{2015ء میں سامنے آنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب} قارئین الفضل کی خدمت میں ماہ اگست اور ستمبر 2015ء کے دوران پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت کے متعددواقعات میں سے بعض واقعات کا خلاصہ پیش ہے۔اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو محض اپنے فضل سے اپنے حفظ وامان میں رکھے، اسیران کی رہائی اورشریروں کی پکڑ کا سامان فرمائے۔ آمین ………………… ایک ہی خاندان کے تین احمدیوں پرقاتلانہ حملہ گلشن اقبال، کراچی؛ 11؍ اکتوبر2015ء: یہاں پر رہنے والے ایک ہی گھر کے تین احمدیوں پر اس وقت قاتلانہ حملہ کیا گیا جب وہ رات کو گھر واپس آ رہے تھے۔ اس کے نتیجہ میں ان میں سے دو احمدی شدید زخمی ہوگئے۔ سلیم رفاقت اپنے دو بھتیجوں معاذ احمدعمر20 سال اور شامیر احمد عمر 17 سال کے ہمراہ نمازِ عشاء کی ادائیگی کے بعد گھر واپس لوٹ رہے تھے ۔ جب وہ اپنے گھر کے سامنے پہنچے تو دو نامعلوم افراد نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کرنا شروع کر دی۔ اس واقعہ کے فورًا بعد انہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ سلیم رفاقت کی گردن میں ایک گولی ان کی ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ پھنسی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ان کے پاؤں میں حرکت نہ تھی۔ دوسری گولی نے ان کے بازو کی ہڈی میں فریکچر کرکے ان کے ہاتھ کوناکارہ بنا دیا تھا۔ ایک اور گولی معاذ کے سر کو چھوتے ہوئے گزری تھی۔ معاذ کو زیادہ زخم نہیں آئے تھے اس لئے انہیں ابتدائی طبی امداد کے بعد ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ شامیر احمد اس قاتلانہ حملہ میں شدید زخمی ہو گئے۔ ان کے پیٹ میں ایک گولی دائیں جانب سے داخل ہوئی اور ان کے اندرونی اعضاء بالخصوص معدہ اور جگر کو شدید نقصان پہنچاتے ہوئے پیٹ کے بائیں جانب سے باہر نکل گئی۔ انہیں مصنوعی طور پر سانس دیا جاتا رہا اور متعدد آپریشنز کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے شامیر روبصحت ہونا شروع ہو گئے۔ بی بی سی نے اس واقعہ کی خبر 12؍ اکتوبر کو نشر کی۔ اس رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ پولیس والے اس واقعہ کو راہزنی کی واردات قرار دے رہے ہیں لیکن جماعتِ احمدیہ کے ترجمان نے اس کی تردید کی ہے۔ اس سے قبل 21؍ مارچ کے روز کراچی میں ایک اور احمدی نعمان نجم کو احمدی ہونے کی وجہ سے شہید کیا گیا تھا۔ نیز سال 2012ء کے دوران پاکستان بھر میں شہید ہونے والوںمیں سے آدھے کراچی شہر میں شہید کیے گئے تھے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایک دہشت گرد تنظیم کے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کرنے کے باوجودپولیس اس افسوسناک واقعہ کو راہزنی قرار دینے کی کوشش کرتی رہی۔ اس تنظیم نے سوشل میڈیا پر اپنے اس ’کارنامہ‘ کا بہت چرچا کیا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ان الفاظ میں اعلانات شائع کیے گئے: ’’دولتِ اسلامیہ خراسان کے شیر دل مجاہدین نے کراچی کے سخت حالات کے باوجود 3قادیانیوں (زندیق) کو ٹارگٹ کیا الحمد للہ کراچی شہر میں ایجنسیز، خفیہ اداروں کی کاروائیاں بڑھ رہی ہیں اور مجاہدین کو آئے روز گرفتار کیا جا رہاہے اس سب کے باوجود قادیانی اور روافض کو ٹارگٹ کرنا جو اس وقت کفر کے صفِ اول کے اتحادی بنے ہوئے ہیں ہم اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ الحمد للہ اللہ کی توفیق سے دولتِ اسلامیہ کے مجاہدین نے کامیاب کاروائی کرتے ہوئے قادیانیوں کو ایک نمونہ دکھایا ہے، اور ہم ان کو کھلی دھمکی دیتے ہیں کہ اپنے دین کی تبلیغ اور اپنے عبادت خانے بند کردیں، مزید یہ کہ انشاء اللہ ہم گستاخِ رسولﷺ کو قتل کرتے رہیں گے۔‘‘ جماعتِ احمدیہ کے ترجمان نے یہ بیان دیاکہ جماعتِ احمدیہ کے خلاف نفرت انگیز لڑیچر کی طباعت اورتقسیم کھلے عام کی جارہی ہے۔ہر پمفلٹ، اشتہار اور کتاب از خود احمدیوں کی زندگیوں کے لئے ایک دھمکی سے کم نہیں۔نیشنل ایکشن پلان میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز لٹریچر شائع کرنے اور اسے پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہو گی لیکن افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ احمدیوں کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیز لٹریچر شائع کرنے والوں اور انہیں سرِ عام تقسیم کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ دہشتگرد اس بات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے احمدیوں پر قاتلانہ حملے کر رہے ہیں۔ اس واقعہ کے ذمہ داروں کو جلد گرفتار کر کے انہیں قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ ………………… اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان اسلام آباد، 21؍ اکتوبر2015ء: روزنامہ ڈان (انگریزی) نے اپنی 21؍ اکتوبر کی اشاعت میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں اسلامی نظریاتی کونسل آف پاکستان کی ایک میٹنگ کے حوالہ سے ذکر کیا گیا ہے کہ اس کے موجودہ صدر ملّاں محمد خان شیرانی نے کونسل کی میٹنگ کے بعد ایک پریس بریف میں کہا کہ وہ کونسل میں تین معاملات پر بات کرنا چاہتا ہے لیکن ممبرانِ کونسل ان حساس معاملوں کو دیکھنے پر رضامند نظر نہیں آتے۔اس کے مطابق کونسل کے ایجنڈے پر تین بہت حساس معاملات ہیں لیکن یہ اس وقت زیرِ بحث لائے جا سکتے ہیں اگر دیگر ممبرانِ کونسل اس سلسلہ میں تعاون کریں۔ ملّاں شیرانی نے جو جمعیتِ علمائے اسلام (فضل الرحمٰن گروپ) سے تعلق رکھتا ہے اور ممبر نیشنل اسمبلی ہے دو دن تک جاری رہنے والی اسلامی نظریاتی کونسل کی میٹنگ کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان حسّاس معاملات میں سے پہلا اس سوال کا جواب ہے کہ آیا احمدی ’غیر مسلم‘ ہیں یا ’مرتد‘ ہیں؟ اس سے قبل ضیاء دور میں اسلامی نظریاتی کونسل ’مرتدّ‘ کی سزا قتل قرار دینے کی سفارش کر چکی ہے۔ دوسرا معاملہ اس کے مطابق پاکستان میں غیرمسلموں کے اوپر ’جزیہ‘ عائد کرنے کی بابت ہے جبکہ تیسری بات یہ ہے کہ کون کون سے فرقے دائرہ اسلام کے اندر اور کون کون سے فرقے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیے جائیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ آئندہ میٹنگ میں اس معاملہ پر بحث ہو گی اور سفارشات تیار کی جائیں گی۔ ایک طرف کونسل کا سربراہ یہ بیان دے رہا ہے اور دوسری جانب کونسل کے بعض ممبران ان معاملات کو کونسل میں اٹھانے سے گریزاں ہیں کیونکہ وہ عوام کے جذبات کو مجروح نہیں کرنا چاہتے۔ ایک ممبر نے اپنے نام کے اخفاء کی شرط کے ساتھ یہ بیان دیا کہ ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان کی عوام بھارت کی عوام کی طرح نان ایشوز کو لے کر سڑکوں پر مظاہرے کرنے لگے۔ یہ مذہبی اور سیاسی قیادت کا کام ہے کہ وہ معاشرے کے اقدار کا تعین کرے، ان پر کسی بھی طرح دباؤ ڈالنا مناسب نہیں۔ ایک سینئر صحافی زاہد حسین نے ڈان کے نمائندہ کو بتایاکہ اس کونسل نے ایسی خلافِ عقل سفارشات کی ہیں کہ کوئی بھی ان کی سفارشات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے زاہد حسین نے کہا کہ مثلاً بچیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 13؍ سال قرار دینے کی سفارش، زنا بالجبر کو ثابت کرنے کے لئے DNAٹیسٹ کے نتائج کو ماننے سے انکار کی سفارشات وغیرہ۔ مزید برآں ان کی سفارشات قانون کی حیثیت نہیں رکھتیں۔ انہوں نے اس افسوس کا اظہار بھی کیاکہ اس کے باوجود اس کونسل میں موجود ملّاںمیں سے بعض کے پاس سٹریٹ پاور ہے اور وہ کسی بھی معاملہ کو لے کر معاشرہ میں فساد پیدا کر سکتے ہیں۔ ‘ ………………… بلدیاتی انتخابات اور احمدی پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں ووٹ کی رجسٹریشن کے لئے جو فارم تیار کیا جاتا ہے اس میں ایک خاص گروہ کی تعریف کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت پر ایمان لانے کے لئے دستخط کیے جاتے ہیں۔ جماعتِ احمدیہ ایسے تمام الیکشنز کا بائیکاٹ کرتی آئی ہے جس میں انہیں بطور ’غیرمسلم‘ ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا ہو۔ سال 2015ء کے دوران ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے لئے جو فارم جاری کیے گئے ان میں بھی اس شق کو رکھا گیا۔ اس پر جماعتِ احمدیہ کے مرکزی دفتر کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جو کہ ذیل میں درج کی جاتی ہے: ’’صرف مذہبی بنیادوں پراحمدیوں کے لئے الگ ووٹر لسٹ امتیازی سلوک اور مخلوط انتخابات کی روح کے خلاف ہے ۔ مذہبی تفریق روا رکھنے پر جماعت احمدیہ بلدیاتی الیکشن 2015 سے لاتعلقی کا اعلان کرتی ہے :ترجمان جماعت احمدیہ چناب نگرربوہ(پ ر)جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان جناب سلیم الدین صاحب نے کہا ہے کہ الیکشن قوانین کے مطابق ووٹر کی اہلیت پاکستانی شہری ہے نہ کہ مذہب و ملت کی تفریق۔الیکشن کمیشن نے ووٹر کی رجسٹریشن کے لئے جو فارم جاری کیا ہے اس میں مذہب کا خانہ بطور خاص ڈالا گیا۔اس ووٹر فارم کے تحت ووٹ کے اندراج کے لئے احمدیوں کو آنحضرت ﷺ سے اعلان لاتعلقی کرنا پڑتا ہے اور کوئی احمدی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔مزید براں مخلوط انتخاب کے لئے ایک ہی جنرل ووٹر لسٹ بنائی جاتی ہے لیکن اس اصول کے برخلاف 2002ء اور 2008ء کے عام انتخابات میں احمدیوں کے لئے بذریعہ نوٹیفیکیشن 17 جنوری2007ء (No.F1(6)/2001-Cord) الگ ووٹر لسٹ بنانے کے لئے احکامات جاری ہوئے۔ اسی تسلسل میں انتخابی فہرستوں کی تصدیق کے لئے جو کتا بچہ ہدایات الیکشن کمیشن نے رجسٹریشن افسران اور دیگر عملے کے لئے شائع کیا اس کی شق12میں یہ الفاظ بطور خاص شامل کئے گئے۔ ’’احمدیوں کے ووٹ ابتدائی انتخابی فہرست میں علیحدہ درج کئے جائیں گے اور رجسٹر کے صفحہ کے اوپر ’’احمدیوں کے لئے‘‘ لکھا جائے گا‘‘۔ ترجمان جماعت احمدیہ سلیم الدین صاحب نے کہا کہ اس حکمنامہ کے اجراء اور نفاذ کے نتیجہ میں ووٹر لسٹ کی کیفیت اب یہ قرار پائی ہے کہ ایک فہرست جس میں تمام پاکستانی شہری خواہ وہ مسلمان، مسیحی، یہودی، ہندو ، پارسی،سکھ ہوں یا دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہوں ایک فہرست میں اکٹھے ہیں جبکہ صرف احمدیوں کے لئے الگ ووٹر لسٹ بنائی جا ر ہی ہے جو مذہبی نفرت وتفریق اور تعصب اور امتیاز کی بدترین مثال ہے۔یہ تفریق بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کے فرمودات،آئین پاکستان میں دیئے گئے حقوق،نیز مخلوط انتخابات کی حقیقی روح کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی بھی شدید خلاف ورزی ہے۔درحقیقت یہ محب وطن احمدیوں کو ملکی دھارے سے الگ کرنے اور سیاسی طور پر بے اثر بنانے کی کاوش ہے۔ ترجمان جماعت احمدیہ نے کہا کہ اس حوالے سے ہم نے حکومت کو تحریراًاور الیکشن کمیشن کو باضابطہ ملاقات کر کے بھی اپنے موقف سے آگاہ کیا لیکن افسوس کہ اس سلسلے میں ابھی تک کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ اس بنا پرجماعت احمدیہ پاکستان اپنا پُرزور احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے بلدیاتی ا نتخابات 2015ء سے لاتعلقی کا اعلان کرتی ہے۔‘‘ ……………… (باقی آئندہ)