https://youtu.be/arvgo_K2Qu4 (صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات کی روشنی میں) یہ سنت اللہ ہے کہ مامور من اللہ ستائے جاتے ہیں۔ دُکھ دئیے جاتے ہیں۔ مشکل پر مشکل اُن کے سامنے آتی ہے نہ اس لئے کہ وہ ہلاک ہو جائیں بلکہ اس لئے کہ نصرت الٰہی کو جذب کریں۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی مکی زندگی کا زمانہ مدنی زندگی کے بالمقابل دراز ہے۔ چنانچہ مکہ میں ۱۳ برس گزرے اور مدینہ میں دس برس (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) متمدّن دنیا اور متمول قوموں سے بہت دُور واقع اس بستی میں بظاہر کچھ بھی نہیں تھا، وہاں نہ تو لہلہاتے کھیت تھے، نہ بلند و بالا عمارتیں، نہ تو کوئی وسیع و عریض باغات تھے اور نہ ہی عظیم الشان کتب خانے۔ صرف ایک صحراتھا جو تاحدِّ نگاہ پھیلا ہوا تھا یا پتھریلی زمین تھی جو سورج کی تپش میں اور بھی زیادہ گرم ہو جایا کرتی تھی۔ بستی کے مکینوں کی زندگی بہت سادہ تھی۔ رہائش کے لیے مکانوں کے نام پر مٹی اور کھجورکی شاخوں سے بنی جھونپڑیاں تھیں اور خوراک کے لیے چند ایک بنیادی غذائیں دستیاب تھیں اور ان کا مہیا ہونا بھی قافلوں کی آمد پر منحصر ہوا کرتا تھا۔ یہ مکہ کی سرزمین تھی جہاں کی مٹی اگرچہ خشک تھی،مگر مکینوں کی غیرت و حمیت ہمیشہ تروتازہ رہتی تھی۔ مکہ اور اس کے گرد و نواح میں بسنے والی یہ عرب قوم آزاد طبیعت کی مالک تھی اور اپنے قبائلی رسم و رواج پر فخر کرتے ہوئے وہ اپنے لیے کسی کے زیرنگیں ہونا یا غلامی کا لفظ سننا بھی گوارا نہ کرتی تھی۔یہ وہ لوگ تھے جو کسی غیرکی حکمرانی کو اپنے لیے توہین سمجھتے تھے، جن کی تلواریں اپنی غیرت کے لیے بہت جلد نیام سے باہر نکل آتی تھیں اور پھر چاہے جو بھی قربانی دینی پڑے وہ اپنی آزادی کی قیمت کے طور پر وہ قربانی دیا کرتے تھے۔ اس قوم کو مطیع اور فرمانبردار بنانے یا زیر کرنے کے لیے نہ تو تلوار کارگر تھی، نہ خزانے۔ ان کے سامنے نہ کوئی دھونس کام آتی تھی اور نہ ہی کسی قسم کی دھمکیاں ان کے خیالات میں کوئی تبدیلی پیدا کر سکتی تھیں۔ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں: ’’ وہ کسی کی اطاعت کرنا حتی الوسع عار جانتی تھی اور اسی لیے کسی ایک بادشاہ کے ماتحت رہنا انہیں گوارہ نہ تھا بلکہ قبائل کے سردار عوام سے مشورہ لے کر کام کرتے تھے۔یہاں تک کہ قیصر و کسرٰی کی حکومتیں ان کے دونوں طرف پھیلی ہوئی تھیں لیکن ان کی وحشت اور آزادی کی محبت کو دیکھ کر وہ بھی عرب کو فتح کرنے کا خیال نہ کرتی تھیں۔‘‘(سیرت النبیؐ از حضرت مصلح موعودؓ جلد ۱ صفحہ ۶۵) لیکن پھر اسی سرزمین پر موجود لوگوں پر ایک ایسا وقت بھی آیا، جب اسی وادی میں اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایک عظیم الشان ہستی پیدا ہوئی۔ وہ نبی آخر الزمانؐ مبعوث ہوئے جو تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آ رہے تھے۔ صدق و صفا کے پیکراس پاک وجود کے ہاتھ میں نہ توکوئی تلوار تھی اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی فوج یا لشکر تھا۔اس کے پاس اگر کچھ تھا تو محض محبت اور سچائی کا ایک پیغام تھا اور اس خوبصورت پیغام کو دنیا تک پہنچانے کے لیے وہ عظیم الشان عزم و ہمت تھا جو پہاڑوں سے بھی بلند تھا۔ وہ تڑپ تھی، وہ اندھیری راتوں کی دعائیں تھیں جنہوں نے نہ صرف اس علاقے میں بلکہ تمام دنیا میں ایک انقلاب عظیم برپا کرنا تھا۔ وہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ تھےجنہوں نے اس قوم کو صرف یہ پیغام دیا کہ تمہارا خالق و مالک خدا ایک ہےاور یہ کہ انسان کی اصل آزادی اور فلاح و بہبود صرف اللہ کی بندگی میں ہے۔ یہ پیغام گو سادہ تھا، مگر اس کے معنی گہرے تھےیعنی: اب تمہیں خدا کے سوا کسی کے سامنے جھکنے کی ضرورت نہیں۔اور یوں اس قوم کے سعید فطرت لوگ جن کی رگوں میں آزادی کا خون دوڑتا تھا، اس پیغام کی طرف کھنچے چلے آنے لگے۔ وہ جان گئے تھے کہ اگر ہمیں حقیقت میں کسی کی بندگی کرنی ہے کسی کے سامنے سر جھکانا ہے کسی کے دربار پر سجدہ کرنا ہے تو وہ صرف اس ذات کی بندگی ہے جو سب کا خالق ہے اور اسی کے لیے ہماراجینا اور مرنا ہونا چاہیے۔ لیکن یہ راستہ آسان نہیں تھا۔ جنہوں نے اس پیغام کو قبول کیا، ان پر مخالفین کی طرف سے گویا ظلم کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ان کے جسموں کو کوڑوں سے زخمی کیا گیا، ان کو تپتی ریت پر گھسیٹا گیا، جلتے انگاروں پر لٹایا گیا مگر ان کے دلوں سے ایمان کی روشنی نہ چھینی جا سکی۔ ان کے زخموں سے جو درد نکلا، وہی ان کے لیے دوا بن گیا۔وہ اصحاب اس حقیقت کو جان چکے تھے کہ یہ قربانی جو وہ پیش کر رہے ہیں، وہ کسی وقتی مقصد کے لیے نہیں ہےبلکہ ابدی عظمتوں اور رفعتوں کے لیے ہے۔ ان حالات و واقعات نے دنیا کے سامنے ایک دائمی گواہی بھی قائم فرمادی کہ اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا، بلکہ دلوں کو جیت کر پھیلا ہے۔ وہی دل جو کل تک کسی سردار کے حکم کے آگے نہ جھکے تھے، آج ایک نبی کے قدموں میں خاک بن کر بچھنے کو تیار تھے، اس لیے نہیں کہ وہ مجبور تھے، بلکہ اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت سے سرشار ہو چکے تھے۔مکی دور کے تیرہ سال میں ہر صبح ایک نئی آزمائش لے کر آتی تھی اور ہر رات ایک نئے صبر کی گواہی چھوڑ کر جاتی تھی۔ آزمائش۔ راہ حق کی پہلی قیمت اس قربانی اورایثار کا آغاز اُس وقت ہوا جب اسلام اور قرآن کریم کی تعلیم کو علی الاعلان قریش مکہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ایک مرتبہ اصحاب رسولؐ آپس میں یہ بات کررہے تھےکہ قریش نے بلند آواز میں تلاوت کبھی نہیں سنی۔کیا ہم میں سے کوئی ہے جو ان کو کلام الٰہی میں سے کچھ سنا سکے؟حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کام کے لیے تیار ہوں۔اصحاب نے انہیں کہا کہ آپ تو مزدور آدمی ہیں ہمیں ڈر ہے کہ قریش آپ کو بہت تکلیف پہنچائیں گے۔حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے بڑے یقین کے ساتھ کہا کہ آپ لوگ فکر نہ کریں مجھے اللہ تعالیٰ خود بچائے گا۔ چنانچہ اگلے روز انہوں نےمقام ابراہیم پہنچ کر بلند آواز میں قرآن کریم کی تلاوت شروع کی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اَلرَّحْمٰنُ۔ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۔قریش اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے یہ کلمات سنے تو حیران ہوئے اور کہا کہ یہ تو وہی کلام ہے جو محمد بیان کرتے ہیں۔وہ دوڑتے ہوئے آپ کے پاس آئے اور آپ کو زور سے پکڑ کر مارنے لگے۔مگر آپ کا یہ حال تھا کہ آپ تلاوت کرنے سے رکے نہیں اور تلاوت مکمل کرکے زخمی حالت میں واپس لوٹے۔ اصحاب نے جب آپ کی یہ حالت دیکھی تو انہوں نے کہا ہم نے تو پہلے ہی آپ کو خبردار کیا تھا۔اس پر آپ نے ان سے کہا کہ ’’آج یہ خدا کے دشمن مجھے اتنے حقیر لگے جتنے کبھی نہ تھے۔ اگر تم کہو تو کل میں پھر تلاوت کے لیے جاؤں گا۔‘‘(اسد الغابہ جلد ۳ صفحہ ۳۸۳) پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس تکلیف پر صبر کرنےاور قرآن کریم سے اس محبت کے نتیجے میں ایسا نوازا اور قرآن کریم کے علوم و معارف آپ پر اس طرح سے کھولے کہ رسول کریمﷺ نے مسلمانوں کو یہ ہدایت دی کہ اگر تم میں سے کوئی قرآن کریم سیکھنا چاہتاہو تو وہ عبداللہ بن مسعود سے سیکھے۔ یہ مخالفت کوئی نئی بات نہیں تھی۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی فرستادہ کو دنیا میں کھڑا کیا،ابتدا میں ہمیشہ انہیں اوران کے ماننے والوں کو ابلیس صفت لوگوں کی طرف سے شدید تکلیف اور ظلم کا سامنا کرنا پڑا۔اللہ تعالیٰ مومنوں کو آزمائش میں ڈالتا ہےجس پر صبر کرنے کے نتیجے میں وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں اور نعمتوں کو کھینچنے والے ہوتے ہیں۔ قرآن کریم اس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے کہاَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ۔(العنکبوت:۳)کیا لوگ یہ گمان کر بیٹھے ہیں کہ یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لے آئے وہ چھوڑ دیئے جائیں گے اور آزمائے نہیں جائیں گے؟ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’ پس ایمان کے بعد ضروری ہے کہ انسان دکھ اُٹھا وے بغیر اس کے ایمان کا کچھ مزا ہی نہیں ملتا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو کیا کیا مشکلات پیش آئیں اور انہوں نے کیا کیا دکھ اُٹھائے۔آخر ان کے صبر پر اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑے بڑے مدارج اور مراتب عالیہ عطا کئے۔انسان جلد بازی کرتا ہے اور ابتلا آتا ہے تو اس کو دیکھ کر گھبرا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ دنیا ہی رہتی ہے اور نہ دین ہی رہتا ہے مگر جو صبر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہوتا ہے اور ان پر انعام واکرام کرتا ہے۔ اس لیے کسی ابتلا پر گھبرانا نہیں چاہیے۔ابتلا مومن کو اللہ تعالیٰ کے اور بھی قریب کردیتا ہے اور اس کی وفاداری کو مستحکم بناتا ہے لیکن کچے اور غدار کو الگ کر دیتا ہے۔‘‘ (الحکم جلد۷نمبر ۳۱مورخه ۲۴ اگست ۱۹۰۳ء صفحه۴ بحوالہ ملفوظات جلد۵ صفحہ ۲۴۲، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) جان پر جان وارتے جاؤ گو مکی دور میں قریش کی طرف سے خود رسول کریمؐ کو بھی بڑی اذیت پہنچائی گئی لیکن جو تکلیف آپ کے صحابہ اور صحابیات کو پہنچائی جاتی تھی وہ بھی آپؐ کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’حضرت کے اوپر جو ظلم ہوتا تھا اُسے جس طرح بن پڑتا تھا وہ برداشت کرتے تھے مگر اپنے رفیقوں کی مصیبت دیکھ کر اُن کا دل ہاتھ سے نکل جاتا تھا اور بیتاب ہو جاتا تھا۔‘‘(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۵۸) مگر ان سب مشکلات کے ہوتے ہوئے بھی رسول کریمﷺ انہیں صبر کی ہی تلقین فرماتے رہے اور ان کے لیے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے رہے۔چنانچہ اوّلین اصحاب میں ایک حضرت خبابؓ بھی تھے۔آپ مکہ میں لوہار تھے۔اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کو قریش کی طرف سے بڑی تکالیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔آپ بیان کرتے ہیں کہ عاص بن وائل کے ذمہ میرا کچھ قرض ادا کرنا تھا۔ایک دن جب میں نے اس سے قرض طلب کیا تو اس نے دینے سے انکار کردیااور کہا کہ میں تب تک تمہارا قرض نہیں دوں گا جب تک تم محمد کا انکار نہیں کرد یتے۔ حضرت خبابؓ نے اس پر کہا کہ خواہ تم قرض ادا کرو یا نہ کرو میں ہرگز محمد ﷺ کا انکار نہیں کروں گا۔ لیکن ان کفار مکہ نے جب دیکھا کہ یہ لوگ باز نہیں آرہے اور ان کی بات کو قبول نہیں کر رہے تو وہ آپ کو جسمانی اذیت پہنچانے لگے۔ایک مرتبہ آپ کو جلتے ہوئے کوئلوں پر لٹا دیا گیااور ایک شخص آپ کے اوپر کھڑا ہوگیا تاکہ آپ ہل نہ سکیں،چنانچہ وہ تب تک نہ اٹھا جب تک کہ وہ کوئلے آپ کے جسم پر جل کرٹھنڈے نہ ہوگئے۔(الطبقات الکبریٰ جلد ۳ صفحہ۱۲۳، ۱۷۱مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت ۱۹۹۰ء) ایک مرتبہ انہیں تکلیفوں اور مصیبتوں کے دوران حضرت خباب حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے۔حضور ایک طرف ایک دیوار کے سایہ میں بیٹھے تھے۔ آپ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں کریں گے؟ اس قوم نے تو ظلم کی حد کر دی ہےاور ہمیں اب یہ ڈر ہے کہ کہیں یہ ہمیں ہمارےدین سے ہی منحرف نہ کر دیں۔آنحضرتؐ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔خبابؓ کہتے ہیں کہ میں نے دوسری دفعہ پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں کریں گے؟ حضورؐ نے پھر کوئی جواب نہیں دیا تیسری دفعہ عرض کیا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ کے بندے!اللہ کا تقویٰ اختیار کر و، صبر کرو اور صبر پر قدم مارتے چلے جاؤ۔خدا کی قسم ! تم سے پہلے بھی خدا کے بندے گزرے ہیں جن کے سر کے درمیان سے آرے چلا کر ان کے جسموں کو دو ٹکڑے کر دیا گیا مگر وہ اپنے ایمان سے پیچھے نہ ہٹے۔ان میں سے ایسے بھی تھے کہ لوہے کی گرم کنگھیوں سے ان کے جسم کا گوشت ان کی ہڈیوں سے نوچ لیا گیا۔مگر خدا کے ان بندوں کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی۔پس آج تمہیں بھی ان مصائب اور اذیتوں کے مقابل پر اور ہمت سے کام لینا ہوگا۔یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بالآخر اپنے دین کے لیے فتح اور غلبہ کے سامان پیدا فرمانے والا ہے۔(مستدرک حاکم جلد ۳ صفحہ ۳۸۳) پس نبی کریم ﷺ کی یہ ایمان افروز باتیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتوحات اور ترقیات کے وہ وعدے ہی تھے جومسلمانوں کی تسلی اور امید کا ذریعہ بنے رہے،جو انہیں یہ یقین دلاتے رہےکہ ان کی قربانیوں کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل اور انعام بھی ہم پر نازل ہوں گے اور یہ عارضی درد ہمیشہ کے لیے دوا بن جائے گا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’یہ سنت اللہ ہے کہ مامور من اللہ ستائے جاتے ہیں۔ دُکھ دیئے جاتے ہیں۔ مشکل پر مشکل اُن کے سامنے آتی ہے نہ اس لیے کہ وہ ہلاک ہو جائیں بلکہ اس لیے کہ نصرت الٰہی کو جذب کریں۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی مکی زندگی کا زمانہ مدنی زندگی کے بالمقابل دراز ہے۔ چنانچہ مکہ میں ۱۳ برس گزرے اور مدینہ میں دس برس ۔‘‘ (ملفوظات جلد ۲صفحہ ۶۳، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) غلامی سے عظمت تک حضرت بلالؓ بھی اوّلین مسلمانوں میں سے تھے مکہ کے ایک بڑے سردار امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ اس شریر دشمنِ اسلام نے آپؓ پرطرح طرح کا ظلم روا رکھا۔ مکہ کی شدید گرمی میں آپؓ کو پتھریلی زمین پر لٹاتا اور آپؓ کے اوپر گرم پتھر رکھ دیتااور کہتا لات اور عزیٰ بتوں کی پرستش کرو اور محمد سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کرو ورنہ میں تمہیں مار ڈالوں گا۔حضرت بلالؓ عربی زیادہ نہیں جانتے تھے،بس یہی کہتے جاتے تھے احد احد یعنی اللہ ایک ہے اللہ ایک ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ ۱۷۴۔۱۷۶ ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۱۹۹۰ء) اسی طرح اس وقت دو غلام صحابیات لبینہؓ اور زنیرہؓ بھی تھیں جنہیں اسلام لانے کی پاداش میں بے دردی سے مارا جاتا تھا۔یاسرؓ ان کی اہلیہ سمیہؓ اور بیٹے حضرت عمارؓ بھی ان مظلوموں میں شامل تھے،جنہیں بنو مخزوم کا سردار ابو جہل سخت اذیتیں دیا کرتا تھا۔حضرت خبابؓ کی طرح آپ ﷺ نے یاسر اور آپ کے اہل خانہ کو بھی صبر کرنے کا ہی حکم دیا اور انہیں جنت ملنے کی عظیم خوشخبری دی۔چنانچہ انہوں نے بھی اس شدید تکلیف کو برداشت کیا۔یہاں تک کہ حضرت یاسرؓ کی اہلیہ حضرت سمیہؓ نے تو شہادت کا رتبہ بھی پایا، اور یوں اسلام کی راہ میں جان دینے والی پہلی خاتون بن گئیں۔لیکن پھر بالآخر خدا تعالیٰ نے ان غلاموں اور کمزور طبقوں کے صبر کے نتیجہ میں انہیں ایسی عزت اور بزرگی عطا فرمائی کہ لوگ بھی ان کی زندگیوں پر رشک کرنے لگے۔ حضرت عمرؓ ایک دفعہ اپنے زمانہ خلافت میں مکہ تشریف لائے تو شہر کے بڑے بڑے رؤساء آپ سے ملنے کے لیے آئے۔ ابھی وہ بیٹھ کر آپ سے باتیں کر ہی رہے تھے کہ مجلس میں پہلے حضرت بلالؓ آئے۔تھوڑی دیر گزری تو حضرت خبابؓ آگئے اور اس طرح یکے بعد دیگرے ابتدائی دور میں ایمان لانے والےغلام آتے چلے گئے۔حضرت عمرؓ نے ہر ایک کی آمد پر ان کا استقبال فرمایا۔جب یہ پرانے ایمان لانے والے آتے تھے تو آپؓ مجلس میں موجود ان رؤساء کو جو مکہ کے سردار تھے کہتے ذرا پیچھے ہٹ جائیں حتی کہ وہ نوجوان رؤساء جو حضرت عمرؓ سے ملنے آئے تھے پیچھے ہوتے ہوتے دروازے تک پہنچ گئے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ نے بھی اس وقت کچھ ایسے سامان پیدا کر دیے کہ یکےبعددیگرے کئی ایسے مسلمان آگئے جو کسی زمانے میں کفار کے غلام رہ چکے تھے۔اگر ایک بار ہی وہ رؤساء پیچھے ہٹتے تو ان کو احساس بھی نہ ہوتا مگر چونکہ بار بار ان کو پیچھے ہٹنا پڑا اس لیے وہ اس بات کو برداشت نہ کر سکے اور اٹھ کر باہر چلے گئے۔باہر نکل کر وہ ایک دوسرے سے شکایت کرنے لگے کہ دیکھو آج ہماری کیسی ذلت ورسوائی ہوئی ہے۔ایک ایک غلام کے آنے پر ہم کو پیچھے ہٹایا گیا ہے یہاں تک کہ ہم جو تیوں میں جا پہنچے۔اس پر ان میں سے ایک نوجوان بولا اس میں کس کا قصور ہے ؟ عمر کا ہے یا ہمارے باپ دادا کا ہے ؟ اگر تم سوچو تو معلوم ہو گا کہ اس میں حضرت عمرکا تو کوئی قصور نہیں۔یہ ہمارے باپ دادا کا قصور تھا جس کی آج ہمیں سزا ملی کیونکہ خدا نے جب اپنا ر سول مبعوث فرمایا تو ہمارے باپ دادا نے مخالفت کی مگر ان غلاموں نے اس کو قبول کیا اور ہر قسم کی تکالیف کو خوشی سے برداشت کیا۔ ‘‘(تفسیر کبیر جلد ۱۱ صفحہ ۹۸) جب بااثر اصحابؓ نے صبر کیا یہ تو صبر کی وہ مثالیں تھیں جو کمزور طبقہ کے صحابہ و صحابیات کی زندگیوں سے جڑی ہوئی تھیں لیکن کچھ اصحاب ایسے بھی تھے جو مکہ میں کسی نہ کسی رنگ میں طاقت اور اثر رکھتے تھے۔کسی کے پاس مالی دولت تھی، تو کوئی علم کے خزانے اپنے پاس رکھتا تھا۔بعض اپنی بہادری اور طاقت کی بنا پر اثر و رسوخ رکھتے تھے، تو بعض کا شمار مکہ کے معزز مشیروں میں ہوتا تھا۔یہ وہ لوگ تھے جنہیں اہل مکہ کی بھاری تعداد عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔لیکن جب انہوں نے اسلام قبول کرلیا، تو وہی قوم انہیں حقیرجاننے لگی۔ مگر ان اصحابؓ کا بھی کیسا بلند مقام تھاکہ ان سب حالات کے باوجود کبھی بھی شکایت کا لفظ زبان پر نہ آنے دیا۔ان کے پیش نظرصرف رسول کریم ﷺ کا یہ فرمان تھا جو ان کے رگ و پے میں سرایت کرچکا تھا کہ تم صبر پر قدم مارو۔غرض یہ اعلیٰ نمونے کا صبر ہی تھا جس کی وجہ سے انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی توفیق ملی اور پھر یہی درد ان کے لیے دنیا و آخرت کی شفااور ترقی کا ذریعہ بن گیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا شمار مکہ کے بڑے بڑے امیر تاجروں میں ہوتا تھا۔آپؓ کی دیانت اور اچھے اخلاق کی بنا پر لوگ آپ کی بہت عزت کرتے اور آپ سے مختلف قسم کے مشورے لیا کرتے تھے۔ آپؓ کے اسلام قبول کرنے کی خبر جب مکہ میں پھیلی تو سرداران قریش کو اس پر بڑا شدید صدمہ پہنچا۔ مخالف لوگ آپ کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے لگے۔آپ نے اس دنیاوی عزت اور دولت کے چھن جانے پر کبھی بھی مایوسی کا اظہار نہیں کیا،بلکہ اس کے برعکس اپنی تمام جمع کردہ دولت کو اسلام کی کمزور جانوں کی آزادی کے لیے استعمال کر دیا۔ آپ کا یہ عمل آپ کے اعلیٰ صبر اور ہمدردی پر روشنی ڈالتا ہے۔یہ قربانی اور صبر کا ہی نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلافت جیسے عظیم الشان مقام و مرتبہ سے نوازا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بھی مکی دور میں دکھ اور پریشانی کے حالات میں عظیم صبر کا مظاہرہ کیا۔آپؓ کی طبیعت میں بہادری اور شجاعت نمایاں تھی۔اگر آپؓ چاہتے تو اسلام قبول کرنے کے بعد ان مظالم کا برابر بدلہ لے سکتے تھے۔لیکن جب اسلام قبول کیا توصبر کی اسلامی تعلیم نے آپ کے مزاج میں بھی برداشت کی قوت پیدا فرمادی۔آپ نے بڑی بہادری سے مکہ کی گلیوں میں اسلام کا اعلان کیا، مگر جب ظلم سہنے کی بات آئی تو بڑے ہی صبر سے کام لیا۔ اسی طرح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔آپؓ مکہ کے ایک مستحکم خاندان کا حصہ تھے۔ قریش کے ظالمانہ فیصلہ کے بعد ایک مرتبہ آپؓ کے چچا حکم بن ابی العاص نے آپؓ کورسی سے باندھ کربہت مارا لیکن آپؓ نے اس ظلم کو بڑے صبر کے ساتھ برداشت کیا اور بے صبری کا کوئی کلمہ آپ کے منہ سے نہ نکلا۔حضرت عمر ؓکے چچا زاد بھائی اور بہنوئی سعید بن زید ؓبھی اوّلین مسلمانوں میں سے تھے،آپؓ کو حضرت عمرؓ کی طرف سے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے نہایت سختی اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔(الطبقات الکبریٰ جلد ۳ صفحہ ۴۰مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت ۱۹۹۰ء، سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۳۴۴ طبعہ ثانیہ ۱۹۵۵ء) یہاں حضرت سعید بن زیدؓ کا ذکر ہوا ہے تو ان کی اہلیہ حضرت فاطمہ بنت خطابؓ جو حضرت عمرؓ کی بہن تھیں ان کے صبر و ہمت کی مثال بھی ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔آپؓ بھی قریش کی ایک معزز خاتون تھیں۔حضرت عمرؓ ابھی مسلمان نہیں ہوۓ تھے، جب انہیں اپنی بہن اور بہنوئی کے اسلام لانے کی خبر ملی تو وہ فوراً ان کے گھر پہنچے۔آپ نے ان دونوں کو قرآن کریم کی تلاوت کرنے میں مصروف پایا۔ حضرت عمرؓ اسی دوران گھر میں داخل ہوئے اور اپنے بہنوئی کو مارنے لگے۔حضرت فاطمہؓ نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو حضرت عمرؓ کا ہاتھ حضرت فاطمہؓ کو لگ گیاجس پر ان کے چہرے سے خون بہنے لگا۔حضرت فاطمہ نے اس پر بڑے ہی صبر اور ہمت کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ ہاں عمر یہ سچ ہے کہ ہم مسلمان ہوچکے ہیں۔ تم جو چاہو کرلو ہم اپنے اس دین سے ہرگز پھرنے والے نہیں ہیں۔ حضرت عمرؓ نے جب اپنی بہن کی یہ ثابت قدمی اور ان کے چہرے پر خون دیکھا تو آپ کی طبعی محبت غالب آگئی اور آپ اس منظر کو برداشت نہیں کر سکے اور فورا ًاپنا ہاتھ روک لیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب آپ نے پہلی مرتبہ قرآن کریم کومکمل تسلی سے سنااور یوں یہ واقعہ آپ کی قبولیت اسلام کا ذریعہ بن گیا۔(تلخیص از سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحات۳۴۷ تا ۳۵۳ ) ان مسافران رہ وفا میں ایک اور وجود ایسا بھی ہے جن کے بیان کے بغیر یہ مضمون ادھورا محسوس ہوتا ہے۔ وہ عظیم المرتبت خاتون،جنہوں نے نہ صرف سب سے پہلے رسول اکرمﷺ کی صداقت کو پہچانابلکہ نبوت کے آغاز سے لے کر اپنی وفات تک ہر قدم پر وفا، قربانی اور صبر کی ایسی اعلیٰ مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائےگی۔ حضرت خدیجہؓ زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک باعزت، صاحبِ حیثیت اور کامیاب تاجرہ تھیں۔ قریش میں ان کا مقام بہت بلند تھا، لوگ ان کی معاملہ فہمی، راست گوئی اور امانت پر فخر کرتے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوئی، تو حضرت خدیجہؓ بغیر کسی توقف کے آپؐ پر ایمان لے آئیں اور نہ صرف ایمان لائیں بلکہ ہر قدم پر آپ کا سہارا بھی بنی رہیں۔پہلی وحی کے بعد جب رسول اللہ ﷺ اضطراب کی حالت میں گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہؓ ہی تھیں جنہوں نے آپ کو تسلی دی۔نبوت کے ۱۰؍سال تک رسول کریمﷺ کو پہنچنے والی ہر مشکل اور پریشانی کے موقع پر آپؐ کے ساتھ کھڑی رہیں۔ آپؓ کا صبر اور استقامت اس وقت اور بھی نمایاں طور پر واضح نظر آتا ہے جب شعب ابی طالب کے تین سالہ محاصرہ کے دوران آپ بھوک، بیماری، اور قریش کی سختیوں کو باقی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ برداشت کرتی رہیں۔اور بالآخر اسی سخت محصوری کے باعث آپ کی وفات ہوئی۔ پس آپؓ کی زندگی ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہے کہ صبر کا مطلب صرف دکھ سہنا ہی نہیں ہوا کرتا بلکہ عسر، یسر، تنگی اور آسائش کے حالات میں ہر گھڑی اور ہر لمحہ عزم و استقلال، یقین اور شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ اصولوں کے مطابق زندگی گزارتے چلے جانا اور کوئی شکوہ زبان پر نہ لانا ہی حقیقی صبر ہوا کرتا ہے، اور یہ صبر کی طاقت ہی ہے جو ہمیشہ سے الٰہی جماعتوں کی ترقیات کا باعث بنتی ہے۔ باوجود ظلم کے ا ن کی یہی ثابت قدمی انہیں آخرکار کامیابی کی راہوں کی طرف لے جاتی ہے۔ مومنین کی جماعتوں کے خلاف ظلم کی آگ بھڑکائی جاتی ہے لیکن مومن اس آگ میں پڑ کر جلنے کے بجائے کندن بن کر نکلتے ہیں۔ اور ان کے وجودوں میں ایسی چمک پیدا ہو جاتی ہے جو تمام دنیا کو اپنی طرف کھینچتی چلی جاتی ہے۔ پس آج کے ان مشکل اور کٹھن حالات میں نبی کریمﷺ اور صحابہ کے صبر و استقلال کے یہ واقعات ہم سب کے لیے اپنے اندر یہ گہرا سبق رکھتے ہیں کہ ہم بھی ان نمونوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا کر اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کو جذب کرنے والے بننے کی کوشش کریں تاکہ ہمارا ہر غم خوشیوں میں، ہر مصیبت آسائشوں میں اور دشمن کا ہر ظلم اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں تبدیل ہوتا چلا جائے اور ایک مرد خدا کی یہ پیش گوئی بڑی شان سے پوری ہو جائے کہ یہ درد رہے گا بن کے دوا،تم صبر کرو وقت آنے دو ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْآنِ