{ 2015ء میں سامنے آنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب} قارئین الفضل کی خدمت میں ماہ نومبر 2015ء کے دوران پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت کے متعدد واقعات میں سے بعض واقعات کا خلاصہ پیش ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو محض اپنے فضل سے اپنے حفظ وامان میں رکھے، اسیران کی رہائی اورشریروں کی پکڑ کا سامان فرمائے۔ آمین ………………… جہلم میں احمدیوں کی فیکٹری جلا دی گئی جہلم، 20؍ نومبر2015ء: جماعتِ احمدیہ کے مرکزی دفاتر کی جانب سے 21؍ نومبر کو درج ذیل پریس ریلیز جاری کی گئی: ’’ قرآن کریم کی مبینہ بے حرمتی کا شر انگیز الزام لگا کر جہلم میں معصوم احمدیوں کو زندہ جلانے کی کوشش کوئی احمدی قرآن کریم کی شان میں ادنی سی گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا :ترجمان جماعت احمدیہ چناب نگرربوہ(پ ر)گذشتہ روز20نومبر کو جہلم میں ایک شر انگیز منصوبے کے تحت قرآن کریم کی مبینہ بے حرمتی کا شر انگیز الزام لگا کر معصوم احمدیوں کو زندہ جلانے کی کوشش کی گئی۔تفصیلات کے مطابق جہلم میں پچاس سال سے قائم ایک مشہور چپ بورڈ فیکٹری، جس کے مالکان جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں کو آگ لگا دی گئی۔فیکٹری میں معمول کے مطابق چپ بورڈ کی تیاری کا کام جاری تھا کہ کسی نے مقامی مولویوں کو یہ شر انگیز اطلاع دی کہ فیکٹری میں چپ بورڈ کی تیاری کے لئے قرآن کریم جلا دئے گئے ہیں ۔ بغیر کسی تحقیق کے مساجد کے لاؤڈ سپیکرز پر اعلان کروائے گئے کہ احمدیوں کی چپ بورڈ فیکٹری میں قرآن کریم کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ان اشتعال انگیز اعلانات سے علاقے کے لوگوں کو اکٹھا کر کے مشتعل ہجوم میں تبدیل کر دیا گیا۔ جس نے فیکٹر ی پر پتھراؤ کیا اور توڑ پھوڑ کرنے کے بعد آتش گیر مادہ سے فیکٹری کو آگ لگا دی۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے موقع پر پہنچ کر فیکٹری کے اندرمحبوس افراد کو نکالا۔آگ لگنے سے فیکٹری کا 70فی صد سے زائد حصہ جل کر تباہ ہو گیا ہے جبکہ فیکٹری کے احاطے میں موجود 8گاڑیاں بھی جلا دی گئیں ۔ اس افسوسناک واقعہ پر جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان نے دلی رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت فیکٹری کو آگ لگا کر احمدیوں کو زندہ جلانے کی عمداً کوشش کی گئی ہے۔کسی شخص نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے دشمنی کی آگ کے تحت قرآن کریم کی مبینہ بے حرمتی کا شر انگیز الزام لگا یا ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ گذشتہ سال گوجرانوالہ میں 27 جولائی 2014کو رمضان المبارک میں خانہ کعبہ کی بے حرمتی کا الزام لگا کر مشتعل ہجوم نے 3احمدی خواتین کو زندہ جلا دیا تھا جبکہ تحقیقات کے بعد ثابت ہو گیا کہ مذکورہ الزام صد فی صد جھوٹ پر مبنی تھا اور ذاتی دشمنی کا نتیجہ تھا۔انہوں نے کہا کہ ہر احمدی تمام شعائر اللہ کا دل و جان سے احترام کرتا ہے کیونکہ مقدس کا احترام ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ ترجمان نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت نفرت انگیز تقاریر پر پابندی صرف کاغذی کارروائی کی حد تک ہے جبکہ انتہا پسند عناصرکو احمدیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ شفاف تحقیقات کر کے چپ بورڈ فیکٹری میں آگ لگا کر زندہ انسانوں کو جلانے کی کوشش کرنے والے شر انگیز منصوبہ سازوں اور قانون شکن عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے۔ ‘‘ جہلم میں جماعتِ احمدیہ کی مسجد پر حملہ کالاگجراں ، ضلع جہلم؛ 21؍ نومبر 2015ء: جہلم میں ایک احمدی کی ملکیتی فیکٹری کو آگ لگانے کے بعد شر پسندوں نے ضلع جہلم کے قصبہ کالا گجراں میں موجود احمدیہ مسجد پر حملہ کر کے اس کے سامان کو آگ لگا دی۔ اس واقعہ سے متعلق صدر انجمن احمدیہ کی جانب سے درج ذیل پریس ریلیز جاری کی گئی: ’’جہلم: جماعت احمدیہ کے افراد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی موجودگی میں شر پسند، قانون شکن عناصر کا نشانہ کالا گجراں میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ پر حملہ کر کے سامان کو جلا دیا گیا: ترجمان جماعت احمدیہ چناب نگر ربوہ(پ ر) جہلم کے علاقے کالا گجراں میں شرپسند عناصر نے جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ پر حملہ کر کے وہاں موجود سامان کی توڑ پھوڑ کرنے کے بعد گلی میں رکھ کر آگ لگا دی۔ 3دن قبل 20؍ نومبر کو جماعت احمدیہ کے معاندین نے چپ بورڈ فیکٹری پر دھاوا بول دیا تھا او رفیکٹری کو آگ لگا دی تھی جبکہ فیکٹری میں لوگ موجود تھے۔ شر پسندوں کی کوشش تھی کہ اند رموجود افراد کو زندہ جلا دیا جائے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے فیکٹری میں موجود لوگوں کی جانیں بمشکل بچائی جا سکیں ۔ گذشتہ روز مؤرخہ 21؍ نومبر2015ء بروز ہفتہ کو انتہا پسند عناصر نے ایک جلوس کالا گجراں میں نکالا اور وہاں پر احمدیہ بیت الذکر کا گھیراؤ کر کے اُس کے اندر سے دریاں ، صفیں اور دیگر سامان نکال کر عبادت گاہ کے سامنے سڑک پر رکھ کر جلا دیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ عبادت گاہ کا سامان جب جلایا گیا تو موقع پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی موجود تھے اور انہوں نے شر پسند عناصر کو اس حرکت سے روکنے کی کوشش نہ کی۔ مسجد کا سامان جلانے کے بعد انتہا پسندوں نے مسجد کو دھویا اور اس کے بعد کھڑے ہو کر مولوی نے اذان دی اور نماز عصر پڑھی۔ بعد میں سرکاری انتظامیہ نے ان کو نکال کر مسجد کو تالا لگا دیا۔ ترجمان جماعت احمدیہ پاکستان نے جہلم میں پُرتشدد واقعات کی پر زور مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی موجودگی میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ پر حملہ کیا گیا اور وہ قانون شکن عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے خاموش تماشائی بنے کھڑے دیکھتے رہے۔ ترجمان نے بتایا کہ فیکٹری کے نقصان اور آگ کے واقعہ کے بارہ میں شاملین کے خلاف FIRدرج کرنے کے حوالے سے بھی پولیس کو درخواست دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہلم اور اس کے اردگرد کے علاقوں کے احمدی افراد اپنے تحفظ کے لئے علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ ترجمان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد کو تحفظ فراہم کیا جائے اور جن شر پسندوں نے انسانی جانوں سے کھیلنے کی کوشش کی ہے ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔‘‘ اس تمام تر واقعہ میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں یہ تمام کام کیے گئے، ملّاں نے لوگوں کو احمدیوں کی فیکٹری اور پھر اگلے روز احمدیوں کی مسجد پر حملہ کرنے پر ابھارا، لوگ اکٹھے ہوئے اور پھر حملہ کر بھی دیا گیا لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس حملہ کو روکنے کے لئے کوئی اقدامات نہ کیے۔ ایک عینی شاہد کے مطابق یہ فیکٹری پر ہونے والے حملہ کے بعد حملہ آوروں نے وہاں کی کالونی پر دھاوا بول دیا۔ اس نے ایک شخص کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا کہ کالونی میں صرف احمدیوں کے گھروں پر حملہ کرو۔ عینی شاہد جن کا نام حفاظتی نقطہ نگاہ سے نہیں درج کیا جا رہا کا کہنا ہے کہ ان کے مطابق یہ ایک معجزہ ہے کہ کس طرح گھروں سے بھاگ کر کھیتوں اور جنگل کی طرف نکلنے والے احمدی بچوں اور مردوں عورتوں کی جان بچی کیونکہ شرّ پسندوں نے اپنے ہاتھوں میں ڈنڈوں اور ٹارچوں کے ساتھ ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا۔ انہیں بعد میں یہ بھی بتایا گیا کہ احمدیوں کے گھروں کے ساز و سامان کو پہلے لوٹا گیا یہاں تک کہ الماریوں میں موجود بچوں کے کپڑوں کو بھی اپنے قبضہ میں کر لینے کے بعد شر پسندوں نے گھروں کو آگ لگا دی۔ احمدی وہاں سے فرار ہونے کے بعد سخت سردی میں انتہائی خوف کی حالت میں کھلے آسمان تلے کھیتوں ، ٹیلوں اور کھالوں کانٹوں کے اوپر پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔حالات کو دیکھتے ہوئے جماعت احمدیہ کے رضاکاران پر مشتمل مختلف ٹیمیں الگ سے احتیاط کے ساتھ ان لوگوں کی تلاش میں نکلیں اور صبح سات بجے تک ان تمام لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا عمل جاری رہا۔ بعض اطلاعات کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ایک ادارے کے اہلکاروں نے احمدیوں کو حملہ کی زد میں آنے والی فیکٹری سے راہِ فرار اختیار کرنے اور ان کی جانیں بچانے میں مدد کی۔ اس تمام واقعات کے بعد انتظامیہ کے علم میں تھا کہ غیر احمدی اس وقت احمدیوں کے خلاف سرگرمِ عمل ہیں اور اگلے روز کے لئے ان کے ارادے کیا بن رہے ہیں لیکن پھر بھی انتظامیہ نے ان کو بد ارادوں سے باز رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ چنانچہ اگلے ہی روز اس فیکٹری سے کچھ فاصلہ پر موجود احمدیہ مسجد پر حملہ ہو گیا۔ ایک مقامی صحافی ناصر بٹ کے مطابق تو اس تمام تر حملہ کی ذمہ دار پولیس خود ہے کیونکہ اس مسجد پر حملہ سے پہلے وہاں پر RPOخود صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے پہنچ چکا تھا لیکن جیسے ہی ہجوم حملہ کے لئے وہاں پہنچا، پولیس وہاں سے غائب ہو گئی۔ (روزنامہ ڈان27؍نومبر2015ء) 29؍ نومبر کے The News کے مطابق ایک ویڈیو میں مشتعل ہجوم کو احمدیہ مسجد کے سامان کو آگ لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ ساتھ ہی ایک پولیس اہلکار خاموشی سے کھڑا ہوا ہے اور اس شر پسندی کے خلاف کوئی کارروائی کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ مزید یہ کہ اس واقعہ کے ہو جانے کے 24؍ گھنٹے کے بعد وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی طرف سے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ حکومت نے نیشنل ٹیلیوژن پر اس واقعہ کی خبر کو جس حد تک ممکن ہو سکتا تھا روک دیا۔ اور بہت دیر تک میڈیا کو اس جلی ہوئی فیکٹری میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی گئی تا کہ اس کی تصاویر نہ لی جا سکیں اور پبلک تک اس واقعہ میں ہونے والے ظلم کی درست تصویر نہ پہنچ سکے۔ (باقی آئندہ) …………………