کسی پہ شاید گراں ہیں جلسےہمارے دل کی زباں ہیں جلسے کیے تھے ربوہ میں بند تُو نےتو اب یہ سارے جہاں ہیں جلسے تمہارے گالی، گلوچ تک ہیںمرے تو حُسنِ بیاں ہیں جلسے چلو میں تم کو دکھاؤں کتنےصداقتوں کے نشاں ہیں جلسے انہیں فسانہ سمجھ نہ ظالمحقیقتوں کی زباں ہیں جلسے نہ رک سکیں گے کبھی میاں یہیوں سمجھو آب رواں ہیں جلسے ہمارے دل میں گلاب جیسےمگر یہ ان پر خزاں ہیں جلسے عبث ہیں رنگ و نسل کی باتیںوفا کی اپنی زباں ہیں جلسے اے کاش زاہدؔ میں دیکھ پاؤںیہ جتنے دلکش جواں ہیں جلسے (سید طاہر احمد زاہدؔ) مزید پڑھیں: حمد اُس کے نام کی جو ذات ہے ربّ الوریٰ