https://youtu.be/uKkc6lae5HY (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍مئی۲۰۲۴ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سریہ رجیع کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا:حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس آدمی سریہ کے طور پر حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجے اور ان پر حضرت عاصم بن ثابت انصاریؓ کو امیر مقرر فرمایا۔ وہ روانہ ہوئے یہاں تک کہ جب وہ ھَدَأہ میں تھے اور وہ عُسْفَان اور مکہ کے درمیان ہے تو ھُذَیل کی شاخ جنہیں بنو لَحْیان کہتے تھے، سے ان کا ذکر کیا گیا تو اس مخالف قبیلے سے ان مسلمانوں کے لیے تقریباً دو سو آدمی نکل کھڑے ہوئے۔ وہ سب تیر انداز تھے۔ وہ لوگ مسلمانوں کے نشانوں کے پیچھے گئے یہاں تک کہ انہوں نے ان کی کھجوریں کھانے کی جگہ کو پالیا اور صحابہؓ نے یہ کھجوریں مدینہ سے زادِراہ کے طور پر لی تھیں۔ بنو لَحْیان نے پہچان کےکہا یہ یثرب کی کھجوریں ہیں۔ وہ ان کے نشانات کے پیچھے گئے۔ جب حضرت عاصمؓ اور ان کے ساتھیوں نے ان کو دیکھا تو انہوں نے ایک ٹیلے پر پناہ لی۔ان لوگوں نے ان کو گھیر لیا اور انہوں نے ان سے کہا نیچے اتر آؤ یعنی مخالفین نے کہا نیچے اتر آؤ۔ تم اپنے آپ کو ہمارے سپرد کر دو۔ تمہارے لیے عہد و پیمان ہے۔ہم تم میں سے کسی کو قتل نہیں کریں گے۔ سریہ کے امیر حضرت عاصم بن ثابتؓ نے کہا: جہاں تک میرا تعلق ہے بخدا! میں ایک کافر کی پناہ میں نہیں اتروں گا۔ پھر آپؓ نے دعا کی کہ اے اللہ! ہمارے متعلق اپنے نبی ﷺ کو مطلع فرما دے۔ ان لوگوں نے، دشمنوں نے پھر ان لوگوں پر جو یہ صحابہؓ تھے ان پر تیر چلائے اور انہوں نے حضرت عاصم ؓکو سات صحابہ ؓسمیت قتل کر دیا۔ تین آدمی عہد و پیمان پر ان کے پاس اتر آئے۔ ان میں خُبیب انصاریؓ اور ابنِ دَثِنَہؓ اور ایک اَور شخص تھے ان کا نام عبداللہ بن طارق تھا۔ مخالفین نے تینوں کو قابو کر لیا۔ انہوں نے اپنے کمانوں کے تانت کھولے اور ان کو باندھ لیا۔ اس پر تیسرے شخص نے کہا یہ پہلی غداری ہے۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ یقیناً ان لوگوں میں اسوہ ہے۔ ان کی مراد شہداء سے تھی۔ انہوں نے اس صحابی کو کھینچا اور انہیں اس پر مجبور کیا کہ وہ ان کے ساتھ چلیں۔ انہوں نے انکار کر دیا تو انہوں نے ان کوبھی شہید کر دیا اور وہ حضرت خُبیبؓ اور حضرت ابن دَثِنَہؓ کو لے گئے یہاں تک کہ ان کو مکہ میں فروخت کر دیا۔ حضرت خُبیبؓ کو بنو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد ِمَنَاف نے خرید لیا اور حضرت خُبیبؓ ہی تھے جنہوں نے حارث بن عامر کو بدر کے دن قتل کیا تھا۔ حضرت خُبیبؓ ان کے پاس قیدی رہے۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سریہ رجیع کی بابت حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ کاکیاموقف بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آنحضرت ﷺ نے ماہ صفر سنہ4 ہجری میں اپنے دس صحابیوں کی ایک پارٹی تیار کی اور ان پر عاصم بن ثابتؓ کو امیر مقرر فرمایا اور ان کویہ حکم دیا کہ وہ خفیہ خفیہ مکہ کے قریب جاکر قریش کے حالات دریافت کریں اور ان کی کارروائیوں اور ارادوں سے آپؐ کو اطلاع دیں۔ لیکن ابھی یہ پارٹی روانہ نہیں ہوئی تھی کہ قبائل عَضَل اور قَارَہ کے چند لوگ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اسلام کی طرف مائل ہیں۔ آپؐ چند آدمی ہمارے ساتھ روانہ فرمائیں جو ہمیں مسلمان بنائیں اور اسلام کی تعلیم دیں۔ آنحضرت ﷺ ان کی یہ خواہش معلوم کرکے خوش ہوئے اور وہی پارٹی جو خبررسانی کے لیے تیار کی گئی تھی ان کے ساتھ روانہ فرما دی۔ لیکن دراصل جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا یہ لوگ جھوٹے تھے اور بنولَحْیان کی انگیخت پر مدینہ میں آئے تھے جنہوں نے اپنے رئیس سفیان بن خالد کے قتل کابدلہ لینے کے لیے یہ چال چلی تھی کہ اس بہانہ سے مسلمان مدینہ سے نکلیں تو ان پر حملہ کردیا جاوے اور بنو لَحْیان نے اس خدمت کے معاوضہ میں عَضَل اور قَارَہ کے لوگوں کے لیے بہت سے اونٹ انعام کے طور پر مقرر کئے تھے۔ جب عَضَل اور قَارَہ کے یہ غدار لوگ عُسْفَان اور مکہ کے درمیان پہنچے تو انہوں نے بنولَحْیان کو خفیہ خفیہ اطلاع بھجوا دی کہ مسلمان ہمارے ساتھ آرہے ہیں تم آجاؤ۔ جس پر قبیلہ بنو لَحْیان کے دوسو نوجوان جن میں سے ایک سو تیر انداز تھے مسلمانوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور مقام رجیع میں ان کو آ دبایا۔ دس آدمی دو سو سپاہیوں کاکیا مقابلہ کرسکتے تھے، لیکن مسلمانوں کو ہتھیار ڈالنے کی تعلیم نہیں دی گئی تھی۔فوراً یہ صحابی ایک قریب کے ٹیلہ پر چڑھ کرمقابلہ کے واسطے تیار ہو گئے۔ کفار نے جن کے نزدیک دھوکا دینا کوئی معیوب فعل نہیں تھا ان کو آواز دی کہ تم پہاڑی پرسے نیچے اتر آؤ ہم تم سے پختہ عہد کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے۔ عاصم نے جواب دیا کہ ’’ہمیں تمہارے عہدوپیمان کاکوئی اعتبار نہیں ہے ہم تمہاری اس ذمہ داری پر نہیں اتر سکتے۔‘‘ اور پھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا۔ ’’اے خدا! تُو ہماری حالت کو دیکھ رہا ہے۔ اپنے رسولؐ کو ہماری اس حالت سے اطلاع پہنچا دے۔‘‘ غرض عاصم اوراس کے ساتھیوں نے مقابلہ کیا۔ بالآخر لڑتے لڑتے شہید ہوئے۔‘‘ سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت عاصم بن ثابتؓ کی نعش کی خدائی حفاظت کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: اس بارہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ’’اسی واقعہ رجیع کی ضمن میں یہ روایت بھی آتی ہے کہ جب قریش مکہ کو یہ اطلاع ملی کہ جولوگ بنولَحْیان کے ہاتھ سے رجیع میں شہید ہوئے تھے ان میں عاصم بن ثابتؓ بھی تھے۔ تو چونکہ عاصم نے بدر کے موقعہ پرقریش کے ایک بڑے رئیس کوقتل کیا تھا، اس لئے انہوں نے رجیع کی طرف خاص آدمی روانہ کئے اور ان آدمیوں کو تاکید کی کہ عاصم کا سر یا جسم کاکوئی عضو کاٹ کر اپنے ساتھ لائیں تاکہ انہیں تسلی ہو اور ان کا جذبہ انتقام تسکین پائے۔ ایک اَور روایت میں آتا ہے کہ جس شخص کوعاصم نے قتل کیا تھا اس کی ماں’’ سُلَافَہ بنتِ سَعْد ‘‘نے یہ نذر مانی تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے قاتل کی کھوپڑی میں شراب ڈال کر پئے گی‘‘ اور اس نے یہ انعام مقرر کیا تھا کہ جو اس کی کھوپڑی لائے گا اس کو سو اونٹ دئیے جائیں گے۔ اتنی زیادہ ان میں انتقام کی اور غضب کی آگ تھی ’’لیکن خدائی تصرف ایسا ہوا کہ یہ لوگ وہاں پہنچے توکیا دیکھتے ہیں کہ زنبوروں اورشہد کی نرمکھیوں کے جھنڈ کے جھنڈ عاصم کی لاش پر ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں اورکسی طرح وہاں سے اٹھنے میں نہیں آتے۔ ان لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ یہ زنبور اورمکھیاں وہاں سے اڑ جائیں مگر کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ آخرمجبور ہوکر یہ لوگ خائب وخاسر واپس لوٹ گئے۔ اس کے بعد جلد ہی بارش کاایک طوفان آیا اور عاصم کی لاش کووہاں سے بہا کر کہیں کا کہیں لے گیا۔ لکھا ہے کہ عاصم نے مسلمان ہونے پر یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ وہ ہرقسم کی مشرکانہ چیز سے قطعی پرہیز کریں گے حتّٰی کہ مشرک کے ساتھ چھوئیں گے بھی نہیں۔ حضرت عمرؓ کو جب ان کی شہادت اور اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو حضرت عمر ؓکہنے لگےکہ خدا بھی اپنے بندوں کے جذبات کی کتنی پاسداری فرماتا ہے۔ موت کے بعد بھی اس نے عاصم کے عہد کو پورا کروایا اور مشرکین کے مَس سے انہیں محفوظ رکھا۔‘‘ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت زیدبن دثنہؓ کی شہادت کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے کہ ’’صفوان بن امیہ اپنے قیدی زید بن دثنہ کو ساتھ لے کر حرم سے باہر گیا۔ رؤساء قریش کا ایک مجمع ساتھ تھا۔ باہر پہنچ کرصفوان نے اپنے غلام نسطاس کو حکم دیا کہ زید کو قتل کردو۔ نسطاس نے آگے بڑھ کر تلوار اٹھائی۔ اس وقت ابوسفیان بن حرب رئیس مکہ نے جو تماشائیوں میں موجود تھا آگے بڑھ کر زید سے کہا۔ ‘‘سچ کہو کیا تمہارا دل یہ نہیں چاہتا کہ اس وقت تمہاری جگہ ہمارے ہاتھوں میں محمدؐ ہوتا جسے ہم قتل کرتے اورتم بچ جاتے اوراپنے اہل وعیال میں خوشی کے دن گزارتے؟‘‘زیدؓ کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور وہ غصہ میں بولے۔ ’’ابوسفیان! تم یہ کیا کہتے ہو؟ خدا کی قسم! میں تو یہ بھی نہیں پسند کرتا کہ میرے بچنے کے عوض رسول اللہؐ کے پاؤں میں ایک کانٹا تک چبھے۔‘‘ ابوسفیان بے اختیار ہوکر بولا۔ ’’واللہ! میں نے کسی شخص کو کسی شخص کے ساتھ ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی کہ اصحاب محمدؐ کو محمدؐ سے ہے۔‘‘ اس کے بعد نِسطاس نے زید کو شہید کردیا۔‘‘اس قتل کے واقعہ کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں:’’اِس تماشہ کو دیکھنے والوں میں ابوسفیان رئیس مکہ بھی تھا۔ وہ زید کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ محمدؐ تمہاری جگہ پر ہواور تم اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہو؟ زیدؓ نے بڑے غصہ سے جواب دیا کہ ابوسفیان! تم کیا کہتے ہو؟ خدا کی قسم! میرے لیے مرنا اِس سے بہتر ہے کہ آنحضرتﷺ کے پاؤں کو مدینہ کی گلیوں میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے۔ اِس فدائیت سے ابوسفیان متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور اس نے حیرت سے زید کی طرف دیکھا اور فوراً ہی دبی زبان میں کہاکہ خدا گواہ ہے کہ جس طرح محمدؐ کے ساتھ محمدؐ کے ساتھی محبت کرتے ہیں میں نے نہیں دیکھاکہ کوئی اَور شخص کسی سے محبت کرتا ہو۔‘‘ سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اسیری کےدوران حضرت خبیبؓ کےحالات اوران کی شہادت کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت خُبیب بن عدیؓ کی قید کے واقعہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ مَاوِیہ، حُجیر بن ابو اِھَاب کی آزاد کردہ لونڈی تھی۔ مکہ میں انہی کے گھر میں حضرت خُبیب بن عدیؓ قید تھے تا کہ حرمت والے مہینے ختم ہوں تو انہیں قتل کیا جا سکے۔ مَاوِیہ نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا اور وہ اچھی مسلمان ثابت ہوئیں۔ مَاوِیہ بعد میں یہ قصہ بیان کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم! میں نے حضرت خُبیبؓ سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا۔ میں انہیں دروازے کی درز سے دیکھا کرتی تھی اور وہ زنجیر میں بندھے ہوتے تھے اور میرے علم میں رُوئے زمین پر کھانے کے لیے انگوروں کا ایک دانہ بھی نہ تھا یعنی کہ اس علاقے میں کوئی دانہ نہیں تھا۔ اس علاقے میں کوئی انگور نہیں تھا لیکن حضرت خُبیبؓ کے ہاتھ میں آدمی کے سر کے برابر انگوروں کا گچھا ہوتا تھا یعنی کافی بڑا گچھا ہوتا تھا۔ یہ ایک آدھ دفعہ کا واقعہ نہیں۔ اس کے مطابق تو کئی دفعہ اس نے یہ دیکھا ہے جس میں سے وہ کھاتے تھے۔ وہ اللہ کے رزق کے سوا اَور کچھ نہ تھا۔ حضرت خُبیبؓ تہجد میں قرآن پڑھتے اور عورتیں وہ سن کر رو دیتیں اور انہیں حضرت خُبیبؓ پر رحم آتا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایک دن میں نے حضرت خُبیبؓ سے پوچھا کہ اے خُبیب! کیا تمہاری کوئی ضرورت ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا نہیں۔ ہاں ایک بات ہے کہ مجھے ٹھنڈا پانی پلا دو اور مجھے بتوں کے نام پر ذبح کیے جانے والے سے گوشت کبھی نہ دینا ۔ جو کھانا تم لوگ دیتے ہو کبھی وہ کھانا نہ دینا جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو اور تیسری بات یہ کہ جب لوگ میرے قتل کا ارادہ کریں تو مجھے بتا دینا۔ پھر جب حرمت والے مہینے گزر گئے اور لوگوں نے حضرت خُبیبؓ کے قتل پر اتفاق کر لیا تو کہتی ہیں کہ میں نے ان کے پاس جا کر انہیں یہ خبر دی۔ کہتی ہیں کہ اللہ کی قسم! انہوں نے اپنے قتل کیے جانے کی کوئی پروا نہیں کی۔ … وہ بتاتی ہیں کہ پھر میں نے خُبیب کو خبر دی کہ لوگ کل صبح تمہیں یہاں سے نکال کر قتل کرنے والے ہیں۔ پھر یہ ہوا کہ اگلے دن لوگ انہیں زنجیروں میں جکڑے ہوئے تنعیم لے گئے اور جیسا کہ بتایا ہے کہ یہ مکہ کے قریب تین میل کے فاصلہ پر جگہ تھی۔ خُبیب کے قتل کا تماشا دیکھنے کے لیے بچے، عورتیں، غلام اور مکہ کے بہت سارے لوگ وہاں پہنچے۔کوئی بھی مکہ میں نہ رہا۔ ہر ایک جو انتقام چاہتا تھا وہ ان کو دیکھنے کے لیے چلا گیا۔ جو انتقام چاہتے تھے وہ تو اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے اور جنہوں نے انتقام نہیں لینا تھا اور جو اسلام اور مسلمانوں کے مخالف تھے وہ مخالفت کا اظہار کرنے اور خوش ہونے کے لیے وہاں گئے تھے کہ دیکھیں کس طرح اس کا قتل کیا جاتا ہے؟ پھر جب حضرت خُبیب ؓکو مع زید بن دَثِنَہؓ کے لے کر تنعیم پہنچ گئے تو مشرکین کے حکم سے ایک لمبی لکڑی کھودی گئی۔ پھر جب وہ لوگ خُبیب کو اس لکڑی کے پاس لے کر پہنچے جو وہاں کھڑی کی گئی تھی۔ تو خُبیب بولے: کیا مجھے دو رکعت پڑھنے کی مہلت مل سکتی ہے۔ لوگ بولے کہ ہاں۔ حضرت خُبیبؓ نے دو نفل اختصار کے ساتھ ادا کیے اور انہیں لمبا نہ کیا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: طلاق یا خلع