مصائب گناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں مولوی عبد الکریم صاحبؓ کی بیماری کا اور اُن کے متعلق دعا کا ذکر کرتے ہوئے شیخ رحمت اﷲ صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’آپ کے واسطے بھی پانچ وقت نماز میں دعا کی جاتی ہے مگر اﷲ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ تکالیف سے اپنے بندوں کو ثواب دے۔ عبادات میں جو قصور رہ جاتے ہیں ان کا ازالہ قضاو قدر کے مصائب سے ہو جاتا ہے کیونکہ عبادت کی تکلیف میں تو انسان اپنا رگ پٹھا آپ بچا لیتاہے۔ سردی ہو تو وضو کے لیے پانی گرم کر لیتا ہے۔ کھڑا نہ ہوسکے تو بیٹھ کر پڑھ لیتاہے۔ لیکن قضا و قدر سے جو آسمانی مار پڑتی ہے وہ رگ پٹھہ نہیں دیکھتی۔ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ دنیا میں ہمیشہ کی خوشی صرف کافر کو حاصل ہو سکتی ہے۔کیونکہ اس کے لیے عذاب کا گھر آگے ہے۔ لیکن مومن کے لیے ایسی زندگی ہوتی ہے کہ کبھی آرام اور کبھی تکلیف۔ ہاں جان بخیر چاہیے۔یہ مصائب گناہ کا کفارہ ہوتے ہیں۔ کرب اور گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں ؏ خدا داری چہ غم داری خدا تعالیٰ پر پورا ایمان اور بھروسہ ہو تو پھر انسان کوتنور میں ڈال دیا جاوے اُسے کوئی غم نہیں ہوتا۔ تکالیف کا بھی ایک وقت ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر راحت ہے۔ جیسا بچہ پیدا ہونے کے وقت عورت کو تکلیف ہے بلکہ ساتھ والے بھی روتے ہیں۔لیکن جب بچہ پیدا ہو گیا تو پھر سب کو خوشی ہے۔ ایساہی مومن پر خد اتعالیٰ کی طرف سے ایک تکلیف اور دکھ کا وقت آتا ہے تاکہ وہ آزمایا جائے اور صبر اور استقامت کا اجر پائے۔ اصل میں تکالیف کے دن ہی مبارک دن ہوتے ہیں۔ انبیاء تکالیف کے ساتھ موافقت کرتے ہیں۔ ہر ایک شخص پر نوبت بہ نوبت یہ دن آتے ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ اس کا تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ اصلی ہے یا نہیں۔ مولوی رومی نے خوب فرمایا ہے؎ ہر بلا کیں قوم راحق دادہ است زیر آں گنج کرم بنہادہ است حدیث میں آیا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی سے پیار کرتا ہے تو اُسے کچھ دکھ دیتا ہے۔انبیاء کے معجزات انہیں مصائب کے زمانہ کی دعاؤں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا اپریشن ہے جو ہر صادق کے واسطے ضروری ہے۔(ملفوظات جلد ہشتم صفحہ ۳۳-۳۴۔ مطبوعہ۱۹۸۴ء) تفصیل: اس حصہ ملفوظات میں ایک فارسی ضرب المثل اور ایک فارسی شعر آیاہے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ ۱۔ ضرب المثل: خُدَا دَارِیْ چِہْ غَمْ دَارِیْ ترجمہ: جب خد ا تیرا ہے تو تجھے کیا غم ہوسکتا ہے۔ شاعر ابوالمعالی میرزا عبدا لقادرمعرو ف بیدل دھلوی کی ایک رباعی کے آخری مصرع کا یہ ایک حصہ ہے،جو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔مکمل رباعی کچھ یوں ہے۔ چِرَاخُوْد رَا اَسِیْرِغَمْ زِفِکْرِ بِیْشْ کَمْ دَارِیْ کِهْ نَگُذَارَدْ تُرَا مُحْتَاجْ اِیْزَدْ تَا کِهْ دَمْ دَارِیْ ترجمہ: جب تک کہ تجھ میں دم ہے خدا تعالیٰ تجھے محتاج نہیں کرے گا۔پھر کیوں تُو نے غم اور پریشانی کی وجہ سے اپنی جان کو گھٹالیا ہے۔ مَشَوْ بِیْ دَسْت پَا اَزْ مُفْلِسِیْ و بِیْ کَسِی هَرْگِزْ مَگَرْ نَشَنِیْدِهْ اِیْ بیدل خُدْا دَارِیْ چِہ غَمْ دَارِیْ ترجمہ: مفلسی اور بے کسی کی وجہ سے اپنے آپ کو بےدست وپا نہ بنا۔ اے بیدل کیا تو نے نہیں سنا کہ جب خدا تیرا ہے تو تجھے کیا غم ہوسکتاہے۔ لغوی بحث: خُدَا(خدا) دَارِیْ(تورکھتا ہے؍تیراہے) داشتن (رکھنا) مصدر سے مضارع سادہ دوم شخص مفرد چِہْ(کیا) غَمْ(غم) دَارِیْ(تورکھتا ہے؍تیراہے) داشتن (رکھنا)مصدر سے مضارع سادہ دوم شخص مفرد۔ ۲۔شعر: شعر کے بارہ میں جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہےمولانا روم کا ہے جو کہ مع اعراب و اردوترجمہ پیش خدمت ہے۔ ہَرْبَلَا کِیْں قَوْم رَا حَقْ دَادِہ اَسْت زِیْرِآںْ گَنْجِ کَرَمْ بِنِہَادِہْ اَسْت ترجمہ: ہر آزمائش جو خدا نے اس قوم کے لیے مقدر کی ہے اس کے نیچے رحمتوں کا خزانہ چھپا رکھا ہے۔ لغوی بحث: ہَرْبَلَا(ہرآزمائش؍ہرمصیبت) کِیْں(کہ اِس؍کہ یہ) اصل میں ہے،کہ این۔ قَوْم(قوم) رَا(کو) حَقْ(خدا) دَادِہ اَسْت(دی ہے؍دیاہے) دادن(دینا)مصدر سے ماضی قریب سوم شخص مفرد۔ زِیْرِ(نیچے)آںْ(وہ ؍اُس) گَنْجِ(خزانہ) کَرَمْ(رحمت) بِنِہَادِہْ اَسْت (رکھاہے) نہادن (رکھنا)مصدر سے ماضی قریب سوم شخص مفرد۔ مزید پڑھیں: ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب(قسط نمبر۱۹۸)