https://youtu.be/lnp6eD6Amyo اس الہام کے متفق علیہ نہ ہونے سے اس کا بے اعتبار ہونا اس لئے ثابت نہیں ہوتا کہ اعتبار کا مدار اتفاق پر نہیں ہے یہ ہو تو کوئی امر اختلافی لائق اعتبار نہ ہو۔ حالانکہ مسائل دین اسلام کا حصہ اختلافی حصہ اتفاقی سے بڑھ کر ہے اور ہر ایک فریق اس حصہ اختلافی کو معتبر اور قابل عمل سمجھتا ہے براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میںابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو دلائل دعویٰ چہارم اس دعویٰ کے دلائل عقلیہ و نقلیہ وہی دلائل ہیں جو دعویٰ سوم کے ثبوت میں پیش ہو چکے ہیں۔ ان دلائل سے الہام پر یقین و عمل کرنے کا جواز شرعاً و عقلاً ثابت ہو چکا تو پھر اس الہام کے دلیل شرعی ہونے میں کیا شک رہا۔ اس مقام میں ہم اس الہام کے دلیل ہونے کے متعلق تین امر اور بیان کرنا چاہتے ہیں اوّل یہ کہ یہ الہام دلیل ہے تو پھر اس کو دلیل شرعی کیوں اور کس معنی کر نہیں کہا جاتا۔ دوم یہ کہ اس کے دلیل ہونے پر اتفاق نہیں (اختلاف ہے) تو پھر اس کا کیا اعتبار ہے۔ سوم یہ کہ اس کے دلیل ہونے میں اختلاف ہے تو جانبین اختلاف میں کون لوگ ہیں قائل کون اور منکر کون۔ بیان امر اوّل اس کو دلیل شرعی نہ کہنا اس معنی کر اور اس لئے ہے کہ الہام غیر نبی ملہم کے سوا اور لوگوں کے لئے شرع کی طرف سے دلیل نہیں ہے اور اس پر عامہ خلائق کو عمل کرنا واجب اور بعض اوقات میں جائز نہیں ہوتا۔ اِس کا شرعی دلیل ہونا اور صاحب الہام کا اتباع عامہ خلائق پر واجب ہونا نہ خود اس الہام سے ثابت ہے نہ اس پر کوئی اور دلیل قائم ہے۔ لہٰذا اس کو شریعت یا شرع جو شارع عام کا نام ہے نہیں کہا جا سکتا۔ بیان امر دوم اس الہام کے متفق علیہ نہ ہونے سے اس کا بے اعتبار ہونا اس لئے ثابت نہیں ہوتا کہ اعتبار کا مدار اتفاق پر نہیں ہے یہ ہو تو کوئی امر اختلافی لائق اعتبار نہ ہو۔ حالانکہ مسائل دین اسلام کا حصہ اختلافی حصہ اتفاقی سے بڑھ کر ہے اور ہر ایک فریق اس حصہ اختلافی کو معتبر اور قابل عمل سمجھتا ہے۔ دور نہ جاؤ ادلّہ اربعہ میں انحصار دلائل شرعیہ کے مسئلہ ہی کو دیکھ لو۔ کیا یہ چاروں دلیلیں اتفاقی دلیلیں ہیں؟ ہر گز نہیں۔ ان میں دو دلیلیں کتاب اللہ و سنت تو اتفاقی دلیلیں ہیں اور دو باقی اجماع و قیاس اختلافی ہیں اجماع میں اوّلاً یہ اختلاف ہے کہ یہ ممکن یعنی ہو بھی سکتا ہے یا نہیں بعض اس کے امکان ہی کو نہیں مانتے پھر امکان کو ماننے والوں کا اس میں اختلاف ہے کہ اس کا علم ہو سکتا ہے یا نہیں۔ ایک جماعت امکانِ علم کے بھی منکر ہیں۔ امام فخر الدین رازی نے کتاب محصول میں یہ اختلاف بیان کر کے فرمایا ہے کہ والانصاف انہ لا طریق لنا الی معرفۃ حصول الاجماع الا فی زمان الصحابۃ حیث کان المومنون قلیلین یمکن معرفتھم باسرھم علی التفصیل (محصول رازی) انصاف یہی ہے کہ بجز اجماع زمانہ صحابہ جبکہ مومنین اہل اجماع بہت تھوڑے تھے اور ان سب کی معرفت تفصیلی ممکن تھی اور زمانہ کے اجماعوں کے حصول عِلم کی کوئی سبیل نہیں۔ اسی کے مطابق کتاب حصول المامول میں ہے جو کتاب ارشاد الفحول شوکانی سے ملخص ہے۔ اس میں کہا ہے و من ادعی انہ یتمکن الناقل للاجماع من معرفۃ کل من یعتبر فیہ من علماء الدنیا فقد اسرف فی الدعوی و جازف فی القول و رحم اللّٰہ الامام احمد بن حنبل فانہ قال من ادعی وجود الاجماع فھو کاذب و جعل الاصفھانی الخلاف فی غیر اجماع الصحابۃ و قال الحق تعذر الاطلاع علی الاجماع الا اجماع الصحابۃ حیث کانوا فی قلۃ داما الآن و بعد انتشار الاسلام و کثرۃ العلماء فلا مطمع للعلم۔ (حصول المامول) جو یہ دعویٰ کرے کہ ناقل اجماع ان سب علماء دنیا کی (جو اجماع میں معتبر ہیں) معرفت پر قادر ہے وہ اس دعویٰ میں حد سے نکل گیا اور جو کچھ اُس نے کہا اٹکل سے کہا خدا امام احمد حنبل پر رحم کرے کہ انہوں نے صاف فرما دیا ہے کہ جو وجود اجماع کا مدعی ہے وہ جھوٹا ہے۔ (حاشیہ: امام احمد کا یہ قول مسلم وغیرہ میں بھی منقول ہے اگرچہ مسلم میں اس کی اور تاویل کی ہے۔) اصفہانی نے اس اختلاف کا محل اجماع صحابہ کے سوا اور اجماعوں کو ٹھہرایا ہے اور فرمایا ہے کہ حق بھی ہے کہ اجماع پر اطلاع مشکل ہے ہاں صحابہ کے اجماع پر مشکل نہیں کیونکہ وہ تھوڑے لوگ تھے اور اسلام پھیل جانے اور علماء اہل اجماع کے بڑھ جانے کے بعد تو علم اجماع کی کوئی طمع نہیں ہو سکتی۔ پھر اس امکان علم اجماع کو تسلیم کرنے والوں کا اس میں اختلاف ہے کہ اس علم کا پچھلے زمانے کے لوگوں تک منقول ہونا ممکن ہے یا نہیں۔ ایک جماعت اس کے قائل ہیں کہ یہ نقل متواتر سے ناممکن ہے اور اخبار احاد سے ہو تو اس کا اعتبار نہیں پھر ان سب باتوں (امکان اجماع۔ امکان علم۔ امکان نقل) کو ماننے والوں کا اس میں اختلاف ہے کہ وہ اجماع شرعی دلیل ہے یا نہیں۔ بعض لوگ قائل ہیں کہ وہ دلیل شرعی نہیں امام احمد بن حنبل اور داؤد ظاہری وغیرہ اس کے قائل ہیں کہ صرف اجماع صحابہ دلیل ہے۔ حصول المامول میں ہے و ذھب داؤد الظاھری الی اختصاص حجیۃ الاجماع باجماع الصحابۃ و ھو ظاھر کلام ابن حبان فی صحیحہ و ھذا ھو المشھور عن الامام احمد (حصول) اجماع کا حجت (دلیل) ہونا اجماع صحابہ سے مخصوص ہے۔ یہی امام ابن حبان کی کلام سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور یہی امام احمد سے مشہور ہے۔ پھر اس اجماع کو حجت و دلیل ماننے والے اس میں مختلف ہیں کہ وہ حجت قطعی ہے یا ظنی۔ ایک جماعت (صیر فی ابن برھان و بوسی وغیرہ) اس کو قطعی کہتے ہیں۔ ایک جماعت (امام رازی آمدی وغیرہ) ظنی کہتے ہیں۔ بعض (بزودی وغیرہ حنفی) اس میں تفصیل کرتے ہیں۔ اجماع صحابہ کو قطعی کہتے ہیں۔ باقی اجماعوں کو ظنی۔ ان مذاہب کی تفصیل بھی حصول المامول وارشاد الفحول وغیرہ میں ہے۔ امام رازی اپنے مذہب کی تائید میں فرماتے ہیں کہ و العجب من الفقھاء انھم اثبتوا الاجماع بعمومات الاٰیات و الاخبار و اجمعوا علی ان المنکر لما تدل علیہ العمومات لا یکفر و لایفسق اذا کان ذلک الانکار بتاویل ثم یقولون الحکم الذی دل علیہ الاجماع مقطوع و مخالفہ کافر فاسق فکانھم قد جعلوا الفرع اقوی من الاصل و ذلک غفلۃ عظیمۃ۔ (محصول) تعجب کی بات ہے کہ فقہاء اجماع کا حجت ہونا عموم آیات و احادیث سے ثابت کرتے ہیں اور اس بات پر بھی ان کا اجماع ہے کہ جو بات عمومات سے ثابت ہو اس کا منکر کافر نہیں ہوتا اور نہ فاسق ہوتا ہے۔ اگر وہ بتاویل منکر ہو۔ پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ جو حکم اجماع سے ثابت ہو اس کا منکر کافر ہے۔ اس میں انہوں نے فرع کو (یعنی حکم قطعیت اجماع) کو اصل سے (یعنی اُن دلائل عموم سے جن سے قطعیت ثابت کرتے ہیں) قوی بنا دیا۔ یہ ان کی بڑی غفلت ہے۔ اسی قسم کے اور اختلاف اجماع کے متعلق اہل اسلام خصوصاً اہل سنت میں پائے جاتے ہیں۔ایسا ہی قیاس کی نسبت ان کا اختلاف ہے بڑے بڑے صحابہ و تابعین و ائمہ مجتہدین اس کے حجت (دلیل ہونے کو نہیں مانتے اس کے مؤید اقاویل صحابہ و تابعین ہمارے ضمیمہ اخبار سفیر ہند نمبر ۱۵ بابت ۱۸۷۸ء میں منقول ہو چکے ہیں ہم ان کا اعادہ نہیں کرتے۔ وہ ضمیمہ ناظرین شائقین تحقیق طلب فرما کر ملاحظہ میں لائیں گے تو حظ اٹھائیں گے۔) پھر جب اختلاف کے سبب اکثر مسائل شرعیہ (خصوصاً ادلّہ اربعہ میں حصر دلائل شرعیہ کا مسئلہ ) بے اعتبار نہ ہوئے تو اختلاف کے سبب الہام کیونکر بے اعتبار ہو سکتا ہے۔ اس بیان سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو لوگ ادلہ شرعیہ کا حصر چار دلائل میں کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ یہ حصہ نہ اتفاقی دلائل کی نظر سے صحیح ہو سکتا ہے نہ اختلافی کی نظر سے۔ اتفاقی نظر سے اس کا غلط ہونا تو ابھی معلوم ہوا اور ثابت ہوچکا کہ اتفاقی دلائل صرف دو ہیں نہ چار۔ اختلافی دلائل کی شمولیت کے لحاظ سے یہ دعویٰ حصر اس لئے غلط ہے کہ اختلافی دلائل ان چاروں کے سوا اور بھی ہیں۔ استحسان (ان الفاظ کی تشریح ضمیمہ اشاعۃ السنۃ جلد ۴ میں ہو گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ)۔ استصحاب۔ استقرار۔ شرائع شائقین۔ مصالحہ مرسلہ۔ قول صحابی وغیرہ۔ کتاب مسلم الثبوت میں لکھا ہے للاربعۃ علی الاربعۃ اتفاق و اختلٰف فی امور و تقدم منھا شرائع من قبلنا و الا ستحسان و المصالح المرسلۃ و قول الصحابی و منھا عدم الدلیل بعد الفحص اختارہ بعض الشافعیۃ و الحق انہ لیس بدلیل الا بالشرع و منھا الاخذ باقل ما قیل اخذ بہ الشافعی و الحق انہ ترجیح کالاخذ بالاصل فی تعارض الاشباہ و منھا الاستقراؤا اختارہ البیضاوی و الحق انہ لا یدل علی حکم اللّٰہ الا اذا دل علی وصف جامع تدبر و منھا الاستحصاب و ھو حجۃ عند الشافعیۃ و طائفۃ من الحنفیۃ منھم ابومنصور مطلقاً و عند ابی زید و الشمس الائمۃ و فخر الاسلام للدفع فقط و نفاہ منھم المتکلمون و ھو المختار۔ (مسلم الثبوت) ان چاروں دلیلوں (کتاب و سنت و اجماع و قیاس) پر تو چاروں امام (امام ابو حنیفہؒ امام شافعیؒ امام مالکؒ امام احمدؒ)کو اتفاق ہے۔ بعض دلائل میں (جن کا ذکر پہلے بھی ہو چکا) اختلاف ہے ۔ از انجملہ شرائع سابقین ہیں اور استحسان اور مصالحہ مرسلہ اور قول صحابی۔ او ر از انجملہ تلاش کے بعد دلیل کا پایا جانا ہے اس کو بعض شافعی عدم حکم پر دلیل سمجھتے ہیں اور حق یہ ہے کہ وہ دلیل نہیں ہے مگر شریعت کی شہادت سے یعنی شریعت خود بتاتی ہے کہ جس چیز سے شرع ساکت ہے وہ بحکم اباحۃ اصلیہ مباح و معاف ہے اور ازانجملہ کم سے کم کو لے لینا ہے۔ اس کو امام شافعی نے حجت ٹھہرایا ہے اور حق یہ ہے کہ وہ ترجیح ہے جیسے تعارض کے وقت اصل کو لے لینا اور ازانجملہ استقراء ہے اس کو بیضاوی نے اختیار کیا ہے اور حق یہ ہے کہ وہ حکم الہٰی پر دلیل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ کسی وصف جامع کو ثابت نہ کرے اور از انجملہ استصحاب ہے وہ شافعی کے نزدیک اور حنفیوں میں ایک جماعت کے نزدیک حجت ہے ابو زید وغیرہ اس کو صرف مدافعت کے لئے حجت سمجھتے ہیں اور اکثر لوگ متکلمین وغیرہ اس کو حجت نہیں سمجھتے۔ (جاری ہے) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: حضرت امام حسنؓ و حسینؓ کا عظیم الشان مقام و مرتبہ