(پاکستان میں اس وقت کئی معصوم احمد جن میں بعض عمررسیدہ بھی ہیں محض اپنے عقیدہ اور ایمان کی وجہ سے نہایت ظالمانہ طور پر جیلو ں میں محبوس ہیں۔ اس نظم میں ان اسیران راہ مولا کے جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان اسیران راہ مولی کی جلد رہائی کے سامان فرمائے۔ رہِ وفا میں بلاؤ ں سے ڈرنے والا نہیں مَیں ناتوا ں ہی سہی پھر بھی جُھکنے والا نہیں خُدا کے بعد محمدؐ سے عشق کرتا ہو ں یہ جُرم ایسا ہے جو مجھ سے چُھپنے والا نہیں نظر سے ایسے پِلائے ہیں جام ساقی نے کہ اب نشّۂِ جا ں تو اُترنے والا نہیں ملے گی جو بھی اذیّت قَفس میں سہہ لو ں گا مگر میں شکوۂ تقدیر کرنے والا نہیں کھڑا رہو ں گا مقابل پہ مثلِ کوہِ گرا ں ہوائے جَور و ستم سے بکھرنے والا نہیں ہے بدنصیبی ، چمن میں چلی ہے بادِ سموم مَیں پھول وہ جو تپش سے جُھلسنے والا نہیں پڑا ہے دیدۂ نمناک کے کنارے پر یہ میرے ضبط کا آنسو ڈھلکنے والا نہیں طلب کرے گی وفا گر، تو جان دے دو ں گا صلیبِ عشق سے ایسے اُترنے والا نہیں