ہجر کی کالی رات میں اُٹھ کے دل کے دیپ جلا آنکھ کے مر جانے سے پہلے آنسو چار بہا نفس کے کالے جادوگر سے جلدی جان چھڑا اُس کی یاد میں ایسے رو کہ ہستی جائے ہِل وقت نکال کسی دن تھوڑا اپنے آپ سے مل تنہائی میں بیٹھ کسی دن خود سے مانگ حساب کتنے تُو نے خار چُنے ہیں کتنے پھول گلاب دو آنکھوں میں پال لئے ہیں تُو نے دو سو خواب تُو نے خود کو جان لیا ہے شائد سب سے تیز وقت کی دیمک چاٹ گئی ہے رُستم اور چنگیز بات سمجھنے والی ہے اس دل کو یہ سمجھا جیسے تیسے ہو سکتا ہے جا کے یار منا آنکھ کے آنسو ، پیر کے چھالے ، دل کے زخم دکھا اُس سے کہنا ، کیا کہنا ہے ، کیا میری اوقات کر دے مجھ پہ اپنے پیار کی رِم جھم سی برسات (مبارک صدیقی)