تقدیر کے پَنّوں پر لکھا سب آپ مٹائے بیٹھے ہیںکچھ لوگ تو آنکھوں میں اپنی دنیا کو بسائے بیٹھے ہیں کوئی بھوکا ہو، کوئی مفلس ہو رفتہ رفتہ مر جائے گاآسودہ حال یہ دنیا کے خیرات بچائے بیٹھے ہیں گر امن کا پوچھو ہر بندہ آواز اُٹھائے گا لیکندل میں یہ سارے بدلے کی اِک آگ لگائے بیٹھے ہیں دنیا کے ستائے بندے کی آنکھوں میں درد سماتا ہےمسکان سے وقت کے شہزادے یہ درد چھپائے بیٹھے ہیں کہتے ہیں زخم چھپاؤ گے تو جلدی سے بھر جائیں گےافسوس کہ ساری دنیا کو ہم گھاؤ دکھائے بیٹھے ہیں جب صبح کی کرنیں پھوٹیں گی اندھیارا یہ چھٹ جائے گاربّ کی مرضی کے آگے ہم سر اپنا جھکائے بیٹھے ہیں اپنوں سے دور مسافت پر نم آنکھوں سے راہیں تکتےکچھ لوگ ہیں شاؔہد تم جیسے جو وعدہ نبھائے بیٹھے ہیں (محمد اسامہ شاہد۔ قزاقستان) مزید پڑھیں: میرے مرشد کے اک اشارے پہ