(بر اعظم جنوبی امریکہ کےتازہ حالات و واقعات کا خلاصہ) ایمیزون جنگلات کے بیچوں بیچ خطرناک قیدیوں کی کالونی قائم کرنے کا منصوبہ سنہ ۱۸۵۲ء سے ۱۹۵۰ء کی دہائی کے اوائل تک جنوبی امریکہ میں واقع فرانسیسی زیر انتظام علاقے فرنچ گیانا میں ایک سزا یافتہ مجرموں کی کالونی قائم تھی، جسے Bagneکہا جاتا تھا۔ یہ وہی کالونی ہے جسے ۱۹۷۳ء کی مشہور فلم Papillonسے شہرت ملی جو اسی نام کی ایک کتاب پر مبنی تھی۔فرانس ایسی کالونیاں ایسے دُور دراز غریب اور نوآبادیاتی علاقوں میں بناتا تھا جہاں ناپسندیدہ یا خطرناک قیدیوں کو بھیج کر ان سے جبری مشقت لی جاتی تھی۔اس دوران فرنچ گیانا میں فرانس اور اس کی سلطنت کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے ۷۰؍ہزار سے زائد قیدیوں کو رکھا گیا۔لیکن اس سیاہ دور کے خاتمے کے ۷۰؍برس بعد فرانسیسی حکومت کے حالیہ اعلان نے فرنچ گیانا کے شہریوں کو ایک بار پھر وہ تلخ دور یاد دلا دیا ہے۔ چند روز قبل فرانسیسی وزیرِانصاف جیراڈ دارمانین (Gérald Darmanin)نے ایمیزون کے جنگلات میں ایک نئی ہائی سیکیورٹی جیل تعمیر کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں قید کے انتہائی سخت اصول و ضوابط نافذ ہوں گے۔فرنچ گیانا کے دارالحکومت کیین(Cayenne) کے دورے کے دوران دارمانین نے کہا کہ اس نئی جیل میں ۵۰۰ قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہوگی۔ ان میں سے ۶۰؍سیل انتہائی خطرناک منشیات فروشوں کے لیے مخصوص ہوں گے جبکہ انتہا پسندوں کے لیے ایک الگ حصہ بھی بنایا جائے گا۔ وزیر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس جیل کا مقصد ان خطرناک مجرموں کو باقی دنیا سے الگ کرنا ہے۔ اس لیے ان پر ملاقات اور رابطے کی سخت پابندیاں ہوں گی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے کہا کہ یہ جیل مقامی جرائم پیشہ افراد کو رکھنے کے لیے بھی استعمال ہو گی کیونکہ فرنچ گیانا، گواڈیلوپ اور مارٹینیک (فرانس کے دوسرے علاقے) میں ۴۹؍ایسے منشیات فروش گروہ ہیں جنہیں حکومت بہت خطرناک سمجھتی ہے۔ نوآبادیاتی دور کی واپسی: فرنچ گیانا سے تعلق رکھنے والے رکنِ پارلیمان Davy Rimane نے جو ایک بائیں بازو کی جماعت La France Insoumise سے ہیں نے اس فیصلے کو غیرمنصفانہ اور یکطرفہ قرار دیا ۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ وزیرِ انصاف نے یہ فیصلہ خود ہی کر لیا کسی سے مشورہ نہیں کیا یہاں تک کہ ہمارے اپنے علاقے کے ارکانِ پارلیمان سے بھی نہیں۔ اسی لیے یہاں کے سیاستدان اور عوام دونوں اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ خطرناک قیدیوں کو فرنچ گیانا بھیجنے کا مطلب ہے کہ فرانس ہمیں ایک بار پھر اُس دردناک ماضی کی طرف دھکیل رہا ہے جب یہاں سزا یافتہ کالونی ہوا کرتی تھی۔ریمانے نے مزید کہاکہ فرانس جن قیدیوں کو اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا وہ سب ہمیں کیوں بھیجے؟ ہم فرانس کا کوڑادان نہیں ہیں۔ وزیرِ انصاف جیراڈ دارمانین نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ اس منصوبے کو پرانی سزا یافتہ کالونی سے جوڑنا فرانس اور ہمارے جیل کے نظام کی توہین ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ جیل مقامی جرائم کی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی جارہی ہے اور مقامی جرائم ہی اتنے زیادہ ہیں کہ جیل کی گنجائش پوری ہو جائے گی۔ سمگلنگ کا گڑھ: فرنچ گیانا کو فرانس میں منشیات کی سمگلنگ کا مرکز سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ کولمبیا اور پیرو جیسے منشیات بنانے والے ملکوں کے بہت قریب واقع ہے۔کیین ایئرپورٹ پر حکام اکثر ایسے افراد کو پکڑتے رہتے ہیں جو یورپ میں کوکین اور دیگر نشہ آور چیزیں چھپا کر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سمگلرز کو عرف عام میںMulas کہا جاتا ہے۔فرانسیسی حکومت اور میڈیا رپورٹس کے مطابق مین لینڈ فرانس میں استعمال ہونے والی تقریباً ۲۰؍فیصد کوکین فرنچ گیانا سے آتی ہے۔اب حکومت نے وہاں ایک نئی ہائی سیکیورٹی جیل بنانے کا منصوبہ بنایا ہے جس پر ۴۰۰؍ملین یورو (تقریباً ۴۵۱؍ملین امریکی ڈالر) خرچ ہوں گے۔یہ جیل ایمیزون کے جنگلات کے ایک ویران حصے میں بنائی جائے گی جو Saint-Laurent نامی قصبے سے چند کلومیٹر کی دوری پر ہے۔یہی قصبہ ایک زمانے میں ڈیولز آئی لینڈ جانے کا راستہ تھا جو فرانس کی سب سے بدنام سزا یافتہ کالونی تھی۔یہ جگہ بہت سخت حالات، جسمانی تشدد، بیماریوں اور قیدیوں کی اموات کے لیے بدنام تھی۔ یہ اچھا آئیڈیا نہیں ہے: برطانیہ کی یونیورسٹی آف مانچسٹر میں کرمنالوجی کی ماہر Marion Vannierکہتی ہیں کہ فرنچ گیانا میں بننے والی نئی جیل انتہائی سخت اور غیر انسانی طرز کی قید کی مثال ہے۔ان کے مطابق قیدیوں کو ایسی جگہ رکھا جائے گا جو بہت دور درازجنگلات میں فرانس کے مرکزی شہروں سے ہزاروں میل دور واقع ہے۔پہلے یہ منصوبہ صرف فرنچ گیانا کی واحد جیل میں رش کم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اب حکومت مین لینڈ فرانس سے خطرناک مجرم اور منشیات فروش یہاں بھیجنا چاہتی ہے۔ یہ اچھی سوچ نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں: یہ منصوبہ صرف فرنچ گیانا کے تاریک ماضی کی یاد تازہ کرنے کی وجہ سے متنازع نہیں بلکہ انسانی حقوق کے لحاظ سے بھی سنگین سوالات پیدا کررہا ہے۔برطانیہ کی یونیورسٹی آف مانچسٹر کی ماہرِ کرمنالوجی ماریون وانیے کہتی ہیں کہ قیدیوں کو اتنے دور اور ویران علاقے میں بھیجنے کا فیصلہ بہت تشویشناک ہے۔ان کے مطابق یورپی انسانی حقوق کنونشن کے آرٹیکل ۸ کے تحت نجی اور خاندانی زندگی کا احترام ضروری ہے۔یورپی عدالت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اگر قیدیوں کو ان کے خاندانوں سے دور منتقل کیا جائے اور اس کی کوئی معقول وجہ نہ ہوتو یہ قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔حکام کے مطابق یہ نئی جیل ۲۰۲۸ءتک کھل سکتی ہے۔ گرم ہوا کے غبارے کے حادثے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہو گئے برازیل میں گرم ہوا کے غبارے کے حادثے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ملک کی جنوبی ریاست ‘‘سانتا کیٹرینا’’ (Santa Catarina) کے گورنرJorginho Mello کے مطابق اس غبارے پر اکیس افراد سوار تھے۔ اور یہ Praia Grande شہر میں اڑ رہا تھا جب اس میں آگ لگ گئی۔ پائلٹ سمیت تیرہ افراد زندہ بچ گئے ہیں اور کسی کے لاپتا ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔ غبارہ ایک مرکز صحت کے قریب گر کر تباہ ہوا۔ زندہ بچ جانے والے پائلٹ کے مطابق جونہی اسے آگ لگنے کا احساس ہوا اس نے غبارے کو نیچے کرنا شروع کر دیا اور زمین کے بالکل قریب پہنچ کر اس نے لوگوں کو چھلانگ لگانے کو کہا اور اکثر سوار چھلانگیں لگاکر باہر نکل گئے، لیکن کچھ لوگ ایسا نہیں کر پائے آگ کے شعلے بڑھنے لگے اور غبارہ گر گیا۔ریاستی حکومت کے مطابق بچ جانے والے ۱۳؍افراد کو قریبی اسپتالوں میں لے جایا گیا ہے۔ حادثے کے وقت ریاست کے گورنر مسٹر میلو ایک سرکاری مشن پر چین میں تھے انہوں نے متاثرین کو تسلی دلاتے ہوئے پیغام بھیجا کہ پورا ریاستی ڈھانچہ حادثے کا شکار ہونے والے خاندانوں کو بچانے، مدد کرنے اور تسلی دینےکے لیے مصروف عمل ہے اور وہ صورتحال کی نگرانی جاری رکھے ہوئے ہے۔برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا دی سلوا نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔صدر نے لکھا کہ وفاقی حکومت متاثرین کی مدد کے لیے ریاستی اور میونسپل کمیٹی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔ برازیل کے جنوب میں واقع Praia Grande شہر ایک مشہور سیاحتی مقام ہے۔ اور یہ گرم ہوا کے غبارے کی سرگرمیوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ صدارتی امیدوار جلسے میں سر پر گولی لگنے سے شدید زخمی کولمبیا کے ایک صدارتی امیدوار Miguel Uribe Turbay کو دارالحکومت بوگوٹا میں اس وقت گولیاں مار دی گئی ہیں جب وہ ایک انتخابی جلسہ کے دوران عوام سے خطاب کر رہے تھے۔اطلاعات کے مطابق میگوئل کو تین گولیاں لگی ہیں جن میں سے دو گولیاں سر پر لگنے کے باعث ان کی حالت تشویشناک ہے۔ خبر رساں ادارے کے مطابق طبی عملے کا کہنا ہے کہ اُریب کو گھٹنے اور سر میں گولیاں ماری گئی ہیں۔۳۹؍سالہ سینیٹر میگوئل اُریب کو اپنے حامیوں سے خطاب کے دوران نشانہ بنایا گیا۔ پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر کے مطابق جائے وقوع سے ۱۵؍سالہ مشتبہ نوجوان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔اس واقعے کی سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ میگوئل اریب ایک پارک میں انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے ہیں جہاں لوگ ان کا خطاب سننے کے دوران ویڈیوز بھی بنا رہے ہیں کہ اچانک اس دوران گولیاں چلنے کی آواز آتی ہے اور شور و غل ہوتا ہے جس کے بعد وہاں موجود لوگ خوف و ہراس میں بھاگنے لگتے ہیں۔اس حملے کے فوری بعد انہیں فوری طور پر فضائی ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کے حامیوں نے دُعائیہ اجتماع بھی منعقد کیا۔اُریب کی سیاسی جماعت نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے کولمبیا میں جمہوریت اور آزادی کے خلاف خطرہ قرار دیا۔مقامی میڈیا کے مطابق ۱۵؍سالہ حملہ آور کو حملے کے بعد پولیس کے پیچھا کرنے پر ٹانگ میں گولی لگی۔ پراسیکیوٹر کے دفتر کے مطابق اُس کے قبضے سے ۹؍ملی میٹر کی پستول برآمد ہوئی ہے۔امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی اس حملے کو جمہوریت پر براہ راست حملہ قرار دیا۔ صدارتی امیدوار پر حملے کے بعد کولمبیا کے مختلف شہروں میں فسادات پھوٹ پڑے جن میں کم از کم سات افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد ۲۸ سے ۵۰ تک ہے۔ ہلاک شدگان میں دو پولیس افسران بھی شامل ہیں اطلاعات کے مطابق حملوں میں کار بم، موٹر سائیکل بم، آتشیں اسلحہ اور ایک مشتبہ ڈرون کا استعمال کیا گیا۔ کولمبیا کی وزارت دفاع نے کہا کہ مختلف شہروں میں ۱۹ حملے ہوئے ہیں۔ برازیل میں لاپتا ہونے والی برطانوی صحافی بازیاب پولیس نے کہا ہے کہ امسال فروری میں برازیل میں لاپتا ہونے والی ایک برطانوی صحافی کو صحیح سلامت تلاش کرلیاگیا ہے۔ ۳۲؍سالہ شارلٹ ایلس پیٹ(Charlotte Alice Peet) کا فروری میں اہل خانہ اور دوستوں سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا جس کے بعد برطانیہ میں مقیم اس کے خاندان نے برازیلین حکام کو اس کے لاپتا ہونے کی اطلاع دی تھی۔ موصوفہ نے آخری بار ۸؍فروری کو ایک دوست سے رابطہ کیا تھا کہ وہ ساؤ پالو میں ہے اور ریو ڈی جنیرو جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔چند دن تک جب اس کی طرف سے خیریت کی کوئی اطلاع نہیں ملی تو اس کے اہل خانہ نے حکام کو اس کی پرواز کی تفصیلات اور تلاش میں مدد کے لیے اس کے پاسپورٹ کی کاپی فراہم کی۔ اس وقت برازیل میں غیر ملکی پریس نامہ نگاروں کی ایسوسی ایشن (ACIE) نے ایک صحافی کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا تھا۔ برازیل کی پولیس نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ شارلٹ ایلس پیٹ ساؤ پالو کے ایک ہاسٹل میں قیام پذیر ہے اور اس نے خاندان کے افراد سے رابطہ نہ رکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ریو دی جنیروکی سول پولیس کے ترجمان نے کہا ہے کہ صحافی کے لاپتا ہونے کی تحقیقات ختم کر دی گئی ہیں ۔ شارلٹ کے پروفائل کے مطابق انہوں نے ریو دی جنیرو اور لندن میں الجزیرہ اور دی ٹائمز سمیت مختلف اداروں کے لیے فری لانس صحافی کے طور پر کام کیا ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: دنیا کی موجودہ صورتحال کے امن عالم پر اثرات