اِکرام ضَیْف یعنی مہمان نوازی اخلاق فاضلہ میں سے ایک اہم وصف ہے جو انسانی تمدن کا حصہ اور اُن کی اعلیٰ اقدارکا اہم جزو ہے۔ اس وصف پر عمل پیرا ہونے سے باہمی الفت ومحبت میں اضافہ ہوتا ہے اورمعاشرے میں احترام کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ اس ذریعہ سے حسد اور عناد دور ہوتا ہے اور اعتمادکی فضا ترقی پذیر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مہمان نوازی کا وصف اس قدر پسند یدہ ہے کہ اس نے اسے مہمان کا حق قرار دیاہے۔فرمایا: وَابْنَ السَّبِیْلِ (البقرۃ: ۱۷۸) مسافروں کو اُن کا حق دو۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:اِنَّ لِزَوْرِکَ عَلَیْکَ حَقًّا (صحیح البخاری کتاب الصوم بَاب حَقُّ الضَّیْفِ فِی الصَّوْمِ حدیث:۱۹۷۴) تمہارے ملاقات کرنے والے مہمان کا بھی تم پر حق ہے۔ قرآن شریف میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا ذکر محفوظ کرکے اس کی اہمیت وضرورت اور افادیت واضح فرمادی گئی ہے:ھَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰھِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ۔اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلٰمًا قَالَ سَلٰمٌ قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ۔ فَرَاغَ اِلٰٓی اَھْلِہٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ۔فَقَرَّبَہٗٓ اِلَیْھِمْ قَالَ اَلَا تَاْکُلُوْنَ (الذّاریٰت:۲۵-۲۸) کیا تجھ تک ابراہیم کے معزّز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے؟ جب وہ اس کے پاس آئے تو انہوں نے کہاسلام! اس نے بھی کہا سلام!(اور جی میں کہا) اجنبی لوگ (معلوم ہوتے ہیں)۔ وہ جلدی سے اپنے گھر والوں کی طرف گیا اور ایک موٹا تازہ (بُھناہؤا) بچھڑا لے آیا۔ پھر اُسے ان کے سامنے پیش کیا (اور) پوچھا کیا تم کھاؤ گے نہیں؟رسول اللہ ﷺکے قلبِ مطہر میں مخلوق خدا کی ہمدردی اور اُن کی خدمت کا جذبہ طبعی طور پر موجزن تھا۔ آنحضرتﷺ پرپہلی وحی نازل ہوئی تو آپ گھر تشریف لائے اور وحی کی کیفیات بیان فرمائیں۔ اس موقع پرام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے آپؐ کے جن اخلاقِ کریمانہ کاذکر کیا اُن سب میں نوع انسان سے آپؐ کی ہمدردی، خیرخواہی،اُن کی بھلائی اور دلی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺسے فرمایا:کَلَّا وَاللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلَی نَوَاءِبِ الْحَقِّ(صحیح البخاری کتاب بدء الوحی بَاب:۳حدیث:۳) ہر گز نہیں۔اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔آپ ؐصلہ رحمی کرتے ہیں۔عاجزکا بوجھ اٹھاتے ہیں اور وہ نیکیاں کرتے ہیں جو معدوم ہوچکی ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی مشکلات میں مدد دیتے ہیں۔پس حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کابے ساختہ آپ کویہ یقین دلانا کہ اللہ تعالیٰ ایسے انسان کو کیونکر ضائع کرے گا جو مکارم اخلاق پر فائز ہے اور دن رات مخلوق خدا کی خدمت میں سرگرداں رہتا ہے کس قدرغور طلب، لائقِ توجہ اور قابل عمل ہے۔حضرت ابوہریرہؓ نے نبی ﷺ سے روایت کی۔ آپؐ نے فرمایا: جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو چاہیے کہ اپنے مہمان سے عزت سے پیش آئے اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو چاہیے کہ بھلی بات کرے یا خاموش رہے۔ (صحیح البخاری کتاب الأدب بَاب اِکْرَامُ الضَّیْفِ وَخِدْمَتُہُ اِیَّاہُ بِنَفْسِہِ حدیث:۶۱۳۸)حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:”اگر کوئی مہمان آوے اور سبّ وشتم تک بھی اس کی نوبت پہنچے توتم کوچاہیےکہ چُپ کررہوجس حال کہ وہ ہمارےحالات سےواقف نہیں ہے نہ ہمارے مُریدوں میں وہ داخل ہےتوکیاحق ہےکہ ہم اس سےوہ ادب چاہیں پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ زیارت کرنے والے کا تیرے پر حق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مہمان کو ذرا سا بھی رنج ہو تو وہ معصیّت میں داخل ہے۔“ (ملفوظات جلد سوم صفحہ۷۹-۸۰ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)سید حبیب اللہ صاحب بطور مہمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس تشریف لائے۔ آپ علیہ السلام نے سید صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:”آج میری طبیعت علیل تھی اور مَیں باہر آنے کے قابل نہ تھا مگر آپ کی اطلاع ہونے پر مَیں نے سوچا کہ مہمان کا حق ہوتا ہے جو تکلیف اُٹھا کر آیا ہے اس واسطے میں اس حق کو ادا کرنے کے لیے باہر آگیا ہوں۔“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۱۶۳۔ ایڈیشن ۲۰۰۳ء)مہمان نوازی کے ضمن میں قرآن کریم نے صحابہ کی ایک امتیازی خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :وَیُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ (الحشر:۱۰) اور خود اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے باوجود اس کے انہیں خود تنگی درپیش تھی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: یارسول اللہؐ! مجھے سخت بھوک لگی ہے۔ آپؐ نے اپنی ازواج سے کہلا بھیجا مگر ان کے پاس کچھ نہ پایا۔ آخر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا کوئی شخص ایسا نہیں جو آج رات اسے مہمان ٹھہرائے۔ اللہ اُس پر رحم کرے گا۔ ایک انصاری شخص کھڑا ہوا۔ اس نے کہا: یارسول اللہ! میں (اسے مہمان ٹھہراؤں گا)۔ وہ اپنے گھر والوں کے پاس گیا اور اپنی بیوی سے کہا: رسول اللہ ﷺ کا مہمان ہے اس سے کوئی چیز چھپا نہ رکھنا۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! میرے پاس صرف بچوں کی خوراک ہے۔ اس نے کہا: جب بچے شام کا کھانامانگیں تو اُن کو سُلا دینا اور تم آنا اور دیا بجھا دینا اور آج رات ہم خالی پیٹ رہیں گے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر صبح کو وہ شخص رسول اللہ ﷺکے پاس گیا۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ عزوجل فلاں مرد اور فلاں عورت سے بہت خوش ہوا، یا فرمایا: بہت ہنسا۔ اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل کی: وَیُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ (الحشر:۱۰) یعنی اور وہ اپنے نفسوں پر دوسروں کو مقدم کرتے ہیں گو اُنہیں خود بھوک ہی ہو۔(صحیح البخاری کتاب التفسیر /الْحَشْرِ بَاب۶:وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ (الْحَشْرِ:۱۰) الآیۃ حدیث:۴۸۸۹)حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ میاں نجم الدین صاحب مہتم لنگر خانہ کو بلوا کرتاکیداً فرمایا: ”دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں۔ اس لیے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو۔ سردی کا موسم ہے چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو۔ تم پر میرا حُسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو۔ ان سب کی خوب خدمت کرو۔ اگر کسی کو گھر یا مکان میں سردی ہوتو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کردو۔“ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۴۹۲۔ ایڈیشن ۲۰۰۳ء)حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:”حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک بہت شریف اور بڑے غریب مزاج احمدی سیٹھی غلام نبی صاحب ہوتے تھے جو رہنے والے تو چکوال کے تھے مگر پنڈی میں دکان کیا کرتے تھے، انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے لیے قادیان آیا۔ سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش بھی ہورہی تھی۔ میں شام کے وقت قادیان پہنچا تھا۔ رات کو جب میں کھانا کھا کر لیٹ گیا تو کافی رات گزر گئی اور تقریباً بارہ بجے کا وقت ہوگیا کسی نے میرے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔ میں نے اُٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے تھے۔ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس تھا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین تھی۔ میں حضور ؑ کو دیکھ کر گھبرا گیا مگر حضور ؑ نے بڑی شفقت سے فرمایا: کہیں سے دودھ آگیا تھا، میں نے کہا کہ آپ کو دے آؤں آ پ یہ دودھ پی لیں، آپ کو شاید دودھ کی عادت ہوگی۔ اس لیے دودھ آپ کے لیے لے آیا ہوں۔ سیٹھی صاحب کہا کرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔ سبحان اللہ! کیا اخلاق ہیں۔ خدا کا برگزیدہ مسیح اپنے ادنیٰ خادموں تک کی خدمت اور دلداری میں کتنی لذت پارہا ہے اور تکلیف اُٹھا رہا ہے۔“ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳/جولائی ۲۰۰۴ء۔ خطباتِ مسرور جلد ۲صفحہ۵۱۹)حضرت منشی ظفر احمد کپورتھلوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ”ایک دفعہ دو شخص منی پور آسام سے قادیان آئے اور مہمان خانہ میں آکر انہوں نے خادمان مہمان خانہ سے کہا کہ ہمارے بستر اتارے جائیں اور سامان لایا جائے۔ چارپائی بچھائی جائے۔ خادموں نے کہا آپ خود اپنا اسباب اتروائیں چار پائیاں بھی مل جائیں گی۔ دونوں مہمان اس بات پر رنجیدہ ہوگئے اور فوراً یکہ میں سوار ہوکر واپس روانہ ہوگئے۔ میں نے مولوی عبدالکریم صاحب سے یہ ذکر کیا تو مولوی صاحب فرمانے لگے جانے بھی دو ایسے جلد بازوں کو۔ حضورؑ کو اس واقعہ کا علم ہوا تو نہایت جلدی سے ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا بھی مشکل ہوگیا۔ حضورؑ ان کے پیچھے نہایت تیز قدم سے چل پڑے چند خدام بھی ہمرا ہ تھے مَیں بھی ساتھ تھا۔ نہر کے قریب پہنچ کر ان کا یکہ مل گیا اور حضور کو آتا دیکھ کر وہ یکہ سے اتر پڑے اور حضورؑ نے انہیں واپس چلنے کے لیے فرمایا کہ آپ کے واپس ہونے کا مجھے بہت درد پہنچا۔ چنانچہ وہ واپس آئے۔ حضور نے یکہ میں سوار ہونے کے لیے انہیں فرمایا، اور کہا میں ساتھ ساتھ چلتا ہوں مگر وہ شرمندہ تھے اور سوار نہ ہوئے۔ اس کے بعدمہمان خانہ میں پہنچے حضور نے خود ان کے بستر اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا مگر خدام نے اتار لیا۔ حضورؑ نے اسی وقت دونواری پلنگ منگوائے اور ان پر ان کے بستر کرائے اور ان سے پوچھا کہ آپ کیا کھائیں گے۔ اور خود ہی فرمایا کیونکہ اس طرف چاول کھائے جاتے ہیں۔ اور رات کو دودھ کے لیے پوچھا۔ غرضیکہ ان کی تمام ضروریات اپنے سامنے مہیا فرمائیں اور جب تک کھانا آیا وہیں ٹھہرے رہے اس کے بعد حضور ؑنے فرمایا کہ ایک شخص جو اتنی دور سے آتا ہے۔ راستہ کی تکالیف اور صعوبتیں برداشت کرتا ہے۔ یہاں پہنچ کر سمجھتا ہے کہ اب میں منزل پر پہنچ گیا۔ اگر یہاں آکر بھی اس کو وہی تکلیف ہوتو یقینا ًاس کی دل شکنی ہوگی۔ ہمارے دوستوں کو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس کے بعد جب تک وہ مہمان ٹھہرے رہے حضور کا یہ معمول تھا کہ روزانہ ایک گھنٹہ کے قریب ان کے پاس آکر بیٹھتے اور تقریر وغیرہ فرماتے۔ جب وہ واپس ہوئے تو صبح کا وقت تھا۔ حضور نے دو گلاس دودھ کے منگوائے اور انہیں فرمایا یہ پی لیجئے۔ اور نہر تک انہیں چھوڑنے کے لیے ساتھ گئے۔ راستہ میں گھڑی گھڑی ان سے فرماتے رہے کہ آپ تو مسافر ہیں آپ یکہ میں سوار ہولیں۔ مگر وہ سوار نہ ہوئے۔ نہر پر پہنچ کر انہیں سوار کراکر حضورؑ واپس تشریف لائے۔“ (اصحاب احمد جلد ۴صفحہ ۱۶۰-۱۶۱کمپوزڈ ایڈیشن)حضرت منشی ظفر احمد کپورتھلوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ”ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت سے آدمی آئے تھے جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا۔ ایک شخص نبی بخش نمبردار ساکن بٹالہ نے اندر سے لحاف بچھونے منگوانے شروع کیے اور مہمانوں کو دیتا رہا۔ عشاء کے بعد حضرت صاحب کی خدمت میں حاضرہوا تو آپ ؑ بغلوں میں ہاتھ دیئے بیٹھے تھے۔ اور ایک صاحبزادہ جو غالباً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓتھے پاس لیٹے تھے۔ اور ایک شتری چوغہ انہیں اوڑھا رکھا تھا۔ معلوم ہوا کہ آپ ؑ نے بھی اپنا لحاف بچھونا طلب کرنے پر مہمانوں کے لیے بھیج دیا۔ میں نے عرض کی کہ حضور ؑ کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہااور سردی بہت ہے۔ فرمانے لگے کہ مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ اور ہمارا کیا ہے رات گزر جائے گی …پھر میں مفتی فضل الرحمٰن صاحب یا کسی اور سے ٹھیک یاد نہیں رہا، لحاف بچھونا مانگ کر اُوپر لے گیا۔ آپ ؑ نے فرمایا: کسی اور مہمان کو دے دو۔ مجھے تو اکثر نیند بھی نہیں آیا کرتی۔ اور میرے اصرار پر بھی آپ ؑ نے نہ لیا اور فرمایا: کسی مہمان کو دے دو۔ پھر میں لے آیا۔“ (اصحاب احمد جلد ۴صفحہ ۱۸۰۔ کمپوزڈ ایڈیشن)حضرت عبدالرحمٰن بن ابی ابکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے چند لوگوں کی ضیافت کی اور عبدالرحمٰنؓ سے کہا: اپنے مہمانوں کا خیال رکھنا کیونکہ میں نبی ﷺ کے پاس جارہا ہوں۔ میرے آنے سے پہلے ان کی مہمانی سے فارغ ہوجانا۔ عبدالرحمٰنؓ گئے اور ان کے پاس ماحضر لائے اور کہنے لگے: کھانا کھالیں۔ انہوں نے کہا: صاحب خانہ کہاں ہیں؟ عبدالرحمٰنؓ نے کہا: آپ کھائیے۔ بولے: ہم تو نہیں کھائیں گے جب تک کہ ہمارے صاحب خانہ نہ آجائیں۔ عبدالرحمٰنؓ نے کہا: آپ ہم سے جو آپ کی مہمانی ہے قبول کیجئے کیونکہ اگر وہ آئے اور آپ نے کھانا نہ کھایا تو ہمیں ان سے ڈانٹ پڑے گی۔ انہوں نے نہ مانا اور میں سمجھا کہ حضرت ابوبکر ؓ مجھ پر ناراض ہوں گے۔ جب وہ آئے تو میں اُن سے ایک طرف ہوگیا۔ انہوں نے کہا: تم نے کیا کیا؟تو گھر والوں نے انہیں بتایا۔ حضرت ابوبکرؓ نے پکارا: عبدالرحمٰنؓ! میں خاموش ہو رہا۔ پھر انہوں نے کہا: عبدالرحمنؓ! پھر میں خاموش رہا۔ پھر کہنے لگے: ارے بیوقوف! میں تمہیں قسم دیتا ہوں اگر تم میری آواز سن رہے ہو تو ضرور ہی آجاؤ۔ میں سن کر باہر آیا۔ میں نے کہا: اپنے مہمانوں سے پوچھیئے۔ وہ کہنے لگے: حضرت عبدالرحمٰنؓ نے سچ کہا ہے۔ وہ ہمارے پاس کھانا لائے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے کہا: اچھا تم نے میرا انتظار کیا، اللہ کی قسم میں آج رات کھانا نہیں کھاؤں گااور دوسروں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم بھی کھانا نہیں کھائیں گے جب تک کہ آپؓ نہ کھائیں۔ حضرت ابوبکرؓ کہنے لگے: میں نے کبھی ایسی بُری رات نہیں دیکھی۔ تم پر افسوس! تم کیسے ہوتم ہم سے جو تمہاری مہمانی ہے قبول کیوں نہیں کرتے؟ اپنا کھانا لاؤ۔ چنانچہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے اپنا ہاتھ رکھا اور کہا: بسم اللہ، پہلی حالت شیطان کی تھی، اور حضرت ابوبکرؓ نے کھایااور مہمانوں نے بھی کھایا۔ (صحیح البخاری کتاب الأدب بَاب۸مَا یُکْرَہُ مِنَ الْغَضَبِ وَالْجَزَعِ عِنْدَ الضَّیْفِ حدیث:۶۱۴۰)مہمان کو چاہیے کہ کھانے کے بعد میزبان اور اُس کے گھر والوں کے لیے دعا کرے۔ یہ نبی کریم ﷺ کا مبارک طریق ہے۔ایک مرتبہ آپ ؐ نے اپنے میزبان کے لیے دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی کہ اللّٰھُمَّ بَارِکْ لَھُمْ فِیْ مَا رَزَقْتَھُمْ وَاغْفِرْلَھُمْ وَارْحَمْھُمْ (صحیح مسلم کتاب الاشربۃ باب: اسْتِحْبَابِ وَضْعِ النَّوی خَارِجَ التَّمْرِ وَاسْتِحْبَابِ دُعَاءِ الضَّیْفِ…حدیث:۳۷۹۱) اے اللہ !جو کچھ تونے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں ان کے لیے برکت ڈال دے۔ اور انہیں بخش دے۔ اور ان پر رحم فرما۔ مزید پڑھیں:مہمان نوازی بھی ایک اعلیٰ خُلق ہے