https://youtu.be/jh29oDKG6lA (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍جون۲۰۲۴ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: بنونضیر کے ساتھ جنگ کا ذکر ہو رہا تھا۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےا ٓنحضرتﷺکی بنونضیرکی طرف روانگی اورقلعوں کےمحاصرہ کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ بنونضیر کے ایک قلعے کی طرف روانہ ہوئے تو ’’آپؐ نے اپنے پیچھے مدینہ کی آبادی میں ابن مکتوم ؓکوامام الصلوٰة مقرر فرمایا اور خود صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ سے نکل کر بنونضیر کی بستی کامحاصرہ کر لیا اور بنونضیر اس زمانہ کے طریقِ جنگ کے مطابق قلعہ بند ہو گئے۔ غالباً اسی موقع پر عبداللہ بن اُبَی بن سَلُول اور دوسرے منافقین مدینہ نے بنونضیر کے رؤساء کو یہ کہلا بھیجا کہ تم مسلمانوں سے ہرگز نہ دبنا، ہم تمہارا ساتھ دیں گے اورتمہاری طرف سے لڑیں گے لیکن جب عملاًجنگ شروع ہوئی تو بنونضیر کی توقعات کے خلاف ان منافقین کویہ جرأت نہ ہوئی کہ کھلم کھلا آنحضرتﷺ کے خلاف میدان میں آئیں اور نہ بنو قریظہ کویہ ہمت پڑی کہ مسلمانوں کے خلاف میدان میں آ کر بنونضیر کی برملا مدد کریں۔ گو دل میں وہ ان کے ساتھ تھے اور درپردہ ان کی امداد بھی کرتے تھے جس کا مسلمانوں کو علم ہوگیا تھا۔ بہرحال بنونضیر کھلے میدان میں مسلمانوں کے مقابل پرنہیں نکلے اورقلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے، لیکن چونکہ ان کے قلعے اس زمانہ کے لحاظ سے بہت مضبوط تھے اس لئے ان کو اطمینان تھا کہ مسلمان ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے اور آخر خود تنگ آ کر محاصرہ چھوڑ جائیں گے۔ اوراس میں شک نہیں کہ اس زمانہ کے حالات کے ماتحت ایسے قلعوں کافتح کرنا واقعی ایک بہت مشکل اور پراز مشقت کام تھا اور ایک بڑا طویل محاصرہ چاہتا تھا۔‘‘بہرحال رسول اللہ ﷺ وہاں گئے۔ آپ ﷺ نے بنونضیر کا محاصرہ جاری رکھا۔ یہ محاصرہ چھ دن اور ایک روایت کے مطابق پندرہ دن تک رہا۔ اس کے علاوہ بیس اور تئیس دنوں کے اقوال بھی مروی ہیں۔ یہ بھی لوگ کہتے ہیں کہ بیس دن یا تئیس دن بھی رہا۔ دورانِ محاصرہ رسول اللہ ﷺ نے چند درخت کاٹنے اور جلانے کا حکم دیا۔ چونکہ یہود قلعوں کی فصیلوں سے تیر اور پتھر برسا رہے تھے اور یہ درخت ان کے لیے دفاعی حیثیت رکھتے تھے اور ان کی کمین گاہ کا کام دے رہے تھے یعنی کہ یہ درخت چھپنے کی جگہ بن رہے تھے۔ اس لیے آپ ﷺ نے ابولیلیٰ مَازِنِی اور عبداللہ بن سلام کو وہ درخت جلانے کی ذمہ داری سونپی… یہود نے جب ان درختوں کو آگ میں جلتے دیکھا تو ان کی عورتیں اپنے گریبان چاک کرنے لگیں، منہ پر طمانچے مارنے لگیں اور واویلا کرنے لگیں۔ پھر یہود نے فوراً پیغام بھیجا۔ اے محمدؐ! آپ تو بڑے عزت اور شرف کے حامل ہیں۔ آپ فساد سے منع کرنے والے اور فساد کی ہر صورت کو ناپسند کرتے ہیں۔ اب آپ خود ہی یہ کام کر رہے ہیں لیکن جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ یہ درخت ان کے لیے کمین گاہ کا کام، دفاعی کام دے رہے تھے اس لیے ان کے اس دفاع کو ختم کرنا ضروری تھااور اس میں حکمت بھی کارفرما تھی کہ جتنی جلدی ہوسکے یہ قوت ختم ہوجائے تا کہ مزید قتل و غارت نہ ہو ۔ سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے بنونضیرکی جلاوطنی کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: یہود کی بے بسی اور ان کی خود جلاوطنی کی درخواست کرنے کے بارہ میں مزید یوں لکھا ہے کہ مسلمانوں نے اس قبیلے کے یہود کے درخت جلا کر انہیں مزید گھبراہٹ میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب بھر دیا۔ ان کے حوصلے ٹوٹ گئے اور وہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہو گئے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو کہلا بھیجا کہ ہم مدینہ سے نکلنے کوتیار ہیں۔ آپ ہمیں پُرامن جلا وطنی کا موقع دیں۔ آپﷺ نے ان کی یہ درخواست منظور فرمائی اور حکم دیا کہ مدینہ سے نکل جاؤ۔ تمہاری جانیں محفوظ رہیں گی۔ تمہارے اونٹ جو سامان اٹھا سکیں وہ بھی لے جاؤ سوائے اسلحہ کے… بنونضیر کے ساتھ جلاوطنی کی جو شرائط رکھی گئی تھیں۔ ان شرائط کے حوالہ سے ان امور کا ذکر ملتا ہے۔ نمبر ایک۔ بنونضیر کے یہود مدینہ منورہ کے علاقے سے جہاں چاہیں کوچ کر جائیں۔ پہلی بات یہ کہ بنونضیر کے لوگ مدینہ چھوڑ دیں اور جہاں مرضی چاہیں چلے جائیں۔ نمبردو: یہود مدینہ منورہ سے جلا وطن ہونے کے وقت مکمل طور پر بغیر ہتھیار ہوں گے۔ نمبرتین: ہتھیاروں کے سوا یہود جس قدر اپنے اموال اپنے اونٹوں پر لے جا سکتے ہیں وہ لے جائیں۔ نمبر چار یہ کہ یہود کے مقدور بھر اموال اٹھا لینے کے بعد ان کے جو منقولہ و غیر منقولہ اموال بچ جائیں گے وہ مسلمانوں کی ملکیت ہوں گے… بنونضیر کو مدینہ منورہ سے جلا وطن کرنے کی ذمہ داری حضرت محمد بن مَسْلَمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سونپی گئی۔ اس وقت یہود نے ایک اَور عذر کیا کہ یہاں کے بہت سے لوگ ہمارے مقروض ہیں۔ وہ قرض انہیں مقررہ مدت کے بعد ادا کرنا ہے، ان کا کیا بنے گا؟ ان کا مقصد تھا کہ ہمیں مدینہ میں ٹھہرنے کا مزید موقع مل جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم سود ختم کر کے قرض کی رقم کم کر دو اور جلدی کرو۔ ٹھیک ہے قرض تمہیں واپس مل جاتا ہے بشرطیکہ تم سود ختم کرو لیکن جلدی یہاں سے جاؤ۔ ابورافع سَلَّام بن اَبی حُقَیق نے حضرت اُسَید بن حُضَیر سے ایک سو بیس دینار لینے تھے۔ چنانچہ اس نے چالیس دینار سود ختم کر کے اصل زر اسّی دینار وصول کر لیے۔اس طرح اَور بہت سارے دوسرے لوگ بھی ہوں گے۔ جب رسول اللہﷺ نے جلاوطنی کی شرائط عائد کیں تو ابورافع سَلَّام بن اَبی حُقَیق نے حُیی بن اَخْطَب سے کہا کہ تیرا برا ہو۔ اسلام قبول کر لے اس سے پہلے کہ اس سے بھی بدتر انجام بھگتنا پڑے۔ حُیی نے کہا اس سے بدتر انجام کیا ہو سکتا ہے؟ ابو رافع نے کہا کہ ہمارے بال بچوں کو قید کر لیا جائے گا، ہمارے بہادر قتل ہوں گے اور ہمارے اموال مسلمانوں کے قبضہ میں چلے جائیں گے۔ آج مال چھوڑ کر جانیں بچانا آسان ہے۔ اگر ہم نے کوئی فتنہ کھڑا کیا تو اس کا انجام قتل اور قید ہوگا۔ حُیی ایک دو دن اس فیصلے پر سوچتا رہا۔ جب یامِین بن عُمَیر اور ابوسعد بن وَہْب نے اس کی یہ کشمکش دیکھی تو اُن میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ بلا شبہ تمہیں پتہ ہے کہ محمد (ﷺ ) اللہ کے رسول ہیں۔ تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ ہم مسلمان ہو جائیں۔ پتہ تو ہے ہمیں۔ ہماری کتابوں سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے تو بہتر ہے کہ مسلمان ہو جائیں۔ اس طرح ہمارے مال اور جانیں محفوظ ہو جائیں گی۔ چنانچہ وہ رات کی تاریکی میں اپنے قلعوں سے نکلے اور اسلامی لشکر میں آ گئے۔ انہوں نے اسلام قبول کر کے اپنی جان ومال محفوظ کر لیے۔ اس طرح یہ دو لوگ مسلمان ہوئے۔ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہودکی جلاوطنی کی کیفیت کےحوالے سےکیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: یہود کی جلاوطنی کی کیفیت کے بارے میں لکھا ہے کہ یہود نے جلاوطنی کے وقت اپنے اونٹوں پر عورتوں اور بچوں کے علاوہ اپنا وہ سامان بھی لاد لیا جو اونٹ لے جا سکتے تھے۔ صرف ہتھیار چھوڑ دیے۔ ان کے ساتھ کل ملا کر چھ سو اونٹ تھے۔ ہر شخص خود اپنا مکان گرا کر اس کی لکڑی جیسے دروازے اور کھڑکیاں وغیرہ تک نکال کر اونٹوں پر لاد کر لے گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مکانوں کے ستون اور چھتیں تک توڑ ڈالیں۔ کواڑ، تختے جو دروازے تھے یہاں تک کہ ان کی چولیں چوگاٹھیںتک نکال لیں اور محض حسد اور جلن میں اپنے مکانوں کی دیواریں تک منہدم کر دیں تا کہ وہ اس قابل نہ رہیں کہ ان کے جلا وطن ہونے کے بعد ان مکانوں کو مسلمان آباد کر سکیں۔جب یہود نے اپنے بچوں اور عورتوں کو سواری کے اونٹوں پر سوار کیا اور بقیہ اونٹوں پر سامان لادنے لگے تو ان کے اس انداز سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے انہیں جلا وطن ہونے کی کوئی پریشانی یا ندامت نہیں حالانکہ ان کے سینے آتش کدے بنے ہوئے تھے، آگ لگی ہوئی تھی ان کے سینوں میں لیکن ظاہر یہ کر رہے تھے کہ ان کو کوئی پروا نہیں۔ البتہ لوگوں کو یہ تاثر دے رہے تھے کہ ہم خوش و خرم یہاں سے جا رہے ہیں۔ یہ لوگ پہلے بنو حارث بن خَزْرَج کے علاقے سے گزرے اور جِسْر کے علاقے کو عبور کیا۔ پھر مدینہ منورہ کے بازاروں سے ان کا گزر ہوا۔ جِسْر بھی مدینہ کی ایک مارکیٹ تھی۔ بہرحال انہوں نے اپنی عورتوں کو بناؤ سنگھار کر کے ہودجوں پر بٹھا رکھا تھا۔ اونٹوں پر سوار کیا ہوا تھا اور ساتھ گانے باجے پر ان کی کنیزیں ناچ بھی رہی تھیں۔ یہ لوگ اپنے مال و ثروت کو لوگوں پر عیاں کر رہے تھے تا کہ لوگ ان پر رشک کریں۔ ابورافع نے چمڑے سے بنے تھیلے کو سونے چاندی سے بھرا ہوا تھا۔ اسے اچھال اچھال کر کہہ رہا تھا کہ ہم نے یہ رقم انہی حالات کا مقابلہ کرنے اور فتح حاصل کرنے کے لئے رکھی ہے۔ ان کے جانے کی کیفیت یہ تھی کہ نغمے الاپے جا رہے تھے۔ شہنائیاں بج رہی تھیں۔ اشتعال انگیز اشعار زبان پر تھے اور رقص کیا جا رہا تھا لیکن رسول اکرم ﷺ نے ان کی کم ظرفی کو نظر انداز کر دیا۔ یہ دیکھنے کے باوجود ان پہ کوئی توجہ نہیں دی۔ اگر ان کا واسطہ کسی دوسری قوم سے پڑتا تو شاید انہیں ستر پوشی کے لیے کپڑا بھی نہ دیا جاتا۔جو حالت انہوں نے کی تھی، جو رویہ انہوں نے اختیار کیا تھا ان کوسزا تو ایسی ملنی چاہیے تھی کہ کچھ بھی نہ جانے دیا جاتا لیکن آنحضرت ﷺ کا عفو اور رحم دلی تھی جس نے ان باتوں کی کوئی پروا نہیں کی۔ سوال نمبر۵:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہودکےخیبرمیں آبادہونےکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیرا حمد صاحبؓ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ’’بنونضیر بڑے ٹھاٹھ اور شان وشوکت سے اپنا سارا ساز وسامان حتی کہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے مکانوں کو مسمار کر کے ان کے دروازے اور چوکھٹیں اور لکڑی تک اکھیڑ کراپنے ساتھ لے گئے۔ اورلکھا ہے کہ یہ لوگ مدینہ سے اس جشن اوردھوم دھام کے ساتھ گاتے بجاتے ہوئے نکلے کہ جیسے ایک بارات نکلتی ہے۔ البتہ ان کا سامانِ حرب اورجائیداد غیر منقولہ یعنی باغات وغیرہ مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور چونکہ یہ مال بغیر کسی عملی جنگ کے ملا تھا اس لئے شریعت اسلامی کی رو سے اس کی تقسیم کااختیار خالصةً رسول اللہؐ کے ہاتھ میں تھا اور آپؐ نے یہ اموال زیادہ تر اُن غریب مہاجرین میں تقسیم فرما دئے جن کے گزارہ جات کا بوجھ ابھی تک اس ابتدائی سلسلہ مواخات کے ماتحت انصار کی جائیدادوں پر تھا اوراس طرح بالواسطہ انصار بھی اس مالِ غنیمت کے حصہ دار بن گئے۔ جب بنونضیر محمد بن مَسْلَمہ صحابی کی نگرانی میں مدینہ سے کوچ کر رہے تھے تو بعض انصار نے ان لوگوں کو ان کے ساتھ جانے سے روکنا چاہا جو درحقیقت انصار کی اولاد سے تھے مگر ان کے منت ماننے کے نتیجہ میں یہودی ہو چکے تھے اور بنونضیر ان کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن چونکہ انصار کایہ مطالبہ اسلامی حکم لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ۔ یعنی (دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہ ہونا چاہئے) کے خلاف تھا، اس لئے آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کے خلاف اور یہود کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا کہ جو شخص بھی یہودی ہے اور جانا چاہتا ہے ہم اسے نہیں روک سکتے۔ البتہ بنونضیر میں سے دو آدمی خود اپنی خوشی سے مسلمان ہو کر مدینہ میں ٹھہر گئے۔‘‘ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ ’’ایک روایت آتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بنونضیر کے متعلق یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ شام کی طرف چلے جائیں۔ یعنی عرب میں نہ ٹھہریں لیکن باوجود اس کے ان کے بعض سردار مثلاً سَلَّام بن ابی الحُقَیق اور کِنَانہ بن ربیع اور حُیی بن اخطب وغیرہ اورایک حصہ عوام کابھی حجاز کے شمال میں یہودیوں کی مشہور بستی خیبر میں جا کر مقیم ہو گیا اور خیبر والوں نے ان کی بڑی آؤ بھگت کی …یہ لوگ بالآخر مسلمانوں کے خلاف خطرناک فتنہ انگیزی اوراشتعال جنگ کا باعث بنے۔‘‘ سوال نمبر۶:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے احباب جماعت کودعاکی کیاتحریک فرمائی؟ جواب: فرمایا: پاکستان کے احمدیوں کے لیے دعائیں جاری رکھیں وہاں کے حالات کی بہتری کے لیے دعائیں کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ وہاں کی عمومی امن و امان کی حالت کو بھی بہتر کرے اور احمدیوں کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ دنیا میں مسلمانوں کی عمومی حالت کے لیے بھی دعا کریں۔ یہ لوگ بھی زمانے کے امام کو مان کر اپنا وقار دوبارہ حاصل کر سکیں۔ دنیا میں جنگ کی جو عمومی صورتحال بن رہی ہے اس کے لیے بھی دعا کریں۔ جس طرف دنیا جا رہی ہے یہ جنگ تو لگتا ہے اب ضرور ہونی ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہر احمدی اور ہر معصوم کو اس کے شر سے محفوظ رکھے۔