کہیں ڈوب ہی نہ جائیں میرے کرب میں یہ آہیںمیری کر مدد خدایا، ہیں کہاں تری سپاہیں مرے لوگ پوچھتے ہیں ابھی امتحاں ہیں کیا کیاابھی کتنے دکھ ہیں باقی یونہی کب تلک کراہیں تیرے پا شکستگاں کو کوئی اور کیوں سنبھالےانہیں خاک سے اٹھا کر تُو گلے میں ڈال بانہیں وہ جو تیرے ہو چکے ہیں وہی مر مٹے ہیں تجھ پہیہ کبھی نہیں ہے ممکن کسی اَور کو وہ چاہیں یہ تو منتظر ہیں کب سے کہ تُو آئے گا اچانکبھرے شہر کی جمی ہیں ترے بام پر نگاہیں جو سمجھ رہے ہیں خود کو کہ خدا وہی ہیں سب کےانہیں خاک میں ملا دے یہ ہیں کِبر کی کُلاہیں یہ کسے مغالطہ ہے کہ وہ پائے گا تحفظکوئی کیسے بچ سکے گا تیری چھوڑ کر پناہیں کوئی ہے تو یہ بتائے کہ نصاب نفرتوں کاکیوں پڑھا رہی ہیں سب کو سرِ عام درس گاہیں میری بے بسی ہے یا ہے یہ خراج میرے غم کومجھے روگ پوچھتے ہیں تجھے کب تلک سراہیں یہ کھلی ہوئی حقیقت یہی تجربوں سے جاناجو نباہ سکیں نہ خود سے وہ کسی سے کیا نباہیں بھلا وہ نجیبؔ کیوں کر کسی در پہ سر جھکائےاگر آنسوؤں سے تر ہیں جو کسی کی سجدہ گاہیں (نجیب احمد فہیم)