سختیاں ہوں یا کہ آویں، راستے میں دشت و خارصبر کی رہ پر چلے جو، ہوں گے وہ ہی کامگار یوں ہی پھونکوں سے بجھا سکتے نہیں نورِ خداپھیلتا جائے گا حق، دشمن ہوں چاہے بےشمار مستقل مانگیں دعائیں، عاجزی کے ساتھ ہماستقامت میں کوئی لغزش نہ ہو پروردگار عافیت لکھ دی گئی، اُس کے لیے بارِ دگرنوح کی کشتی میں جو ہو جائے گا، اب کے سوار ہم وفا کے ہیں عَلَم بردار، سچ کے پاسباںدین کی خدمت میں کر دیتے ہیں، جان و دل نثار ظُلم کے تیروں کی بارش ہو، کہ طوفاں سامنےہم بڑھائیں گے قدم ہوں گے شہیدوں میں شمار فرض ہے ہم پر کہ پھیلائیں سدا نُورِ ہُدیٰحق کے متوالے کبھی ہوتے نہیں ہیں شرمسار (منصورہ فضل منؔ۔ قادیان)