں۔ ایک قول کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت محمد بن مَسْلَمَہؓ کو مدینہ میں اپنا امیر مقرر فرمایا۔ اس کے علاوہ حضرت سِبَاع بن عُرْفُطَہْؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عبداللہ بن اُمِّ مَکْتُوْمْؓ کے نام بھی آتے ہیں۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 185، غزوہ تبوک، دارالکتب العلمیۃ2002ء) ان مختلف روایات کو اگر دیکھا جائے کہ کس طرح ان میں مطابقت پیدا کی جائے، کس طرح اس کی تطبیق کی جائے۔ ان چاروں کے جو نام آتے ہیں ان کو کس طرح سمجھا جائے کہ واقعی یہ صحیح ہیں کہ نہیں تو ایک یہ ہے کہ یہ چاروں افراد ہی نائب مقرر کئے گئے تھے لیکن ان کی ذمہ داریوں میں فرق تھا۔ حضرت علی ؓکی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کی دیکھ بھال تھی۔ حضرت محمد بن مَسْلَمَہْ اہلِ مدینہ کے عمومی امور کے ذمہ دار تھے اور حضرت عبداللہ بن امِّ مَکْتُوْمؓ کے ذمہ نمازوں کی امامت تھی۔ حضرت سِبَاع بن عُرْفُطَہْؓ کو پہلے مدینہ کا عمومی نائب مقرر کیا تھا اور پھر ان کی جگہ حضرت محمد بن مَسْلَمَہؓ کو نامزد کر دیا گیا تھا۔ (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد4صفحہ 81دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء) (دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ صفحہ 480 بزمِ اقبال لاہور) چونکہ یہ ایک لمبا سفر تھا اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہلِ خانہ کی خبرگیری اور گھریلو ضروریات کی تکمیل کے لیے حضرت علیؓ کو مدینہ میں ہی رہنے کا ارشاد فرمایا تھا۔ منافقین جن کا کام ہی طعن و تشنیع تھا، حضرت علی کے مدینہ میں چھوڑے جانے پر باتیں بنانے لگے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بوجھ تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ساتھ لے کر نہیں گئے۔ ان طعنوں کو سن کر یا ارد گرد منافقین کو دیکھ کرخود ہی گھبرا کر حضرت علی نے اسلحہ لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مدینہ سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر جُرُف مقام پر ہی مقیم تھے۔ حضرت علی نے اپنی فکر اور گھبراہٹ کا ذکر کیا اور عرض کیا کہ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ آئے ہیں۔ میں طاقتور بھی ہوں، حیثیت بھی رکھتا ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی دلداری فرماتے ہوئے ایسا فقرہ فرمایا جو حضرت علی کی عظمت اور شان کو چارچاند لگا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا: اَلَا تَرْضٰى أَنْ تَكُوْنَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰى إِلَّاأَنَّهٗ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي کہ اے علی !کیا تم خوش نہیں کہ تم میرے لیے ویسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لیے سوائے اس کے کہ تم میرے بعد نبی نہیں۔ یعنی حضرت موسیٰؑ جب کوہ طور پر تشریف لے گئے تو ان کے پیچھے حضرت ہارونؑ حضرت موسیٰؑ کے قائمقام تھے لیکن وہ تو نبی بھی تھے تم بھی میرے قائمقام ہو گے لیکن نبی نہیں ہو گے۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ تبوک و ھی غزوۃ العسرۃ، حدیث 4416) (اللؤ لؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 9 صفحہ 472 دارالسلام) تبوک کے لیے مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کی تیاری کے لیے ہر قسم کے ظاہری اسباب کرنے کے بعد دعا کی طرف متوجہ ہوئے اور تیاری کے آغاز سے لے کر تبوک کی طرف روانگی تک یہ دعا کرتے رہے: اَللّٰہُمَّ اِنْ تُہْلَکْ ہٰذِہِ الْعِصَابَۃُ فَلَنْ تُعْبَدَ فِی الْأَرْضِ۔ اے خدایا! اگر یہ چھوٹی سی جماعت ہلاک ہو گئی تو پھر اس روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ عجیب اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پہلے غزوہ یعنی غزوۂ بدر کے موقع پر بھی اس دعا کا ذکر ملتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےاس آخری غزوہ کے موقع پر بھی اس دعا کا ذکر ملتا ہے۔ (المعجم الکبیرللطبرانی جلد18صفحہ 231۔232 دار احیاء التراث العربی 2002ء) (کنزالعمال جلد 7 جزء 13صفحہ 18 حدیث: 36183 دارالکتب العلمیۃ 2004ء) ( سبل الھدیٰ والرشاد جلد5 صفحہ 434 دارالکتب العلمیۃ1993ء) بہرحال شدید گرمی کے موسم میں لمبے سفر اور دیگر بہت سے مسائل اورمنافقوں کے پراپیگنڈے کے باوجود تیس ہزار کی تعداد میں ایک بہت بڑا لشکر تیار ہو گیا۔ اس میں دس ہزار گھڑ سوار تھے۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کسی بھی غزوہ کے لیے سب سے بڑا لشکر تھا۔ لشکر کی تعداد مختلف روایات میں مختلف بتائی گئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق چالیس ہزار کا بھی قول ملتا ہے۔ ایک روایت میں لشکر کی تعداد ستر ہزار بھی ذکر کی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار گھوڑے یا بعض کے نزدیک بارہ ہزار گھوڑے تھے۔ مؤرخین کا اتفاق تیس ہزار پر ہی ہے اور اکثر مؤرخین نے تیس ہزار کی روایت کو صحیح کہا ہے اور یہ ایک اندازہ ہے کیونکہ اس وقت مجاہدین کے شمار کے لیے کوئی رجسٹریا ریکارڈ وغیرہ تو نہیں ہوتے تھے جیسا کہ بعد میں خلافت راشدہ میں یہ طریق جاری ہو گیا تھا۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد3صفحہ 185، غزوہ تبوک، دار الکتب العلمیۃ2002) (اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9صفحہ474دارالسلام) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اور قبائل عرب کی ہر شاخ کو یہ حکم دیا کہ وہ لِوَاءْیعنی چھوٹا جھنڈا یا رَأْیَہْ بڑا جھنڈا بنا لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ ٔتبوک میں سب سے بڑا جھنڈا حضرت ابوبکرؓ کوعطا فرمایا۔ اس کے علاوہ حضرت زبیرؓ، حضرت اُسَیْدْ بِنْ حُضَیْرْؓ،حضرت اَبُوْ دُجَانَہْؓ یا بعض روایات کے مطابق حضرت حُبَابْ بِنْ مُنْذِرْؓ کو بھی جھنڈے عطا کیے گئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد2صفحہ 125، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (السیرۃ الحلبیۃ جلد3صفحہ186، غزوۃ تبوک، دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء) ( شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد4صفحہ83 دارالکتب العلمیۃ1996ء) (اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9صفحہ475دارالسلام) اس وقت قافلوں میں نکلتے تھے تو کوئی نہ کوئی گائیڈ جو رستوں کا اچھی طرح واقف ہو وہ بھی رکھا جاتا تھا۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر اس کے تقرر کے بارے میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رہبر کے طور پر عَلْقَمَہْ بن فَغْوَاء خُزَاعِیْ اور اس کے والد کو منتخب فرمایا جو رستوں سے اچھی طرح واقف تھے اور جلد تر صحیح رستے سے لے جا سکتے تھے۔ (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد4صفحہ84دار الکتب العلمیۃ بیروت1996ء) حضرت کَعْبْ بِنْ مَالِکْ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ تبوک کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کے دن نکلے اور آپ جمعرات کے دن سفر کرنا پسند کرتے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب الجھاد و السیر باب من اراد غزوۃ فوری بغیرھا … حدیث 2950) عمومی دستور کے مطابق مدینہ سے کچھ فاصلے پرثَنِیَّۃُ الْوَدَاعْ کے مقام پر لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے اور پھر جب ساری تیاری ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے تبوک کی طرف روانہ ہوئے۔ رئیس المنافقین عَبْدُاللّٰہ بِنْ أُبَیّ بِنْ سَلُوْل بھی اپنے ایک آخری منافقانہ حربے کے طور پہ ایک لشکر لے کر ثَنِیَّۃُ الْوَدَاعْ کے نچلی طرف کوہ ذُبَابْپر پڑاؤ کیے ہوئے تھا اور یہی تاثر دیے ہوئے تھا کہ جیسے وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ تبوک کے لیے تیار ہے لیکن جونہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کو تیاری کا حکم دیا تو عَبْدُاللّٰہ بِنْ أُبَیّ یہ کہہ کر اپنے لشکر سمیت یا کہا جاتا ہے کہ اس کا لشکر کافی بڑی تعداد میں تھا مدینہ واپس آ گیا کہ یہ مسلمان رومیوں کے ساتھ جنگ کو ایک کھیل سمجھ رہے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے آ گیا یہ کوئی کھیل تو نہیں ہے۔ رومی بہت بڑی حکومت ہے۔ اس نے یہ کہا کہ اتنی سخت گرمی اور ان حالات میں اتنا دور کا سفر کوئی سمجھداری کا کام نہیں۔ کہنے لگا میں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو رومیوں کے ہاتھوں میں قیدی کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا اور مقصد یہ تھا کہ شاید مسلمانوں کا دل چھوٹا ہو جائے گا اور اس کے زعم میں شاید کچھ مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دیں گے لیکن یہ ہمیشہ کی طرح ناکام و نامراد ہی لوٹا۔ اس نے جنگ احد میں بھی ایسا ہی کیا تھا۔ اس وقت بھی یہ مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ کچھ دُور تک ساتھ گیا تھا اور پھر راستے میں اپنے تین سو ساتھیوں سمیت واپس چلا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی کل تعداد ایک ہزار تھی اور پھر سات سو باقی رہ گئے تھے اور یہ تو کافی بڑا لشکر تھا۔ (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد4صفحہ84، جلد2صفحہ400-401دارالکتب العلمیۃ1996ء) (تاریخ الطبری جلد2صفحہ 182، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء) بہرحال یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ اس غزوہ میں ایک غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر شامل ہونے کے لیے آ گیا۔ آپؐ کو جب یہ بات پتہ لگی تو آپؐ نے بغیر اجازت شامل ہونے والے غلام کو تنبیہ کی اور اس کی تفصیل میں وہاں لکھا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثَنِیَّۃُ الْوَدَاعْ میں پڑاؤ کے دوران ایک مسلح غلام کو دیکھا جو اپنی مالکہ کی اجازت کے بغیر آیا تھا تو آپؐ نے اسے فرمایا کہ تم اپنی مالکہ کے پاس واپس چلے جاؤ۔ آپؐ نے اس سے پوچھا اس نے بتایا کہ نہیں۔ اجازت نہیں لی۔ آپؐ نے کہا واپس چلے جاؤ اور فرمایا کہ ہمارے ساتھ لڑائی میں شریک مت ہونا۔ اگر تم جنگ میں قتل ہو گئے تو آگ میں جاؤ گے۔ (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد4صفحہ83-84 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء) یعنی یہ جو امانت داری ہے اس کا بھی تقاضا یہی ہے کہ مالک سے اجازت لی جائے۔ بہرحال اس غزوہ کی مزید تفصیل ان شاء اللہ آئندہ بھی بیان کروں گا۔ کچھ مرحومین کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ان کا جنازہ بعد میں پڑھاؤں گا۔ پہلا ذکر ہے مکرم غلام محی الدین سلیمان صاحب۔ مربی سلسلہ انڈونیشیا۔ یہ گذشتہ دنوں ستاسٹھ سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے دادا حاجی دامیری صاحب نے 1932ء میں مولانا رحمت علی صاحب مرحوم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مرحوم مزید تعلیم کے حصول کے لیے ربوہ چلے گئے اور وہاں ان کو جامعہ ربوہ کی فصل خاص میں داخلہ مل گیا۔ جولائی 85ء میں یہ وہاں سے شہادت الاجانب کا امتحان پاس کر کے واپس انڈونیشیا آ گئے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے زمانے میں انہوں نے پاس کیا تھا۔ آپؒ نے ان کا تقرر انڈونیشیا میں جکارتہ اور وہاں کے مختلف شہروں میں کیا اور علاقائی مبلغ کے طور پر یہ کام کرتے رہے۔ اسی طرح مرکزی کمیٹیوں کے بھی ممبر رہے۔ ان کا عرصہ خدمت کم و بیش چالیس سال ہے۔ ان کے پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہے۔ ان کے ایک بیٹے مصلح الدین احسان صاحب مربی سلسلہ ہیں اور وہ بھی وہیں خدمت انجام دے رہے ہیں۔ آپ کے بارے میں سب ملنے والوں اور عزیزوں نے ان باتوں کا اظہار کیا ہے کہ ایک مخلص، سادہ اور بےحد محبت کرنے والے انسان تھے۔ اپنی زندگی ہمیشہ خدمت دین، سلسلہ احمدیہ اور دوسروں کی بھلائی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ آپ کے اندر عاجزی، نرمی اور اصول پسندی نمایاں تھی۔ جو بھی آپ سے ملتا آپ کے خلوص اور سادہ مزاج سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ تعلیم و تربیت کے میدان میں آپ کی خدمات قابل قدر ہیں۔ آپ نے ہمیشہ علم کے ساتھ اخلاق کو اہمیت دی اور ہر وقت اس بات کی فکر رہی کہ نئی نسل کو اچھے کردار اور ایمان کی بنیاد پر تیار کیا جائے۔ تبلیغ کے کام میں بھی آپ نے دل و جان سے حصہ لیا اور ہمیشہ اخلاص وقار اور محبت کے ساتھ اپنا پیغام پہنچایا۔ خلافت سے آپ کی گہری وابستگی تھی۔ آپ کی وفاداری مثالی تھی۔ ایک متوکّل علی اللہ انسان تھے۔ آخری ایام میں آپ نے بڑے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ بیماری میں بھی کوئی شکوہ زبان پہ نہیں لائے اور ہمیشہ شکر کے جذبات کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ دوسرا جنازہ اور ذکر مکرم ڈاکٹر محمد شفیق سہگل صاحب کا ہے۔ یہ امیر ضلع ملتان بھی رہے ہیں اور پھر اس کے بعد نائب وکیل التصنیف تحریک جدید ربوہ بھی رہے۔ یہ بھی گذشتہ دنوں وفات پا گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ پسماندگان میں تین بیٹے شامل ہیں۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد مکرم میاں محمد عمر سہگل صاحب مرحوم کے ذریعہ آئی تھی جنہوں نے خلافت ثانیہ کے دور میں احمدیت قبول کی تھی۔ یہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے۔ انہوں نے میٹرک کے بعد وقف کر دیا۔ حضرت مصلح موعود ؓکی خدمت میں اپنے آپ کو پیش کیا اور آپ نے فرمایا کہ تعلیم حاصل کرو۔ بہرحال تعلیم حاصل کرنے کے لیے سائنس میں دلچسپی تھی اس وقت فضل عمر ریسرچ سینٹر بنانے کا پروگرام تھا تو انہوں نے پہلے وہاں سے ایم ایس سی کیمسٹری کی اور پھر یہاں یوکے سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی اور آپ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ آپ کے ایک استاد نوبیل پرائز ونر بھی تھے۔ بہرحال جب یہ آ گئے تو فوری طور پر اس وقت تو انسٹیٹیوٹ نہیں بن سکا تھا اس لیے حضرت مصلح موعودؓ نے ان کو وہاں نہیں لگایا اور یہ فارغ ہی تھے تو ان کے والد نے کہا کہ جب تک جماعت کو ضرورت نہیں ہے ان کو اجازت دیں کہ وہ میرے ساتھ کاروبار میں شریک ہو جائے۔ چنانچہ وہ اپنے والد کے ساتھ کاروبار میں شریک ہو گئے لیکن اس کے ساتھ ہی مختلف حیثیتوں میں جماعتی خدمت کی بھی ان کو توفیق ملی۔ تقریباً چودہ پندرہ سال بطور امیر ضلع ملتان خدمت کی توفیق پائی۔ اسی طرح فرقان فورس میں بھی شامل ہوئے۔ حضرت خلیفةالمسیح الرابعؒ کے زمانے میں کلکتہ میں دو خاندانوں کا کوئی معاملہ تھا، لمبا جھگڑا تھا اور وہ ان کے عزیزوں میں سے بھی تھے تو حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے کمیشن بنا کے ان کو وہاں تحقیق کے لیے بھیجا اور انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے معاملہ طے کیا۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ان سے یہ اظہار کیا تھا کہ مجھے پتہ ہے کہ آپ رشتہ داری کا بھی خیال نہیں رکھیں گے اور بڑی ایمانداری سے فیصلہ کریں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ 1991ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے ارشاد پر یہ یوگنڈا بھی گئے وہاں آئل مل نصب کرنی تھی۔ اپنی نگرانی میں وہاں آئل مل لگوائی اور اسی طرح افریقہ کے تین اَور مختلف ممالک میں اور ایک یورپین ملک میں بھی ان کو بعض ذمہ داریاں سپرد کی گئیں جو انہوں نے سرانجام دیں۔ ملتان میں ان کی edible آئل کی اپنی بھی بڑی آئل مِل تھی اور چاہے وہ اپنا بزنس ہی کرتے تھے لیکن یہ احساس ان پر ہمیشہ غالب رہا کہ میں واقف زندگی ہوں اور اپنی کاروباری مصروفیات کو بھی جماعتی کاموں پر قربان کر دیتے تھے۔ بہرحال 2003ء میں انہوں نے مجھے لکھا کہ اب میں وقف کرنا چاہتا ہوں۔ باقی زندگی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ میں نے ان کو وہاںتحریکِ جدید میں نائب وکیل التصنیف کے طور پر لگایا۔ پڑھے لکھے تھے۔ ان کی انگریزی بھی اچھی تھی۔ دینی علم بھی تھا تو یہ کام انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ ان کے بیٹے محمود سہگل صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک فعال، بامقصد اور عبادت گزار زندگی گزارنے کی توفیق پائی۔ قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے مضامین پر تدبر کرنا بھی آپ کا خاص وصف تھا۔ آپ کی وفات پر افسوس کرنے والوں میں سے اکثر نے یہی کہا کہ آپ کے مزاج میں نرمی تھی۔ شفقت رکھنے والے اخلاص کے جذبہ سے سرشار تھے۔ محبت کرنے والے انسان تھے اور ان کا راہنمائی اور تربیت کا بہت پیارا انداز تھا۔ کہتے ہیں ہمیں بھی ہمیشہ نظام جماعت کی اطاعت کی تلقین کرتے اور اگر کوئی اصلاح طلب بات دیکھو بھی تو اپنی رائے صرف مناسب فورم پر دو۔ ہر جگہ باتیں نہ کیا کرو۔ اور ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ تم لوگوں کو نہ دیکھو، عہدیداروں کی طرف نہ دیکھو تم نے خلیفہ وقت کی بیعت کی ہے بس یہ خیال رکھو کہ جو بات ہم نے کرنی ہے خلیفہ وقت سے کرنی ہے اور اس سے وفا کا عہد پورا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ تیسرا ذکر مکرمہ بشریٰ پرویز منہاس صاحبہ کا ہے جو پرویز منہاس صاحب یو ایس اے کی اہلیہ تھیں۔ یہ بھی گذشتہ دنوں وفات پا گئیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ چودھری فضل احمد صاحب سابق مینیجر کریم نگر اور نصرت آباد۔ وہاں کے جماعت کے جو فارم تھے یہ ان کے مینیجر تھے۔ یہ ان کی بیٹی تھیں اور شادی سے قبل بھی یہ حیدر آباد سندھ میں لجنہ میں کافی خدمات انجام دیتی رہیں۔ پھر راولپنڈی رہیں یہاں بھی ان کو خدمت کرنے کا موقع ملا۔ اور وہاں حیدر آباد، پنڈی میں حلقہ کی یہ صدر لجنہ تھیں پھر خاوند کے ساتھ امریکہ چلی گئیں تو وہاں بھی اپنی مجلس میں نائب صدر کے طور پر ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ صوم و صلوٰة کی پابند، تہجد گزار، متوکّل علی اللہ، خلافت کی شیدائی، مہمان نواز، ملنسار، نافع الناس، غریب پرور، بڑی نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ چندوں میں باقاعدہ اور مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی تھیں۔ ان کا خلافت سے بڑا تعلق تھا۔ ہمیشہ خط لکھتی تھیں اور دعا کے لیے مجھے بھی لکھا کرتی تھیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ کوئی اولاد نہیں تھی ان کی لیکن دوسروں کے بچوں پر بڑی شفقت کا سلوک کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 17؍اکتوبر 2025ء