براعظم شمالی امریکہ کے تازہ حالات و واقعات کا خلاصہ یوٹا ویلی یونیورسٹی میں چارلی کرک کا قتل اور اس کے بعد ملک گیر سیاسی کشمکش امریکی قدامت پسند(conservative) کارکن چارلی کرک(Charlie Kirk) کو امریکہ کی یوٹا ویلی یونیورسٹی میں بڑے مجمع کے بیچ سوال و جواب کے پروگرام کے دوران دُور سے فائر مار کےقتل کر دیا گیا۔ اس کی عمر ۳۱؍سال تھی۔ ملزم ۲۲؍سالہ ٹائلر رابنسن (Tyler Robinson) ہے جو قتل کے تقریباً ۳۳؍گھنٹے بعد گرفتار ہوا۔ اس کے اعترافی نوٹ اور ٹیکسٹ پیغامات ملے اور پولیس کو جائے واردات کے قریب جھاڑیوں میں چھپائی گئی رائفل پر اس کا ڈی این اے بھی ملا۔ رابنسن نے بعد ازاں اپنے والدین اور ایک مقامی پادری کی وساطت سے خود کو حکّام کے حوالے کیا اور اس پر عمداً منصوبہ بندی کے ذریعے قتل کے الزام کے ساتھ دیگر سنگین الزامات عائد کیے گئے۔ ریاستی استغاثہ نے ملزم کو سزائے موت کی درخواست دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہاں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ چارلی کرک ایک بےباک اور سخت گیر مقرر تھا۔ اپنی تقاریر اور میڈیا پروگراموں میں نفرت انگیز موقف اختیار کرنے کے لیے مشہور تھا۔ وہ کثرت سے اسلام اور مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بناتا اور اکثر اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر پیش کرتا۔ اس کے کئی بیانات میں مسلم مہاجرین کو ’’امریکی شناخت کے لیے خطرہ‘‘کہا گیا اور یورپ و امریکہ میں مساجد کی تعمیر پر سوال اٹھاتا رہا۔ اسی طرح وہ پناہ گزینوں اور غیر قانونی مہاجرین کے خلاف نہایت سخت الفاظ استعمال کرتا اور انہیں معاشرتی بوجھ اور جرائم کا سبب قرار دیتا تھا۔ ہم جنس پرستی کے خلاف سخت اور بسا اوقات جارحانہ نظریات رکھتا تھا۔ اس کے پروگراموں میں ایسی زبان استعمال کی گئی جسے ناقدین نے اشتعال انگیز اور فرقہ وارانہ کہا۔ اگر چہ چارلی کرک کے نظریات اور بیانات نے ایک بڑا حمایتی طبقہ بھی بنایا مگر ساتھ ہی بہت سے طبقوں میں شدید نفرت کو بھی جنم دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے قتل کے محرکات پر بحث کرتے وقت تجزیہ نگاروں نے اس کے اقلیتوں کے خلاف بیانات کو بطور پس منظر پیش کیا ہے۔ بہر کیف، چارلی کرک کے قتل پر قدامت پسند حلقوں میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ ریپبلکن راہنماؤں نے اسے ’’سیاسی تشدد‘‘ قرار دیتے ہوئے کرک کو آزادئ اظہار اور قدامت پسند اقدار کا حامی اور ریپبلکن نوجوانوں کا مؤثر راہنما کہا۔ قدامت پسند میڈیا نے واقعے کی ذمہ داری بائیں بازو کی زبان اور نفرت انگیز ماحول پر ڈالی۔ اس واقعہ نے پارٹی کے اندر خوف و اضطراب کو بڑھایا، کئی ووٹرز کو مزید قدامت پسند صفوں میں لانے کا محرک بنا اور آئندہ انتخابات، آزادئ اظہار اور سیکیورٹی پالیسیوں پر گہرے اثرات ڈالنے کی توقع ہے۔ اس قتل کے بعد میڈیا اور تفریحی دنیا میں بھی شدید ہلچل ہوئی۔ امریکی ٹیلی ویژن نیٹ ورک ABC نے جِمی کیمل (Jimmy Kimmel) کے معروف اور مقبول ترین پروگرام کو اُن کے تبصروں کی وجہ سے غیر معیّنہ مدت کے لیے معطل کردیا۔ ناقدین نے اسے سیاسی دباؤ اور اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیا، جب کہ حامیوں نے دعویٰ کیا کہ گفتگو نے واقعہ کے حقائق مسخ کیے۔ یہ واقعہ ملک میں سیاسی تشدد کے بڑھتے ہوئےخوف اور آزادیٔ اظہار بمقابلہ نفرت آمیز تقریر کی بحث کو مزید گرماگیا۔ غزہ پراسرائیل کی ظالمانہ جنگ کے خلاف امریکہ میں آوازیں بلند ستمبر میں امریکی سیاسی منظرنامے پر ایک اہم موڑ اُس وقت آیا جب سینیٹر برنی سینڈرز نے ایک مضمون اور بیانات میں پہلی بار صاف الفاظ میں کہا کہ غزہ میں ہونے والے مظالم واضح طور پر ’’نسل کشی‘‘ ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ہتھیاروں کی فراہمی روکنے اور فوری جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھانے کی حمایت کی۔ یہ بیان اس لیے تاریخی سمجھا گیا کہ وہ امریکی سیاست میں ایک بڑے ترقی پسند راہنما ہیں اور اُن کی رائے ڈیموکریٹک حلقے میں وسیع اثر رکھتی ہے۔ اسی تناظر میں وسط ستمبر میں اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نیویارک میں بڑے مظاہروں کی تیاریاں ہوئیں۔ چنانچہ متعدد گروپس نے یو این ہیڈکوارٹر کے سامنے احتجاج کے پروگرام ترتیب دیے۔ یہ احتجاج امریکی خارجہ پالیسی، اسلحہ فروشی اور پابندیوں کے مطالبات کو عالمی اسٹیج پر لاکھڑا کرتے ہیں۔ مزید برآں مورخہ ۸ تا ۱۰؍ستمبر کے دوران ہالی وُڈ اور عالمی فلم انڈسٹری کے ہزاروں افرادبشمول اداکار، ہدایتکار اور تکنیکی عملہ نے اُن اسرائیلی فلمی اداروں کے بائیکاٹ کا عہد کیا جن پر ’’غزہ میں مبینہ نسل کشی میں شمولیت‘‘ یا حمایت کا الزام ہے۔ اس مہم کو اسرائیلی پروڈیوسرز تنظیم نے ’’گمراہ کن‘‘ قرار دیا، مگر دستخطوں کی تعداد اور نمایاں ناموں نے بحث کو عوامی سطح پر پہنچا دیا۔ یہ اپیل امسال مئی میں کانز فلم فیسٹیول سے قبل شائع ہونے والے خطوط کا تسلسل ہے جن میں درجنوں معروف و مقبول اداکاروں نے غزہ میں ظلم کے آگے ’’خاموشی‘‘ کی مذمت کی تھی۔ کینیڈا میں مکانات کے بحران کے حل کے لیے وفاقی حکومت کی نئی کوشش کینیڈا میں مکانات کی شدید کمی اور کرایوں میں بے حد اضافے نے پچھلے چند سالوں میں عوام کے لیے زندگی مشکل کردی ہے۔ بڑے شہروں جیسے ٹورانٹو اور وینکوور میں مکانات کی قیمتیں عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں، جبکہ متوسط اور نچلے طبقے کے لیے کرائے کے گھروں کا حصول بھی ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ اسی پس منظر میں وزیرِ اعظم مارک کارنی نے ۱۴؍ستمبر کو ایک نئے وفاقی منصوبےکا اعلان کیا جسے ‘‘Build Canada Homes’’ کا نام دیا گیا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد تیزی سے نئے مکانات تعمیر کرنا اور عام شہریوں کے لیے سستے اور معقول گھر مہیا کرنا ہے۔ اس کے تحت حکومت نے کئی اقدامات تجویز کیے ہیں جن میں تعمیرات میں نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینا، کم قیمت والے تعمیراتی قرضے فراہم کرنا، اور بلدیاتی اور صوبائی حکومتوں سے اجازت نامے تیز رفتاری سے دلوانا شامل ہیں۔ اس منصوبے میں بلدیاتی اور صوبائی حکومتوں کو بھی شریک کیا گیا ہے تاکہ نئی ہاؤسنگ سکیموں کو جلد عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ وفاقی حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ لاجسٹکس اور سپلائی چین کے مسائل میں براہِ راست تعاون کرے گی تاکہ تعمیراتی سامان وقت پر اور مناسب قیمت پر دستیاب ہو سکے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ اقدامات مؤثر ثابت ہوئے تو اگلے چند سال میں مکانات کی فراہمی میں نمایاں اضافہ ہوگا اور کرایوں اور قیمتوں پر موجودہ دباؤ کم ہو جائے گا۔ تاہم خطرات بھی کم نہیں۔اگر تعمیراتی مزدوروں کی کمی برقرار رہی، بڑے شہروں کے انفراسٹرکچر (جیسے پبلک ٹرانزٹ اور سڑکیں وغیرہ) پر بوجھ بڑھتا گیا، یا صوبائی قوانین میں ہم آہنگی نہ ہو سکی، تو اس پروگرام کی رفتار سست پڑ سکتی ہے۔ یہ منصوبہ کینیڈین عوام کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ملک کی نئی نسل اور مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اب رہائش کے بحران کو سب سے بڑا گھریلو مسئلہ قرار دیتی ہے۔ کامیابی کی صورت میں ‘‘Build Canada Homes’’ کینیڈا کی ہاؤسنگ پالیسی میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ کینیڈا کی مشرقِ وسطیٰ پالیسی میں تبدیلی کی سمت کینیڈا کی حکومت نے گذشتہ ہفتوں میں اپنی مشرقِ وسطیٰ پالیسی پر نظرِ ثانی شروع کی ہے۔ وزیرِ اعظم مارک کارنی کی کابینہ کے اندر اس بارے میں بحث چل رہی ہے کہ آیا فلسطین کو باضابطہ طور پر ایک ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے یا نہیں۔ یہ مسئلہ خاص طور پر اس لیے اہم ہو گیا ہے کہ ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطین کے معاملے پر کئی قراردادیں اور بحثیں متوقع ہیں۔ پس منظر کے طور پر یاد رہے کہ کینیڈا عام طور پر مغربی اتحادیوں کے ساتھ چلتا آیا ہے اور اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا ہے۔ لیکن غزہ میں جاری جنگ، بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور انسانی بحران کے باعث ملک کے اندر عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں حکومت پر زور دے رہی ہیں کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی ہو۔ ستمبر میں کینیڈا کے پالیسی حلقوں میں یہ بات بھی زیرِغور آئی کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو کن شرائط پر از سرِ نو ترتیب دیا جائے۔ اس دوران ٹورانٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بھی ایک فلم کی نمائش کے موقع پر احتجاج ہوا، جس نے یہ ظاہر کیا کہ یہ تنازع صرف سیاست ہی نہیں بلکہ ثقافت اور فنون کے میدان میں بھی اثر ڈال رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر کینیڈا فلسطین کو تسلیم کرتا ہے تو یہ اس کی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔ فی الحال کینیڈا نے فلسطین کو باضابطہ ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ یہ موقف رکھا ہے کہ حتمی فیصلہ صرف براہِ راست اسرائیلی اور فلسطینی مذاکرات کے ذریعے ہی ہونا چاہیے۔ کینیڈا نے ۲۰۱۲ء میں اقوامِ متحدہ کی اُس قرارداد کے خلاف بھی ووٹ دیا تھا جس میں فلسطین کو ’’غیر رکن مبصر ریاست‘‘ کا درجہ دیا گیا تھا۔ تاہم پچھلے چند سالوں میں، بالخصوص غزہ کی جنگ اور اسرائیلی مظالم کے پیش نظر، اوٹاوا میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ آیا اب پرانی پالیسی کو تبدیل کر کے فلسطین کو تسلیم کیا جائے۔ اس بحث میں مسلم اور انسانی حقوق کی تنظیمیں حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہیں، جبکہ بعض حلقے خبردار کر رہے ہیں کہ ایسا کرنے سے اسرائیل اور مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس لیے حکومت محتاط انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: مرکز سلسلہ ربوہ کا قیام اور اس کی اغراض و مقاصدنیز اہالیانِ مرکز سے خلفائے کرام کی توقعات