بر اعظم شمالی امریکہ کےچند اہم واقعات و تازہ حالات کا خلاصہ امریکہ کی وفاقی حکومت کا تعطّل امریکہ کی وفاقی حکومت یکم اکتوبر ۲۰۲۵ء کو جُزوی طور پر معطل ہو گئی۔ اس بندش یا تعطّل کی وجہ یہ بنی کہ کانگریس مکمل سالانہ بجٹ یا کوئی عارضی اخراجاتی بِل منظور کرنے میں ناکام رہی جس کا نتیجہ تعطلِ حکومت ہوا۔ اس تعطّل کے پیچھے وہ سیاسی کشمکش ہے جوریپبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹیوں کے درمیان شدت اختیار کر رہی ہے۔ ایک طرف ریپبلکن پارٹی مالیاتی پابندیوں پر اصرار کر رہی ہے اور دوسری جانب ڈیموکریٹ پارٹی علاج و معالجہ کی رعایتی سہولیات میں توسیع کے مطالبے کر رہی ہے۔ اس تعطّل کے نتیجے میں لاکھوں وفاقی ملازم یا تو بغیر تنخواہ کے کام کر رہے ہیں یا رخصت پر بھیجے جا چکے ہیں۔ کئی وفاقی اداروں کی سرگرمیاں محدود ہو چکی ہیں۔مثلاً بیماریوں کی روک تھام کے ادارے CDC نے اس دوران صرف ۳۶؍فیصد عملہ برقرار رکھا ہے۔ اگرچہ سوشل سیکیورٹی اور میڈی کیئر جیسی بنیادی سہولیات بدستور جاری ہیں، مگر اُن کے انتظامی امور، نئے اندراجات اور دیگر خدمات شدید متاثر ہوئی ہیں۔ قومی پارک بند ہونے سے سیاحت کے شعبے کو بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق حکومت کا ہر ہفتے معطل رہنا قومی پیداوار (GDP) میں تقریباً ۰.۱ فیصد کمی کا باعث بن رہا ہے۔ سیاحت اور ٹرانسپورٹ کی صنعتوں کے نقصان کا تخمینہ ایک ارب ڈالر ہفتہ وار لگایا گیا ہے۔ اس رپورٹ کی تحریر کے وقت تک حکومتی تعطّل برقرار ہے۔ اور اگر یہ تعطّل طویل ہوا تو اس کے اثرات صرف وفاقی اداروں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عام صارفین اور کاروباری اداروں کا اعتماد بھی متزلزل ہو جائے گا۔ یہ حکومتی تعطّل انتظامی بحران کو ایک وسیع معاشی و سماجی مسئلے میں بدل چکا ہے۔اب تمام نگاہیں کانگریس اور وائٹ ہاؤس پر مرکوز ہیں کہ وہ کب اور کیسے اس تعطل کو ختم کر کے حکومتی انتظام کو دوبارہ رواں کرتے ہیں۔ اشتہار کے تنازع پر امریکہ اور کینیڈا کے تجارتی مذاکرات معطّل امریکہ اور کینیڈا کے درمیان تجارتی مذاکرات ایک غیر متوقع تنازع کے باعث اچانک معطّل ہو گئے ہیں۔ یہ تنازع ایک اشتہاری مہم سے شروع ہوا جو کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو کی حکومت نے حال ہی میں امریکہ میں جاری کی۔ ۲۴؍اکتوبر ۲۰۲۵ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ کینیڈا کے ساتھ تمام تجارتی مذاکرات ختم کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اونٹاریو کی حکومت نے ایک ایسا اشتہار نشر کیا جس میں سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کی ۱۹۸۷ء کی تقریر کے ایک حصے کو استعمال کر کے موجودہ ٹیرف (درآمدی محصولات) پالیسیوں پر تنقید کی گئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس اشتہار کو جعلی قرار دیا اور کہا کہ اس میں ریگن کے خیالات کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے۔ ریگن فاؤنڈیشن نے بھی اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس اشتہار کا مقصد امریکی عدالتِ عظمیٰ (سپریم کورٹ) میں زیرِ سماعت ٹیرف سے متعلق مقدمے پر اثرانداز ہونا ہے۔ یہ اشتہار، جس پر تقریباً ۷۵؍ملین کینیڈین ڈالر لاگت آئی، امریکی ٹیلی ویژن چینلز پر بڑے پیمانے پر چلایا گیا۔ اس میں یہ پیغام دیا گیا کہ درحقیقت امریکی صارفین ہی ٹیرف کے نتیجے میں زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں۔ اونٹاریو کے وزیرِ اعلیٰ ڈگ فورڈ نے ابتدا میں اس مہم کا دفاع کیا اور کہا کہ ریگن کی تقریر عوامی ریکارڈ کا حصہ ہے، لیکن امریکی ردِعمل سامنے آتے ہی انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اشتہار کو عارضی طور پر معطّل کر رہے ہیں تاکہ مذاکرات دوبارہ شروع ہو سکیں۔ اس تنازع کے بعد وزیرِ اعظم مارک کارنی نے کہا کہ کینیڈا اب بھی مذاکرات کے لیے تیار ہے اور جب امریکہ چاہے تو بات چیت دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ سٹیل ، ایلومینیم اور توانائی جیسے شعبوں پر دونوں ممالک میں پہلے ہی مفید گفتگو ہو رہی تھی، اور کینیڈا اس پیش رفت کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ تاہم انہوں نے ساتھ ہی کہا کہ کینیڈا امریکہ کی تجارتی پالیسی کا رخ متعین نہیں کر سکتا اور اس لیے اسے اپنے تجارتی تعلقات کو ایشیا کے علاوہ دیگر سمتوں میں بھی متنوع بنانا ہو گا۔ یہ تعطّل ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پہلے ہی دونوں ممالک کے درمیان سٹیل، گاڑیوں اور لکڑی پر ٹیرف کا تنازعہ جاری ہے، اور کینیڈا جوابی اقدامات پر غور کر رہا ہے۔ اب صورتحال اس بات پر منحصر ہے کہ اس اشتہاری مہم کا مزید رد عمل کیا ہوتا ہے۔ واشنگٹن دوبارہ مذاکرات کے لیے نئی شرائط طے کرے گا یا نہیں، اس سوال کا جواب ابھی واضح نہیں۔ دونوں ممالک میں سیاسی دباؤ اور معاشی مفادات کے پیشِ نظر آئندہ چند ہفتے فیصلہ کن ہوں گے۔ امریکی سپریم کورٹ کا نیا عدالتی سال امریکہ کی سپریم کورٹ نے اکتوبر ۲۰۲۵ء میں اپنا نیا عدالتی سال شروع کیا ہے، جسے ماہرینِ قانون گذشتہ کئی دہائیوں کا سب سے اہم اجلاس قرار دے رہے ہیں۔ اس عرصے میں ایسے مقدمات زیرِ سماعت آئیں گے جو نہ صرف امریکی صدر کے اختیارات کی نئی حدیں متعین کر سکتے ہیں بلکہ وفاقی اداروں کے انتظامی ڈھانچے، شہری آزادیوں، ووٹنگ قوانین اور آن لائن اظہارِ رائے پر بھی گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔ اس سال کے سب سے نمایاں مقدمات اُن اختیارات سے متعلق ہیں جو صدر کو وفاقی اداروں کے سربراہان کو برطرف کرنے یا اُن کے کام میں مداخلت کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اگر عدالت صدر کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو یہ نہ صرف دہائیوں پرانی قانونی روایت بدل دے گا بلکہ وائٹ ہاؤس کے انتظامی اثر و رسوخ میں نمایاں اضافہ کر دے گا۔ عدالت کے ایجنڈے میں جمہوری و سماجی نوعیت کے مقدمات بھی شامل ہیں، جن میں ووٹنگ کے طریقے، مذہبی آزادی اور LGBTحقوق سے متعلق مسائل زیرِ بحث آئیں گے۔ چھ ججوں کی قدامت پسند (conservative)اکثریت کی وجہ سے عدالت کا نظریاتی جھکاؤ واضح طور پر دائیں طرف ہے۔ ان کی حمایت کرنے والوں کے نزدیک یہ عدالت آئین کی اصل روح بحال کر رہی ہے، جبکہ مخالفین کا خیال ہے کہ اس سے اقلیتوں، صارفین اور ماحول کے تحفظ کی ضمانتوں کا کمزور ہونے کا امکان بڑھ رہا ہے۔ ان مقدمات کے فیصلے صرف عدالت تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ حکومتی طرزِ عمل، آئندہ انتخابات اور امریکی معاشرے کے سیاسی توازن پر بھی اثر ڈالیں گے۔ آنے والے مہینوں میں یہ دیکھنا باقی ہے کہ سپریم کورٹ کس طرح صدر کے اختیارات، شہری حقوق اور قانون کی بالادستی کے مابین توازن قائم کرتی ہے۔ بیس بال ورلڈ سیریز ۲۰۲۵ء شمالی امریکہ کے کھیلوں کے منظرنامے پر اکتوبر کا مہینہ ہمیشہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے، جب بیس بال(baseball) کا سب سے بڑا مقابلہ یعنی ورلڈ سیریز منعقد ہوتا ہے۔ امسال یہ مقابلہ’’ ٹورنٹو بلو جیز‘‘(Toronto Blue Jays) اور ’’لاس اینجلس ڈاجرز‘‘(Los Angeles Dodgers) کے درمیان ہو رہا ہے۔ بیس بال کی یہ دو عظیم ٹیمیں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں شائقین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ ورلڈ سیریز ایک صدی سے زائد پرانی روایت ہے جو میجر لیگ بیس بال کے سیزن کا سب سے اہم مرحلہ سمجھا جاتا ہے، اور ہر سال پورا شمالی امریکہ اسے ایک تہوار کی طرح مناتا ہے۔ امسال ورلڈ سیریز کینیڈا کے لیے خاص جذباتی رنگ رکھتی ہے، کیونکہ ٹورنٹو بلو جیز۱۹۹۳ء کے بعد پہلی بار فائنل میں پہنچی ہے۔ کینیڈا بھر میں اس کامیابی کو قومی جشن کے طور پر منایا جا رہا ہے کیونکہ پوری لیگ میں یہی ایک ٹیم کینیڈا کی نمائندگی کرتی ہے۔ باقی تمام ٹیمیں امریکہ کے شہروں سے منسلک ہیں۔ ٹورنٹو کی سڑکوں پر نیلے جھنڈے لہرا رہے ہیں، اور ملک کے مشرقی ترین کنارے یعنی نیو فاؤنڈ لینڈ سے لے کر مغربی ترین علاقے یعنی برٹش کولمبیا تک ہر شہر اور قصبے میں’’بلو جیز‘‘ کے حق میں جوش و خروش دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بلو جیز اب صرف ایک شہر کی ٹیم نہیں بلکہ پورے کینیڈا کی نمائندہ بن چکی ہے۔ دوسری جانب لاس اینجلس ڈاجرز ہیں جنہوں نے پچھلے سال ورلڈ سیریز ’’نیو یارک Yankees‘‘ کو ہرا کر جیتا تھا۔ اب لاس اینجلس کی ٹیم اپنی چیمپئن شِپ کا دفاع کرنے کے عزم کے ساتھ ٹورنٹو کا مقابلہ کر رہی ہے۔ اُن کے سب سے نمایاں کھلاڑی ایک جاپانی شوہے اوتانی(Shohei Ohtani) ہیں۔ یہ عظیم الشان کھلاڑی بیس بال تاریخ کے اُن چند کھلاڑیوں میں سے ہیں جو ایک ہی وقت میں پچنگ (جو کرکٹ میں بولنگ کے مشابہ ہے) اور ہٹنگ (جسے بیٹنگ بھی کہا جاتا ہے) دونوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ اوتانی نہ صرف امریکہ بلکہ ایشیا بھر میں کھیل کے عالمی سفیر سمجھے جاتے ہیں، اور اُن کی موجودگی نے اس ورلڈ سیریز کو عالمی سطح پر مزید توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق ٹورنٹو میں ہونے والے میچز سے سیاحت، ہوٹل انڈسٹری، اور مقامی کاروبار کو کروڑوں ڈالر کا فائدہ ہو رہا ہے۔ تاہم عوامی سطح پر اس ایونٹ کی سب سے بڑی اہمیت جذباتی ہے۔یہ کینیڈین شائقین کے لیے اتحاد، فخر، اور قومی نمائندگی کا لمحہ بن چکا ہے۔ چاہے بلو جیز چیمپئن بنیں یا لاس اینجلس ، اس ورلڈ سیریز نے ثابت کر دیا ہے کہ کھیل محض مقابلہ نہیں بلکہ لوگوں کو ایک شوق اور جذبے پرجمع کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: مکتوب افریقہ (ستمبر۲۰۲۵ء)