٭٭٭ ساتھ تیرا ہؤا اگر محسوس مجھ کو ہو گا نہ یہ سفر محسوس حسنِ جاناں کا ذکر ہو تو زیست ہونے لگتی ہے مختصر محسوس گُل وہ یا رب! سدا بہار رہے لمحہ لمحہ ہو تازہ تر محسوس کر رہے ہیں فراق کو دونوں وہ اُدھر اور ہم اِدھر محسوس ہجر کا دکھ نہ ہو تو کیونکر ہو لذّتِ وصل اس قدر محسوس! کوئی ایسا بھی زخم دے داتا! دل کرے جس کو عمر بھر محسوس ہے وہ ناواقفِ جنوں ، جو کرے دشت کو دشت ، گھر کو گھر محسوس روشنی کیا کرے گا دنیا میں ہو اندھیروں سے جس کو ڈر محسوس اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھو آنکھ کرتی نہیں اگر محسوس اپنے ہی خواب میں نہ رہ انجم !ؔ عہد کے درد کو بھی کر محسوس (میر انجم پرویز۔ مربی سلسلہ)