https://youtu.be/rb10R9r2RfI (خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍جون۲۰۲۴ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: آج جس سریہ کا ذکر کروں گا وہ سَرِیہ حضرت مُنذِر بن عَمروؓ یا سریہ بئر معونہ کہلاتا ہے۔ سوال نمبر۲: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سریہ بئرمعونہ کےپس منظرکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: اس سریہ کے پس منظر کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’قبائل ِسُلَیم وغَطْفَان… یہ قبائل عرب کے وسط میں سطح مرتفع نجد پر آباد تھے اورمسلمانوں کے خلاف قریش مکہ کے ساتھ ساز باز رکھتے تھے اور آہستہ آہستہ ان شریر قبائل کی شرارت بڑھتی جاتی تھی اور سارا سطح مرتفع نجد اسلام کی عداوت کے زہر سے مسموم ہوتا چلا جا رہا تھا۔ چنانچہ‘‘ لکھا ہے کہ ’’ان ایام میں جن کا ہم اس وقت ذکر کررہے ہیں ایک شخص ابوبَرَاء عَامِری جووسط عرب کے قبیلہ بنو عامر کا ایک رئیس تھا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ آپؐ نے بڑی نرمی اورشفقت کے ساتھ اسے اسلام کی تبلیغ فرمائی اور اس نے بھی بظاہرشوق اور توجہ کے ساتھ آپؐ کی تقریر کو سنا مگر مسلمان نہیں ہوا۔ البتہ اس نے آنحضرت ﷺ سے یہ عرض کیا کہ آپؐ میرے ساتھ اپنے چند اصحاب نجد کی طرف روانہ فرمائیں جووہاں جاکر اہل نجد میں اسلام کی تبلیغ کریں اور مجھے امید ہے کہ نجدی لوگ آپؐ کی دعوت کو ردّ نہیں کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا:مجھے تو اہلِ نجد پراعتماد نہیں ہے۔ ابوبَرَاء نے کہا کہ آپؐ ہرگز فکر نہ کریں۔ مَیں ان کی حفاظت کاضامن ہوتا ہوں۔‘‘ جو لوگ آپ بھیجیں گے۔ ’’چونکہ ابوبَرَاء ایک قبیلہ کا رئیس اور صاحبِ اثر آدمی تھا آپؐ نے اس کے اطمینان دلانے پر یقین کر لیا اور صحابہؓ کی ایک جماعت نجد کی طرف روانہ فرمادی۔ یہ تاریخ کی روایت ہے…بخاری میں آتا ہے کہ قبائل رِعْل اور ذَکْوَان وغیرہ (جومشہور قبیلہ بنو سُلَیم کی شاخ تھے) ان کے چند لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کا اظہار کرکے درخواست کی کہ ہماری قوم میں سے جولوگ اسلام کے دشمن ہیں ان کے خلاف ہماری امداد کے لئے…چندآدمی روانہ کئے جائیں۔‘‘ یہاں یہ تشریح نہیں آئی کہ کس قسم کی امداد تھی۔تبلیغی یافوجی۔ بہرحال ’’جس پر آپؐ نے یہ دستہ روانہ فرمایا۔ بد قسمتی سے بئر مَعُونہ کی تفصیلات میں بخاری کی روایات میں بھی کچھ خلط واقع ہوگیا ہے جس کی وجہ سے حقیقت پوری طرح متعین نہیں ہوسکتی مگربہرحال اس قدر یقینی طورپر معلوم ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر قبائل رِعل اور ذَکْوَان وغیرہ کے لوگ بھی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے تھے اورانہوں نے یہ درخواست کی تھی کہ چند صحابہؓ ان کے ساتھ بھجوا ئے جائیں۔ان دونوں روایتوں کی مطابقت کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ رعل اور ذَکْوَان کے لوگوں کے ساتھ ابوبَرَاء عامری رئیس قبیلہ عامر بھی آیا ہو اور اس نے ان کی طرف سے آنحضرت ﷺ کے ساتھ بات کی ہو۔ چنانچہ تاریخی روایات کے مطابق آنحضرت ﷺ کایہ فرمانا کہ مجھے اہلِ نجد کی طرف سے اطمینان نہیں ہے اور اس کا یہ جواب دینا کہ آپؐ کوئی فکر نہ کریں۔ مَیں اس کا ضامن ہوتا ہوں کہ آپؐ کے صحابہؓ کوکوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ابوبَرَاء کے ساتھ رِعل اورذکوان کے لوگ بھی آئے تھے جن کی وجہ سے آنحضرت ﷺ فکرمند تھے۔ واللّٰہ اعلم۔بہرحال آنحضرت ﷺ نے صَفر ۴؍ہجری میں مُنذِر بن عَمروانصاری ؓکی امارت میں صحابہؓ کی ایک پارٹی روانہ فرمائی۔ یہ لو گ عموماًانصار میں سے تھے اور تعداد میں ستر تھے اور قریبا ًسارے کے سارے قاری یعنی قرآن خوان تھے۔‘‘ سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺکےبنوعامرکےسردارعامربن طفیل کوخط لکھنے کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کی جماعت کو عامر بن طفیل کے نام ایک مکتوب گرامی بھی عنایت فرمایا تھا۔ یہ ابوبَرَاء عامر بن مالک کا بھتیجا اور بنو عامر کے سرداروں میں سے ایک متکبر اور مغرور سردار تھا۔ اس کا ماجرا یہ تھا کہ یہ شخص اپنے دل میں رسول اللہ ﷺ کی دعوت کی حقانیت اور صداقت کا معترف تھا اور یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ عنقریب رسول اللہ ﷺ کو پورے جزیرہ نما عرب پر غلبہ اور اقتدار حاصل ہو جائے گا لیکن دریں اثنا خود اپنی حکمرانی کے خواب دیکھنے لگا۔ اس کے ذہن میں یہ شیطانی سوچ انگڑائیاں لینے لگی کہ کیوں نہ مَیں خود رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر پہلے ہی سے کوئی سودے بازی کر لوں۔ چنانچہ وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مَیں آپ کو اختیار دیتا ہوں کہ بادیہ نشینوں پر آپ کی اور شہر کے رہنے والوں پر میری حکومت ہو یا آپ کے بعد مَیں آپ کا خلیفہ اور جانشین بنوں یا مَیں غطفان کے ایک ہزار سرخ و زرد گھوڑوں اور ایک ہزار اونٹنیوں کے جتھے کے ساتھ آپ سے لڑوں گا۔ تین شرطیں اس نے پیش کیں۔ رسول اللہ ﷺ نے عامر بن طفیل کے یہ جاہلانہ مطالبے مسترد کر دیے۔ کوئی بات نہیں مانی۔ وہ نامراد ہو کر لوٹ گیا۔ سریہ بئر معونہ کے موقع کی مناسبت سے رسول اللہ ﷺ نے مناسب سمجھا کہ اسے دین کی دعوت دی جائے۔ چنانچہ آپؐ نے خاص طور پر اس کے نام ایک مکتوب گرامی صحابہؓ کے ہاتھ روانہ فرمایا…حضرت حَرَام بن مِلْحَانؓ کے اس خط لے جانے کی تفصیل میں لکھا ہے کہ حضرت حَرَام بن مِلْحَانؓ نے اپنے ساتھ دو اَور ساتھیوں کو لیا جن میں سے ایک صحابی ایک ٹانگ سے معذور تھے۔ ان کا نام کعب بن زید تھا جبکہ دوسرے ساتھی کے نام کے بارےمیں اکثر سیرت نگار خاموش ہیں البتہ بخاری کی ایک شرح فتح الباری میں زیرِ باب غزوة الرجیع میں اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے دوسرے ساتھی کا نام مُنذِر بن محمد بیان کیا ہے۔ بہرحال یہ تینوں افراد چل پڑے۔ حضرت حرامؓ نے اپنے دونوں ساتھیوں کو پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ تم میرے قریب ہی رہنا۔ مَیں ان کے پاس جاتا ہوں اگر انہوں نے مجھے امان دے دی تو ٹھیک ہے اور اگر مجھے قتل کر دیا گیا تو آپ دونوں اپنے ساتھیوں کے پاس واپس چلے جانا۔اس کے بعد وہ خود بےدھڑک اللہ کے دشمن عامر بن طفیل کے پاس چلے گئے۔ وہ بنو عامر کے کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ حرام نے ان سب کو مخاطب کر کے کہا کیا تم مجھے اس امر پر امان دیتے ہو کہ مَیں تمہیں رسول اللہ ﷺ کا مکتوب گرامی پہنچا دوں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ ہم آپ کو امان دیتے ہیں۔ حرام ان سے گفتگو کرنے لگے۔ موسیٰ بن عقبہ کی روایت میں ہے کہ حرام ان کے سامنے رسول اللہ ﷺ کا خط پڑھنے لگے۔ تاریخ طبری میں ہے کہ حرام نے ان لوگوں سے خطاب فرماتے ہوئے کہا:اے بئرمعونہ والو! مَیں تمہارے پاس اللہ کے رسولﷺ کا فرستادہ بن کر آیا ہوں۔ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لے آؤ۔ ابھی حرام کی یہ مبارک گفتگو جاری ہی تھی کہ وہاں موجود لوگوں نے اپنے خُبثِ باطن کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنے ایک آدمی کو اشارہ کر دیا وہ فوراً حرام کی پشت کی طرف جا پہنچا اور ان پر نیزے کا وار کیا جو ان کے جسم کے آر پار ہو گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حرام خط لے کر عامر بن طفیل کے پاس گئے تو اس ظالم نے خط دیکھنا بھی گوارانہیں کیا اور ان پر حملہ کر کے انہیں شہید کر ڈالا۔ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت عامربن فہیرہ ؓکی شہادت کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت عامر بن فُہَیرَہؓ کی شہادت کا ذکر یوں ملتا ہے: یہ حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ ہجرتِ مدینہ میں شامل تھے۔ یہ بھی بئر معونہ کے وقت میں شہید ہوئے تھے۔ جب وہ لوگ بئر معونہ میں قتل کیے گئے اور حضرت عَمرو بن امیہ ضَمْرِی ؓقیدکیے گئے تو عامر بن طفیل نے ان سے پوچھا یہ کون ہے؟ اور اس نے ایک مقتول کی طرف اشارہ کیا تو عَمرو بن امیہ نے جواب دیا کہ یہ عامر بن فُہَیرَہ ہیں۔ عامر بن طفیل نے کہا کہ مَیں نے عامر بن فُہَیرَہ کو دیکھا کہ وہ قتل کیے جانے کے بعد آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں۔ یہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ تب اس نے یہ نظارہ دیکھا۔ یہاں تک کہ مَیں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ آسمان ان کے اور زمین کے درمیان ہے۔ پھر وہ زمین پر اتارے گئے۔ نبی کریم ﷺ کو ان کی خبر پہنچی اور آپ ﷺ نے ان کے قتل کیے جانے کی خبر صحابہؓ کو دی اور فرمایا تمہارے ساتھی شہید ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنے ربّ سے دعا کی ہے کہ اےہمارے رب! ہمارے متعلق ہمارے بھائیوں کو بتا کہ ہم تجھ سے خوش ہو گئے اور تُو ہم سے خوش ہو گیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق بتا دیا۔ صحیح بخاری کی یہ روایت ہے۔ حضرت عامر بن فُہَیرَہ ؓکو کس نے شہید کیا، اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ آپؓ کو عامر بن طفیل نے شہید کیا جبکہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ کو جَبَّار بن سَلْمیٰ نے شہید کیا۔ سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت عامربن فہیرہؓ کی شہادت کی بابت حضرت مصلح موعودؓ کاکیاموقف بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعود ؓ حضرت عامر بن فُہَیرَہؓ کی شہادت کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اسلام نے تلوار کے زور سے فتح نہیں پائی بلکہ اسلام نے اس اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ سے فتح پائی ہے جو دلوں میں اتر جاتی تھی اور اخلاق میں ایک اعلیٰ درجہ کا تغیر پیدا کر دیتی تھی۔ ایک صحابی کہتے ہیں میرے مسلمان ہونے کی وجہ محض یہ ہوئی کہ مَیں اس قوم میں مہمان ٹھہرا ہوا تھا جس نے غداری کرتے ہوئے مسلمانوں کے ستّر قاری شہید کر دیے تھے۔ جب انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو کچھ تو اونچے ٹیلے پر چڑھ گئے اورکچھ ان کے مقابلہ میں کھڑے رہے۔ چونکہ دشمن بہت بڑی تعداد میں تھا اور مسلمان بہت تھوڑے تھے اور وہ بھی نہتے اور بے سروسامان تھے اِس لئے انہوں نے ایک ایک کرکے تمام مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ آخر میں صرف ایک صحابی رہ گئے جو ہجرت میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ شریک تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے ان کا نام عامر بن فُہَیرَہؓ تھا۔ بہت سے لوگوں نے مل کر ان کو پکڑ لیا اورایک شخص نے زور سے نیزہ ان کے سینہ میں مارا۔ نیزے کا لگنا تھا کہ ان کی زبان سے بے اختیار یہ فقرہ نکلا کہ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ ،کعبہ کے رب کی قسم! مَیں کامیاب ہو گیا۔ ‘‘ یہ بیان کرنے والا لکھتا ہے جو اس وقت مسلمان نہیں تھے کہ ’’جب مَیں نے ان کی زبان سے یہ فقرہ سنا تو مَیں حیران ہوا اور مَیں نے کہا یہ شخص اپنے رشتہ داروں سے دُور، اپنے بیوی بچوں سے دُور، اتنی بڑی مصیبت میں مبتلا ہوا اور نیزہ اِس کے سینہ میں مارا گیا مگر اِس نے مرتے ہوئے اگر کچھ کہا تو صرف یہ کہ ’’کعبہ کے رب کی قسم! مَیں کامیاب ہوگیا۔‘‘ کیا یہ شخص پاگل تو نہیں؟ چنانچہ’’ کہنے لگا کہ ‘‘مَیں نے بعض اَور لوگوں سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے اور اس کے منہ سے ایسا فقرہ کیوں نکلا؟ انہوں نے کہا تم نہیں جانتے یہ مسلمان لوگ واقعہ میں پاگل ہیں۔ جب یہ خداتعالیٰ کی راہ میں مرتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ خداتعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور انہوں نے کامیابی حاصل کر لی۔‘‘کہتا ہے کہ ’’میری طبیعت پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ مَیں ان لوگوں کا مرکز جا کر دیکھوں گا اور خود ان لوگوں کے مذہب کا مطالعہ کروں گا۔ چنانچہ‘‘کہنے لگا کہ ’’مَیں مدینہ پہنچا اور مسلمان ہو گیا‘‘تعلیم سُن کے۔ ’’صحابہؓ کہتے ہیں کہ اِس واقعہ کا کہ ایک شخص کے سینہ میں نیزہ مارا جاتا ہے اور وہ وطن سے کوسوں دُور ہے۔ اس کاکوئی عزیز اور رشتہ دار اس کے پاس نہیں اور اس کی زبان سے یہ نکلتا ہے کہ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ اس کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ جب وہ یہ واقعہ سنایا کرتا اور فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ کے الفاظ پر پہنچتا تھا تو اِس واقعہ کی ہیبت کی وجہ سے یکدم اس کا جسم کانپنے لگ جاتا اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔ تو اسلام اپنی خوبیوں کی وجہ سے پھیلا ہے‘‘ آپؓ نے فرمایا۔’’زور سے نہیں۔‘‘ پھیلا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍اگست 2025ء