https://youtu.be/OvwpmoGjgz4 احمدی تو جو قربانیاں دے رہے ہیں وہ آنحضورﷺ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے اور اسلام کی اشاعت کے لیے ہی دے رہے ہیں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ برطانیہ کے تیسرے روز معرکہ آرا اختتامی خطاب کا خلاصہ (حديقة المہدي ۲۷؍ جولائی ۲۰۲۵ء، نمائندگان الفضل انٹرنيشنل) جلسہ سالانہ کے آخري دن حضورِ انور ايّدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے شام کو جلسہ سالانہ کے اختتامي اجلاس سے پُرمعارف خطاب فرمايا۔ اختتامي خطاب کے ليے حضورانور چار بج کر تیرہ منٹ کے قريب نعرہ ہائےتکبير کي گونج ميں جلسہ گاہ ميں رونق افروز ہوئے۔ اجلاس کی باقاعدہ کارروائی سے قبل حضور انور کی اجازت سے محترم امیر صاحب یوکے نے جلسہ سالانہ کے لیے شاہ چارلس سوم کا موصولہ خصوصي پيغام پڑھ کر سنایا۔ شاہ چارلس سوم کے پیغام کا خلاصہ درج ذیل ہے: از راہِ کرم، جماعت احمدیہ مسلمہ برطانیہ کے تمام اراکین تک میرا دلی اور پرخلوص شکریہ پہنچادیں، جنہوں نے اپنی وفادارانہ نیک تمناؤں کے ذریعے مجھے یاد رکھا۔ یہ پیغام اُن کے سالانہ جلسہ کے موقع پر بھیجا گیا ہے، جو اس ہفتے کے آخر میں ‘‘حدیقۃ المہدی، اوکلینڈز فارم’’ میں منعقد ہو رہا ہے۔ میں آپ کی مسلسل حمایت کو بہت سراہتا ہوں، اور مجھے یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ اس سال کے جلسے میں کئی ہزار افراد جمع ہوں گے، جو اتحاد، یکجہتی اور امن کے جذبے کے ساتھ آپ کی جماعت کے شاندار کام کو اُجاگر کریں گے۔جواباً، میں بھی اُن تمام افراد کو اپنی دلی نیک تمنائیں بھیجتا ہوں جو اس یادگار تقریب میں شریک ہیں۔ بعد ازاں مکرم امیر صاحب یوکے نے سال ۲۰۲۴ء میں احمدیہ امن انعام حاصل کرنے والے اٹلی کے Nicolò Govoni کی امن کے لیے کوششوں کا ذکر کیا جس کے بعد موصوف نے حضور انور سے اپنا انعام وصول کیا۔ بعد ازاں موصوف حاضرین جلسہ سے مخاطب ہوئےاور جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعدمکرم امیر صاحب یوکے نے احمدیہ مسلم انعام برائے امن کا اعلان فرمایا۔ ۲۰۲۵ء کے لیےبینن افریقہ کے Gregoire Ahongbonon اس انعام کے حقدار قرار پائے ہیں۔ انہیں یہ انعام مغربی افریقہ میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی دیکھ بھال کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں کرنے کی کاوشوں کے اعتراف میں دیا جارہا ہے۔ اجلاس کي باقاعدہ کارروائي کا آغاز تلاوت قرآن کريم سے ہوا۔ مکرم احسان احمد صاحب مربی سلسلہ نے سورۃ الحشر کی آیات ۱۹ تا ۲۵ کی تلاوت اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا بیان فرمودہ اردو ترجمہ پیش کرنے کی سعادت ملی۔ اس کے بعد فرج عودہ صاحب نےحضرت مسیح موعودؑ کا عربی قصیدہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جس کا آغاز درج ذیل شعرسے ہوا: بُشْرٰى لَكُمْ يَا مَعْشَرَ الْإِخْوَانِ طُوبٰى لَكُمْ يَا مَجْمَعَ الْخُلَّانِ ان اشعار کا اردو ترجمہ مکرم وسیم احمد فضل صاحب مربی سلسلہ نے پیش کیا۔ اس کے بعد مکرم مرتضیٰ منان صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے منظوم کلام ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دینِ محمدؐ سا نہ پایا ہم نے میں سے چند اشعار خوش الحانی سے پڑھے۔ تعليمي اعزازات کا اعلان مکرم سيکرٹري صاحب تعليم جماعت احمدیہ يوکے نے تعليمي ميدان ميں نماياں کاميابي حاصل کرنے والے طلبہ کے نام پڑھ کر سنائے۔ محترم سيکرٹري صاحب تعليم نے کہا کہ ۳۳۷؍ درخواستیں تھیں۔ ۱۲۳؍ لجنہ کے لیے منظور ہوئیں۹۱؍مردوں کے ایوارڈ کے لیے معیاری قرار پائیں۔ جی سی ایسی سی حاشر مصطفیٰ خان، ثاقب احمد، زریاب خان، ظافر احمد، سبحان صبور، رزان احمد، سلمان احمد، زوہیب مرزا، حمدان سعید، سید عطاء الہادی رضوی، فاران اعوان، فرحان افضل، مونس ورک، سلمان علی، تاشف ججہ، اجر منصور، محمد مسرور احمد، جری اللہ احمد، ایشان احمد، دانیال شیخ، فارس ملک، فارز ملک، فرید احمد، مرزا سعد شریف احمد، فیضان عظیم، واصف رحمٰن،قیصر گل، زین طاہر، منیب الرحمان، طہ ابراہیم سعید، حزقیل احمد، مسرور خان، فاران منیب، محمد آصف، فرید الدین، مسرور کریم اے لیول نائل احمد ظفر مرزا، دانیال احمد، سید سجیل احمد شاہ، جاذب عمران، عبد اللہ سعید، ثاقب ججہ، سبحان سعید، فاران افضل، طلحہ احمد، توفیق احمد، حمزہ ڈار، مطاہر احمد محمود، رسیل راٹھور، نوشیروان ججہ، ارسلان حیدر، طہ حامد کریم، ذیشان اکبر، فواد انور، ذیشان احمد، رانا توحید رحمان، دانیال ادریس، سلمان باقی ڈگریز اور پوسٹ گریجوایٹ ریان رشید، فراز علیم الرحمان، طاہر فاروق، شہزاد ہاشمی، جنید احمد، جبران راجہ، جہانزیب احمد سید، مقرب سید، نجم الثاقب، ڈاکٹر صباحت احمد، فارس احمد، کامران احمد ڈار، محمد منیب، مرز ارضوان احمد، یحییٰ احمد ناصر، فطین یاسر، توحید خان، اسد بٹ، حمزہ شاہد، عازب طارق، عادل جھینگور، ڈاکٹر کامران اقبال، ڈاکٹر حمیدالرحمٰن قریشی حکیم، ڈاکٹر شاہزیب احمد،ڈاکٹر طارق حمید، ڈاکٹر ظہیر طاہر،ڈاکٹر ابایو می ابراہیم متاجو، ڈاکٹر آغا اسامہ حسن، ڈاکٹر وقاص ملک، ڈاکٹر محمد یحییٰ احمد بیرون ملک طلبہ ڈاکٹر ماہد خان، حافظ داؤد احمد چار بج کر ستاون منٹ پر حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز منبر پر تشريف لائے اور تمام حاضرين کو السلام عليکم ورحمة اللہ کا تحفہ عطا فرما کر جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۲۵ء کے اختتامي خطاب کا آغاز فرمايا۔ خلاصہ اختتامي خطاب تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کي تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمايا: آج کل کے نام نہاد علماء حضرت اقدس مسیح موعودؑ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپؑ نے نعوذباللہ مسیح اور مہدی کا دعویٰ کرکے آنحضرتﷺ کی توہین کی ہے۔ یہ ایک ایسا جھوٹا الزام ہے کہ جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر ان لوگوں میں تھوڑی سی بھی شرم و حیا ہو تو یہ حضرت مسیح موعودؑ کا لٹریچر پڑھیں، اور دیکھیں کہ آپؑ نے کیا فرمایا ہے اور پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ اور آنحضرتﷺ اس حوالے سے کیا راہنمائی فرماتے ہیں۔ حضورؑ کا تو اعلان یہ ہے کہ مَیں نے جوکچھ بھی پایا ہے وہ آنحضورﷺ کی برکت سے پایا ہے اور میرا دعویٰ تو عین آنحضورﷺ اور قرآن کریم کی پیش گوئیوں کے مطابق ہے۔ حضورؑ نے یہ اعلان فرمایا ہے کہ تم مجھے جھوٹا اور دکان داری چمکانےوالا کہتے ہو بتاؤ تو سہی کہ کیا مسلمانوں کی یہ حالت نہیں کہ اِن میں ہر طرح کا بگاڑ پیدا ہوچکا ہے، مخالف ہر طرف سے حملے کر رہا ہے اور مسلمانوں کی عملی حالت انتہائی کمزور ہے۔ عمومی طور پر دنیا خدا سے دُور ہوتی جارہی ہے ، کیا اب بھی کسی مصلح کی ضرورت نہیں جو خدا کی طرف سے ہدایت پاکر اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلائے؟ اگر اب بھی اُس مصلح نے نہیں آنا تو بھلا سوچو تو سہی کہ وہ کب آئے گا۔ آپؑ نے وضاحت فرمائی کہ یہ وہی زمانہ ہے جس میں یہ حالات ظاہر ہورہے ہیں اور یہ زمانہ ایک مصلح کو پکارپکار کر بلا رہا ہے۔حضورؑ فرماتے ہیں کہ جب آپؑ نے اپنا دعویٰ پیش فرمایا اُس دورمیں غیرمذاہب بالخصوص عیسائیت کی طرف سےایسے تابڑ توڑ حملے ہورہے تھے کہ کئی لاکھ مسلمان صرف ہندوستان میں اسلام کو چھوڑ کر عیسائی ہوگئے تھے۔ حضورانور نے فرمایا کہ آج بھی یہ حملے ہورہے ہیں گو بعض جگہوں پر طریقے بدل گئے ہیں مگر افریقہ وغیرہ ممالک میں اب بھی اسی طرح حملے ہورہے ہیں اور لوگوں کو اسلام سے دُور کیا جارہا ہے،باقی جگہوں پر بھی ایسی کوششیں ہوتی رہتی ہیں جن سے لوگ مذہب سے دُور ہورہے ہیں، اسلام کو چھوڑ رہے ہیں یا برائے نام ہی مسلمان ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیڈروں یا علماء کو اس طرف کوئی توجہ نہیں، نہ ہی امیر ممالک جہاں تیل کی دولت ہے انہیں کوئی پروا ہے اور نہ اُن ممالک کے لیڈروں کو کوئی فکر ہے جہاں دولت کم ہے۔ حالت یہ ہے کہ مسلمان مسلمان کو مار رہا ہے اور اسی لیے غیروں کو جرأت ہورہی ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں کرسکیں۔ مسلمانوں کی اگر کسی کو فکر تھی تو وہ اُس مصلح اور امام کو تھی جسے خدا نے مسلمانوں کی راہنمائی کےلیے بھیجا اور اُس نے یہ فکر اپنی جماعت میں منتقل کی، مگر افسوس! کہ یہ اُس امام کو ماننے کےلیے تیار نہیں ہیں۔ اسی دَور کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضورؑ فرماتے ہیں اے مسلمانو! جو اولوالعزم مومنوں کے آثارِ باقیہ اور نیک لوگوں کی ذریت ہو انکار اور بدظنّی کی طرف جلدی نہ کرو اور اِس خوفناک وبا سے ڈرو جو تمہارے گِرد پھیل رہی ہے اوربےشمار لوگ اس کے دامِ فریب میں آگئے ہیں ۔ تم دیکھتے ہو کہ کس قدر زور سے دینِ اسلام کو مٹانے کےلیے کوشش ہورہی ہے ۔ کیا تم پر یہ حق نہیں کہ تم بھی کوشش کرو ۔ اسلام انسان کی طرف سے نہیں کہ انسانی کوششوں سے برباد ہوسکے مگر افسوس اُن پر ہے جو اس کی بیخ کنی کے درپے ہیں، اورپھر دوسرا افسوس اُن پر ہےجو اپنی عورتوں اور اپنے بچوں اور اپنے نفس کی عیاشیوں کے لیے تو اُن کے پاس سب کچھ ہے مگر اسلام کے حصّے کا اُن کی جیب میں کچھ بھی نہیں ہے۔ حضورِانور نے فرمایا مغربی دنیا اسلام کے اِس لیے خلاف ہے کیونکہ انہیں مسلمانوں میں صحیح اسلام کا نمونہ نظر نہیں آتا۔ پس حضورؑ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا فرض تھا کہ اسلام کی محبوبانہ شکل دکھلانے کےلیے جان توڑ کوشش کرتے، اور مال کیا بلکہ خون کو بھی پانی کی طرح بہاتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ حضورؑ فرماتے ہیں بعض بظاہر دین کی خدمت کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر جس طرح تعلیم دیتے ہیں وہ شدّت کی تعلیم ہے۔خدا تعالیٰ سورة القدر میں مسلمانوں کو بشارت دیتا ہے کہ اُس کا کلام اور اُس کا نبی لیلة القدر میں آسمان سے اتارا گیا ہے اور ہر ایک مصلح اور مجدد جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے وہ لیلة القدر میں ہی اترتا ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہرسال ہزاروں لوگ احمدیت قبول کرتے ہیں اور اسلام میں داخل ہوتے ہیں، انہیں جب ہدایت ملتی ہےتو وہ اُسے قبول کرتے ہیں اور ضد نہیں کرتے۔ پس اسی طرح ہر ایک کو چاہیے کہ ضد کرنے کی بجائے ان حالات پر غور کرے اور پھر دیکھے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں ذرا سوچو یکسر الصلیب یعنی صلیب کو توڑنے کی خدمت کس کے سپرد ہے۔ یہ مسیح موعود کے ہی سپرد ہے اور کیا یہ وہی زمانہ ہے یا کوئی اور۔ سوچو! خدا تمہیں تھام لے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ آج اسلام پر ہر طرف سے حملے ہورہے ہیں، اسلام کے خلاف کتابیں شائع کی جارہی ہیں اور مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ بعض محفلوں میں خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں احمدی مسلمانوں کا فرض ہے کہ نہ صرف اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلائیں بلکہ اپنے عملوں سے بھی اس خوبصورت تعلیم کو ظاہر کریں۔ حضورِانور نے فرمایا بعض افراد اور گروہ گو اسلام کی خدمت کر رہے ہیں مگر وہ یہ خدمت جنگ اور ہتھیار سے کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر ہتھیاروں کے لیے بھی یہ ان مغربی ممالک کی طرف ہی دیکھتے ہیں، اب اس طرح انہوں نے کیا اسلام کی خدمت کرنی ہے۔ نااتفاقی کا یہ عالَم ہے کہ ایک دوسرے کا ساتھ دینا تو دُور کی بات یہ ایک دوسرے کے حق میں آواز اٹھانا بھی نہیں چاہتے۔ آج فلسطین کے لیے کون آواز اٹھا رہا ہے؟ کوئی بھی نہیں۔ ان مسلمانوں کو اگر کوئی فکر ہے تو یہ کہ احمدیوں کو ختم کیا جائے۔ یہ عقل کے کورے نہیں جانتے کہ احمدی تو جو قربانیاں دے رہے ہیں وہ آنحضورﷺکے پیغام کو دنیا میں پھیلانے اور اسلام کی اشاعت کے لیے ہی دے رہے ہیں۔ حضورِانور نے نواب صدیق حسن خان کی کتاب حجج الکرامہ کے حوالے سے حدیث کسوف وخسوف کی بحث بیان فرمائی اور پھر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا قاطع استدلال پیش فرمایا۔ حضورؑ اپنے ایک پُرشوکت الہام کو پیش کرکے فرماتے ہیں مجھے ایک ایسا نشان دیا گیا ہے جو آدم سے لےکر اس وقت تک کسی کو نہیں دیا گیا۔ مَیں خانہ کعبہ میں کھڑے ہوکر قسم کھاسکتا ہوں کہ یہ نشان میری تصدیق کے لیے ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ اسلام نہایت کمزور اور یتیم بچے کی طرح ہوگیا ہے ۔ اس وقت خداتعالیٰ نےمجھے بھیجا ہے تاکہ مَیں ادیانِ باطلہ کے جھوٹے حملوں سے اسلام کو بچاؤں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ منجملہ اُن دلائل کے جو میرے مسیح موعود ہونے پر دلالت کرتے ہیں وہ ذاتی نشانیاں ہیں جو مسیح موعود کی نسبت بیان فرمائی گئی ہیں اور اُن میں سے ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ مسیح موعود کے لیے ضروری ہے کہ وہ آخری زمانے میں پیدا ہو۔ حضورؑ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس زمانے کا آخری زمانہ ہونا ثابت فرمایا ہے۔ مثلاً آخری زمانے کی پیش گوئیوں میں بکثرت ستاروں کے ٹوٹنے کاذکر ہے، اسی طرح ایک شدّت کے کسوف کی بھی خبر ملتی ہے۔ صحائف کے کثرت کے ساتھ نشر کی بھی خبر دی گئی تھی۔ حضورِانور نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں آخری زمانے کی نشانیوں کا تذکرہ فرمایا۔ حضورؑ فرماتے ہیں پس ضرورتِ زمانہ بھی ہے ، پیش گوئیاں بھی پوری ہورہی ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات بھی شامل ہیں۔ … فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے وہ نعمت بخشی ہے جو میری کوشش سے نہیں بلکہ شکمِ مادر میں ہی مجھے عطا کی گئی ہے۔ میری تائید میں اُس نے وہ نشان ظاہر فرمائے ہیں جن کی تعداد بےشمار ہے۔ بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں خداتعالیٰ نے ہر ایک محل پر اپنے وعدے کے موافق مجھ کو دشمنوں کے شرسے محفوظ رکھااور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں ہر محل پر اپنے وعدے کے موافق میری ضرورتیں اور حاجتیں اس نے پوری کیں اور بعض نشان اس قسم کے ہیں کہ اس نے بموجب اپنے وعدہ انی مھین من اراد اھانتککہ میرے پر حملہ کرنے والوں کو ذلیل و رسوا کیا۔ بعض نشان اس قسم کے ہیں کہ مجھ پر مقدمہ دائر کرنے والوں پر اس نے اپنی پیش گوئیوں کے مطابق مجھ کو فتح دی…اور بعض نشان اس قسم کے ہیں کہ جن میں دوستوں کے حق میں میری دعائیں قبول ہوئیں، اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں شریر دشمنوں پر میری بد دعا کا اثر ہوا، اور بعض نشان اس قسم کے ہیں کہ میری دعاسے بعض خطرناک بیماروں نے شفا پائی… اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میری تصدیق کے لیے بعض بڑے بڑے ممتاز لوگوں کو جو مشاہیر فقراء میں سے تھے خوابیں آئیں۔ حضورِانور نے فرمایا آج تک یہ تائیدات و نشانات نظر آرہے ہیں۔ دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت اور ہر ملک میں پیش گوئی کےمطابق آپ کی بیعت میں لوگوں کا آنا کیا یہ خدا تعالیٰ کی تائید کی نشانی نہیں؟ کاش! کہ یہ لوگ عقل کریں۔ پس یہ سب باتیں ان لوگوں کے سوچنے کےلیے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے اگر آنکھوں پرپردے نہ پڑے ہوں اور انصاف کے تقاضوں سے پرکھنے کی کوشش کی جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ آپؑ ہی زمانے کی ضرورت کے مطابق ، عین وقت پر مسیح و مہدی کے مقام پر فائز ہوکر خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اور گذشتہ ایک سَو چھتیس سالہ جماعتِ احمدیہ کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ یقیناً خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت آپؑ اور آپؑ کی جماعت کے ساتھ ہے۔ آج دنیا کے ہر ملک میں جماعت کا قیام، تبلیغ کا کام، لوگوں کا جماعت کی طرف رجحان، اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ۔ اب مخالفین جتنی مرضی کوششیں کرلیں یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے پھیلتا ہی چلا جائے گا اور چلا جارہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ ہم پر بہت بڑی ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ صرف آپؑ کو ماننے یا نعرے لگانے سے ہم اپنا مقصد نہیں پاسکتے۔ہمیں بھی اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم اپنے اندر حقیقی انقلاب پیدا کریں گے تب ہی ہم حضرت مسیح موعودؑ کے حقیقی مددگار بن سکیں گے اور حقیقی مددگار بن کر دنیا کو آنحضرتﷺ کی آغوش میں لانے والے بن سکیں گے۔ تب ہی ہم خداتعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنے والے بن سکیں گے۔ دنیا کو آنحضرتﷺ کے جھنڈے تلے لانے والے بن سکیں گے۔ خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ خطاب کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔ آخر میں حضور انور نے فرمایا کہ سکیننگ کی رپورٹ کے مطابق اس سال کی حاضری چھیالیس ہزار اکسٹھ(۴۶۰۶۱) ہے جو گذشتہ سال سے تین ہزار زیادہ ہے۔ بعد ازاں مختلف گروپس نے مختلف زبانوں میں ترانے پڑھے۔ ٭…٭…٭