چاند اور سورج اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے دو نشان ہیں کسی کی موت کی وجہ سے انہیں گرہن نہیں لگتا اور نہ کسی کی زندگی کی وجہ سے یہ گرہن لگتا ہے۔ سو جب سورج اور چاند کو تم گرہن لگا ہوا دیکھو تو نماز کے لیے مضطرب ہو کر لپکو(الحدیث) جماعت میں بھی چاند سورج گرہن کی خاص اہمیت ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے خاص دنوں میں چاند سورج گرہن کی نشانی مسیح و مہدی کے آنے کی نشانی کے طور پر بیان فرمائی ہے ’’یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ دعا کے ساتھ بلا کو ردّ کرتا ہے اور دعا اور بلا کبھی دونوں جمع نہیں ہوتیں مگر دعا باذنِ الٰہی بلا پر غالب آتی ہے جب ایسے لبوں سے نکلتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے ہیں سو دعا کرنے والوں کو خوشخبری ہو۔‘‘(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) آج کے دن ہمیں بہت زیادہ استغفار کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے اُس کی رحمت کو طلب کرنا چاہیے۔ اس کے حضور عاجزی سے جھکنا چاہیے۔یہ نشان جو خاص رمضان میں دوبارہ ظاہر ہوا ہے اور انہی تاریخوں کو ہوا ہے جن کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی تو ہمیں اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔اور ایمان کو مضبوط کرنے کے ساتھ ذکرِ الٰہی، صدقات، استغفار کے ساتھ ہمیںحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو پورا کرنے کے لیے، دنیا کو اس سے آگاہ کرنے کے لیےبھر پور کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز خطبہ کسوفِ شمس(فرمودہ مورخہ 29؍مارچ 2025ء بروز ہفتہ بعد نمازِ کسوف بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد ٹلفورڈ، یوکے) أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾ آج ہم نے ابھی سورج گرہن پر نمازِ کسوف پڑھی ہے۔ یورپ میں اکثر ممالک میں، امریکہ میں بعض جگہوں پر، کینیڈا میں، افریقہ کے ممالک میں بشمول موریطانیہ مراکش وغیرہ ان سب جگہوں پر میرا خیال ہے گرہن لگا۔ اسی طرح روس کے ممالک میں بھی لگا ہے۔ سورج چاند گرہن پہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سنت تھی کہ نماز پڑھی جائے۔ دو نفل ادا کیے جائیں۔ خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس دن استغفار اور صدقہ و خیرات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس بارے میں احادیث میں بعض روایات ملتی ہیں کہ جب سورج گرہن لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑی تیزی سے اپنے گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ لوگوں کو جمع کرو۔ نماز باجماعت ہو گی۔ ہم تو دو نفل پڑھیں گے۔ اس کے لیے اذان کا نہیں کہا۔ اس میں اذان نہیں دی جاتی بلکہ یہ فرمایا کہ اعلان کرو کہ لوگ جمع ہو جائیں ۔ چنانچہ لوگ جمع ہو گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبی نماز پڑھائی جس کی دو رکعات تھیں ۔ (صحیح بخاری کتاب الکسوف باب النداء بالصلوٰۃ جامعۃ فی الکسوف حدیث 1045) اس بارے میں حضرت عائشہؓ کے حوالے سے یہ روایت ہے۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایات ہیں تو میں مختصرا ًوہ پیش کرتا ہوں ۔ حضرت عائشہؓ کی روایت تو پوری پیش کر دیتا ہوں ۔ کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورج گرہن ہوا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مکہ میں بھی آپؐ نے نماز پڑھائی لیکن مکہ میں تو جمع نہیں ہو سکتے تھے اس لیے وہاں کوئی ایسی روایت نہیں ہے۔ مدینہ میں ہی کسوف کی نماز پڑھائی۔ بہرحال حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورج گرہن ہوا۔ آپؐ مسجد میں گئے۔ لوگ آپ کے پیچھے صف بستہ کھڑے ہو گئے۔ آپؐ نے اللہ اکبر! کہا اور بہت لمبی قراءت کی۔ پھر تکبیر کہی اور بڑا لمبا رکوع کیا۔ پھر آپؐ نے سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہا اور کھڑے ہو گئے اور سجدہ نہیں کیا اور لمبی قراءت کی جو کہ پہلی قراءت سے کم تھی۔ پھر آپؐ نے اللہ اکبر! کہا اور لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا۔ پھر آپؐ نے سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد کہا۔ پھر سجدہ کیا۔ پھر دوسری رکعت میں ایسا ہی کیا۔ اس طرح آپؐ نے دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کیے اور سورج نماز سے فارغ ہونے سے پہلے پہلے ظاہر ہو گیا تھا یعنی کہ گرہن اس وقت ختم ہو گیا تھا۔ پھر آپؐ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی جس تعریف کے وہ لائق ہے تعریف کی اور فرمایا چاند اور سورج اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے دو نشان ہیں ۔کسی کی موت کی وجہ سے انہیں گرہن نہیں لگتا اور نہ کسی کی زندگی کی وجہ سے یہ گرہن لگتا ہے۔ سو جب سورج اور چاند کو تم گرہن لگا ہوا دیکھو تو نماز کے لیے مضطرب ہو کر لپکو۔ (صحیح بخاری کتاب الکسوف باب خطبۃالامام فی الکسوف حدیث 1046) یعنی فوری طور پر نماز ادا کرو۔ نفل پڑھو۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت اس طرح ہے۔ لمبی روایت ہے اس کا کچھ حصہ میں بیان کر دیتا ہوں جو پہلے نہیں آیا۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے دو نشان ہیں ۔ کسی کی موت اور زندگی کی وجہ سے نہیں گہناتے۔ سو جب تم گرہن دیکھو (یہ تو وہی باتیں ہیں) تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرو۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! اِس دوران میں جب آپؐ نماز پڑھا رہے تھے تو لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آگے پیچھے حرکت کرتے دیکھا۔ اس پر انہوں نے سوال کیا کہ یا رسول اللہؐ! ہم نے آپؐ کو دیکھا کہ آپؐ نے اپنی جگہ کھڑے کھڑے کوئی چیز پکڑی ہے، آگے ہاتھ بڑھایا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ آپؐ ایک دم پیچھے ہٹ گئے۔ آپؐ نے فرمایا کہ مَیں نے اس وقت جنت کا نظارہ دیکھا تھا اور اُس جنت میں سے ایک خوشہ لینے کو ہاتھ بڑھایا تھا۔ اگر لے لیتا تو جب تک دنیا قائم رہتی تم اسے کھاتے رہتے۔ اور پھر مجھے آگ دکھائی گئی۔ مَیں نے کوئی ایسا بھیانک نظارہ نہیں دیکھا جیسے آج اس آگ کا دیکھا تھا۔ اس کو دیکھ کر پھر میں ایک دم پیچھے ہٹ گیا۔ (صحیح بخاری کتاب الکسوف باب صلاۃ الکسوف جماعۃ حدیث 1052) تو یہ روایات ہیں۔ اس کی تائید میں بہت ساری اَور روایات بھی ہیں۔ نماز کے بعد خطبہ دینا بھی مسنون ہے جیسا کہ مَیں نے بتایا۔ اس لیے جب بھی یہ نماز پڑھی جائے اس کے بعد خطبہ دیا جاتا ہے۔ یہ وضاحت بھی کردوں کہ کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ اس بارے میں بعض علماء کا یہ نظریہ ہے کہ اس کی وضاحت اس لیے کی کہ جب سورج گرہن لگا تو اس وقت آپؐ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی تھی۔ تو بعض روایات میں آتا ہے کہ لوگوں نے خیال کیا کہ شاید یہ گرہن اس وجہ سے لگا ہے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ اس کا کسی کی موت اور زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الکسوف باب صلاۃ فی کسوف الشمس حدیث 1043) میں انٹرنیٹ پر دیکھ رہا تھا تو وہاں بھی یہ معلومات ہیں کہ آپؐ کے صاحبزادے کی وفات کی وجہ سے گرہن لگا تو وہاں یہ معلومات غلط ہیں ۔ پتہ نہیں کس نے اس میں ڈالی ہیں اور عموماً لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح معلومات ہوتی ہیں لیکن غلط ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات جو مختلف ذریعوں سے ملی ہیں یہی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا کہ اس کا کسی کی موت یا زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تمام روایات اس بات کی نفی کرتی ہیں۔ جماعت میں بھی چاند سورج گرہن کی خاص اہمیت ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے خاص دنوں میں چاند سورج گرہن کی نشانی مسیح و مہدی کے آنے کی نشانی کے طور پر بیان فرمائی ہے۔ (سنن الدار قطنی جلد دوم حدیث 1795 کتاب العیدین مطبوعہ ادارہ اسلامیات کراچی) اور اس کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کے بعد مشرق میں 1894ء اور مغرب میں 1895ء میں، چاند کو بھی سورج کو بھی یہ گرہن لگا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب اور مجالس میں اس کا بہت ذکر فرمایا ہے۔ ایک کتاب ہے آپؑ کی نور الحق۔ اس کے حصہ دوم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس میں یہاں پیش کر دیتا ہوں۔ یہ عربی میں ہے اس کا ترجمہ بھی ساتھ ہوا ہوا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’پھر جان‘‘ یعنی جان لو ’’کہ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں پھونکا کہ یہ خسوف اور کسوف جو رمضان میں ہوا ہے یہ دو خوفناک نشان ہیں ۔‘‘ یہ چاند اور سورج گرہن جو رمضان میں لگا ہے یہ دو خوفناک نشان ہیں ’’جو اُن کے ڈرانے کے لئے ظاہر ہوئے ہیں جو شیطان کی پیروی کرتے ہیں ۔ جنہوں نے ظلم اور بے اعتدالی کو اختیار کر لیا۔ سو خدا تعالیٰ ان دونوں نشانوں کے ساتھ ان کو ڈراتا ہے اور ہریک ایسے شخص کو ڈراتا ہے جو حرص و ہوا کا پیرو ہوا اور سچ کو چھوڑا اور جھوٹ بولا اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ پس خدا تعالیٰ پکارتا ہے کہ اگر وہ گناہ کی معافی چاہیں تو اُن کے گناہ بخشے جائیں گے اور فضل اور احسان کو دیکھیں گے اور اگر نافرمانی کی تو عذاب کا وقت تو آ گیا اور اس میں ان لوگوں کو ڈرانا بھی مقصود ہے جو بغیر حق کے جھگڑتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے اور ایسے شخص کے لیے تہدید ہے جو نافرمانی اور تکبر اختیار کرتا ہے اور سرکشی کو نہیں چھوڑتا۔ سو خدا سے ڈرو اور زمین پر فساد کرتے مت پھرو۔ اور تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اس سے ڈرتے نہیں حالانکہ ڈرانے کے نشان ظاہر ہو گئے اور صحیح مسلم اور بخاری سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنوں کے سمجھانے کے لئے فرمایا کہ شمس اور قمر دو نشان خداتعالیٰ کے نشانوں میں سے ہیں اور کسی کے مرنے یا جینے کے لئے ان کو گرہن نہیں لگتا بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے دو نشان ہیں۔ خدا تعالیٰ ان دونوں کے ساتھ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ پس جب تم ان کو دیکھو تو جلدی سے نماز میں مشغول ہو جاؤ۔ پس دیکھ کہ کیونکر آنحضرت صلعم نے خسوف کسوف سے ڈرایا اور حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دونوں نشان گنہگاروں کے ڈرانے کے لئے ہیں اور اس وقت ظاہر ہوتے ہیں کہ جب دنیا میں گناہ بہت ہوں اور خلقت میں بدکاریاں پھیل جائیں اور پلید بہت ہو جائیں اور اسی غرض سے رسول اللہ صلعم نے گرہن کے وقت میں فرمایا کہ بہت نیکیاں کریں اور نیک کاموں کی طرف جلدی کریں جیسی خالص نیت کے ساتھ نماز اور روزہ اور دعا کرنا اور رونا اور اللہ تعالیٰ کی تعریف اور ذکر اور تضرع اور قیام اور رکوع اور سجدہ اور توبہ اور انابت اور استغفار اور خشوع اور ابتہال اور انکسار اور ایسا ہی حسب طاقت احسان اور غلام آزاد کرنا اور کسی کو سبکدوش کرنا اور یتیموں کی غم خواری اور جناب الٰہی میں تذلل۔ پس گویا کہ ان اعمال کی بجا آوری میں جو نماز اور خشوع اور ابتہال ہے یہی بھید ہے کہ چاند اور سورج کا اسی حالت میں گرہن ہوتا ہے کہ جب کوئی آفت نازل ہونے والی ہو اور کسی مصیبت کا زمانہ قریب ہو اور آسمان پر ایسے اسباب شر کے جمع ہو گئے ہوں جو لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں اور صرف ان کو خداتعالیٰ جانتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ کی رحمت اور اس کی پُرلطف حکمت تقاضا کرتی ہے جو کسی کسوف کے وقت لوگوں کو وہ طریقے سکھلاوے جو کسوف کے موجبات کو دور کر دیں ۔‘‘ اس کی وجوہات کو دور کر دیں یعنی یہ ساری برائیاں دور ہو جائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تو اس لیے یہ نماز پڑھنے کا طریقہ سکھایا ہے۔ ’’اور اس کی بدیوں کو ہٹا دیں۔ پس اس نے اپنے نبی کی زبان پر یہ تمام طریقے سکھلا دیئے۔ اور کچھ شک نہیں کہ بدیاں نیکیوں سے دور ہوتی ہیں اور گناہ کی معافی چاہنے والوں کے آنسو آگ کو بجھا دیتے ہیں ۔‘‘ بدیاں نیکیاں کرنے سے دور ہو جاتی ہیں اور آنسو اور رونا چِلّانا آگ کو بجھا دیتا ہے۔ ’’اور جس وقت کوئی بندہ کوئی نیک عمل کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کو اس سے راضی کردیتا ہے۔ پس وہ نیک عمل اس کی بدی کا مقابلہ کرتا ہے جس کے اسباب مہیا ہو گئے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ اس عامل کو اس بدی سے بچا لیتا ہے۔‘‘ جو عمل کرنے والا ہے اس کو بدی سے بچا لیتا ہے۔ ’’اور یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ دعا کے ساتھ بلا کو ردّ کرتا ہے اور دعا اور بلا کبھی دونوں جمع نہیں ہوتیں مگر دعا باذنِ الٰہی بلا پر غالب آتی ہے جب ایسے لبوں سے نکلتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔ سو دعا کرنے والوں کو خوشخبری ہو۔‘‘ (نور الحق حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 227 تا 230) نیک نیتی سے دعا کرو، تضرع سے دعا کرو تو پھر یہ بلائیں ٹل جاتی ہیں ۔ آج کے دن ہمیں خاص طور پر دعاؤں اور صدقات پر زور دینا چاہیے۔ مَیں نے ذاتی طور پر بھی صدقے دیے ہیں۔ جماعت نے بھی مختلف جگہوں پر صدقے دیے ہیں۔ جماعت کے افراد کو بھی چاہیے کہ جن کو توفیق ہے وہ صدقات دیں ۔ اسے ہم صرف تماشا سمجھ کر نہ دیکھیں کہ عینک لگائی، کالے شیشے لگائے یا کوئی اَور چیز استعمال کی تو دیکھ لیا بلکہ آج کے دن ہمیں بہت زیادہ استغفار کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے اُس کی رحمت کو طلب کرنا چاہیے۔ اس کے حضور عاجزی سے جھکنا چاہیے۔ یہ نشان جو خاص رمضان میں دوبارہ ظاہر ہوا ہے اور انہی تاریخوں کو ہوا ہے جن کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی تو ہمیں اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔اور ایمان کو مضبوط کرنے کے ساتھ ذکرِ الٰہی، صدقات، استغفار کے ساتھ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو پورا کرنے کے لیے، دنیا کو اس سے آگاہ کرنے کے لیے بھر پور کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اس میں کوئی دعا یا کوئی خطبہ ثانیہ نہیں ہوتا بس اس خطبہ کے بعد یہ ختم ہو جاتا ہے۔ جزَاک اللہ۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہ۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: کسوف و خسوف کے عظیم الشان نشان کے بارہ میں چند حقائق