https://youtu.be/0h2KS_rHMU0 ٭…مخالفت کے اس دور میں سب احمدیوں کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف اپنی فرض نمازوں کی طرف توجہ دیں بلکہ اپنی راتوں کو نوافل سے سجائیں اور تہجد کی طرف توجہ دیں ٭…اگر دنیا میں ہر احمدی خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے جماعتی ترقی کے لئے رات کے کم از کم دو نفل اپنے اوپر لازم کرلے تو انشاء اللہ تعالیٰ ہم دیکھیں گے کہ کس طرح خدا تعالیٰ کی مدد پہلے سے بڑھ کر ہمارے شامل حال ہوتی ہے ٭… اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہمارے اوپر ہے۔ جماعت کے خلاف جو مخالفتیں ہو رہی ہیں۔ یہ مخالفتیں نہ پہلے کچھ بگاڑ سکیں اور نہ آئندہ ان شاء اللہ تعالیٰ کچھ بگاڑ سکیں گی ٭…جوں جوں جماعت ترقی کر رہی ہے۔ یہ مخالفتیں بھی تیز ہو رہی ہیں اور ہوں گی۔ ان کی ہمیں کوئی فکر نہیں ہے، نہ ہونی چاہئے۔ ہمیں جس بات کی فکر کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ان مخالفتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم اپنے ایمانوں میں پہلے سے بڑھ کر مضبوطی پیدا کریں۔ پہلے سے بڑھ کر دعاؤں کی طرف توجہ دیں کہ اللہ تعالیٰ دشمن کے مکروں کو اُن پر الٹادے۔ ہر مخالف کو اور ہر مخالفت کو ہوا میں اڑا دے اسلام آباد یوکے 16-06-2025 پیارے قارئین روز نامہ الفضل انٹر نیشنل السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ الحمد للہ کہ روزنامہ الفضل انٹر نیشنل کو جلسہ سالانہ بر طانیہ کے موقع پر ’’یہ درد رہے گا بن کے دوا، تم صبر کرو وقت آنے دو۔ الٰہی سلسلوں کی مخالفت اور مومنین کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے سالانہ نمبر شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور نیک نتائج سے نوازے۔ آمین مجھ سے اس کے لئے پیغام بھجوانے کی درخواست کی گئی ہے۔ میں اس حوالے سے چند باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ الٰہی جماعتوں کے لئے ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہماری جماعت کے لئے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جیسے آنحضرتﷺ کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے۔ چنانچہ نئی اور سب سے پہلی مصیبت تو یہی ہے کہ جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو معاً دوست رشتہ دار اور برادری الگ ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اور بھائی بہن بھی دشمن ہو جاتے ہیں۔ السلام علیکم تک کے روادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنا نہیں چاہتے۔ اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے۔ تم انبیاء ورسل سے زیادہ نہیں ہو۔ ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئیں اور یہ اسی لیے آتی ہیں کہ خدا تعالیٰ پر ایمان قوی ہو اور پاک تبدیلی کا موقعہ ملے۔ دعاؤں میں لگے رہو۔ پس یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء ورسل کی پیروی کرو اور صبر کے طریق کو اختیار کرو …جب میں صبر کرتا ہوں تو تمہارا فرض ہے کہ تم بھی صبر کرو۔ درخت سے بڑھ کر تو شاخ نہیں ہوتی۔ ‘‘(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 203) آج کل دنیا میں مختلف جگہوں پر احمدیت کے خلاف مخالفت کی آگ بھڑک رہی ہے۔ احمدیوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔ ان کے جذبات انگیخت کئے جاتے ہیں۔ ان پر جھوٹے مقدمے بنائے جاتے ہیں۔ انہیں جیلوں میں ڈالا جاتاہے۔ شہید کیا جاتا ہے۔ سوشل بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نماز جمعہ اور عید کی ادائیگی سے روکا جاتا ہے۔ کئی جگہوں پر احمد یہ مساجد کو بھی نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ مخالفین کا مقصد صرف یہ ہے کہ نئی نسل میں اس قدر خوف پیدا کر دو کہ یہ بچے اگر احمدی رہیں بھی تو فعال احمدی نہ رہیں۔ ان کے خیال میں ہمارے جلسے بند کر کے، ہمارے تربیتی پروگرام بند کر کے جو ربوہ میں ہوا کرتے تھے، انہوں نے ہمیں معذور کر دیا ہے اور نئی نسل شاید اس طرح احمدیت سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ اگر مزید تھوڑا سا تنگ کیا جائے اور ان پر سختیاں کی جائیں تو یہ مزید دور ہٹ جائیں گے۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ پتہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے جلائے ہوئے چراغ ان کی پھونکوں سے نہیں بجھ سکتے۔ مخالفین تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہم صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں تا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکیں لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں یہ کہتا ہے کہ تم نے عقل سے کام لینا ہے۔ اس لئے بڑی احتیاط سے، صبر و استقامت اور دعا کےساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ان حالات کا مقابلہ کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے: عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں اس شعر میں جہاں ایک طرف دشمن کی انتہائی حالت کا ذکر ہے تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے والے اور صبر و استقامت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور مزید جھکتے چلے جانے والوں کا ذکر ہے۔ پس مخالفت کے اس دور میں سب احمدیوں کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف اپنی فرض نمازوں کی طرف توجہ دیں بلکہ اپنی راتوں کو نوافل سے سجائیں اور تہجد کی طرف توجہ دیں۔ اگر دنیا میں ہر احمدی خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے جماعتی ترقی کے لئے رات کے کم از کم دو نفل اپنے اوپر لازم کرلے تو انشاء اللہ تعالیٰ ہم دیکھیں گے کہ کس طرح خدا تعالیٰ کی مدد پہلے سے بڑھ کر ہمارے شامل حال ہوتی ہے اور کس طرح اللہ تعالیٰ دشمن کی دشمنیاںاور مخالفین کی مخالفتیں ہوا میں اڑا دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ’’جب تک آسمان سے تریاق نہ ملے تو دل درست نہیں رہتا۔ انسان آگے قدم رکھتا ہے مگر وہ پیچھے پڑتا ہے۔ قدسی صفات اور فطرت والا انسان ہو تو وہ مذہب چل سکتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی مذہب ترقی نہیں کر سکتا اور کرتا بھی ہے تو پھر قائم نہیں رہ سکتا۔ ‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ 431) پس ہم جو یہ خواہش رکھتے ہیں کہ جماعت کی جلد ترقی ہو۔ افراد جماعت کو جن مشکلات اور مصائب سے گزرنا پڑ رہا ہے وہ جلدی دُور ہوں تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا آسمانی تریاق کی ضرورت ہے۔اور آسمانی تریاق اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق حاضر ہو کر مانگنے سے ملتا ہے۔ ہمیشہ سے یہی الٰہی جماعتوں کی نشانی ہے کہ ان کی مخالفتیں ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے جابر سلطان اور ان کے جتھے مقابل پر کھڑے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی قائم کر دہ جماعت ترقی کرتی چلی جاتی ہے اور آخر ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ تمام جتھے ختم ہو جاتے ہیں، تمام طاقتیں اپنی موت آپ مر جاتی ہیںاور اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہی غالب آتی ہے کہکَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیۡ (المجادلہ: 22)کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب ’’تذکرۃ الشہادتین ‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ جس شخص کو خدا نے ایک عظیم الشان غرض کے لئے پیدا کیا ہے اور جس کے ذریعہ سے خدا چاہتا ہے کہ ایک بڑی تبدیلی دنیا میں ظاہر کرے ایسے شخص کو چند جاہل اور بزدل اور خام اور نا تمام اور بے وفا زاہدوں کی خاطر سے ہلاک کر دے۔ اگر دو کشتیوں کا باہم ٹکراؤ ہو جائے جن میں سے ایک ایسی ہے کہ اس میں بادشاہ وقت جو عادل اور کریم الطبع اور فیاض اور سعید النفس ہے مع اپنے خاص ارکان کے سوار ہے۔ اور دوسری کشتی ایسی ہے جس میں چند چوہڑے یا چمار یا ساہنسی بد معاش بد وضع بیٹھے ہیں۔ اور ایسا موقع آپڑا ہے کہ ایک کشتی کا بچاؤ اس میں ہے کہ دوسری کشتی مع اس کے سواروں کے تباہ کی جائے تو اب بتلاؤ کہ اُس وقت کو نسی کارروائی بہتر ہو گی ؟ کیا اس بادشاہ عادل کی کشتی تباہ کی جائے گی یا ان بد معاشوں کی کشتی کہ جو حقیر و ذلیل ہیں تباہ کر دی جائے گی۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ بادشاہ کی کشتی بڑے زور اور حمایت سے بچائی جائے گی اور اُن چوہڑوں چماروں کی کشتی تباہ کر دی جائے گی اور وہ بالکل لا پرواہی سے ہلاک کر دیئے جائیں گے اور اُن کے ہلاک ہونے میں خوشی ہوگی کیونکہ دنیا کو بادشاہِ عادل کے وجود کی بہت ضرورت ہے اور اس کا مرنا ایک عالم کا مرنا ہے۔ ‘‘ (روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 71۔ 72) پس آج ہم خوش قسمت ہیں جو خلافت کے ساتھ جڑے رہنے کی وجہ سے اس کشتی میں سوار ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بنائی اور غرقابی سے بچ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہمارے اوپر ہے۔ جماعت کے خلاف جو مخالفتیں ہو رہی ہیں۔ یہ مخالفتیں نہ پہلے کچھ بگاڑ سکیں اور نہ آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ کچھ بگاڑ سکیں گی۔ ہر احمدی اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ ہماری مخالفتیں، ہماری ترقی کے لئے کھاد کا کام دیتی ہیں۔ آج اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق ایشیا کے ممالک میں بھی اور جزائر میں بھی، یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی اور افریقہ کے سرسبز علاقوں میں بھی اور ریگستانوں کی دُور دراز آبادیوں میں بھی احمدیت کو پھیلا دیا ہے، اور بڑی شان سے نہ صرف پھیلا دیا ہے بلکہ بڑی شان سے پنپ رہی ہے، بڑھ رہی ہے اور پھیل رہی ہے۔ ہر احمدی کی ہر قربانی ہمارے لئے نئی منزلوں کے حصول کا ہی ذریعہ بنتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں لوگ جو ہر سال اس مخالفت کے باوجو د احمدیت میں داخل ہوتے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہے۔ بہر حال جوں جوں جماعت ترقی کر رہی ہے۔ یہ مخالفتیں بھی تیز ہو رہی ہیں اور ہوں گی۔ ان کی ہمیں کوئی فکر نہیں ہے، نہ ہونی چاہئے۔ ہمیں جس بات کی فکر کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ان مخالفتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم اپنے ایمانوں میں پہلے سے بڑھ کر مضبوطی پیدا کریں۔ پہلے سے بڑھ کر دعاؤں کی طرف توجہ دیں کہ اللہ تعالیٰ دشمن کے مکروں کو اُن پر الٹادے۔ ہر مخالف کو اور ہر مخالفت کو ہوا میں اڑا دے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب دنیا کے احمدیوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور انہیں ایمان میں مضبوطی اور ثبات قدم عطا فرمائے۔ آمین والسلام خاکسار (دستخط) مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس