ایسا الہام جس کی عصمت (محفوظیت) کا ہم نے دعویٰ کیا ہے تلبیس ابلیس سے محفوظ ہوتا ہے اور اس کا منجانب اللہ ہونا صریح نصوص کتاب اللہ سے ثابت ہے۔ تو اس کے منجانب اللہ ہونے کا علم و یقین اس الہام کے لوازم سے ہوا براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میںابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو اعتراض سوم کا جواب دلیل دوم (گذشتہ سے پیوستہ) حضرت شاہ ولی اللہ کے تلمیذ حبیب صاحب کتاب دراسات اللبیب نے بھی اپنی اِسی کتاب مستطاب میں اہل بیت نبوی اور عام اہل ولایت کو محفوظ کہا ہے ۔ اس مقام میں نقل کلام جناب ممدوح بھی موجب فوائد ہے از انجملہ ایک فائدہ یہ ہے کہ جو اس زمانہ کے اہل بدعت و اعداء سنت اس حامل لواء اہل سنت کو شیعہ بناتے ہیں وہ ان کا کلام بلاغت نظام پڑھ کر شرمائیں اور اپنے سوء ظنی اور بدزبانی سے باز آئیں۔ اور یہ خیال کریں کہ جس بات پر وہ ان کو شیعہ بناتے ہیں وہ وہی بات ہے جو آپ سے پہلے اکابر اہل سنت کہہ چکے ہیں صاحب دراسات یہ بھی کہہ چکے تھے کہ جو عصمت انبیاء سے مخصوص ہے میں اس عصمت کا اعتقاد اہل بیت کے حق میں نہیں رکھتا جیسے کہ شیعہ اعتقاد رکھتے ہیں مجھ پر کوئی شیعہ ہونے کی تہمت نہ لگاوے جیسے حافظ حسکانی پر ذہبی نے لگا دی تھی پر یاروں نے اس بات کی بھی کچھ پرواہ نہ کی۔ صرف لفظ عصمت سنتے ہی اُن پر تشیع کی تہمت لگا ہی دی۔ آپ صفحہ ۲۰۰ دراسات میں فرماتے ہیں۔ قد قال المتکلمون الفرق بین الحفظ و العصمۃ ان الاول عدم صدور الذنب و الخطاء و الثانی استحالۃ صدورہ فالانبیاء قام الدلیل علی استحالۃ صدور ذالک عنھم و غیر الانبیاء ربما یحفظون فلا یصدر عنھم الذنب و الخطاء مع جواز الصدور فالانبیاء معصومون و الاولیاء محفوظون ان شاء اللہ تعالی۔و لست عقدۃ الانامل علی ان العصمۃ الثابۃ فی الانبیاء علیھم الصلوۃ و السلام یوجد فی غیرھم و انما اعتقد فی اھل الولایۃ قاطبۃً العصمۃ بمعنی الحفظ و عدم صدور الذنب لا استحالۃ صدورہ و الائمۃ الطاھرون اقدم من الکل فی ذالک و بذلکی یطلق علیھم الائمۃ المعصومون فمن رمانی من ھذا المبحث باتباع مذھب غیر السنۃ مما یعلم اللہ سبحانہ برأتی فعلیہ اثم فریتہ و اللہ خصیمہ و کیف لا اخاف الاتھام من ھذا الکلام و قد خاف شیخ ارباب السیر فی السیرۃ الشامیۃ من الکلام علی طرق حدیث رد الشمس بدعائہ صلی علیہ وسلم لصلوٰۃ علی و توثیق رجالھا ان یرمی بالتشیع حیث رای الحافظ الحسکانی فی ذالک سلفا لہ و لتقل ذلک بعین کلامہ قال رحمہ اللہ تعالی لما فرغ من توثیق رجال سندہ لیحذر من یقف علی کلامی ھذا ھنا ان یظن بی انی امیل الی التشیع و اللہ تعالیٰ علم ان الامر لیس کذلک قال و الحامل علی ھذا الکلام یعنی قولہ و لیحذر الی اخرہ ان الذھبی ذکر فی ترجمۃ الحسکانی انہ کان یمیل الی التشیع لانہ املا جزأ فی طرق حدیث رد الشمس قال و ھذا الرجل یعنی الحسکانی ترجمہ تلمیذہ الحافظ عبد القادر الفارسی فی ذیل تاریخ نیسابور فلم یضفہ بذلک بل اثنی علیہ حدیثا حسنا و کذلک غیرہ من المؤرخین فنسال اللہ تعالی السلامۃ من الخوض فی اغراض الناس بما لا نعلم و بما نعلم و اللہ تعالی اعلم انتھی اقول و ھذا الجرح فی الحافظ الحسکانی انما نشاء من کمال صعوبۃ الجارح و الخرافہ من مناھج العدل و الانصاف و الا فالحافظ من خدمۃ اھل الحدیث الخ (دراسات اللبیب) متکلمین نے کہا حفظ اور عصمت میں یہ فرق ہے کہ حفظ تو عدم صدور گناہ اور خطا کا نام ہے عصمت یہ کہ صدور گناہ و خطا جائز ہی نہ ہو عقلاً محال ہو انبیاء سے صدور گناہ و خطا کے محال ہونے پر دلیل قائم ہے۔ انبیاء کے سوا اوروں سے گناہ سرزد نہیں ہوتے گو ان کا صدور جائز ہے۔ لہٰذا انبیاء معصوم ہیں اور اولیاء محفوظ۔ پھر اہل بیت کی عصمت (یعنی حفاظت) پر احادیث نبویہ سے استدلال کر کے بہ صفحہ ۲۱۵ آپ نے فرمایا ہے میرا (اس بحث و بیان میں) یہ اعتقاد نہیں ہے کہ جو عصمت انبیاء میں پائی جاتی ہے۔ وہ اوروں میں موجود ہے سبھی اہل ولایت کی نسبت میں عصمت بمعنی حفظ اور عدم صدور گناہ ہی کا اعتقاد رکھتا ہوں اِس بات میں ائمہ طاہرین اور اولیاء سے مقدم ہیں اسی نظر سے اُن پر ائمہ معصومین کا لفظ بولا جاتا ہے۔ پھر جو کوئی اس بحث کے سبب مجھے اتباع مذہب غیر اہل سنت (یعنی شیعہ) کی طرف منسوب کرے جس سے میرا بری ہونا خدا کو معلوم ہے تو اُسی پر اس کے افتراء کا بوجھ ہے اور خدا تعالیٰ خود اس کا خصم و مدعی ہے اس اتہام سے میں کیونکر نہ ڈروں جس حالت میں مجھ سے پہلے صاحب سیرت شامیۃ اس حدیث پر (جس میں حضرت علی مرتضیٰ کی نماز کے لئے آفتاب کو غروب سے پھر نے کی دعا آنحضرت سے مروی ہے) کلام کرنے کے وقت اس نسبت تشیع سے ڈرے تھے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے پہلے حافظ حسکانی کو اس اتہام کا محل پایا اب ہم اصل کلام صاحب سیرت نقل کرتے ہیں۔ صاحب سیرت شامی نے حدیث مذکور کے راویوں کی توثیق سے فارغ ہو کر فرمایا کہ جو میری اِس کلام پر مطلع ہو وہ اس بات سے بچے کہ میری نسبت شیعہ ہونے کا گمان کر بیٹھے۔ خدا جانتا ہے میں شیعہ نہیں ہوں مجھے اس کہنے پر باعث یہ ہوا ہے کہ ذہبی نے ترجمہ (بیان حال حسکانی) میں کہہ دیا ہے کہ وہ مذہب شیعہ کی طرف مائل ہے۔ کیونکہ اُس نے آفتاب کے پھر آنے کی حدیث کی تائید میں ایک جز لکھا ہے۔ صاحب سیرت شامی فرماتے ہیں کہ حافظ حسکانی کا ترجمہ اُس کے شاگرد حافظ عبد القادر فارسی نے تاریخ نیساپور کے ذیل میں لکھا تو اس کو مذہب شیعہ کی طرف منسوب نہیں بلکہ اس کی اچھی تعریف کی ہے ایسا ہی اور مؤرخوں نے اس کی تعریف کی ہے۔ پس ہم خدا سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہم کو لوگوں کی ابرو ریزی سے بچاوے۔ صاحب سیرت شامیہ کا کلام اتمام ہوا۔ صاحب دراسات فرماتے ہیں حافظ حسکانی کی نسبت جرح (اعتراض)معترض کے سختی اور طریق عدل و انصاف سے کجروی کے سبب سے ہے ورنہ حافظ حسکانی تو حدیث کے خدام سے ہے ناقل (ایڈیٹر)کہتا ہے جبکہ ذہبی جیسے اکابر علماء اس تعصب سے نہ بچ سکے تو آج کل کے تو خیر مدعیان حنفیت پر (جو صاحب دراسات کو اعتقاد عصمت اہل بیت کے سبب شیعہ بتاتے ہیں) یا نوجوان مدعیان اتباع سنت پر جو ایک مسئلہ جزئی ظنی غیر قطعی اجمالی غیر تفصیلی (تفضیل شیخین) کے سبب پہلے اور پچھلے اہل حدیث کو شیعہ بناتے ہیں (جس کا تفصیلی بیان نمبر۱۲ میں آتا ہے)کیا افسوس ہے؟ ان عبارات و اقوال کے مؤید بعض اقوال دلیل دعویٰ چہارم میں بھی آئیں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ ان اقوال و عبارت سے یہ ثابت ہوا کہ دعویٰ عصمت اولیاء اور اس پر آیات مذکورہ سے استدلال کرنے میں راقم متفرد نہیں ہے۔پہلے اکابر اہل اسلام بھی یہ دعویٰ و استدلال کر چکے ہیں۔ بالفعل ہم اسی قدر پر اکتفا کرتے ہیں اگر ہمارے ہمعصر خصوصاً اہل حدیث ان اکابر اور ان کے اقوال میں کچھ چوں و چرا کریں گے۔ اور ان پر بدعتی ہونے کا فتویٰ لگائیں گے تو ان سے پہلے علماء کے اقوال پیش کئے جائیں گے۔ و باللہ التوفیق۔ دلائل دعویٰ دوم دلیل عقلی جب دلائل دعویٰ اوّل سے ثابت ہوا کہ ایسا الہام جس کی عصمت (محفوظیت) کا ہم نے دعویٰ کیا ہے تلبیس ابلیس سے محفوظ ہوتا ہے اور اس کا منجانب اللہ ہونا صریح نصوص کتاب اللہ سے ثابت ہے۔ تو اس کے منجانب اللہ ہونے کا علم و یقین اس الہام کے لوازم سے ہوا۔ لہٰذا بحکم’’الشئی اذا ثبت ثبت بلوازمہ‘‘(حاشیہ: یعنی جب کوئی چیز ثابت و موجود ہوتی ہے تو اپنے لوازم کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ )اس یقین کا حصول ملہم کے لئے ضروریات سے ہے۔ وہ الہام اس یقین کا ملزوم ہے اور یقین اس کا لازم غیرمنفک پھر اس کے ثبوت کے لئے وجود ملزوم کے علاوہ دلیل کی کیا حاجت ہے؟ آفتاب آمد دلیل آفتاب گر دلیلے بایدت زور و آفتاب انبیاء علیہم السلام کو جب وحی (یا الہام)ہوتا تھا۔ تو ان کو بجز اسی وحی یا الہام کے کون بتاتا تھا کہ یہ وحی (یا الہام) رحمانی ہے وسوسہ شیطانی نہیں ہے۔ اور اس کے منجانب اللہ ہونے کا یقین کون دلاتا تھا۔ اس کے جواب میں یہی کہو گے کہ الہام خود بتاتا تھا کہ میں رحمانی ہوں اور یقین بھی خود اسی سے ہوتا تھا۔ ایسا ہی الہام اولیاء وارثان انبیاء کو سمجھنا چاہیئے۔ اور اگر حصول یقین الہام اولیاء کے لئے نفس الہام کافی نہیں ہے تو پھر الہام نبی حصول یقین کے لئے کیوں کافی ہوا اور اس پر عقلی دلیل کون سی ہے؟ (حاشیہ: نقلی دلیل پیش کرنے کا یہ موقع نہیں ہے۔ کیونکہ نقلی دلیل ثبوت و تسلیم الہام کے پہلے پیش نہیں کی جا سکتی۔ جو شخص ہنوز نبی کی نبوت کو نہیں مانتا۔ اور یہ سوال کرتا ہے کہ الہام نبی کے منجانب اللہ ہونے پر کیا دلیل ہے اور نبی کو کیونکر معلوم ہوتا تھا کہ الہام (جو اُس کو ہوتا تھا) رحمانی ہے شیطان کی طرف سے نہیں ہے۔ اُس کے جواب میں ہم نقلی دلیل (آیۃ یا حدیث) پیش نہیں کرسکتے اور بجز اس کے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ الہام خود بتاتا تھا کہ میں خدا کی طرف سے ہوں۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب الخ۔) اور الہام نبی اور الہام ولی کے موجب یقین ہونے نہ ہونے میں فارق کون امر ہے؟ ہاں اس میں اُس میں یہ فرق ضرور ہے کہ نبی کا الہام اور جو اس سے یقین حاصل ہوتا ہے بنفس خود شرعی دلیل ہے اس کا الہام خود بتاتا ہے کہ وہ عامہ خلائق کے لئے شرع اور دلیل ہے۔ ولی کا الہام اور جو اس سے یقین حاصل ہوتا ہے شرعی دلیل نہیں ہے اس امر کا بیان بھی خود اُسی الہام میں پایا جاتا ہے۔ نقلی دلیل خدا تعالیٰ و تقدس نے اپنی کلام میں اس الہام کو جو اُس نے اولیاء غیر انبیاء کو عطا کیا ہے علم فرمایا ہے۔ چنانچہ الہام حضرت خضر علیہ السلام کے حق میں ارشاد ہواکہاٰتَیْنَاہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاہُ مِّنْ لَّدُنَّا عِلْمًا۔ (کہف ع ۹)ہم نے اس کو اپنے پاس سے رحمت دی ہے اور اپنے پاس سے علم سکھایا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ وہم، شک، گمان (یا ظن) کو علم ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ (جاری ہے) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: سبط نبی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ