https://youtu.be/y6NUji6GH8A جلسہ سالانہ کے تیسرے اور آخری روزکا پہلا اور جلسہ سالانہ کا چوتھااجلاس۲۸؍جولائی ٹھیک صبح دس بجے شروع ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مغفور احمد صاحب امیر جماعت امریکہ نے کی۔ کارروائی کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا، مکرم محمود وردی صاحب نے سورۃ المومن کی آیات ۸ تا ۱۰ کی تلاوت اور اس کا اردو ترجمہ پیش کیا۔ مکرم حفیظ احمد صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کا منظوم کلام اپنے کرم سے بخش دے میرے خدا مجھے بیمارِ عشق ہوں ترا دے تو شفا مجھے کےچند اشعار خوش الحانی سے پڑھے۔ چوتھے اجلاس کی پہلی تقریر بعنوان ’’خلافت کے زیرِ سایہ ہمدردی اور اخوت کی اہمیت اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز صاحب چیئرمین انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیٹی برطانیہ نےکی۔ مکرم ڈاکٹر صاحب نے مندرجہ بالا عنوان پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بنی نوع انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی رسالت، نبوت اور اس کی کامل پیروی میں ظاہر ہونے والی خلافت، خلافت علیٰ منہاج النبوۃ ہے۔ اِسی نبوت کے ذریعہ انسان ہستی ٔباری تعالیٰ تک پہنچتا اور اس کی ربوبیت کو جانتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے وجود کے ذریعہ پیارا خدا اپنی عظیم صفات کی تجلّیات کو ظاہر کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں کہ یہ بھی یاد رہے کہ خدا کے وجود کا پتہ دینے والے انبیاء کرامؑ ہیں اگر یہ مقدس وجود دنیا میں نہ آتے تو صراطِ مستقیم کا پانا ایک ممتنع اورمحال امر تھا۔ خدا تعالیٰ کے پیارے انبیاءجہاں عشقِ الٰہی سے معمور ہوتے ہیں وہیں اللہ تعالیٰ انہیں ایسے دل عطا کرتا ہے جو مخلوق کی ہمدردی، شفقت اور محبت کا ایک ایسا گہرا سمندر لیے ہوئے ہوتے ہیں جس کا مقابلہ کوئی دنیاوی اور جسمانی تعلق نہیں کر سکتا حتیٰ کہ حقیقی والدین بھی اس جذبہ کو پا نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت جو ہر چیز پر حاوی ہے انبیاء اور مرسلین کے رُخصت ہو جانے کے بعد خلافت کے سلسلہ کو جاری کرتے ہوئے بنی نوع انسان کو ان فیوض و برکات سے مستفیض کرتی ہے۔ مقرر موصوف نے اِس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ جب کوئی نبی مبعوث فرماتا ہے تو اُس کے ذریعہ قائم ہونے والی جماعت کے افراد روحانی اخوّت و محبت و وحدت کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں۔ نبی کی برکت اور دعاؤں کے طفیل وہ ایک دوسرے کے خیر خواہ، دکھ سکھ کے ساتھی بن کر رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ کا مضمون پیش کرتے ہیں۔ محبت اور یگانگت کا یہی نقشہ اُس وقت بھی ظاہر ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ خلافت کے ذریعہ یہ روح مومنوں میں پھونکتا ہے۔ خلیفہ ٔوقت کی دعائیں، قوّتِ قدسیہ اور شفقت مومنین کے دلوں کومحبت اور یگانگت سے لبریز کر دیتی ہے اور اِس طرح خلیفۂ وقت کا وجود بھی ان مومنوں کی آرزوؤں اور تمنّاؤں کا مرکز بن جاتا ہے۔ خلیفہ وقت کے ایک اشارے پر یہ فدائی اپنا تن من دھن قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ آپ نے خلافت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے سورت آلِ عمران کی آیت نمبر ۱۰۴ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور اپنے اُوپر اُس کی نعمت کو یاد کرو جس نے تمہارے دلوں کو باندھ دیا اور تمہیں بھائی بھائی بنا دیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھائی چارے اور مساوات کی ایسی اعلیٰ تعلیم دی جس نے رنگ و نسل کے امتیاز کو پسِ پُشت ڈالتے ہوئے انسانیت کی اعلیٰ معراج کو قائم کیا۔ ’’ان العباد اخوۃ‘‘ کہ تم سب بھائی بھائی ہو، کا درس دیتے ہوئے حتیٰ کہ غلاموں کو بھی بھائی بنایا۔ اُن سے اعلیٰ سلوک کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ’’وَابْغُونِي فِی الضُّعَفَاءِ‘‘ یعنی مجھے کمزوروں اور غرباء میں تلاش کرو۔ آج اِسی امر کی ضرورت ہے کہ ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپﷺ کے صحابہؓ کے اُسوہ کو اپناتے ہوئے خلافت کی چھتری تلے اِس نظام کو فروغ دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد بھی اُسی آسمانی نظام کا حصہ ہے جو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے ذریعے اس دنیا میں جاری ہوا۔ یہ نظام امن، آشتی اورصلح جوئی کے ساتھ پیغامِ توحید کو عام کرنے والا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جب سلسلۂ بیعت شروع کیا تو اُسی وقت خلافت اور اس کے زیرِ سایہ ہمدردی اور اخوت کے بیج کو پروان چڑھایا۔ جس کے سایہ دار درخت کی چھاؤں میں آج ہم ہر طرح کا امن حاصل کررہے ہیں۔ مقررنے خلافت کے زیرِ سایہ ہمدردی اور اخوت کے پروان چڑھنے والے متعدد ایمان افروز واقعات بیان کیے۔ جنہوں نے سننے والوں کے دلوں میں ایمان کی حرارت بڑھانے کے ساتھ ساتھ خلیفہ وقت کے مومنین اور مومنین کے خلیفہ وقت کے ساتھ تعلق و وفا کو اُجاگر کیا۔ اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعودؓ کا ایک واقعہ بیان کیا۔ آپؓ نے فرمایا: ’’میں دیانت داری سے کہہ سکتا ہوں کہ لوگوں کے لیے جو اِخلاص میرے دل میں اس مقام پر ہونے کی وجہ سے ہے اور جو ہمدردی اور رحم میں اپنے دل میں پاتا ہوں وہ نہ باپ کو بیٹے سے ہے۔ نہ بیٹے کو باپ سے ہو سکتا ہے۔‘‘ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’جماعت احمدیہ کے افراد ہی وہ خوش قسمت ہیں جن کی فکر خلیفہٴ وقت کورہتی ہے۔ کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے ذاتی ہو یا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفۂ وقت کی نظر نہ ہو اس کے حل کے لیے وہ عملی کوشش کے ساتھ خدا کے حضوردعا کے لیے نہ جھکتا ہو۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشمِ تصور میں مَیں نہ پہنچتا ہوں۔ اور ان کے لیے سوتے میں بھی اور جاگتے میں بھی دعا نہ کرتا ہوں۔ ‘‘ اُمتِ مسلمہ کی موجودہ حالت پر نگاہ ڈالیں تو ایک غیر معمولی افتراق و انتشار، غربت و افلاس کے ساتھ ساتھ ذہنی پسماندگی نمایاں نظر آتی ہے۔ ایک گم گشتہ ریوڑ دکھائی دیتا ہے۔ جس کا کوئی پُرسان حال نہیں اور اس کی وجہ اس اُمتِ واحدہ کا حصہ نہ ہونا ہے جو الٰہی خلافت کی چھت اورسایہ کے نیچے قوموں کو نصیب ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں جماعت احمدیہ وہ خوش نصیب جماعت ہے جو خلافت کے زیرِ سایہ ایک وحدت کی لڑی میں پروئی ہوئی ہے۔ اس حبل اللہ کو تھامنے کے نتیجے میں اتحاد و اتفاق کی برکت ان کے ہم رکاب ہے۔ جس کی وجہ سے جماعت ہر جہت سے بے مثال ترقی کرتی چلی جا رہی ہے۔ گویا خلافت ہی فتح و ظفر کی بنیادی کلید ہے۔ مقرر موصوف نے اپنی تقریر کے اختتام پرسامعین کو تلقین کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم نے خلافت کی برکات کو سمیٹنا ہے اور اِس شجرِ سایہ دار کے اثمار سے حظ اٹھانا ہے تو ہمیں گہری نظر سے اپنے جائزے لینے ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کی اس نعمت کےہم کس حد تک قدردان ہیں، کس حد تک اِطاعت اور وفا کا مادہ ہم اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بجا لا کر خلیفہ وقت کی فرمانبرداری میں کس مقام پر ہیں۔ کیا ہم اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ تزکیۂ نفس اور تزکیہ ٔاموال میں ہمارا کیا مقام ہے۔ اگر ہم ان تمام امور کا خیال رکھ رہے ہیں۔ خلیفۂ وقت کے ساتھ اپنے تعلق کو دن بدن گہرا کررہے ہیں تو یقین رکھیں اللہ کے فضلوں کو ہم پربرسنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اس اجلاس کی دوسری دوسری تقریر مکرم ڈاکٹر فہیم یونس قریشی صاحب (نائب امیر جماعت احمدیہ امریکہ)کی انگریزی زبان میں تھی جس کا موضوع ’’عصر حاضر میں اللہ تعالیٰ کے وجود کے ثبوت‘‘تھا۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے کہا کہ اس تقریر کا مقصد ملحدین یا ناقدین کو قائل کرنا نہیں بلکہ دور حاضر کے ڈیجیٹل ( Digital) خلفشار میں والدین اور بچوں کے زندہ خدا کے وجود پر یقین کو مضبوط کرنا ہے۔ انہوں نے سامعین کو اللہ کی کتاب قرآن کریم کی طرف مدعو کیا تاکہ وہ عقل، سائنس، تاریخی واقعات اور ذاتی تجربات کے ذریعے خدا کودوبارہ تلاش کریں۔ مقرر نے قرآن کریم سے تین قصّے بیان کیے۔ ۱) فرعونِ مصر کی لاش قرآن کریم کہتا ہے کہ فرعونِ مصر کی لاش جس نے موسیٰ کا تعاقب کیا تھا۔ آئندہ نسلوں کے لیے نشانی کے طور پر محفوظ رہے گی۔( یونس : ۹۳) تین ہزار سال بعد ایک لاش جس کی شناخت Merneptah کے نام سے ہوئی اور ایک فرانسیسی ماہرِ مصر (French Egyptologist) وکٹر لوریٹ (Victor Loret) نے دریافت کی۔ یہ لاش اب قاہرہ کے نیشنل میوزیم آف ایجپشن سویلائزیشن ( National museum of Egyptian Civilization) میں محفوظ ہے۔ کوئی بھی مقدّس کتاب ایسا دعویٰ نہیں کرتی جس کی تصدیق آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے بھی کر دی ہو۔ ۲)مکھی کا نظام ہضم ابھی حال ہی میں سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ مکھی کے پاس ایک بیرونی ہضم کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہ ہضم کرنے والا مواد اپنے کھانے پر تھوکتی ہے۔ اور پھر اس کو نگلتی ہے یہ خاصیت 0.10% سے بھی کم جانداروں میں موجود ہے۔ ۱۴۰۰؍سال پہلے ایک امّی شخص یتیم کی طرف سے ظاہر ہونے والی یہ خبر کوئی اتفاق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ یہ مکھی سے چھین کر کھانا بھی واپس نہیں لے سکتے۔(الحج : ۷۴) ۳)مسیح کا زمانہ اور کتابوں کی اشاعت قرآن کریم ایک وقت کی طرف اشارہ کرتا ہے جب کتابیں پھیلا دی جائیں گی۔(التکویر:۱۱)قرآن کریم کی یہ پیشگوئی کہ مسیح کے زمانہ میں کتابیں پھیلا دی جائیں گی۔ آج ایک چھوٹے سے فون پر ہزاروں کتابیں محفوظ کی جا سکتی ہیں۔ اس طرح یہ پیش گوئی اس زمانہ سے ہم آہنگ ہے۔ ڈاکٹر فہیم صاحب نے بتایا کہ قرآن میں صرف یہ تین ہی پیشگوئیاں نہیں ہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ میں قرآن کے لیے ۳۰۰؍سے زائد دلائل دیے ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن ایک خدائی صحیفہ ہے۔ بگ بینگ ( Big Bang) سے لے کر تیزابی بارش اور سمندر کے درمیان رکاوٹ، ہر چیز کے جوڑے اور Nuclear Holocaust کا ذکر ہے اور یہ سب علم جدید کی دریافتوں سے پہلے کا ہے۔کیا یہ اتفاق ہے؟ ڈاکٹر فہیم یونس صاحب نے تین قرآنی آیات پیش کیں جو مستقبل کے واقعات کا اندازہ لگاتی ہیں۔ ۱) ماورائے زمین زندگی اگر چہ ہم نے ابھی ماورائے زمین زندگی کی دریافت نہیں کی۔ لیکن قرآن اس کے امکان کو ظاہر کرتا ہے جب سائنس اس کو پا لے گی تو وہ صرف اس بات کی تصدیق کرے گی جس کا قرآن پہلے ہی اعلان کر چکا ہے۔ ۲)۔ قرآن کی حفاظت:اے آئی ( AI) اور ڈیجیٹل (Digital) کے غلط معلوماتی دور میں جعلی قرآنی آیات سامنےآ سکتی ہیں۔ لیکن قرآن اپنی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے اور کسی اور الہامی کتاب میں ایسا کوئی وعدہ نہیں۔ ۳)۔ وفات مسیح:قرآن واضح طور پر کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔(آل عمران : ۵۶)ان کے جسمانی نزول کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیشین گوئی کی تھی کہ کوئی بھی عیسیٰ کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا۔ ان کی اولاد در اولاد اس واقعہ کو دیکھے بغیر مر جائے گی۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں کئی دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں۔تاہم اس کے بعد مقرر نے اس بات پر زور دیا کہ یہ جاننے کے لیے کہ خدا موجود ہے ہمیں اس کا تجربہ کرنا چاہیے۔ لیکن یہ تجربہ تکبر نہیں بلکہ عاجزی کا تقاضا کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آئینہ کمالات اسلام میں پیش کردہ اصول کو بیان کیا کہ فقیر بننا پڑے گا۔ فنا بقا لقا کے مراتب حاصل کرنے ہوں گے۔ ڈاکٹر فہیم یونس صاحب نے کہا کہ آنحضرت ﷺ غیر معمولی عاجزی کے ساتھ دعا کرتے ہیں’’میں ایک بد حال فقیر اور محتاج ہی تو ہوں۔ تیری پناہ اور مدد کا طالب، اپنے گناہوں کا اقراری اور معترف ہو کر تیرے پاس چلا آیا ہوں۔ میں تجھ سے ایک عاجز مسکین کی طرح سوال کرتا ہوں۔ ایک اندھے نابینا کی طرح ٹھوکروں سے خوفزدہ تجھ سے دعا کرتا ہوں۔ میری گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے اور میرے آنسو تیرے حضور بہ رہے ہیں… اے وہ جو سب سے بڑھ کر التجاؤں کو قبول کرتا ہے اور سب سے بہتر عطا فرمانے والا ہے میری دعا قبول کر لینا۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اللہ کے ہاں دعائیں کی ریجیکشن اس طرح نہیں جیسے اپ کی شوسل میڈی پر ریجیکشن ہوتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ چپک جانے والا فقیر بخیل انسان سے بھی کچھ نکلوا لیتا ہے۔ پھر اللہ تو رحیم کریم خدا ہے۔ ہمارے نوجوان پوچھتے ہیں کہ اگر خدا موجود ہے تو وہ غزہ جیسی جگہ پر معصوم بچوں کو اذیّت میں مبتلا کیوں ہونے دیتا ہے ؟ ان کی دعا کیوں قبول نہیں ہوتی ؟ اس طرح کے ظلم سے مجرم کیسے بچ سکتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے بچوں کو دفن کیا۔ درد خدا کے وجود کی نفی نہیں کرتا بلکہ یہ آزمائشوں کی حقیقت کی تصدیق کرتا ہے حضورؐ نے ان بچوں کو شہید کہا ہےاور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کے بارے میں یہ مت کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن آپ کو اس کا علم نہیں۔ یقین رکھیں کوئی بھی کسی چیز سے بچ نہیں سکتا۔ خدا نے وعدہ کیا ہے کہ تمام ناانصافیوں کا حساب لیا جائے گا۔’’ یقیناً ہماری طرف ان کی واپسی ہے اور یقیناً ہم نے ان سے حساب لینا ہے۔ ‘‘(الغاشیہ : ۲۵-۲۶) اس کے بعد ڈاکٹر فہیم یونس صاحب نے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے تین طریقے بتائے۔ ۱) عاجزی:انا کو دور کریں دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کریں۔ ۲) استقامت:دھرنا مارنا پڑتا ہے۔ سائنسدان 40 سال انتظار کرتے ہیں حضرت یعقوب نے حضرت یوسف کے لیے چالیس سال دعا کی۔خدا کے دروازے پر دستک دیتے رہیں۔ تہجد میں وقت گزاریں۔ ۳) یقین:حدیث قدسی میں ہے کہ میں وہی ہوں جیسا میرا بندہ میرے بارے میں گمان کرتا ہے۔ مقرر نے حضرت مسیح موعودؑ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب انسان کے اندر غیر معمولی تبدیلی واقعہ ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیر معمولی طاقت دکھاتا ہے۔ یہ نسخے کام کرتے ہیں اور اس کی زندہ مثالیں موجود ہیں۔ آج لاکھوں لوگ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کی دعاؤں کی قبولیت کی گواہی دیتے ہیں جو خدا کے وجود کا زندہ ثبوت ہے۔ اس کے بعد مقرر نے گھانا میں زلزلہ کا نشان بیان کیا۔ جہاں زلزلہ انا قریبا ًناممکن ہے۔ آخر میں ڈاکٹر فہیم یونس صاحب سوال پوچھتے ہیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہم دولت، خود پسندی اور شہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ لیکن دل کا سکون نہیں ملتا۔ قرآن ہم سے پوچھتا ہے کہ کہاں جا رہے ہو۔ اس کے برعکس اللہ کی محبت کے نتیجہ میں حقیقی اطمینان، عزّت اور بے خوفی حاصل ہوتی ہے۔ دلوں کو سکون ملتا ہے۔ یہ محبت ہم کو پاک کرتی ہے۔ شکایتیں کرنے کی بجائے اللہ سے محبت کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ لوگ خود بخود فرشتوں کے کہنے پر تمہاری طرف چلے آئیں گے۔فقیر بنیں کیونکہ اللہ کے دروازے پر گڑگڑانے والا کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ ٭…٭…٭ اس کے بعد مکرم طاہر احمد خالد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا درج ذیل منظوم کلام پیش کیا: اِک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی جو نور کی ہر مشعل ظلمات پہ وار آئی اجلاس کی تقریر مکرم ہادی علی چودھری صاحب (مربی سلسلہ و نائب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا) نے ’’بین المذاہب ہم آہنگی کے قیام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک اسوہ‘‘کے موضوع پر کی۔ مکرم مولانا صاحب نے اپنی تقریر کے آغاز میں تین آیات کی تلاوت کی۔ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن سے جوانی تک کے چیدہ چیدہ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف پہلوؤں محبت،اخوت انسانی ہمدردی اور حکمت عملی کا ذکر کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی استثنا کے تمام انبیاء اور رسولوں پراور ان کی کتابوں پر ایمان لانا ارکان اسلام میں شامل فرما دیا۔ پس یہ دنیا میں امن و امان قائم رکھنے اور دنیا کو ہم آہنگ کرنے کی ایک بنیادی اکائی ہے۔ مولانا صاحب نےسورت آل عمران کی آیت ۸۵ اور ۸۶ پیش کر کے ثابت کیا کہ دین الٰہی اسلام ہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اسوہ کے ساتھ دنیا میں اپنے عالمی پیغام اور ابدی سچائی کے ساتھ نافذ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺکو دیگر تمام انبیاء علیہم السلام پر ایک فضیلت یہ بھی عطا فرمائی تھی کہ آپ ﷺکو تمام تر خلق خدا کی طرف بھیجا گیا تھا یہ اس لیے بھی تھا کہ رسول اللہﷺ کے ذریعہ تمام انبیاء علیہم السلام کی امتوں کو یکجا کیا جانا تھا۔ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ تمام مذاہب اسلام میں ہیں اور اسلام دنیا کے تمام مذاہب میں ہے۔ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم امن و آشتی، ہم آہنگی اور یکجہتی کا یہ تاکیدی پیغام لے کر آئے تھے کہ جو اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہے اس کو بلا استثنا تمام نبیوں پر اور ان پر نازل ہونے والے کلام پر ایمان لانا ضروری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ آپؐ انفرادی طور پر قبائل کو اور بعض لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچاتے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے مختلف بادشاہوں اور روٴساء کو خطوط لکھے۔ آپ ﷺنے ہر ایک کو اسلام کی دعوت دی اور اس دعوت میں آپﷺ نے نہ کبھی جارحیت سے کام لیا اور نہ جبر سے۔آپﷺ نے ہر مذہب و ملت کے شعائر کی حفاظت کے لیے معاہدے کیے اور ان کی حفاظت کی قطعی ضمانت دی۔ میثاق مدینہ بین القبائل، بین الاقوام اور بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک مثال ہے۔ ہجرت کے بعد سب سے پہلے آپ ﷺ نے انصار اور مہاجرین میں مواخات قائم کی اور بھائی چارے کا معاشرہ قائم کیا۔ اس کے بعد مدینہ کے تین یہودی قبائل اور دو غیر یہودی قبائل کو جمہوری معاہدے میں باندھ دیا۔ جس میں دین و مذہب میں ہر فرد آزاد ہوگا کسی کو ایک دوسرے کے مذہب میں دخل اندازی کی اجازت نہ ہوگی۔ مذہبی لحاظ سے وہ آزاد ہے لیکن معاشرتی، قومی اور قبائلی لحاظ سے وہ اُمّت واحدہ ہیں۔چھ قوموں میں ہم آہنگی کا یہ کیا ہی عظیم الشان پیغام ہے اور مذہبی رواداری کا کیا ہی خوبصورت قانون ہے۔ آپ نے جنگی حالت کے دوران بھی مذہبی عبادت گاہوں یا مذہبی لیڈروں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ محترم ہادی علی صاحب نے سورۃ المائدۃ کی ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دو قوموں کے درمیان جھگڑوں کو مٹانے کے لیے جو لائحہ عمل دیا ہے وہ لیگ آف نیشن کی طرح کا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ فیصلہ انصاف پر مبنی ہو اور جانب داریاں شامل نہ ہوں۔ آخر میں مولانا صاحب نے قران کریم کی یہ آیت ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَدِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ الٰہی تقدیر ہے اور اسلام میں یہ طاقت اور صلاحیت ہے کہ وہ دیگر ادیان کو اپنی غالب وسعتوں کی وجہ سے اپنے اندر سمو سکتا ہے۔ مولانا صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اقتباس کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت میں ھُدیٰ کا لفظ انسان کی اندرونی روشنی اور اصلاح کی طرف اشارہ کرتا ہے اور حق کا لفظ خارجی طور پر باطل کو شکست دینے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعنی اس رسول کی آمد کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حق کو غلبہ دے گا اور یہ غلبہ تلوار سے نہیں بلکہ منطق اور دلائل سے ہوگا۔ اب اگر دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے تو قرآن کریم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اسوہ پر عمل کر کے ہی ہو سکتا ہے اور اس زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسیح و مہدی اور ان کے مقدّس خلفاء کی تعلیمات اور ان کی ہدایات پر عمل کرنے سے ہی دنیا میں امن و آشتی کا قیام ہو سکتا ہے۔ آپ نے اپنی تقریر کا اختتام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر سے کیا۔؎ صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار ٭…٭…٭ اجلاس کی آخری تقریر مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ نے انگریزی زبان میں کی۔ آپ نے اپنی تقریر کا آغاز اس بات کے اعتراف سے کیا کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی میں خلافت ایک روحانی اور الٰہی ادارہ ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد قائم کیا تھا تاکہ ان کے ایمان کو زندہ کرنے، انسان کو خدا سے جوڑنے اور امن قائم کرنے کے مشن کو جاری رکھا جا سکے۔ ۱۹۰۸ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انتقال ہوا اور حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے خلیفہ منتخب ہوئے تو آپ نے جماعت کے بکھرنے کے خطرے کو ٹالتے ہوئے اتحاد، حکمت اور روحانی قیادت فراہم کی۔ محدود وسائل کے باوجود انہوں نے دنیا بھر میں پیغام پھیلانے کے لیے خطوط اور مبلغین بھیج کر جماعت کی عالمی سطح پر رسائی کی طرف پہلا قدم اٹھایا۔ ۱۹۱۴ء میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف ۲۵ سال کی عمر میں خلیفہ ثانی منتخب ہوئے۔ کچھ لوگوں کو ان کی عمر اور قابلیت پر شک تھا لیکن جلد ہی آپ نے یہ ثابت کیا کہ وہ کوئی عام راہنما نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت سے آپ تاریخ اسلام کے سب سے زیادہ بصیرت والے اور متحرک خلفاء میں شامل ہو گئے اور جماعت کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیےجماعت کو مختلف تنظیموں میں بانٹ دیا۔ آپؓ نے پاکستان کی آزادی کی جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مقرر نے یاد دلایا کہ ۱۹۲۴ء میں لندن میں عالمی مذاہب کانفرنس میں آپ نے ایک یادگار خطاب کے بعد لندن کے قلب میں مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد رکھا۔ جو یورپ کی سب سے اہم مساجد میں سے ایک ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا یہ ویژن کہ مغرب میں ایک روحانی قلعہ قائم کیا جائے ایک پیش گوئی ثابت ہوئی اور اس نے مستقبل میں خلافت کی ہجرت اور عالمگیریت کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد امیر صاحب نے حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے ایک عظیم الشان کارنامے کا ذکر کیا جوتقسیم ہند کے بعد جماعت کے مرکز ربوہ پاکستان کا قیام ہے۔ جو ایک بنجر زمین سے ایک پھلتے پھولتے شہر میں تبدیل ہو گیا اور جلسہ سالانہ میں شاملین کی تعداد بڑھتے بڑھتے ۱۹۸۳ء کے آخری جلسہ میں ۲لاکھ ۷۵ ہزار تک پہنچ گئی۔ جو خلافت کے ذریعہ اتحاد اور خلیفہ کی روحانی مقناطیسی کشش کی غمازی کرتی ہے۔ ۱۹۶۵ء میں حضرت مرزا ناصر احمدؒ تیسرے خلیفہ منتخب ہوئے۔ آپ نے بڑھتی ہوئی مخالفت کا سامنا کیا اور پاکستان کی گورنمنٹ کو خبردار کیا۔ ’’اگر آج آپ ہمیں غیر مسلم قرار دیں گے تو کل آپ کی نظر میں کوئی بھی مسلمان نہیں رہے گا ‘‘ جو بعد میں سچ ثابت ہوا۔ مکرم امیر صاحب نے جماعت بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے مخالفتوں کے باوجود انسانی ہمدردی کی کوششوں کو وسعت دی۔ نصرت جہاں اسکیم کا آغاز کیا۔ جس نے افریقہ میں سکول اور ہسپتال قائم کیے اور سپین میں۷۰۰ سال بعد پہلی مسجد کی بنیاد رکھی۔آپ نے جماعت کو یہ نعرہ دیا: ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ امیر صاحب نے جماعت احمدیہ کی روز افرُوں ترقی اور مخالفت کی تاریخ کا ذکر جاری رکھتے ہوئے خلافت رابعہ کا ذکر کیا۔ ۱۹۸۲ء میں حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ چوتھے خلیفہ منتخب ہوئے۔ ۱۹۸۴ء میں ضیاء الحق کی حکومت کے ظالمانہ آرڈیننس کے نفاذ کے بعد آپ نے لندن ہجرت کرنے کا اہم فیصلہ کیا اور مسجد فضل کو جماعت کا بین الاقوامی مرکز بنا دیا۔ ہیومینٹی فرسٹ کی بنیاد رکھی جو آج ۶۰ سے زائد ممالک میں سرگرم ایک عالمی فلاحی تنظیم ہے۔ آپ نے نوجوانوں کی تربیت پر توجہ دی اور وقف نو کی سکیم جاری کی۔ جس میں والدین کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی کہ وہ بچوں کو اسلام کی خدمت کے لیے وقف کریں۔ مسلم ٹیلیویژن احمدیہ (MTA) کا آغاز کیا گیا۔ جو دنیا کا پہلا ۷۔۲۴ اسلامی سیٹیلائٹ ٹی وی چینل ہے۔ اپریل ۲۰۰۳ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پانچویں خلیفہ منتخب ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے مقرر نے بتایا کہ آپ نے سب سے پہلے بیت الفتوح کا افتتاح کیا جو اب مغربی یورپ کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔ آپ کی راہنمائی اور قیادت میں جماعت کی ترقی میں بہت اضافہ ہوا۔ مثلاً ایم ٹی اے نے متعدد چینل کی توسیع کی۔ مختلف زبانوں میں نشریات جاری ہوگئیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ امن اور انصاف کے سفیر بن چکے ہیں۔ برطانیہ یورپی پارلیمنٹ اور امریکی کانگریس جیسی پارلیمانوں سے خطاب کرتے ہوئے عالمی جنگوں اور عالمی نا انصافی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے خبردار کر رہے ہیں۔ عالمی راہنماؤں کو ان کے خطوط میں مسلسل انصاف مساوات اور تخفیف اسلحہ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ عالمی سطح پر صاف پانی کی فراہمی، قدرتی آفات سے نجات اور طبی امداد فراہم کرتے ہوئے دور دراز علاقوں میں ماڈل ولیجز، سکول اور ہسپتال بنائے گئے۔ جماعت نے قرآن پاک کا ۷۰ زمانوں میں ترجمہ مکمل کیا۔ مبلغین کی تربیت کے لیے عالمی سطح پر جامعہ احمدیہ قائم کیے گئے۔ ہزاروں مساجد دنیا کے مختلف ممالک میں تعمیر کی گئیں جو امن اور اتحاد کی علامت ہیں۔ دنیا کے راہنما اب احمدیت کو ’’ایسا اسلام جس کی ہمیں ضرورت ہے۔‘‘کے طور پر دیکھتے ہیں۔ خلافت کی راہنمائی میں جماعت ایک عالمی خاندان بن چکی ہے جو راست بازی، نظم و ضبط، خدمت اور امن کی مثال ہے۔ دنیا میں مظالم بڑھ رہے ہیں۔ حضورایدہ اللہ انصاف اور فوری امن کا مطالبہ کرتے ہیں اور جماعت کو دعا کی تلقین کرتے ہیں۔ امیر صاحب نے اپنی تقریر کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ خلافت احمدیہ کا نظام جو قادیان کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے شروع ہوا تھا اب اسلام کے پرامن پیغام کو ہر براعظم تک پھیلا رہا ہے۔ یہ قیادت سیاست یا طاقت سے نہیں بلکہ دعا،قربانی اور الہٰی نصرت سے جنم لیتی ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد خلافت کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہوتے ہیں۔ امیر صاحب نے آخر پر زور دیا کہ بے شک ہم نے بہت ترقی کر لی ہے لیکن ہماری اصل کامیابی ہمارا اللہ تعالیٰ سے ذاتی مضبوط تعلق ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ سے سوال پوچھنا چاہیے کہ کیا میرا اپنے خالق سے رشتہ مضبوط ہے؟ کیا میں حضرت مسیح موعودؑ کے مشن کو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں؟ کیا ہم قول و فعل میں خلافت کی پیروی کرتے ہیں؟ امیر صاحب نے احباب جماعت کو دعوت دی کہ آئیے ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کریں۔ ہم یہ عہد کریں کہ ہم اپنے گھروں میں اسلام کی خوبصورت تعلیم پر عمل کریں گے اور اپنی آنے والی نسلوں میں خلافت کی شمع کو روشن رکھیں گے۔ خدا کرے کہ ہمارا شمار ان لوگوں میں ہو جو بنی نوع کو اپنے خالق اور ایک دوسرے کے ساتھ ملانے والے ہوں۔ آمین ٭…٭…٭