پرسیکیوشن رپورٹس

احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الم انگیز داستان

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الم انگیز داستان

{2019ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب}

احمدی نما ز سنٹر کو درپیش خطرہ

اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

واہ کینٹ 19؍ستمبر 2019ء:ایک نامعلوم شریر شخص احمدیہ مسجد کے مرکزی دروازے پر آیا ،دروازے کو زور زور سے ٹانگیں ماریں اور گھاس اور جھاڑیاں اکٹھی کر کے وہاں آگ لگا دی۔ڈیوٹی پر موجود خدام کی مداخلت پر یہ شخص فرار ہو گیا۔یہی بندہ اگلی صبح ساڑھے پانچ بجے ہاتھ میں ایک لوہے کا سریا اٹھائے ہوئے دوبارہ آیا ۔ اس مرتبہ یہ شخص سیکیورٹی کیمروں کو توڑ کر اپنے ساتھ لے گیا ۔احمدی خدام نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے اس کو شناخت کیا جا سکتا ہے ۔ا س شر یر شخص کے خلاف پولیس اسٹیشن میں درخواست بھی دائر کی گئی ۔ اسی جماعت میں دو ماہ قبل بھی کچھ شر یروں نے احمدیہ مسجد کی سیکیورٹی پوسٹ کو آگ لگا دی تھی جو کہ ڈیوٹی پر موجود خدام نے بجھا دی تھی۔پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کی مد د سے آگ لگانے والے شر یروں کو گرفتار کر لیا تھا جنہیں بعد میں ان کے خاندان کے ذمہ دار افراد کے معافی مانگنے پر رہا کر دیا گیا تاہم مقامی احمدیوں کی جانب سےSHOکو اس حوالہ سے درخواست کی گئی کہ اس واقعہ کی ایف آئی آر کے اندراج کے ساتھ ساتھ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔

احمدی استاد کی مخالفت

ڈیرہ گلاب خیل ضلع خوشاب:مکرم محمد یونس صاحب شاد اکیڈمی کے نام سے ایک نجی تعلیمی ادارہ چلا رہے ہیں ۔تقریباً 200طلباء اس ادارے میں زیر تعلیم ہیں ۔کچھ روز قبل ایک کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے افراد نے حکام کو شکایت کی کہ یہاں پر قادیانی ایک سکول چلا رہا ہے جہاں بہت سے ‘مسلمان’طلباء زیر تعلیم ہیں۔یہاں بچوں کو ہراساں کیا جا تا ہے۔ اس لیے اس کو فوری طور پر بند کیا جائے ۔عمل در آمد نہ ہونے کی صورت میں اگر اس پر حملہ کیا گیا، کوئی بچہ اغواء ہو گیا یا کوئی استاد یا طالب علم متاثر ہو ا تو تمام تر ذمہ داری ایس ایچ او اور سول انتظامیہ پر ہو گی ۔

انتظامیہ نے فوری نوٹس لیتے ہوئے ان کی درخواست کے مطابق کچھ اقدامات کیے۔ انتظامیہ کی اس کمزوری کی وجہ سے ملاؤں کو شہ مل گئی اور وہ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں مزید دلیر ہو گئے۔چنانچہ احمدی اپنی مسجدمیں عید الاضحی کی نماز بھی ادا نہ کر سکے بلکہ نماز کی ادائیگی کے لیے ایک احمدی کے ڈیرے پر جمع ہونا پڑا۔مخالف ملاؤں کی اب یہ کوشش ہے کہ احمدیوں کو نماز سنٹر پر نمازِ جمعہ کی ادائیگی سے بھی روک دیا جائے ۔مخالفین شاد اکیڈمی کے خلاف پر وپیگنڈامیں مزید شدت لے آئے ہیں۔اس اکیڈمی کی ایک اچھی شہرت ہے اورجس میں زیر تعلیم طلباء کی تعداد اس کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے بڑھی ہے ۔مخالفین نے ایک اور درخواست انتظامیہ کو 29؍ اگست کو دےدی جس میں یہ تحریر تھا کہ اکیڈمی میں طلباء کو احمدیت کی تبلیغ کی جارہی ہے اس لیے اس کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے ۔انہوں نے اکیڈمی میں تحریر قرآنی آیات اور اسلامی اقوالِ زرّیں پر بھی اعتراض کیا اور سکول انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کا بھی مطالبہ کیا ۔

یہ تمام کارروائی قاری عبد الستار کی درخواست پر کی گئی ہے جو کہ جی ایچ کیو میں سرکاری ملازم ہے اور اس کا بھائی روڈہ تھل میں مسجد کا امام ہے ۔اس اقدام پر ارد گرد کے دیہات میں جماعت احمدیہ کی مخالفت میں مزید شدت آ گئی ہے ۔

ربوہ میں مخالفینِ احمدیت کی کانفرنس کا انعقاد

7؍ستمبر 2019ء: آئین پاکستان کی دوسری ترمیم کی یاد میں پاکستان بھر میں مخالفینِ احمدیت جلسے اور ریلیاں منعقد کرتے ہیں۔ یہ ترمیم 1974 ءمیں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں کی گئی تھی جس کے ذریعے سے احمدیوں کو ناٹ مسلم قرار دیا گیاتھا۔ اس ترمیم نے پاکستان میں احمدیوں پر ظلم کے دروازے کھول دیے۔مولوی حضرات ہر سال جماعت احمدیہ پاکستان کے مرکز ربوہ میں، جہاں 95 فیصد سے زائد آبادی احمدیوں کی ہے،ایک خصوصی کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں ۔ اس کانفرنس میں دور دراز سے مولوی ربوہ کے رہائشیوں اور ان کی قابل تکریم ہستیوں کو گالم گلوچ کا نشانہ بنانے آتے ہیں۔ ہر سال جماعت احمدیہ کی طرف سے درخواست کے باوجود حکام اس کانفرنس کو ربوہ میں منعقد کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اس سال بھی جماعت احمدیہ کی انتظامیہ کی طرف سے حکام کو ربوہ میں اس کانفرنس کے انعقاد کی اجازت نہ دینے کی درخواست کی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ ریلی سے اس شہرکا امن خطرہ میں پڑ جائے گا۔ خصوصاً جب کہ ملکی صورت حال بھی تسلی بخش نہیں ہے۔اس کانفرنس اور اس کے نتیجے میں پیش آمدہ نقصانات اور خطرات سے انتظامیہ کو آگاہ کرتے ہوےاس جلسے کے ربوہ میں انعقاد کو روکنے کامطالبہ کیا گیا لیکن انتظامیہ نے احمدیوں کی طرف سے دی گئی درخواستوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے انعقاد کی اجازت دے دی۔ اس کانفرنس کے دوران حکومتِ وقت سے جو مطالبات کیے گئے وہ مختصراً درج ذیل ہیں:

1۔قادیانی پاکستان اور اسلام مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور حکومتی اداروں میں اثر و رسوخ حاصل کر رہے ہیں ان کی سرگرمیوں کو روکا جائے اور کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے۔

2۔قومی شناختی کارڈ پر مذہب کا خانہ بنایا جائے یا مسلمانوں کے لیے شناختی کارڈ کا رنگ تبدیل کر دیا جائے تا کہ آئینی ضرورت کے تحت مذہبی فرق کو نمایاں کیا جا سکے۔

3۔ قادیانی ٹی ۔وی چینل ایم ٹی اے شرارت،فساد اور توہین آمیز اسلامی عقائد پھیلا رہا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اس چینل کو بلکہ سوشل میڈیا پر قادیانی شرارتوں کو روکے۔

4۔ فوج کا نعرہ جہاد ہے اور قادیانی جہاد کے منکر ہیں لہذا ان کو فوج میں بھرتی نہ کیا جائے۔

5۔ اس ملک میں، جو اسلام کے نام پروجود میں آیا، توہین رسالت کی شرعی سزا کو نافذ کیا جائے۔

6۔ حکومت کو چاہیے کہ تمام ملک کےتعلیمی نصاب میں ختمِ نبوت کے اسباق کو شامل کرے۔

7۔ قادیانی املاک کو حکومت فوری قبضہ میں لے۔

8۔ احمدی مخالف قانون کو بھرپور طریقہ سے لاگو کیا جائےاور قادیانیوں کو مسلمانوں سے مشابہت رکھنے سے روکا جائے۔

9۔ 7؍ستمبر کو ملکی سطح پر یوم ختم نبوت کے طور پر منایا جائے اور اس روز عام تعطیل کا اعلان کیا جائے۔

احمدی کے کلینک پر حملہ

ٹولیکی ،گوجرانوالہ 4؍ستمبر 2019ء: ایک احمدی جاوید احمد اس گاؤں میں کلینک چلاتے ہیں۔ انہیں اکثر اپنے احمدی ہونے کی وجہ سے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کچھ روز قبل چند نوجوان ان کے کلینک پر آئے اور ان پر حملہ کیا۔ انہوں نے مقامی تھانے میں اس واقعہ کی رپورٹ بھی درج کروائی۔

پشاور میں جماعت احمدیہ کی مخالفت عروج پر

ستمبر 2019ء کے دوران پشاور میں ہونے والے چند واقعات کچھ یوں ہیں:

٭…مطہر احمد صاحب مہمند آباد کے بچے جمال انٹر نیشنل سکول میں زیر تعلیم تھے ۔کسی نے سکول انتظامیہ کو خبر دی کہ یہ بچے احمدی ہیں چنانچہ سکول انتظامیہ نے مطہر احمد کے بچوں کو اپنے ‘‘انٹرنیشنل ’’سکول میں آنے سے روک دیا۔

٭…معراج احمد کا تعلق گلبرگ خیبر پشاور سے ہے جو گذشتہ بیس سال سے ایک کامیاب فارمیسی کا کاروبار کر رہے تھے ۔اب کچھ عرصہ سے ختم نبوت تنظیم کے ممبران ان کے لیے مسائل کھڑے کر رہے ہیں اور نہ صرف ان کو بلکہ ان کے سٹاف کو بھی ہراساں کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ان کے سٹاف نے ان کے ساتھ مزید کام کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔

٭…خالد رشید بازید خیل میں ایک کلینک پر کام کرتے ہیں۔حال ہی میں انہیں ایک نامعلوم نمبر سے ایک فون کال موصول ہو ئی نامعلوم شخص نے بانی جماعت حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال کیا اور دس لاکھ روپے کا مطالبہ کیا اور مطالبہ پورا نہ کرنے کی صورت میں قتل کی دھمکی بھی دی ۔

٭…ایک احمدی سفیر احمد کو جو کوہاٹی گیٹ پر پلاسٹک کی بوتلوں کے کاروبار سے منسلک ہیں احمدی ہونے کی وجہ سے مالک نے انہیں دکان چھوڑنے کا کہا اور احمدیت کے خلاف سخت اور نازیبا الفاظ استعمال کیے ۔

٭…شفیق الرحمٰن جو کہ کوہاٹ روڈ پر واقع انڈسٹریل اسٹیٹ میں پلاسٹک بوتلوں کی فیکٹری چلا رہے ہیں ۔عید الاضحی سے قبل ان کے ایک ملازم نے بتایا ایک مولوی آپ سے ملنا چاہتا ہے اور آپ کو مسلمان بنانا چاہتا ہے ۔اس کے بعد شفیق الرحمٰن کو جماعت مخالف کچھ پمفلٹس اور اخبارات بھی موصول ہونا شروع ہو گئیں ۔

لاڑکانہ میں احمدیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی

مسن باڈھا ضلع لاڑکانہ ستمبر 2019ء:احمدی مخالف نفرت انگیز سر گرمیاں اس علاقہ میں تیز ہو چکی ہیں۔ احمدیوں کے خلاف بد زبانی ،خصوصی طور پر سوشل میڈیا پر عروج پر ہے ۔ایک پولیس اہل کاراس نفرت انگیز مہم میں ملوث ہے۔وہ سوشل میڈیا پر لوگوں کو احمدیوں کے خلاف انگیخت کرتا ہے ۔مخالفین نے احمدی مخالف ایک ریلی نکالی جس میں جماعت کے خلاف شدید بد زبانی اور نعرہ بازی کی گئی۔اس پر احمدیوں نے حکام کو مطلع بھی کیا ہے۔

کچھ احمدی اسیران کا تذکرہ

2014ء میں ایک جھوٹا مقدمہ چار احمدیوں خلیل احمد،غلام احمد،مبشر احمداور احسان احمد آف بھوئیوال کے خلاف درج کیا گیا تھا ۔چنانچہ اس کے دو روز بعد16؍ مئی 2014ء کو خلیل احمد کو مدرسے کے ایک طالب نے اس حالت میں شہید کر دیا تھا جبکہ وہ پولیس کی حراست میں تھے ۔بقیہ تینوں احمدی افراد کو 18؍مئی 2014ء کو گرفتار کیا گیا ۔ایک سال بعد ان کی چارج شیٹ میں ہائی کورٹ کے جج کی سفارش پر دفعہ 295Cکا اضافہ کر دیا گیا جبکہ سیشن جج نے 11؍ اکتوبر کو انہیں سزائے موت سنائی۔ اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ہے۔ عدالت دو سال تک اس کیس کی شنوائی ہی نہیں کر پائی ۔یہ تینوں احمدی پانچ سال سے زائد عرصہ سے قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا ہیں۔

سعید احمدوڑائچ کے خلاف توہین رسالت کے جھوٹے الزام پر زیر دفعہ 295Cتاندلیانوالہ ضلع فیصل آبادمیں 20؍ جنوری 2018ء کو ایف آئی آر درج کی گئی اور ایف آئی آر درج ہونے سے ایک روز قبل ہی انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے خلاف عدالتی کارروائی جاری ہے ۔

جاوید احمد گھمن کے خلاف توہینِ رسالت کا ایک جھوٹا مقدمہ زیر دفعہ 295Cچوبارہ ضلع لیہ پولیس اسٹیشن میں یکم جولائی 2018ء کو درج کیا گیا اور ان کی عبوری ضمانت 14؍ جولائی 2018ء کو منسوخ کرکے انہیں گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا گیا ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button