https://youtu.be/mr5_9_FNZSs (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍جولائی۲۰۲۴ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: آج غزوۂ بنو مصطلق یا غزوۂ مُرَیسِیع یہ بھی اس کا نام ہے۔ اس کا ذکر کروں گا۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ بنومصطلق کےاسباب کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: اس غزوہ کا ایک سبب تو یہ تھا کہ بنومصطلق اسلام دشمنی میں بے باک ہو گئے تھے اور مسلسل آگے ہی بڑھ رہے تھے۔ انہیں کفار قریش کی مکمل تائید اور حمایت حاصل تھی۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں شرکت کی وجہ سے اب یہ کھل کر مسلمانوں سے مقابلے پر اتر آئے تھے اور ان کی سرکشی میں بہت اضافہ ہو گیا تھا۔ دوسری بات یہ تھی کہ مکہ مکرمہ کی طرف جانے والے مرکزی راستے پر بنو مصطلق کا کنٹرول تھا۔ یہ لوگ مکہ میں مسلمانوں کا عمل دخل روکنے کے لیے مضبوط رکاوٹ کی حیثیت رکھتے تھے۔تیسرا اور سب سے اہم سبب اس غزوہ کا یہ تھا کہ بنو مصطلق کے سردار حَارِث بن ابی ضِرَار نے اپنی قوم اور اہل عرب کو آنحضرت ﷺ کے ساتھ جنگ کے لیے تیار کیا اور مدینہ سے قریباً چھیانوے میل کے فاصلے پر لشکر کو ایک مقام پر جمع کرنا شروع کر دیا۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی سیرت خاتم النبیینؐ میں اس کے بارے میں لکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’قریش کی مخالفت دن بدن زیادہ خطرناک صورت اختیار کرتی جاتی تھی۔ وہ اپنی ریشہ دوانی سے عرب کے بہت سے قبائل کو اسلام اور بانی اسلام کے خلاف کھڑا کرچکے تھے لیکن اب ان کی عداوت نے ایک نیا خطرہ پیدا کر دیا اور وہ یہ کہ حجاز کے وہ قبائل جو مسلمانوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے تھے اب وہ بھی قریش کی فتنہ انگیزی سے مسلمانوں کے خلاف اٹھنے شروع ہو گئے۔ اس معاملہ میں پہل کرنے والا مشہور قبیلہ بنوخزاعہ تھا جن کی ایک شاخ بنومصطلق نے مدینہ کے خلاف حملہ کرنے کی تیاری شروع کر دی اوران کے رئیس حارث بن ابی ضرار نے اس علاقہ کے دوسرے قبائل میں دورہ کر کے بعض اور قبائل کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔‘‘ سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ بنومصطلق کےلیےاسلامی لشکرکی روانگی کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: آپؐ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو مدینہ میں نائب مقرر کیا۔ ابن ہشام نے حضرت ابو ذر غِفَاری ؓکا نام بیان کیا ہے۔ اسی طرح حضرت نُمَیلَہ بن عبداللہؓ کا نام بھی بیان کیا جاتا ہے۔ بہرحال یہ لشکر روانہ ہوا۔ اسلامی لشکر سات سو افراد پر مشتمل تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے دو شعبان پانچ ہجری کو پیر کے دن مدینہ منورہ سے کوچ کیا اور اسلامی لشکر کو لے کر بنو مصطلق کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت مسعود بن ھُنَیدَہؓ غزوہ مریسیع میں راستے کے گائیڈ تھے۔ اس سفر میں مسلمانوں کے پاس کل تیس گھوڑے تھے جن میں سے مہاجرین کے پاس دس گھوڑے تھے۔ حضور ﷺ کے دو گھوڑے تھے۔ لِزَاز اور ظَرِب۔ جن مہاجرین کے پاس گھوڑے تھے ان کے اسماء درج ذیل ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیق،ؓ حضرت عمرفاروق،ؓ حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ،حضرت طلحہ بن عُبَیدُ اللہؓ، حضرت مِقداد بن عمروؓ۔ اور انصار صحابہ کے بیس گھڑ سواروں میں سے پندرہ کے نام ملتے ہیں جن میں حضرت سعد بن معاذ ؓ، حضرت اُسَید بن حُضَیرؓ، حضرت ابو عَبْس بن جَبْرؓ، حضرت قتادة بن نعمانؓ ، حضرت عُوَیم بن سَاعِدہؓ ، حضرت مَعْنِ بن عدیؓ، حضرت سعد بن زید اَشْھَلیؓ، حضرت حارث بن حَزْمَہؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ ، حضرت ابوقتادةؓ، حضرت ابُوابَی بن کعبؓ، حضرت حُبَاب بن منذِرؓ ، حضرت زِیاد بن لَبِیدؓ ، حضرت فَرْوَہ بن عمروؓ، حضرت مُعَاذ بن رِفَاعَہ بن رافعؓ…آنحضرت ﷺ کے ساتھ بہت سے منافقین بھی نکلے۔ وہ اس سے قبل اس طرح کسی غزوہ کے لیے نہیں نکلے تھے اور کیوں نکلے؟ کہتے ہیں کہ انہیں جہاد کی رغبت نہیں تھی بلکہ وہ مال غنیمت کے لیے نکلے تھے کہ اگر جیت ہوئی تو ہمیں مال غنیمت ملے گا۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس بارے میں اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’آنحضرت ﷺ کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپؐ نے مزید احتیاط کے طورپر اپنے ایک صحابی بُرَیدَہ بن حُصَیبؓ نامی کو دریافتِ حالات کے لئے بنو مصطلق کی طرف روانہ فرمایا اور ان کو تاکید فرمائی کہ بہت جلد واپس آ کر حقیقة الامرسے آپؐ کواطلاع دیں‘‘۔ کیا ہوا؟ حقیقت کیا ہے؟ اس بارے میں بتائیں ۔ ’’بریدہ گئے تو دیکھا کہ واقعی ایک بہت بڑا اجتماع ہے اور نہایت زور شور سے مدینہ پر حملہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ انہوں نے فوراً واپس آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اطلاع دی اور آپؐ نے حسب عادت مسلمانوں کو پیش قدمی کے طور پر دیاربنو مصطلق کی طرف روانہ ہونے کی تحریک فرمائی‘‘۔ بجائے اس کے کہ وہ پہلے حملہ کریں آپؐ نے کہا پہلے ان کی طرف روانہ ہو جاؤ۔’’اوربہت سے صحابہ آپؐ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے بلکہ ایک بڑا گروہ منافقین کا بھی جواس سے پہلے اتنی تعداد میں کبھی شامل نہیں ہوئےتھے ساتھ ہو گیا۔ آنحضرت ﷺ اپنے پیچھے ابوذر غِفَاریؓ یابعض روایات کی رو سے زید بن حارثہ کو مدینہ کا امیر مقرر کر کے اللہ کا نام لیتے ہوئے شعبان پانچ ہجری میں مدینہ سے نکلے۔ فوج میں صرف تیس گھوڑے تھے۔ البتہ اونٹوں کی تعداد کسی قدر زیادہ تھی اور انہی گھوڑوں اور اونٹوں پرمل جل کر مسلمان باری باری سوار ہوتے تھے۔‘‘ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے غزوہ بنومصطلق میں مسلمانوں کےشعاراورمشرکین سےمقابلہ کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: اس غزوہ میں مسلمانوں کا شعار کیا تھا۔ ابن ہشام نے لکھا ہے کہ بنو مصطلق کے دن مسلمانوں کا شِعار یا مَنْصُوْرُ اَمِتْ اَمِتْ تھا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے مدد یافتہ شخص! مار دے ۔مار دے۔ اس شعار کے استعمال کرنے کی حکمت یہ تھی کہ مسلمانوں اور کفار کے درمیان اشتباہ نہ ہو اور رات کے اندھیرے میں بھی مسلمان ایک دوسرے کو پہچان سکیں ۔آپ ﷺ نے صحابہ کرام کی صف بندی کی۔ مہاجرین کا جھنڈا حضرت ابوبکر صدیقؓ کو دیا گیا۔ دوسرا قول ہے کہ حضرت عمار بن یاسرؓ کو دیا گیا اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہؓ کو دیا گیا۔ آپ ﷺ نے حضرت عمرؓ کو حکم دیا کہ لوگوں میں یہ اعلان کریں یعنی دشمن کی فوج کے سامنے یہ اعلان کریں کہ اے لوگو !کہو اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اس کے ذریعہ سے اپنے نفوس اور اموال محفوظ کرلو۔ حضرت عمرؓ نے اسی طرح کیا مگر مشرکین نے انکار کر دیا۔ کچھ دیر تیر اندازی ہوتی رہی۔ پہلے مشرکین میں سے ایک شخص نے تیر پھینکا اور مسلمان بھی کچھ دیر تیر اندازی کرتے رہے پھر آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ حملہ کریں ۔ انہوں نے یکجان ہو کر حملہ کیا۔ مشرکین میں سے کوئی بھی بھاگ نہ سکا۔ ان میں سے دس مقتول ہوئے اور باقی سارے قیدی ہو گئے۔ آپؐ نے ان کے مرد و خواتین، اولاد اور جانوروں کوقید کر لیا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ’’جب آنحضرت ﷺ مریسیع میں پہنچے جس کے قریب بنومصطلق کا قیام تھا اور جو ساحلِ سمندر کے قریب مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام کانام ہے تو آپؐ نے ڈیرہ ڈالنے کا حکم دیا اور صف آرائی اور جھنڈوں کی تقسیم وغیرہ کے بعد آپؐ نے حضرت عمر کو حکم دیا کہ آگے بڑھ کر بنو مصطلق میں یہ اعلان کریں کہ اگر اب بھی وہ اسلام کی عداوت سے باز آجائیں‘‘دشمنی سے باز آ جائیں ’’اور آنحضرت ﷺ کی حکومت کو تسلیم کرلیں توان کو امن دیا جائے گا‘‘۔ مذہب کی تبدیلی کا ذکر نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ کی حکومت کو تسلیم کر لیں تو امن دیا جائے گا ’’اور مسلمان واپس لوٹ جائیں گے مگر انہوں نے سختی کے ساتھ انکار کیا اور جنگ کے واسطے تیار ہو گئے۔ حتی کہ لکھا ہے کہ سب سے پہلا تیر جو اس جنگ میں چلایا گیا وہ انہی کے آدمی نے چلایا ‘‘۔یعنی بنو مصطلق کے آدمی نے۔ ’’جب آنحضرت ﷺ نے ان کی یہ حالت دیکھی تو آپؐ نے بھی صحابہ کولڑنے کا حکم دیا۔ تھوڑی دیرتک فریقین کے درمیان خوب تیز تیراندازی ہوئی جس کے بعد آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو یکلخت دھاوا کر دینے کا حکم دیا اور اس اچانک دھاوے کے نتیجے میں کفار کے پاؤں اکھڑ گئے مگر مسلمانوں نے ایسی ہوشیاری کے ساتھ ان کا گھیرا ڈالا کہ ساری کی ساری قوم محصور ہو کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئی اور صرف دس کفار اور ایک مسلمان کے قتل پراس جنگ کا جو ایک خطرناک صورت اختیار کرسکتا تھا خاتمہ ہو گیا۔‘‘ سوال نمبر۵:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ماہ محرم کےحوالے سےاحباب جماعت کودعاکی کیاتحریک فرمائی؟ جواب: فرمایا: محرم کے حوالے سے جس میں ہم آجکل گزر رہے ہیں دعا کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں۔ یہ ایک دردناک واقعہ ہے جس میں ظلم و بربریت کی انتہائی مثال قائم ہوئی۔ آنحضرت ﷺ کے نواسے اور آپؐ کے خاندان کے لوگوں کو شہید کیا گیا لیکن مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ اس سے سبق لینے کی بجائے یہ ظلم اب تک چل رہا ہے۔ محرم میں شیعہ سنی فساد یا دہشتگردی کے حملوں کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔ اس میں دونوں طرف سے جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں۔ بلکہ اس فرقہ واریت اور ذاتی مفادات کے حصول کی خواہش نے مسلمان دنیا میں فتنہ و فساد کی صورت پیدا کی ہوئی ہے بلکہ سارا سال ہی علماء کی طرف سے بھی مختلف گروہوں کی طرف سے بھی اور حکومتوں کی طر ف سے بھی ایک دوسرےکے خلاف ظلم و تعدی کے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ کوئی عقل ان کو نہیں آتی کہ کچھ تو سیکھیں۔ کچھ تو خوفِ خدا کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے جو اس فساد کو ختم کرنے کے لیے اپنے وعدے کے مطابق انتظام فرمایا ہے اسے یہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ یہ مسیح موعود کی بیعت میں آنا ہی نہیں چاہتے جو واحد ایک ذریعہ ہے۔ جو امت کو امتِ واحدہ بنانے کا نظارہ دکھا سکتا ہے اور فسادوں کو ختم کرسکتا ہے۔ مسلمانوں کی اکائی قائم ہو کر ان کی ساکھ قائم ہو سکتی ہے۔ یہی ایک ذریعہ ہے۔ کاش کہ ان لوگوں کو سمجھ آئے۔ بہرحال ان دنوں میں احمدیوں کو درود شریف پڑھنے اور مسلمانوں کی اکائی کے لیے خاص دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اپنی حالتوں کو بھی بہتر کرنے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنے کی طرف بھی ہمیں خاص توجہ دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ ٭…٭…٭