{ 2015ء میں سامنے آنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب} قارئین الفضل کی خدمت میں ماہ اکتوبر 2015ء کے دوران پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت کے متعددواقعات میں سے بعض واقعات کا خلاصہ پیش ہے۔اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو محض اپنے فضل سے اپنے حفظ وامان میں رکھے، اسیران کی رہائی اورشریروں کی پکڑ کا سامان فرمائے۔ آمین ………………… خوشاب میں احمدیہ مسجد کو سِیل کر دیا گیا چک نمبر 2/TDA، ضلع خوشاب؛ 28؍ اکتوبر 2015ء:یہاں کے ضلعی کوآرڈینیٹر آفیسر کے حکم پر ضلع خوشاب کے گاؤںچک نمبر 2/TDA میں عرصہ دراز سے قائم ایک احمدیہ مسجد کو سِیل کر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق10؍ نومبر 2000ء کے روز ملّاں اطہر حسین شاہ کی سرکردگی میں ایک مشتعل ہجوم نے ضلع سرگودھا کے ایک گاؤں تخت ہزارہ میں احمدیہ مسجدپر حملہ کر کے پانچ احمدیوں کو شہید کر دیا تھا۔ اس واقعہ میں مسجد کو بھی شہید کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد بجائے اس کے کہ مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جاتی چار احمدیوں کو ہی پکڑ کر انہیں پانچ سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ اس ’معرکے‘ کے بعد یہ ملّاں تخت ہزارہ سے قائد آبادضلع خوشاب منتقل ہو گیا جہاں اس نے اپنی مخالفانہ سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اکتوبر 2010ء میں اس ملاّں نے خوشاب کے سیشن کورٹ میں یہ درخواست دائر کی کہ چک نمبر 2/TDA میں واقع احمدیہ مسجد ’مسلمانوں‘ کی ملکیت ہے۔ اس لئے اسے احمدیوں سے لے کر ’مسلمانوں‘ کے سپرد کر دیا جائے۔ 29؍ نومبر 2012ء کے روز ایک جج نے اس بنیاد پر کہ درخواست دہندہ مقامی باشندہ نہیں ہے اس درخواست کوبے بنیاد قرار دے دیتے ہوئے خارج کر دیا۔ اس موقع پر اس مسجد پر احمدیوں کے مالکانہ حقوق بھی باقاعدہ طور پر تسلیم کیے گئے۔ اس ملّاں نے اس فیصلہ کے خلاف لاہو رہائی کورٹ میںاپیل دائر کر دی۔ اس نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ’مسجد‘ صرف ایک مسلمان کی ملکیت ہو سکتی ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ احمدی اس سے قبل ہی سرکاری کاغذات میں اس مسجد کا نام ’بیت الذکر‘ تبدیل کروا چکے تھے۔ باوجود ان حقائق کا علم رکھتے ہوئے کہ یہ مسجد جماعتِ احمدیہ نے 1955ء میں تعمیر کروائی تھی اور اس وقت سے ہی یہ جماعت کی ملکیت میں رہی ’عدالتِ عالیہ‘ نے سیشن کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ملّاں کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ ہائیکورٹ کے فیصلہ میں یہ لکھا گیا کہ مسجد تو مسلمانوں کی ہوسکتی ہے۔ نیز یہ کہ علاقہ کا ڈی سی او فریقین کے مؤقف کو سن کر فیصلہ کرے۔ ڈی سی او خوشاب جس کا نام ضیاء الرحمن بتایا جاتا ہے جمعیت علمائے (فضل الرحمن گروپ) سے تعلق رکھنے والے ملّاں فضل الرحمن کا بھائی اور احمدیوں کا شدید مخالف ہے۔ اس نے 23؍ستمبر2015ء کو ایک تحصیلدار کو حکم دیا کہ وہ معاملہ کی تفتیش کرے۔ تحصیلدار نے تفتیشی کارروائی کے دوران کسی احمدی کو نہ بلوایا اور نہ ہی کسی سے اس کا مؤقف حاصل کیا گیا۔ اس نے فریقِ ثانی یعنی ملاّں کی پارٹی سے بیانات لے کر ’مسلمانوں‘ کے حق میں ایک رپورٹ تیار کر کے ڈی سی او کو پیش کر دی۔ اس پر ڈی سی او نے حکم صادر کر دیا کہ مسجد او ر اس سے ملحقہ رہائشی کوارٹرز الغرض پورے کمپلیکس کو احمدیوں سے خالی کروا کر ’مسلمانوں‘ کے حوالہ کر دیا جائے۔ احمدیوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوںنے فوری طور پر ضابطہ پر عملدرآمد کرتے ہوئے ایڈیشنل کمشنر ریونیو سرگودھا کی عدالت میں ڈی سی او کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کر دی۔ کمشنر نے اس پر ایک حکمِ امتناعی جاری کرتے ہوئے فریقین کو 21 ؍ نومبر کے روز عدالت میں طلب کر لیا۔ 28؍ اکتوبر کے روز ایک اسسٹنٹ کمشنر پولیس فورس کی معیت میں اس گاؤں آیا۔ اس نے عندیہ دیا کہ اس کے پاس ڈی سی او کی طرف سے جاری کردہ احمدیہ مسجد کو سِیل کر دینے کا ایک پروانہ ہے ۔ اسے مذکورہ بالا حکمِ امتناعی دکھایا گیا تو اس نے ڈی سی او سے رابطہ کیا جس پر ڈی سی او نے اسے کہا کہ مسجد کو بہر صورت سِیل کر دیا جائے۔ جس پر اسسٹنٹ کمشنرنے معزز عدالت کی جانب سے جاری شدہ حکمِ امتناعی موجود ہونے کے باوجود مسجد کو سِیل کر دیا۔ ………………… احمدی کا اغوا ہزارہ، صوبہ خیبر پختونخواہ؛ 5؍ اکتوبر2015ء: یہاں کے رہائشی ایک احمدی عبدالعزیز بشیر کو ان کے گھر کے سامنے سے 5؍ اکتوبر کو اغوا کیا گیا۔ عبدالعزیزیہاں پر مقامی مجلس خدام الاحمدیہ کے قائد ہیں اور میڈیکل کالج میں آخری سال کے طالبعلم ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ان کے اغوا کاروں کی تعداد چھ بتلائی جاتی ہے جن میں چار افغانی جبکہ دیگر دو کے بارہ میں کہا جارہا ہے کہ وہ مقامی زبان بولتے تھے۔ انہوں نے عبدالعزیز کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ان کے ہاتھوں کو پیچھے سے باندھا اور ایک نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ وہاں پر اغواکاروں نے دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے اس معصوم احمدی کو بیلٹوں، ڈنڈوں اور لوہے کے مکّوں سے تشدّد کا نشانہ بنایا۔ تشدّد کے دوران وہ انہیں ’قادیانی‘ اور ’کافر‘ کہتے۔ عبدالعزیز نے ان کے سامنے کلمہ طیّبہ اور نماز سنا کر اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت بھی دیا لیکن اغوا کارغالبًا بات کو سننا نہیں چاہتے تھے۔ عبدالعزیز کو اس وقت فرار کا موقعہ ملا جب اغوا کار ان کو آگے سپرد کرنے کے لئے کسی دوسری ’پارٹی‘ کے منتظر تھے۔ چنانچہ عبدالعزیز اغواکاروں کے چنگل سے فرار ہوئے اور ایک اونچی جگہ سے چھلانگ لگا کر ایک ایسی جگہ پر پہنچے جہاں کھیت میں کچھ لوگ موجود تھے۔ ان کے مدد کے لئے پکارنے پر لوگ اکٹھے ہو گئے۔ اغوا کار معاملہ کو خراب ہوتا دیکھ کر وہاں سے فرار ہو گئے۔ عبدالعزیز نے ٹیلی فون پر اپنے بھائی سے رابطہ کیا جو کہ کچھ لوگوں کے ہمراہ فوری طور پر وہاں پہنچے اور انہیں بخیریت گھر لے گئے۔ اس واقعہ کی رپورٹ پولیس کو درج کروا دی گئی ہے۔ ………………… احمدیوں پر ظلم کی نہ ختم ہونے والی داستان ’اسلامی‘ جمہوریہ پاکستان میں بے گناہ اور معصوم احمدیوں کو ستانا اور ان کو تکالیف پہنچانا کوئی نئی بات نہیں۔ اہلِ وفا کی یہ داستانیں بعض اوقات سالوں رقم ہوتی ہیں۔ متعدّد ایسے واقعات میں سے کہ جن میں احمدیوں کو سالہاسال تک ’احمدی‘ ہونے کی پاداش میں تکالیف سہنی پڑتی ہیں صرف دو واقعات مثال کے طور پر درج ہیں۔ یاد رہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر احمدی جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھنے کی وجہ سے تکالیف پہنچائی جاتی ہیں اس امر کو بذاتِ خود ایک سعادت سمجھتا ہے۔ مانگٹ اونچا، ضلع حافظ آباد؛ اکتوبر2015ء: یہاں کے رہائشی تین احمدیوں کے خلاف تعزیراتِ پاکستان دفعہ 259-Bکے تحت جھوٹے طور پر18؍دسمبر 2004ء کو ایک سراسر جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ان احمدیوں میں چوہدری شہادت علی ، حفیظ الرحمن اور مسرور احمد شامل ہیں۔ ٭ 12 ؍دسمبر2005ء کے روز سیشن کورٹ کے ایک جج نے مسرور احمد کو عمر قید کی سزا سناتے ہوئے دیگر دو ملزمان کو بری قرار دے دیا ۔ ٭ اپیل کرنے پر لاہور ہائی کورٹ نے مسرور احمد کو 30؍ مئی 2007ء کے روز ضمانت پر رہا کر دیا۔ ٭مخالف پارٹی نے ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر اپیل کی تو آٹھ سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد مئی 2015ء میں اس کیس کو نئے سرے سے سننے کا فیصلہ کیا گیا۔ ٭21؍ اکتوبر 2015ء کو ہائی کورٹ نے مسرور احمد کی ضمانت کو منسوخ کرتے ہوئے انہیں دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ گزشتہ گیارہ سال سے مسرور احمدایک بے بنیاد مقدمہ کی پاداش میں ذہنی اور جسمانی تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ ایک احمدی مسلمان ہیں۔ حویلی مجوکہ، ضلع سرگودھا؛ اکتوبر 2015ء: یہاں کے رہائشی تین احمدیوں محمد قاسم مجوکہ، مظاہر احمد اور احمد یار کو 8؍ اکتوبر2010ء کے روز تعزیراتِ پاکستان دفعات 295-Cاور298-Cکے تحت جھوٹے طور پر ایک مقدمہ میں ملوّث کیا گیا۔ ٭ابتدائی تفتیش کے بعد پولیس نے دفعہ 295-C ان کی چارج شیٹ سے خارج کرکے معاملہ کورٹ میں پیش کر دیا۔ اس پر 14؍ اکتوبر 2010ء کے روز سیشن کورٹ نے محمد قاسم مجوکہ اور مظاہر احمد کی ضمانت ضبط کرتے ہوئے انہیں جیل بھجوا دیا جبکہ احمد یار کو بری قرار دے دیا گیا۔ ٭24؍ نومبر2010ء کو ان دو اسیرانِ راہِ مولیٰ کو بھی ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ ٭مورخہ 10؍ فروری 2014ء کے روز عدالتِ عالیہ نے محمد قاسم مجوکہ کو امتناعِ قادیانیت آرڈیننس کے تحت دو سال قید جبکہ تیس ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔ بعد ازاں 15؍ فروری 2010ء کو ان کی ضمانت لے لی گئی اور انہیں رہا کر دیا گیا۔ ٭ 22؍ اکتوبر2015ء کے روز اس مقدمہ کی پیشی ایک عدالت میں ہوئی۔ اس وقت احمدیوں نے محمد قاسم مجوکہ کو دی جانے والی دو سال قید کی سزا کے خلاف اپیل کر رکھی تھی جبکہ مخالف پارٹی کا اصرار تھا کہ اس معاملہ میں چند سال قبل ہٹائی جانے والی ’گستاخیٔ رسول‘ کی دفعہ (295-C) کو دوبارہ شامل کیا جائے۔ اس موقعہ پر عدالت نے محمد قاسم کی ضمانت کو ضبط کرتے ہوئے انہیں جیل بھجوا دیا۔ اس طرح گزشتہ چھ سال سے محمد قاسم ایک جھوٹے مقدمہ کی پاداش میں ذہنی و جسمانی اذیّت سے گزر رہے ہیں۔ ………………… ربوہ میں ختمِ نبوّت کانفرنس ربوہ (چناب نگر)؛ 29-30اکتوبر2015ء: مورخہ 29اور30 ؍اکتوبر کے روز غیر احمدی ملّاں کو ربوہ میں ایک اشتعال انگیز کانفرنس کرنے کی انتظامیہ سے اجازت اوربھرپور تعاون ملنے پر ملّاں نے کانفرنس کی۔ یاد رہے کہ ربوہ شہر احمدیوں کا مرکز ہے اور یہاں کی پچانوے فیصد آبادی پُر امن، محبِ وطن اور سچے احمدی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ احمدی مسلمان جب اسی شہر میں اپنا جلسہ سالانہ کرنے کی اجازت مانگتے ہیں تو اسی انتظامیہ کی طرف سے اس درخواست کا جواب بھی احمدیوں کو بھجوانا گوارا نہیں کیا جاتا۔ جبکہ احمدیوں کے اس جلسہ سے پُرامن، ایمان افروز اورازدیادِ ایمان پر مشتمل تقاریرسے فائدہ اٹھانے اور ایک دوسرے سے محبت اور اخوّت میں بڑھنے کے سوا اور کچھ مقصود نہیں ہوتا۔ ہمیشہ کی طرح اس مبیّنہ ختمِ نبوّت کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے شرکاء کو بیرون از ربوہ سے لایا گیا۔ ان شرکاء میں بھی اکثریت مدرسّوں کے طلباء کی ہوتی ہے جنہیں ٹرالیوں، ٹرکوں اور دیگر ذرائع سے ان دنوں ربوہ لایا جاتا ہے۔ ایسی کانفرنسوں کے انعقاد سے ربوہ شہر کے پُر امن باسیوں کی زندگی کافی تناؤ کا شکارہو جاتی ہے۔ خرید و فروخت کے لئے دکانیں بند رہتی ہیں،بچے سکولوں میں نہیں جا پاتے جبکہ خواتین گھروں میں محصور ہو جاتی ہیں۔ دوسری جانب ملّاں کے پروردہ ربوہ شہر میں دندناتے پھرتے ہیں، کوئی بہشتی مقبرہ میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی کسی دفتر میں۔ الغرض ان کا ربوہ میں ہونا ربوہ شہر کے سکون کو کچھ دنوں کے لئے برباد کر دیتا ہے۔ اس کانفرنس کی اشتہاری مہم اخبارات و رسائل و پوسٹرز کے ذریعے کچھ عرصہ پہلے سے ہی شروع کر دی جاتی ہے۔ جبکہ کانفرنس کے بعد پریس ریلیز جاری کی جاتی ہے جسے تقریبًا تمام اردو اخبارات شائع کرتے ہیں۔ ذیل میں درج کی جانے والی رپورٹ روزنامہ اوصاف اور روزنامہ پاکستان کی 30؍ اکتوبر جبکہ روزنامہ خبریں کی 31؍ اکتوبر کی اشاعتوں میں شائع ہونے والی خبروں سے اخذ کی گئی ہے۔ اخبارات کے مطابق اس موقعہ پر دو صد پولیس اہلکار ڈیوٹی پر موجود رہے مزید برآں سادہ کپڑوںمیں ملبوس سیکیورٹی اہلکاربھی تھے۔ جبکہ مورچہ بند رضاکار ان کے علاوہ تھے جو کہ عبدالرؤف آف مانسہرہ اور غلام فرید آف فیصل آباد کے زیرِ نگرانی ڈیوٹی کر رہے تھے۔ عوام میں اشتعال پیدا کرنے والی کتب مثلاً ’’تحفہ قادیانیت‘‘ اور اینٹی احمدیہ لٹریچر کھلے عام فروخت کیا جاتا رہا۔ چنیوٹ، سرگودھا، جھنگ اور فیصل آباد سے’مجاہدین تحریک ختم نبوّت‘ موٹر سائیکلوں پر جتھوں کی شکل میں اپنے اپنے شہروں سے یہاں پہنچے۔اسلام آباد میں کروائے جانے والے ختمِ نبوّت کورس میں شامل لوگوں میں سے ایک وفد بھی یہاں پر آیا۔ یہ لوگ ربو ہ کی پر امن اور بے مثال فضا میں نفرت انگیز نعرے (جو کہ یہاں درج کرنا بھی مناسب نہیں) لگاتے ہوئے شہر میں داخل ہوتے رہے۔ (باقی آئندہ) …………………