https://youtu.be/yMJg89JdDNg (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍جون۲۰۲۴ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: آنحضرت ﷺ کو قتل کرنے کی بنونضیر جو یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا ان کی سازش تھی، اس کا ذکر ہورہا تھا۔ گذشتہ خطبہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ اس کی تفصیل بیان کروں گا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے منصوبے کو ناکام کیا جو انہوں نے آنحضرت ﷺ کے قتل کا بنایا تھا۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺکویہودکی ناپاک سازش کا علم ہونےکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ عمروبن جَحَّاشْ جب چھت کے اوپر پہنچ گیا تا کہ آنحضرت ﷺ پر پتھر پھینکے تو آنحضرت ﷺ کو یہودیوں کی سازش کی بذریعہ وحی خبر ہوگئی۔ آپ ﷺ جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھے اور اپنے ساتھیوں کو وہیں بیٹھا چھوڑ کر اس طرح روانہ ہو گئے جیسے آپ ﷺ کو کوئی کام ہے۔ اور آپؐ تیزی سے واپس مدینہ تشریف لے گئے۔ آپؐ کے صحابہؓ یہی سمجھے کہ آپ ﷺ کسی حاجت کے لیے تشریف لے گئے ہیں لیکن جب کچھ دیر ہوگئی تو صحابہؓ کو آپؐ کی فکر ہوئی اور وہ آپؐ کی تلاش میں اٹھے۔ راستے میں ان کو مدینہ سے آتا ہوا ایک شخص ملا۔ صحابہؓ نے اس سے آنحضرت ﷺ کے بارے میں پوچھا تو اُس نے کہا کہ مَیں نے آپؐ کو مدینہ میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔ صحابہؓ فوراً مدینہ آپؐ کے پاس پہنچے۔ تب آپ ﷺ نے صحابہ ؓکو بتایا کہ بنو نضیر نے کیا سازش کی تھی۔ دوسری طرف ابھی یہود آپس میں مشورہ ہی کر رہے تھے کہ ایک یہودی مدینہ سے آیا ۔ جب اس نے اپنے ساتھیوں کونبی ﷺ کے متعلق باہم مشاورت کرتے سنا تو اس نے کہا تم کیا کرنا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم محمد (ﷺ ) کو قتل کر دیں اور آپؐ کے صحابہ کو گرفتار کرلیں۔ اس نے پوچھا کہ محمد (ﷺ) کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا یہ محمد (ﷺ) ہیں جو قریب ہی دوسری جگہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھی نے انہیں کہا کہ مَیں نے تو آپؐ کو دیکھا وہ مدینہ میں داخل ہو رہے تھے۔ اس پر وہ حیران رہ گئے۔ ایک اَور سیرت نگار نے اس بارے میں لکھا ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ کو واپسی میں کچھ دیر ہو گئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہمارے یہاں رکے رہنےسے کوئی فائدہ نہیں۔ یقیناً رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم آ گیا ہے۔ چنانچہ وہ سب وہاں سے چلنے لگے تو یہود کا سردار حُیی بِن اَخْطَب کہنے لگا کہ ابوالقاسم نے جلدی کی ہے۔ ہم تو کھانے کی تیاری کر رہے تھے اور دیت کے لیے مشاورت کررہے تھے۔ انہیں کھانا کھلا کر آپ کی ضرورت پوری کرنا چاہتے تھے۔ پھر جب صحابہ کرامؓ مدینہ کی طرف واپس آ رہے تھے تو انہیں ایک آدمی ملا۔ انہوں نے اس سے پوچھا کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے؟ اس نے بتایا کہ میری ابھی ابھی آپؐ سے ملاقات ہوئی ہے۔ آپؐ مدینہ میں داخل ہو رہے تھے۔ صحابہ کرامؓ وہاں پہنچے تو آپ ﷺ تشریف فرما تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! آپؐ وہاں سے تشریف لے آئے اور ہمیں معلوم ہی نہیں ہوا۔آپؐ نے فرمایا: هَمَّتِ الْیهُودُ بِالْغَدْرِ بِی، یہود نے میرے ساتھ دھوکے کا ارادہ کیا تھا۔ آپ ﷺ وحی الٰہی کے مطابق جلد تشریف لے گئے۔ صحابہ کرامؓ کو آپؐ نے اس لیے کچھ نہیں بتایا کہ وہ خطرے کی زَد میں نہیں تھے۔ یہود کا اصل ہدف صرف آپؐ کی ذات تھی۔ اس لیے آپؐ مطمئن تھے کہ میرے صحابہؓ نہ صرف محفوظ و مامون رہیں گے بلکہ وہ میری تلاش میں جلدی نکل آئیں گے۔کہتے ہیں اس وقت یہ آیت بھی نازل ہوئی کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ ہَمَّ قَوۡمٌ اَنۡ یَّبۡسُطُوۡۤا اِلَیۡکُمۡ اَیۡدِیَہُمۡ فَکَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَعَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ۔ (المائدة:12)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو۔ جب ایک قوم نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ وہ تمہاری طرف اپنے شر کے ہاتھ لمبے کریں گے مگر اس نے تم سے ان کے ہاتھوں کو روک لیا اور اللہ سے ڈرو اور چاہیے کہ اللہ ہی پر مومن توکل کریں۔ سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہودکی سازش کی بابت حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ کا کیا مؤقف بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ ’’انہوں نے‘‘ یعنی یہود نے ’’بظاہر آپؐ کے تشریف لانے پر خوشی کااظہار کیا اورکہا کہ آپؐ تشریف رکھیں۔ ہم ابھی اپنے حصہ کا روپیہ اداکئے دیتے ہیں۔ چنانچہ آپؐ مع اپنے چند اصحاب کے ایک دیوار کے سایہ میں بیٹھ گئے اور بنو نضیر باہم مشورہ کے لئے ایک طرف ہو گئے اور ظاہر یہ کیا کہ ہم روپے کی فراہمی کا انتظام کر رہے ہیں لیکن بجائے روپے کاانتظام کرنے کے انہوں نے یہ مشورہ کیا کہ یہ ایک بہت ہی اچھا موقعہ ہے۔ محمد (ﷺ) مکان کے سایہ میں دیوار کے ساتھ لگے بیٹھے ہیں کوئی شخص دوسری طرف سے مکان پرچڑھ جاوے اورپھر ایک بڑا پتھر آپؐ کے اوپر گرا کر آپؐ کا کام تمام کردے‘‘ نعوذ باللہ۔ ’’یہود میں سے ایک شخص سَلَّامْ بن مِشْکَمْ نے اس تجویز کی مخالفت کی اورکہا کہ یہ ایک غداری کافعل ہے اوراس عہد کے خلاف ہے جو ہم لوگ محمد (ﷺ) کے ساتھ کرچکے ہیں۔ مگر ان لوگوں نے نہ مانا اور بالآخر عَمرو بن جَحَّاش نامی ایک یہودی ایک بہت بھاری پتھر لے کر مکان کے اوپر چڑھ گیا اورقریب تھا کہ وہ اس پتھر کو اوپر سے لڑھکا دیتا۔ مگرروایت آتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ نے یہود کے اس بدارادے سے بذریعہ وحی اطلاع دے دی اور آپؐ جلدی سے وہاں سے اٹھ آئے اورایسی جلدی میں اٹھے کہ آپؐ کے اصحاب نے بھی اور یہود نے بھی یہ سمجھا کہ شاید آپؐ کسی حاجت کے خیال سے اٹھ گئے ہیں۔ چنانچہ وہ اطمینان کے ساتھ بیٹھے ہوئے آپؐ کا انتظار کرتے رہے لیکن آپؐ وہاں سے اٹھ کر سیدھے مدینہ میں تشریف لے آئے۔ صحابہ نے تھوڑی دیر آپؐ کا انتظار کیا لیکن جب آپؐ واپس تشریف نہ لائے تو وہ گھبراکراپنی جگہ سے اٹھے اور آپؐ کو اِدھر اُدھر تلاش کرتے ہوئے بالآخر خود بھی مدینہ پہنچ گئے۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے صحابہؓ کویہود کی اس خطرناک سازش کی اطلاع دی۔‘‘ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےا ٓنحضرتﷺکی مدینہ واپسی کےبعدیہودکےرویہ کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے جانے کے بعد کی تفصیل میں یہودیوں کے رویے کے بارے میں لکھا ہے کہ یہود اپنے کیے پر بہت شرمندہ تھے۔ ایک یہودی کِنَانَہ بن صُوَیرَاء یا صُورِیا نے کہا۔ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ محمد ﷺ یہاں سے کیوں اٹھ کر چلے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا اللہ کی قسم! ہمیں تو معلوم نہیں تمہیں کچھ پتہ ہے تو بتا دو۔ اس نے کہا تورات کی قسم بلا شبہ مَیں جانتا ہوں کہ محمد کو خبر کر دی گئی ہے جو تم نے اس کے ساتھ دھوکے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ تم اب مزید اپنے آپ کو دھوکے میں نہ رکھو ۔ اللہ کی قسم! بلا شبہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہ اٹھے بھی اس لیے ہیں کہ انہیں بذریعہ وحی بتا دیا گیا ہے کہ تم دھوکا دہیوں سے کام لینا چاہتے تھے۔ یقیناً وہ آخری نبی ہیں۔ تم چاہتے تھے کہ آخری پیغمبر ہارونؑ کی نسل سے آئے لیکن اللہ تعالیٰ نے جہاںسے چاہا انہیں مبعوث فرمایا۔ بلاشبہ ہماری کتابیں جنہیں ہم تورات میں پڑھتے ہیں وہ تبدیل نہیں ہوئیں۔ ان میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اس نبی کی پیدائش مکہ میں ہو گی اور وہ یثرب یعنی مدینہ میں ہجرت کرے گا۔ اس کی جو صفات ہماری کتاب تورات میں بیان کی گئی ہیں صرف اور صرف ان پر صادق آتی ہیں۔ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں خون خرابے کے سِوا کچھ نہیں ملے گا۔ تم اپنے اموال، جائیدادیں اور بچے روتے بلکتے چھوڑ جاؤ گے۔ اگر تم میری بات مان لو تو تمہارا شرف و وقار باقی رہے گا میری دو باتیں مان لو ورنہ تیسری بات میں بھلائی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا وہ دو باتیں کیا ہیں؟ اس نے کہا کہ پہلی بات یہ کہ تم اسلام قبول کر کے محمد ﷺ کے ساتھی بن جاؤ گے تو تمہارے اموال اور تمہاری اولاد محفوظ رہے گی اور تم لوگ ان کے اونچے مقام والے ساتھیوں میں سے بن جاؤ گے اور اپنے گھروں سے نکالے نہیں جاؤ گے۔ یہود نے کِنَانَہ بن صُوْرِیا کی بات کا یہ جواب دیا کہ ہم تورات اور عہد موسیٰ کو نہیں چھوڑیں گے۔ کِنَانَہ نے کہا دوسری بات یہ ہے کہ تم لوگ انتظار کرو۔ عنقریب وہ تمہیں حکم دے گا کہ تم میرے شہر سے نکل جاؤ۔ اس پر تم لوگ کہنا ہاں۔ پھر وہ تمہارے خون اور تمہارے مال اپنے لیے حلال نہیں بنائے گا اور تمہارے مال اور جائیدادیں تمہارے لیے چھوڑ دے گا۔ چاہو تو بیچ دو اور چاہو تو اپنے پاس رکھ لو۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ سَلَّامْ بن مِشْکَمْ نے کہا تم لوگوں نے جو کہا مَیں مجبور ہو کر تمہارے ساتھ اس میں شریک ہوا۔ وہ یعنی محمد ﷺ اب ہمیں پیغام بھیجنے والا ہے کہ تم اس علاقے سے نکل جاؤ۔ اے حُیی! اس کی بات کے سامنے پس و پیش نہ کرنا ۔ اس سردار کو کہا۔ اور خوشی سے جلاوطنی قبول کر لینا اور اس کے شہر سے نکل جانا۔ اس پر حُیی نے کہا کہ مَیں ایسا ہی کروں گا اور اس جگہ سے چلا جاؤں گا۔ سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے آنحضرتﷺکی یہودکےخلاف کارروائی کرنےکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: اِس بارے میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہود کی جلا وطنی کا حکم فرمایا لیکن انہوں نے فیصلہ ماننے سےانکار کیا۔ گو شروع میں یہی لکھا ہے لیکن بعد میں ان کا ارادہ بدل گیا اور انہوں نے مقابلے کی ٹھانی۔ اس کی مزید تفصیل اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ پہنچنے کے بعد حضرت محمد بن مسلمہ ؓکو بلا بھیجا۔ وہ آئے تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ بنونضیر کے یہود کے پاس جاؤ اور ان سے کہنا مجھے رسول اللہ ﷺ نے تمہاری طرف یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ تم ان کے شہر سے نکل جاؤ۔ محمد بن مسلمہؓ بنو نضیر کے پاس پہنچ کر کہنے لگے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے تمہاری طرف ایک پیغام دے کر بھیجا ہے لیکن وہ سنانے سے پہلے مَیں تمہیں ایک بات یاد دلاتا ہوں جس کا تم سب کو علم ہے۔انہوں نے پوچھا وہ کون سی بات ہے؟ محمد بن مسلمہؓ نے کہا تمہیں تورات کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا۔ تمہیں یاد ہو گا کہ قبل از اسلام مَیں ایک روز تورات لے کر آیا اور تمہارے سامنے پیش کی۔ تم نے کہا کھانا کھانا چاہتے ہو تو کھلائیں گے۔ یہودی بننا چاہتے ہو تمہیں یہودی بنا دیں گے۔ مَیں نے کہا تھا کہ اگر کھانا کھلاؤ گے تو کھا لوں گا۔ یہودی بننے کے لیے کہو گے تو یہ ناممکن ہے۔ پھر تم نے ایک طشت میں کھانا پیش کیا اور پوچھا کہ تم یہودی مذہب قبول کیوں نہیں کرنا چاہتے؟ کیا تم ابراہیمی دین کے متلاشی ہو؟ کیا ابو عامر راہب دینِ ابراہیمی کا پیروکار نہیں ہے؟ اس دین والا نبی ہمارے پاس آنے والا ہے جس کی یہ نشانیاں ہیں۔ وہ ہنس مکھ ہو گا۔ دشمنانِ حق ملیامیٹ کرنے والا ہو گا۔ اس کی آنکھیں سرخی مائل ہوں گی۔ وہ یمن کی طر ف سے آئے گا۔ اونٹ پر سوار ہوگا۔ سر پر عمامہ باندھ رکھا ہو گا۔ سوکھی روٹی کے ٹکڑے پر اکتفا کرنے والا ہو گا۔ اس کی گردن سے تلوار لٹکی ہو گی اور وہ حکمت و دانائی کی باتیں کرے گا۔ یہود نے کہا تم نے سب نشانیاں درست بتائی ہیں۔ ہم نے یہ باتیں تم سے کی تھیں لیکن یہ علامتیں اس شخص یعنی محمد ﷺ میں نہیں ہیں۔ اس پر محمد بن مسلمہؓ نے کہا جو بات مَیں تمہیں یاد کرانا چاہتا ہوں وہ یہی تھی۔ اب رسول اللہ ﷺ کا پیغام سن لو۔ رسول اللہﷺ نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ جو معاہدہ تمہارے ساتھ کیا گیا تھا تم نے دھوکا بازی کر کے اسے توڑ دیاہے۔ عمرو بن جحاش نے چھت پر چڑھ کر پتھر پھینکنے کا سوچا تھا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی ؐکو باخبر کر دیا گیاہے۔ تم نے عہد شکنی کی ہے۔ یہ بات سن کر ان پر سکتہ طاری ہو گیا۔ محمد بن مسلمہؓ نے آپ ﷺ کا پیغام سناتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: اُخْرُجُوا مِنْ بَلَدِىْ فَقَدْ أَجَّلْتُكُمْ عَشْرًا فَمَنْ رُّئِی بَعْدَ ذَالِكَ ضَرَبْتُ عُنُقَهٗ یعنی تم میرے شہر سے نکل جاؤ مَیں تمہیں دس دن کی مہلت دیتا ہوں۔ اگر اس کے بعد کوئی شخص نظر آیا تو مَیں اس کی گردن مار دوں گا۔ یہود نے کہا ہم یہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ اوس قبیلے کے کسی شخص سے ہم اس طرح کی بات سنیں گے۔ تم تو ہمارے حلیف تھے۔ محمد بن مسلمہؓ نے کہا کہ اب دل بدل گئے ہیں۔ اوس اور خزرج کے دلوں میں یہود سے محبت تھی مگر اسلام کے بعد اب وہاں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا پیغام سن کر یہود نے جلا وطنی کی تیاری شروع کر دی۔ بنو نضیر کو چند ایام کی مہلت دے دی گئی تووہ جلاوطن ہونے کی تیاریاں کرنے لگے۔ ان کی سواریاں ذِی جَدْر مقام پر چراگاہ میں موجود تھیں۔ ذِی جَدْر قباء کے نواح میں مدینہ سے چھ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک چراگاہ تھی۔یہ انہیں واپس لانے لگے انہوں نے قبیلہ اَشْجَعْ سے کچھ اونٹ بطور قرض لینے کا مطالبہ بھی کیا۔ مزید پڑھیں: سنہ ۸؍ہجری میں پیش آنے والے بعض غزوات اور سرایا کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۲؍ستمبر ۲۰۲۵ء