https://youtu.be/VjTJTLbIPh0 براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میں ابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو دلائل دعویٰ چہارم بیان امر سوم الہام یا کشف غیر نبی کے منکر حجیت متکلمین اور اصولی ہیں۔ اور اس کے حجت (دلیل) ہونے کی قائل بعض محدث و صوفی اس مقام میں اُن صوفیوں اور محدثوں کے اقوال نقل کئے جاتے ہیں جو اس الہام و کشف کو حجت جانتے ہیں اور اس سے کام لیتے ہیں۔ از انجملہ امام عبد الوہاب شعرانی ہیں جو میزان کبریٰ میں اہل کشف و الہام کے لئے کشف الہام سے دلائل احکام پر مطلع ہونے کے مدعی ہیں۔ چنانچہ بصفحہ ۱۲ کتاب میزان کے فرماتے ہیں۔ و قد اطلعنی اللّٰہ تعالیٰ من طریق الالھام علی دلیل لقول الامام داؤد الظاھری بنقض الطھارۃ بلمس الصغیرۃ التی لا تشتہی۔خدا تعالیٰ نے مجھے بطریق الہام امام داؤد ظاہری کے اس مسئلہ کے کہ ’’چھوٹی لڑکی کو ہاتھ لگانے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘ مطلع کیا پھر اس کو بتفصیل بیان فرمایا۔ اور بصفحہ ۱۳ فرمایا کہ و صاحب ھذا الکشف قد ساوی المجتھدین فی مقام الیقین و ربما زاد علی بعضھم لاعتراف علمہ من عین الشریعۃ و لا یحتاج الی تحصیل اٰلات الا جتھاد التی شرطوھا فی حق المجتھد فحکمہ حکم الجاھل بطریق البحر اذا ورد مع عالم بعالیملاء سقاہ منہ فلا فرق بین الماء الذی یاخذہ العالم و لا بین الماء الذی یاخذہ الجاھل۔ صاحب کشف مقام یقین میں مجتہدین کے مساوی ہوتا ہے اور کبھی بعض مجتہدین سے بڑھ جاتا ہے کیونکہ وہ اسی چشمہ سے جس سے شریعت نکلتی ہے چُلو بھرتا ہے اور وہ اسباب (علوم) اجتہاد کا جو مجتہدوں کے حق میں شرط ٹھہرائی گئی ہیں محتاج نہیں ہے اس کا حال دریا کے راستہ سے ناواقف کا ساہے جو کسی راستہ جاننے والے کے ہمراہ دریا پر پانی لینے کو پہنچ جاتا ہے ۔ اس کے پانی میں اور جاننے والے کے لئے ہوئی پانی میں کچھ فرق نہیں۔ پھر اسی صفحہ میں اس پر یہ سوال کیا ہے کہ فان قلت فلای شی لم یوجب العلماء باللّٰہ تعالی العمل بما اخذہ العالم من طریق الکشف مع کونہ ملحقا بالنصوص فی الصحۃ عند بعضھم فالجواب لیس عدم ایجاب العلماء العمل بعلوم الکشف من حیث ضعفھا و نقصھا عما اخذہ العالم من طریق النقل الظاھر و انما ذٰلک للاستغناء عن عدہ فی الموجبات بصرائح ادلۃ الکتاب و السنۃ عند القطع بصحتہ ای ذٰلک الکشف فانہ حینذ لا یکون الا موافقا لھا اما عند عدم القطع بصحتہ فمن حیث عدم عصمۃ الآخذ لذٰلک العلم فقد یکون دخل کشفہ التلبیس من ابلیس فان اللّٰہ تعالیٰ قد اقدر ابلیس کما قال الغزالی وغیرہ علی ان یقیم للمکاشف صورۃ المحل الذی یاخذ علمہ منہ من سماء او عرش او کرسی او قلم او لوح فربما ظن المکاشف ان ذٰلک العلم عن اللّٰہ فاخذ بہ فضل واضل فمن ھنا اوجبوا علی المکاشف انہ یعرض ما اخذہ من العلم من طریق کشفہ علی الکتاب و السنۃ قبل العمل بہ فان وافق فذالک و الاحرم علیہ العمل بہ فعلم ان من اخذ علمہ من غیر الشریعۃ من غیر تلبیس فی طریق کشفہ فلا یصح منہ الرجوع عند ابدًا ما عاش۔ پھر علماء نے اُس مسئلہ پر جو کسی نے کشف سے لیا ہو عمل کرنے کو کیوں واجب نہیں ٹھہرایا باوجودیکہ وہ بعض لوگوں کے نزدیک صحت میں (آیۃ و حدیث)کے مثل ہے پھر اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس پر عمل واجب نہ کرنا اس لئے نہیں ہے کہ جو مسئلہ کشف سے لیا جاتا ہے ۔ وہ اس مسئلہ سے جو ظاہری نقل سے لیا جاوے کچھ کم رتبہ اور ضعیف ہے بلکہ اس لئے ہے کہ صریح دلائل کتاب و سُنّت کے ہوتے اس کو دلیل موجب عمل ٹھہرانے کے حاجت نہیں کیونکہ کشف جبکہ اس کی صحت کا یقین ہو (حاشیہ:اسی صورت سے جو ہم نے بصفحہ (۳۰۳) بیان کی ہے۔) کتاب اللہ کے موافق ہی ہوتا ہے۔ اور جب اس کی صحت کا یقین نہ ہو (اس معنی کر کہ ہمیں دخل ابلیس کا امکان ہے جو اس کے عدم استقرار سے ثابت ہوتا ہے۔) تو اس وجہ سے کہ صاحب کشف معصوم نہیں ہے (حاشیہ: ابتداء میں اور اس وقت تک کہ اس پر صاحب کشف کو قیام وثبات نہ ہو۔)اس میں دخل شیطان کا احتمال ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے ابلیس کو چنانچہ امام غزالی وغیرہ نے کہا ہے قدرت دی ہے کہ (حاشیہ:اسی صورت سے جو ہم نے بیان کی ہے۔ ان نوٹوں سے ناظرین کو معلوم ہو گا کہ یہ عبارت میزان جس کو ہم نمبر ۶ جلد ۲ میں نقل کر چکے ہیں ہمارے دعاوی کے مخالف نہیں اسی غرض سے ہم نے اس کو اس مقام میں نقل کیا ہے ورنہ اس کی نصف اخیر کو اس مقام سے تعلق نہ تھا۔) وہ صاحب کشف کو اس کے محل کشف کی (جس سے وہ علم اخذ کرتا ہے) صورت آسمان یا عرش یا کرسی یا قلم یا لوح کی سی بنا کر دکھاوے پس وہ اُس کو خدا کی طرف سے سمجھ کر لے لیتا ہے اور خود گمراہ ہوتا ہے اور دوسروں کو گمراہ کرتا ہے۔ اسی نظر سے علماء نے صاحب کشف پر اس امر کو واجب ٹھہرایا ہے کہ وہ قبل عمل اس کو کتاب و سنت پر پیش کرے۔ پس اگر موافق پائے تو اس پر عمل کرے ورنہ اس پر عمل کرنااس پر حرام ہے اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص اپنا علم شریعت کے سوا اور جگہ (الہام و کشف) سے لے اور اس میں تلبیس کا دخل نہ ہو تو اس سے وہ کبھی نہ پھرے جب تک زندہ رہے۔ اور اس میں بصفحہ ۲۰ کہا ہے و من ھنا یعلم ان اھل الکشف غیر محتاجین الی القیاس لاستغنائھم بالکشف۔اہل کشف قیاس کے محتاج نہیں وہ کشف کے سبب اس سے مستغنی ہیں۔ اور بصفحہ ۳۳ فرمایا ہے کہ اصحابی کالنجوم بایّھم اقتدیتم اھتدیتم و ان کان فیہ مقال عند المحدثین فھو صحیح عند اھل الکشف۔ حدیث اصحابی کالنجوم اگرچہ محدثین کے نزدیک محل کلام ہے پر وہ اہل کشف کے نزدیک صحیح ہے۔ اور بصفحہ ۲۴ کہا ہے۔ فانہ ماثم لنا دلیل واضح یرد اھل الکشف ابدًا لا عقلا و نقلا و لا شرعا لان الکشف لا یاتی الا مؤیدا بالشریعۃ دائما۔ ہمارے پاس کوئی دلیل ایسی نہیں جو کلام اہل کشف کو رد کرے نہ عقلی نہ نقلی نہ شرعی کیونکہ کشف ہمیشہ شریعت سے مؤید ہوتا ہے۔ اور بصفحہ ۴۸ فرمایا ہے کہ و قد اشتھر عن کثیر من الاولیاء الذین ھم دون الائمۃ المجتھدین فی المقام بیقین انھم کانوا یجتمعون برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کثیرا یصدقھم اھل عصرھم علی ذالک آکی ان ذکر جماعۃ منھم الشیخ جلال الدین السیوطی ثم قال و رایت ورقۃ یخط الشیخ جلال الدین السیوطی عند احد اصحابہ و ھو الشیخ عبد القادر الشاذلی مراسلۃ لشخص سألہ فی شفاعۃٍ عند السلطان قایتبای رحمہ اللّٰہ تعالٰی اعلم یا اخی اننی قد اجتمعت برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی وقتی ھذا خمسا و سبعین مرۃ یقظۃ و مشافھۃ و لو لا خوفی من احتجابہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عنی بسبب دخولی للولاۃ لطلعت القلعۃ و شفعت فیک عند السلطان و انی رجل من خدام حدیثہ و احتاج الیہ فی تصحیح الاحادیث التی ضعفھا المحدثون من طریقھم و لا شک ان نفع ذالک ارجح من نفعک انت یا اخی انتھی و یؤید الشیخ جلال الدین فی ذالک ما اشتھر عن سیدی محمد بن زین المادح لرسول اللّٰہ انہ کان یری رسول اللّٰہ صلعم یقظۃ و مشافھۃ ۔ (میزان شعرانی) بہتری اولیاء اللہ سے مشتہر ہو چکا ہے کہ’’وہ آنحضرت صلعم سے(عالم ارواح میں یا بطور کشف) ہم مجلس ہوئے اور ان کے ہمعصران نے ان کے دعویٰ کو تسلیم کیا۔ پھر امام شعرانی نے اُن لوگوں کے نام لئے جن میں ایک امام محدث جلال الدین سیوطی ہیں پھر فرمایا میں نے ایک ورق شیخ جلال الدین سیوطی کا دستخطی ان کے صحبتی شیخ عبد القادر شاذلی کے پاس پایا جو کسی شخص کے نام خط تھا جس نے ان سے بادشاہ وقت کے پاس سفارش کی درخواست کی۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ میں آنحضرت صلعم کی خدمت میں تصحیح احادیث کے لئے جن کو محدث ضعیف کہتے ہیں حاضر ہوا کرتا ہوں۔ چنانچہ اس وقت تک پچھہتر دفعہ حالت بیداری میں حاضر خدمت ہو چکا ہوں مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ میں بادشاہ وقت کے پاس جانے کے سبب اس حضوری سے روکا جاؤں گا تو قلعہ میں جاتا اور تمہاری سفارش کرتا۔ امام شعرانی فرماتے ہیں کہ شیخ جلال الدین کے اس بات کا مؤید وہ واقع ہے جو سید محمد بن زین سے مشتہر ہے وہ آنحضرت صلعم کی زیارت سے بیداری میں مشرف ہوتے جب حج کو جاتے پھر اُس کو مفصل ذکر کیا۔ اور از انجملہ شیخ محی الدین ابن عربی ہیں جو فتوحات مکیہ میں ایک خاص باب اس مضمون کا کہ ’’اہل ولایت بذریعہ کشف آنحضرت سے احکام پوچھتے ہیں مقرر کر کے فرماتے ہیں۔‘‘ ان احدھم اذا احتاج فی واقعۃٍ او سوال عن حدیث رای النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فینزل علیہ جبریل علیہ السلام فیسالہ عما احتاج الیہ الولی فیجیبہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم و یسمع ھذا الولی فیعی ما قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال و ھذا کما سأل جبرئیل علیہ السلام عن الایمان و شرائع الاسلام فاجابہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و وعوہ قال و نصحح من ھذا الطریق احادیث النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فربَّ حدیث صحیح عند اھل الفن لا یثبت عند نأمن ھذا الطریق و ربّ موضوع عندھم یصح بقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ھذا حدیث قلتہ۔(فتوحات) ان میں سے جب کسی کو کسی واقعہ میں حدیث کی حاجت پڑتی ہے تو وہ آنحضرتؐ کی زیارت سے مشرف ہو جاتا ہے۔ پھر جبرئیل علیہ السلام نازل ہوتے ہیں اور آنحضرتؐ جبرئیلؑ سے وہ مسئلہ (جس کی ولی کو حاجت ہوتی ہے) پوچھ کر اس ولی کو بتاتے ہیں جس کو ولی سنتا ہے اور یاد کر لیتاہے جیسے آنحضرت سے جبرئیل نے ایمان و اسلام کا سوال کیا تھا اور آنحضرت نے اس کا جواب دیا تھا اور صحابہ نے یاد کر لیا تھا۔ شیخ ابن عربی نے فرمایا ہے ہم اس طریق سے آنحضرتؐ سے احادیث کی تصحیح کرا لیتے ہیں۔ بہتیری حدیثیں ایسی ہیں جو اس فن کے لوگوں کے نزدیک صحیح ہیں اور وہ ہمارے نزدیک صحیح نہیں اور بہتیری حدیثیں ان کے نزدیک موضوع ہیں۔ اور آنحضرت کے قول سے (بذریعہ کشف) صحیح ہو جاتی ہیں۔ اس قسم کے مسائل و احادیث جن کی تصحیح ابن عربی نے آنحضرت سے کرائی ہے۔ فتوحات میں بہت مذکور ہیں جیسے حدیث رفع یدین بوقت انتقالات نماز اور دعاء ختم صحیح بخاری اور حدیث وقوع طلاق ثلث وغیرہ۔ اور فتوحات مکیہ میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اہل ذکر و خلوت پر وہ علوم لدنیہ کھلتے ہیں جو اہل نظر و استدلال کو حاصل نہیں ہوتے۔ اور یہ علوم لدنیہ اور اسرار و معارف انبیاء اور اولیاء سے مخصوص ہیں اور جنید بغدادی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے تیس سال اس درجہ میں رہ کر یہ رتبہ حاصل کیا ہے۔ ابو یزید بسطامی سے نقل کیاہے کہ تم (علماء ظاہر) نے علم مردوں سے لیا ہے۔ ہم نے خدا زندہ قائم سے (اس مضمون کی اصل عبارت فتوحات اشاعۃ السنۃ نمبر ۵ جلد ۲ میں نقل ہو چکی ہے۔) اور از انجملہ امام غزالی ہیں ان کا قول مثبت الہام بھی اُسی نمبر ۵ اشاعۃ السنۃ میں نقل ہو چکا ہے۔ اور از انجملہ رئیس محدثین ہند حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ ہیں جو اپنی متعدد تصانیف میں الہام و کشف پر اعتماد اور اس سے استشاد کئے ہیں۔ (جاری ہے) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: حضرت مصلح موعودؓ کا پیغام—جماعت کے نام