براعظم افریقہ کے تازہ حالات و واقعات کا خلاصہ یونیسکو نے گنی بساؤ کے جزائرکو عالمی ثقافتی اور قدرتی ورثہ میں شامل کر لیا اتوار ۱۳؍جولائی کو اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے گنی بساؤ کے جزائرBijagos Archipelagoکو عالمی ثقافتی و قدرتی ورثہ میں شامل کر لیا۔ یہ فیصلہ یونیسکو کی عالمی ورثہ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔Bijagos Archipelago گنی بساؤ کے ساحلی علاقے میں واقع تقریباً ۸۸؍جزائرپر مشتمل ہے۔ جن میں سے چند ایک ہی آباد ہیں۔ یہ علاقہ biodiversity، نایاب جنگلی حیات اور مقامی ثقافت کی وجہ سے عالمی اہمیت رکھتا ہے۔ ان جزائر پر کچھ نایاب اقسام کے کچھوے، سمندری پرندے اور جانورپائے جاتے ہیں۔ یہاں موجود مینگرو وجنگلات، ساحلی دلدلی علاقے اور مرطوب زمینیں ماحولیاتی لحاظ سے انتہائی اہم ہیں۔ مقامی آبادی (بالخصوص بیجاغوس قبیلے کے لوگ) اپنی روایتی رسومات، زبان اور طرزِ زندگی کو اب بھی قائم رکھے ہوئے ہیں۔ان جزائر کو عالمی ورثہ قرار دیے جانے کے بعد ان کی بین الاقوامی سطح پر حفاظت ممکن ہو سکے گی۔ گنی بساؤ کو سیاحت،بین الاقوامی فنڈنگ اور تحقیق کے مواقع بھی مل سکیں گے۔ افریقہ میں کروڑوں لوگ شدید غذائی قلت کا شکار،فوری امداد کی ضرورت اقوام متحدہ کی تنظیم FAO (Food and Agriculture Organization) اور مشرقی افریقہ کی تنظیم IGAD (Intergovernmental Authority on Development) نے اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں کہا ہے کہ جون ۲۰۲۵ء کے اختتام تک مشرقی اور وسطی افریقہ میں ۸کروڑ ۸۵؍لاکھ لوگ شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں اور انہیں انسانی مدد کی فوری ضرورت ہے۔ ان میں ۵۷؍ملین افراد جبوتی، کینیا، ایتھوپیا، صومالیہ، جنوبی سوڈان،سوڈان اور یوگنڈا میں قیام پذیر ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد عوامل نے غذائی عدم تحفظ کی صورتحال کو بہت سنگین بنادیا ہے۔جن میں خانہ جنگی، علاقائی لڑائیاں، ماحولیاتی مسائل، خشک سالی، اقتصادی مسائل اور افراط زر وغیرہ شامل ہیں۔ جون۲۰۲۵ء تک ۳کروڑ ۳۸؍لاکھ لوگوں کو مختلف مسائل کی وجہ سے بےگھر ہونا پڑا۔ بے گھر ہونے والے افراد کی سب سے زیادہ تعداد کانگو اور سوڈان میں ہے۔ رپورٹ میں عالمی تنظیموں سے فوری مدد اورتعاون کی اپیل کی گئی ہے تاکہ شدید غذائی عدم تحفظ کے شکار علاقوں میں فوری مدد پہنچائی جا سکے۔ فرانس نے سینیگال میں فوجی اڈے ختم کردیے، وسطی اور مغربی افریقہ میں فرانس کی فوجی موجودگی ختم فرانس نے ۱۷؍جولائی کو باضابطہ طور پر سینیگال میں اپنے آخری دو فوجی اڈے سینیگالی حکام کے حوالے کر دیے، جس کے بعد مغربی اور وسطی افریقہ میں فرانس کی مستقل فوجی موجودگی باقی نہیں رہی۔ فرانس نے اپنا سب سے بڑااڈا ‘‘Camp Geille’’ اور ڈاکار ہوائی اڈے پر واقع اپنا فضائی اڈہ ایک رسمی تقریب میں واپس کیا۔ اس موقع پر سینیگالی چیف آف اسٹاف جنرل مبائے سیسے اور افریقی خطے میں فرانسیسی افواج کے سربراہ جنرل پاسکل ایانی سمیت اعلیٰ حکام شریک تھے۔۳۵۰؍کے قریب فرانسیسی فوجی بھی ملک سے واپس روانہ ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل فرانس نے براعظم کے دیگر ممالک سے اپنی فوجیں نکال لی تھیں ۔گذشتہ چند سالوں سےفرانس کی سابقہ نوآبادیاتی ریاستیں تیزی سے پیرس سے فاصلہ اختیار کررہی ہیں۔ مالی میں فوجی حکام نےخود کو لا محدود توسیع دے دی مالی کی حکومت نے فوجی حکمران Assimi Goitaکو پانچ سالہ صدارتی مینڈیٹ دے دیا ہے، جو عند الضرورت باربار بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے کسی انتخاب کی ضرورت نہیں ہے۔ملک کی عبوری پارلیمنٹ نے اس اقدام کی منظوری دے دی ہے جس سے موجودہ فوجی حکومت کے لیے کم از کم ۲۰۳۰ء تک مالی کی قیادت کرنے کا راستہ ہموار ہو گیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ فوجی قیادت کی جانب سے یہ اقدام ملک میں اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کے لیے عائد کردہ آزادیوں پر پابندی کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔مالی میں فوج نے ۲۰۲۰ء میں اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔فوج نے ابتدا میں ۲۰۲۴ء میں سویلین حکومت کی بحالی کا وعدہ کیا تھا مگر اس پر عمل نہ ہو سکا۔فوجی حکومت کے باوجود ملک میں جاری تشدد اور بد عنوانی میں کسی قسم کی بہتری نہیں آ سکی۔ تیونس میں حزب مخالفین پر پابندیاں تیونس میں عدالت نے حزب اختلاف کے سرکردہ راہنما راشد غنوشی سمیت متعدد اعلیٰ سیاستدانوں کو ۱۲ سے ۳۵؍سال کے لیے قید کی سزا سنائی ہے۔مخالفین تیونس کے صدر قیس سعید پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ مخالفین کو دبانے کے لیے عدلیہ کا استعمال کر رہے ہیں۔ حزب اختلاف کے سیاسی راہنماؤں میں سے دس پہلے ہی حراست میں ہیں جبکہ گیارہ ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ان راہنماؤں پر دہشت گردی سے منسلک تنظیم میں حصہ لینے، تشدّد پر اکسانے، حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے سمیت تیونس اور بیرون ملک دہشت گردی کے مقاصد کے لیے افراد کو بھرتی اور تربیت دینے جیسے الزام شامل ہیں۔ راشد غنوشی کے وکلا کا کہنا ہے کہ یہ تمام الزامات جھوٹی اور متضاد گواہیوں پر مبنی ہیں۔راشد غنوشی ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعتEnnahda کے راہنما اور پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر ہیں۔ وہ ۲۰۲۳ء سے جیل میں ہیں اور انہیں اب تک الگ الگ مقدمات میں مجموعی طور پر ۲۷؍برس کے لیے تین سزائیں مل چکی ہیں۔ صدر قیس سعید نے چھ سال قبل اقتدار سنبھالا تھا اور پھر ۲۰۲۱ء میں منتخب پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ مخالف سیاسی آوازوں کو دبانے کے لیے تیزی سے کاررو ائی کرتے رہے ہیں۔رواں برس اپریل سے اب تک ملک کے ۶۶؍سیاستدانوں، کاروباری شخصیات اور وکلاء کو طویل عرصہ کی قید کی سزا ئیں سنائی جا چکی ہیں۔ امریکہ کی جانب سے غیر افریقی شہریوں کو افریقی ممالک میں ڈی پورٹ کیا جانے لگا امریکی صدر ٹرمپ نے امیگریشن کے حوالے سے متنازعہ پالیسی اختیار کی ہے ۔اس کے تحت ایسے افراد کو غریب افریقی ممالک (جنوبی سوڈان اور ایسواتینی) ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے جن کا ان ممالک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۲۳؍جون ۲۰۲۵ء میں امریکی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ میں کہا تھا کہ حکومت اب کسی بھی فرد کو مکمل عدالتی کارروئی کے بغیراور تحفظ کی ضمانت فراہم کیے بنا کسی تیسرے ملک ڈی پورٹ کر سکتی ہے۔اس فیصلہ کے تحت امریکی انتظامیہ نے جولائی میں کیوبا،میکسیکو، میانمار اور ویتنام کے ۸ شہریوں کو جنوبی سوڈان بھیجا۔اسی طرح ۵ افراد کو جنوبی افریقہ کے چھوٹے سے ملک ایسواتنی بھیجا گیا ہے۔روانڈا سے بھی اس ضمن میں مذاکرات جاری ہیں۔ ان لوگوں کو اِن کے اپنے ممالک لینے سے انکاری تھے۔ امریکہ نے کئی افریقی ممالک پر سفارتی اور معاشی دباؤ ڈالا تاکہ وہ ایسے افراد کو قبول کریں ۔اس میں ترجیحات، امداد، تجارتی مراعات جیسی پیشکشیں بھی شامل ہیں ۔تاہم بعض ممالک نے اس کا سختی سے انکار کیا جن میں نائیجیریا شامل ہے۔انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے افراد کو ایسے ممالک میں بھیجنا جہاں انسانی حقوق کی پامالی عام ہے، نہ صرف خطرناک ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔یہ پالیسی ایک نئے عالمی رجحان کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں ترقی یافتہ ممالک امیگریشن کا بوجھ کمزور اور غریب ممالک پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مالی میں فوج کی طرف سے سو سے زائد دہشت گرد ہلا ک کرنے کا اعلان مالی میں دہشت گردوں اور حکومتی فوج میں تصادم میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ ۲۰؍جولائی ۲۰۲۵ء کو مالی کی فوج نے اعلان کیا کہ انہوں نے ایک ہفتے کے دوران کم از کم۱۰۰ دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے۔یہ کارروائیاں شمالی اور وسطی مالی میں ہوئیں، جن میں ساحل اتحاد کی طرف فضائی مدد بھی شامل تھی۔ دہشت گردو ں کے ٹھکانےا ور تربیتی مراکز تباہ کیے گئے ۔گذشتہ چند سال میں وسطی اور مغربی افریقہ میں القاعدہ اور داعش سے منسلک گروہوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ برکینا فاسو میں دہشتگردوں کے حملہ میں ۵۰؍فوجی جاں بحق برکینا فاسو کے شمال میں جولائی کے اواخر میں ایک فوجی اڈے پر دہشت گردوں کے خونریز حملے کے دوران ۵۰؍فوجی ہلاک ہو گئے۔کچھ فوجی لاپتا اور زخمی بھی ہیں۔ حملے کی ذمہ داری القاعدہ سے منسلک گروہ ’’جماعت نصرة الاسلام والمسلمین‘‘ پر عائد کی گئی ہے، جو برکینا فاسو، مالی اور نائیجر میں سرگرم ہے۔یہ حملہ بہت منظم تھا ۔دہشتگردوں نے گاڑیوں پر بھاری اسلحہ نصب کر کے اڈےکو گھیر لیا اور چاروں طرف سے حملہ کر دیا۔ برکینا فاسو کئی سالوں سے دہشت گردی کے سنگین بحران کا سامنا کر رہا ہے، خاص طور پر شمالی اور مشرقی علاقوں میں شورش بہت سنگین ہے۔ ۲۰۲۲ءسے اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ واقعہ کے بعد سے ملک بھر میں ہائی الرٹ ہے۔ مغربی افریقہ میں Cocoa Beans کی پیداوار میں کمی متوقع۔ چاکلیٹ انڈسٹری کو دھچکا مغربی افریقہ میں سال ۲۵؍۲۰۲۶ء میں Cocoa Beans کی پیداوار میں تقریباً دس فیصد کمی متوقع ہے۔گذشتہ سال گمان کیا جا رہا تھا کہ Cocoa کی پیدا وار میں کم از کم ۵فیصد اضافہ ہو گا۔چاکلیٹ انڈسٹری کے لیے یہ خبر کسی دھچکے سے کم نہیں ہے۔اس کمی کا سب سے زیادہ اثر آئیوری کوسٹ اور گھانا پر ہو گا۔ نائیجیریا اور کیمرون بھی کسی حد تک متاثر ہوں گے۔ یہ چار ممالک مل کر Cocoa Beansکی عالمی پیداوار کا تقریباً دو تہائی حصہ فراہم کرتے ہیں۔ماہرین اس کی متعدد وجوہات بیان کر رہے ہیں۔ انتظامی طور پر Cocoa کے متعدد باغات میں درخت اپنی پیداوار کی عمر سے بہت آگے ہیں جس کی وجہ سے پھلوں کی پیداوار میں نمایاں کمی آرہی ہے۔موسمی عد م استحکام، بارش کا بے قاعدہ ہونا،دھوپ کی کمی سے نوخیز پھلوں کی موت کی شرح بڑھ گئی ہے۔ آئیوری کوسٹ میں پھول اور چھوٹے پھلوں کی موت کی شرح۱۵ سے ۲۰؍فیصد ہو گئی ہے۔غیر قانونی زرعی اور کان کنی کی سرگرمیوں نے زرخیر زمین کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔آئیوری کوسٹ میں ۵سال پہلے دو ملین میٹرک ٹن پیداوار تھی جو کہ اب ۱.۶ ملین ٹن تک گر چکی ہے۔گھانا کی پیداوار ایک ملین ٹن سے کم ہو کر آدھی رہ گئی ہے۔گذشتہ دو کم پیداوار والے موسموں نے Cocoa Beans کی قیمتوں کو تاریخی سطح پر پہنچا دیا۔ اگر تیسری بار بھی کمی ہو جاتی ہے، تو عالمی مارکیٹ میں قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ افریقی براعظمی آزاد تجارتی معاہدہ (AfCFTA) میں پیش رفت،امیداور چیلنج AfCFTA دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارتی معاہدہ ہے۔ اس میں سب سے زیادہ ممالک شامل ہیں۔ اس کا مقصد افریقہ میں اشیاء و خدمات کی آزاد نقل و حرکت، باہمی تجارت میں اضافہ، اور صنعتی ترقی کو فروغ دینا ہے ۔یہ معاہدہ ۲۰۱۸ء میں سامنے آیا اور ۲۰۲۱ء سے نافذ العمل ہے۔ ۴۹؍افریقی ممالک اس میں شامل ہیں تاہم ابھی تک صرف ۲۴؍ممالک ہی فعال طور پر اس کے تحت تجارت کر رہے ہیں ۔امریکہ کی طرف سے نئے ٹیرف عائد کیے جانے پر افریقی ممالک علاقائی تجارت پر انحصار کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ افریقی قیادت کا ماننا ہے کہ ہمیں بیرونی دباؤ سے بچنے کے لیے اندرونی منڈیوں کو مضبوط بنانا ہوگا۔اس سلسلہ میں مقامی کرنسیوں میں لین دین کا نظام وضع کیے جانے میں پیش رفت ہو رہی ہے۔ اس نظام کو PAPSS (Pan-African Payment and Settlement System)کہا جاتا ہے۔نائیجیریا، گھانا اور کینیا جیسے ممالک میں اس سسٹم کے تحت تجرباتی لین دین کا آغاز ہو چکا ہے۔اسی طرح ممالک کے مابین نقل و حمل کے ذرائع کو بھی بہتر کیا جا رہا ہے۔ خواتین اور نوجوانوں کے کاروبار کے لیے آسان تجارتی پالیسیز متعارف کرائی جا رہی ہیں تاکہ انہیں بھی افریقی منڈیوں میں حصہ مل سکے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افریقہ کے اندر تجارت میں ۸۱ فیصد تک اضافہ ممکن ہے۔۲۰۳۵ء تک براعظم کی مجموعی پیدا وار میں ۴۵۰ بلین ڈالر کا اضافہ متوقع ہے۔تاہم اس میں کئی چیلنجز بھی درپیش ہیں جیسے متعدد ممالک میں سیاسی عدم استحکام، انفراسٹرکچر کی کمی، کرنسی کا عدم استحکام اور مختلف ریگولیٹری نظام وغیرہ۔ مزید پڑھیں: عفو و در گزر کی اہمیت و افادیت