ہر قسم کی بھلائی، فلاح، نجات، ترقی اور روشنی صرف قرآن میں ہے تمہارے لیے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) قرآن کریم خدا تعالیٰ کا پاک کلام ہے اور یہ وہ آخری مکمل ترین شریعت ہے جو قیامت تک کے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے حضرت محمدﷺ کے قلبِ اطہر پر نازل کی گئی۔ فصیح و بلیغ عربی زبان میں نازل ہونے والا یہ کلام اپنے نفس مضمون کی وسعت و گہرائی حقائق و دقائق و فضائل اور فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے ایسا بے مثل ہے کہ اس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت یا چند آیات کی مثال لانے پر بھی آج تک کوئی قادر نہ ہو سکا ہے۔ قرآن کریم کا اپنی جیسی نظیر پیش کرنے کا لا جواب چیلنج آج تک اس کی عظمت و فتح کا نقارہ بجارہا ہے۔ یہ وہی پاک کلام ہے جسے مشہور قادر الکلام عرب شاعر لبید نے سنا تو اس کی عظمت کے آگے گھٹنے ٹیک دینے پر ایسا مجبور ہوا کہ شعر کہنے چھوڑ دیے۔ چنانچہ جب اسے تازہ کلام سنانے کو کہا گیا تو کہنے لگا کہ میں نے جب سے کلام اللہ کی یہ آیت سنی ہے الٓـمّٓ۔ ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ… میں نے شعر کہنے چھوڑ دیے ہیں۔ الغرض ایک تاریک رات صبح درخشاں میں ڈھل گئی مگر حیف ہے کہ اس دنیائے رنگ و بو کے انسانوں کی اکثریت آج بھی اس شمس روحانی سے بے خبر یا اس کی عظمتوں سے نابلد ہے۔ جب انسانیت بالکل اندھیروں میں ڈوب چکی تھی، ہر خشکی و تری فساد کا شکار ہوگئی تھی، سب جزیرے غرق ہو چکے تھے، تب آسمان سے وہ سرمدی پیغام اترا جس نے نور کی ابدی شمعیں روشن کر دیں۔ خوشحالی کے نئے دروازے کھولے گئے۔ خوشی و انبساط کی کھڑکیاں وا ہوئیں۔ بنی نوع انسان کی نگاہیں بلند کیں، آسمان کی طرف چڑھنا سکھایا۔ جنتوں کی راہ دکھائی، درندوں سے بچنے کے گر بتائے۔ قرآن محبتوں کی کتاب ہے۔ عقیدتوں کا نصاب ہے۔ پیاسی روحوں کے لیے آب حیات ہے۔ سچائیوں سے معمور اس کا ہر باب ہے۔ اس سے دکھوں کا سمندر پایاب ہے۔ اس سے کا فرجل کے کباب اور شیطان کا خانہ خراب ہے۔ منکروں اور اس کے درمیان حائل حجاب ہے۔ مگر اہل حق کے لیے اس کا عشق سرمایہ حیات ہے اور اس پر غور کرنے والے اولوالالباب ہیں مگر بہت نہیں کمیاب ہیں۔ قرآن وہ حبل اللہ ہے جس نے تمام خطوں کی سعید روحوں کو متحد کر دیا ہے۔ نفرتوں کے الا ؤ بجھا دیے۔ اُمّیوں کی وحشت دُور ہو گئی اور محبت کے زم زم بہنے لگے۔ ہاں یہ قرآن کریم ہی ہے جس نے قانون اخلاق، قانون شریعت اور قانون تمدن اور سب علوم کا ئنات کو تکمیل کے آخری نقطہ تک پہنچا دیا۔ یہ رحمتوں کا سمندر ہے اور شفقتوں کا گلدستہ ہے۔ امن و آشتی کا علمبردار ہے۔ تمام ابدی صداقتوں کا جامع ہے۔ ماضی کا مرقع اور مستقبل کی نوید ہے۔ یہ روح کی بالیدگی کا سامان ہے۔ انسان کی ذہنی اور روحانی صحت کا ضامن ہے۔ تمام صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے۔ اس کے فضائل لکھنے بیٹھیں تو تمام درخت قلمیں بن کر ختم ہو جائیں اور تمام سمندر روشنائی میں ڈھل کر خشک ہو جائیں مگر یہ بحر بیکراں اسی طرح رواں دواں رہے گا۔ قرآن کریم ایک مکمل ضابطہ حیات آنحضرت ﷺ سے قبل کے انبیاء علیهم السلام تو اپنی اپنی قوم کی اصلاح اور بہبود کے لیے مبعوث ہوئے اور اپنے ساتھ مختلف نوشتے لائے۔ سوائے صحف ابراہیم کے باقی چار کتابیں معروف ہیں۔ زبور، توریت، انجیل، قرآن کریم۔ پہلی تینوں کتب کے علمبرداران کتب کی حفاظت نہ کر سکے۔ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا وجود، آپ کا ظہور تمام عالم کے لیے یکساں رحمت تھا کیونکہ آپ ساری دنیا کے لیے بجاطور پر بلاامتیاز اپنا وغیر، ہادی ورہبر تھے۔ اب ظاہر تھا کہ اتنی بڑی کائنات کے لیے اور اس کی راہنمائی کے لیے اس ہادی کے پاس اسی نوعیت کے اصول وقوانین کی مکمل و اکمل کتاب ہاتھ میں ہوتی۔ جس میں معاشرتی اصول، اخلاقی اصول، سیاسی اصول و قوانین و ضوابط اس پایہ کے ہوتے جن کا تعلق انسانی زندگی سے بڑا گہرا ہوتا۔ باالفاظ دیگر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم ایسی نعمت غیر مترقبہ حیات انسانی کے لیے ایک اساس اور دستور کا کام کرنے والی مقدس کتاب عالمگیر ضرورت تھی جو نبی اکرم محمد مصطفی ٰؐ کو عطا ہوئی۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت انسانیت کے عین بلوغ کے موقع پر اور ایک خاص بین الاقوامی دَور کے سر پر ہوئی۔ اور یہ وہ دور تھا جس کے لیے ایسی اہم اور مقدس جامع کتاب کی اشد ضرورت تھی جو پوری انسانیت کے لیے زندگی کا لائحہ عمل پیش کرے۔ تاکہ خود اس کی مخلوق صحیح معنوں میں اس سے راہنمائی حاصل کر کے خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کو پالے۔ اس مقدس قرآن کریم کی اجمالی تعریف یہ ہے کہ یہ کتاب خدائے واحد کی پرستش پر زور دیتی ہے ایک سے زیادہ معبودوں کی نفی کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ ہر قسم کے روحانی امراض کا علاج اس مقدس کتاب کی اتباع میں ہے۔ قرآن کریم سچے اور حقیقی اسلام پر روشن دلیل ہے۔ اور ہادی انسانیت ہے۔ لاریب! یہ کتاب شریعت و حکمت ہے۔ یہ کتاب عبودیت ہے اور دعاو ذکر و فکر کا مجموعہ ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’تمہارے لیے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ (کشتی نوح،روحانی خزائن جلد۱۹ صفحه ۱۳) پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْآنِ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے افسوس اُن لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی تمہارے ایمان کا ُمصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے، اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں۔ انجیل کے لانے والا وہ روح القدس تھا جو کبوتر کی شکل پر ظاہر ہوا جو ایک ضعیف اور کمزور جانور ہے جس کو بلّی بھی پکڑ سکتی ہے اسی لیے عیسائی دن بدن کمزوری کے گڑھے میں پڑتے گئے اور روحانیت ان میں باقی نہ رہی۔ کیونکہ تمام ان کے ایمان کا مدار کبوتر پر تھا مگر قرآن کا روح القدس اس عظیم الشان شکل میں ظاہر ہوا تھا جس نے زمین سے لے کر آسمان تک اپنے وجود سے تمام ارض و سما کو بھر دیا تھا۔ پس کجا وہ کبوتر اور کجا یہ تجلی عظیم جس کا قرآن شریف میں بھی ذکر ہے قرآن ایک ہفتہ میں انسان کو پاک کر سکتا ہے اگر صوری یا معنوی اعراض نہ ہو قرآن تم کو نبیوں کی طرح کر سکتا ہے اگر تم خود اس سے نہ بھاگو۔ بجز قرآن کس کتاب نے اپنی ابتدا میں ہی اپنے پڑھنے والوں کو یہ دعا سکھلائی اور یہ امید دی کہ اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ (الفاتحہ: ۶، ۷) یعنی ہمیں اپنی اُن نعمتوں کی راہ دکھلا جو پہلوں کو دکھلائی گئی۔ جو نبی اور رسول اور صدیق اور شہید اور صالح تھے پس اپنی ہمتیں بلند کر لو اور قرآن کی دعوت کو ردّ مت کرو کہ وہ تمہیں وہ نعمتیں دینا چاہتا ہے جو پہلوں کو دی تھیں۔ کیا اُس نے بنی اسرائیل کا ملک اور بنی اسرائیل کا بیت مقدس تمہیں عطا نہیں کیا جو آج تک تمہارے قبضہ میں ہے پس اے سست اعتقادو اور کمزور ہمتو کیا تمہیں یہ خیال ہے کہ تمہارے خدا نے جسمانی طور پر تو بنی اسرائیل کے تمام املاک کا تمہیں قائم مقام کر دیا۔ مگر روحانی طور پر تمہیں قائم مقام نہ کر سکا بلکہ خدا کا تمہاری نسبت اِن سے زیادہ فیض رسانی کا ارادہ ہے خدا نے اُن کے روحانی جسمانی متاع و مال کا تمہیں وارث بنایا مگر تمہارا وارث کوئی دوسرا نہ ہوگا جب تک کہ قیامت آ جاوے خدا تمہیں نعمت وحی اور الہام اور مکالمات اور مخاطبات الٰہیہ سے ہرگز محروم نہیں رکھے گا وہ تم پر وہ سب نعمتیں پوری کرے گا جو پہلوں کو دی گئیں لیکن جو شخص گستاخی کی راہ سے خدا پر جھوٹ باندھے گا اور کہے گا کہ خدا کی وحی میرے پر نازل ہوئی حالانکہ نہیں نازل ہوئی اور یا کہے گا کہ مجھے شرف مکالمات اور مخاطبات الٰہیہ کا نصیب ہوا حالانکہ نہیں نصیب ہوا تو میں خدا اور اس کے ملائکہ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ وہ ہلاک کیا جائے گا کیونکہ اُس نے اپنے خالق پر جھوٹ باندھا اور فریب کیا اور سخت بیباکی اور شوخی ظاہر کی سو تم اِس مقام میں ڈرو۔ لعنت ہے ان لوگوں پر جو جھوٹی خوابیں بناتے ہیں اور جھوٹے مکالمات اور مخاطبات کا دعویٰ کرتے ہیں گویا وہ دل میں خیال کرتے ہیں کہ خدا نہیں، پر خدا کا عقاب ان کو سخت پکڑے گا اور اُن کا بُرا دن اُن سے ٹل نہیں سکتا۔(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۲۶تا۲۸) ہماری روحانی بھلائی اور ترقی کے لیے کامل راہنما قرآن کریم ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: سب سے سیدھی راہ اور بڑا ذریعہ جو انوار یقین اور تواتر سے بھرا ہوا اور ہماری روحانی بھلائی اور ترقی علمی کے لئے کامل رہنما ہے قرآن کریم ہے۔ جو تمام دنیا کے دینی نزاعوں کے فیصل کرنے کے متکفل ہو کر آیا ہے۔ جس کی آیت آیت اور لفظ لفظ ہزار ہا طور کا تواتر اپنے ساتھ رکھتی ہے اور جس میں بہت سا آب حیات ہماری زندگی کے لیے بھرا ہوا ہے اور بہت سے نادر اور بیش قیمت جواہر اپنے اندر مخفی رکھتا ہے جو ہر روز ظاہر ہوتے جاتے ہیں۔ یہی ایک عمدہ محک ہے جس کے ذریعہ سے ہم راستی اور ناراستی میں فرق کر سکتے ہیں۔ یہی ایک روشن چراغ ہے جو عین سچائی کی راہیں دکھاتا ہے۔ بلا شبہ جن لوگوں کو راہ راست سے مناسبت اور ایک قسم کا رشتہ ہے اُن کا دل قرآن شریف کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے اور خدائے کریم نے اُن کے دل ہی اس طرح کے بنارکھے ہیں کہ وہ عاشق کی طرح اپنے اس محبوب کی طرف جھکتے ہیں۔ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۸۱-۳۸۲) قرآن شریف اپنی ذات میں ایک کامل معجزہ ہے قرآن شریف ایسا معجزہ ہے کہ نہ وہ اوّل مثل ہوا اور نہ آخر کبھی ہوگا۔ اُس کے فیوض و برکات کا در ہمیشہ جاری ہے اور وہ ہر زمانہ میں اس طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھا۔ علاوہ اس کے یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ ہر شخص کا کلام اُس کی ہمت کے موافق ہوتا ہے جس قدر اس کی ہمت اور عزم اور مقاصد عالی ہوں گے اسی پایہ کا وہ کلام ہوگا۔ اوروحی الٰہی میں بھی یہی رنگ ہوتا ہے۔ جس شخص کی طرف اُس کی وحی آتی ہے جس قدر ہمت بلند رکھنے والا وہ ہوگا اُسی پایہ کا کلام اُسے ملے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت و استعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت ہی وسیع تھا اس لیے آپ کو جو کلام ملا وہ بھی اس پایہ اور رتبہ کا ہے اور دوسرا کوئی شخص اس مت اور حوصلہ کا کبھی پیدا نہ ہوگا۔ کیونکہ آپ کی دعوت کسی محدودوقت یا مخصوص قوم کے لیے نہ تھی۔ جیسے آپ سے پہلے نبیوں کی ہوتی تھی بلکہ آپ کے لیے فرمایا گیا قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَا (الاعراف: ۱۵۹)اور مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ (الانبیا: ۱۰۸) جس شخص کی بعثت اور رسالت کا دائرہ اس قدر وسیع ہواس کا مقابلہ کون کرسکتا ہے۔ اس وقت اگر کسی کو قرآن شریف کی کوئی آیت بھی الہام ہو تو ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اس کے اس الہام میں اس کا اتنا دائرہ وسیع نہیں ہوگا جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور ہے۔(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۳۹۸ و ۳۹۹، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ بیان فرماتے ہیں: موجودہ تعلیمات دنیا میں جس قدر ہیں ان ساری پاک تعلیموں اور نیک تحریکوں کا عطر نکالو پھر محمد رسول اللہ (ﷺ )کی تعلیم سے مقابلہ کرو تو وہ سب کچھ اس میں موجود ہوگا اور میں ( نورالدین ) اس بات کا گواہ ہوں کہ میں نے ساری بائیبل کو دیکھا ہے اور تین (سام، یجر اور رگ ) ویدوں کو خوب سنا ہے پھر دسا تیر کو بہت توجہ سے پڑھا ہے اور برہموؤں کی کتابوں کو دیکھا یہی کتابیں میرے نزدیک رسول اللہ ﷺ سے پہلے کی ہیں۔ ان سب میں کوئی ایسی صداقت نہیں جو قرآن مجید میں نہ ہو اور پھر اتم نہ ہو۔ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَہُدًی وَّبُشۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔پھر فرماتا ہے کہ جو اگلی کتابوں میں سچ ہے اس کی تصدیق کرنے کے علاوہ اس میں اور بھی کچھ ہدایتیں ہیں جو پچھلی کتابوں میں نہیں۔ ایک بات سناتا ہوں۔اگلی کتابوں میں جو نصائح ہیں ان پر دلائل نہیں۔ چنانچہ ان میں لکھا ہے خدا ایک ہے۔ زمین و آسمان میں تیرے لئے کوئی دوسرا خدا نہ ہو۔ پڑوسی کی مدد کر۔ سبت منا۔ مبارک وہ جو غریب دل ہیں۔ اس قسم کی تعلیمات ہیں مگر ان کے ساتھ دلائل کوئی نہیں مگر قرآن شریف میں یہ خاصہ ہے کہ ایک طرف دعویٰ ہے دوسری طرف اس کے دلائل بھی ساتھ دئے ہیں۔( حقائق الفرقان جلد اول صفحہ۲۰۱) حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ فرماتے ہیں :قرآن خدا کی کتاب ہے اور اپنے اندر علوم رکھتا ہے۔ قرآن اس لیے نہیں کہ پڑھنے سے جنت ملے گی اور نہ پڑھنے سے دوزخ بلکہ فرمایا کہ فیہ ذکر کم (الانبیاء:۱۱)۔ اس میں تمہاری روحانی ترقی اور علوم کے سامان ہیں۔ قرآن ٹو نہ نہیں۔ یہ اپنے اندر حکمت اور علوم رکھتا ہے۔‘‘(مستورات سے خطاب۔ انوار العلوم جلد ۱۱ صفحہ ۵۹) پھر آپؓ فرماتے ہیں: ’’قرآن کریم کو اس یقین کے ساتھ پڑھا جائے کہ اس کے اندر غیر محدود خزانہ ہے۔ جو شخص قرآن کریم کو اس نیت کے ساتھ پڑھتا ہے کہ جو کچھ مولوی مجھے اس کا مطلب بتائیں گے یا پہلی کتابوں میں لکھا ہوا ہے وہیں تک اس کے معارف ہیں اس کے لیے یہ کتاب بند رہتی ہے۔ مگر جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اس میں خزانے موجود ہیں وہ اس کے معارف اور علوم کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔‘‘( فضائل القرآن (۶) انوار العلوم جلد۱۴صفحہ۳۲۵-۳۲۶) رسول کریم ﷺ پر وہ کتاب نازل ہوئی جس میں ہر علم پر بحث کی گئی تھی اور پھر جو بحث کی گئی تھی وہ ایسی تھی کہ اپنی ذات میں ہر لحاظ سے کامل تھی اور اس میں کسی نئے پہلو کا اضافہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پس پہلی بات یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کو وہ کتاب ملی جو جامع ہے تمام علوم کی۔ یہ نہیں کہ وہ سیاست کے متعلق کتاب ہے یا انٹر نیشنل لاء کے متعلق کتاب ہے یا اخلاق کے متعلق کتاب ہے یا علم النفس کے متعلق کتاب ہے بلکہ ہرفن کے متعلق ہم اس میں تعلیم پاتے ہیں۔ اس میں عبادت پر بھی بحث کی گئی ہے، اس میں اقتصادیات پر بھی بحث کی گئی ہے، اس میں استاد اور شاگرد، باپ اور بیٹا، نو کر اور مالک کے حقوق پر بھی بحثیں ہیں، اس میں حکومتوں کے تعلقات اور لڑائی اور صلح وغیرہ پر بھی بحث ہے۔ غرض ایک غیر معمولی کتاب ہے جو رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئی۔ (تفسیر کبیر جلد۱۳صفحه۱۹۱) حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:’’سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان تمام نعمتوں کا کب اور کس طرح وارث بنتا ہے تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک دوسرے الہام میں بتایا ’’اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِیْ الْقُرْانِ‘‘ساری بھلائیاں اور نیکیاں اور سب موجبات رحمت قرآن کریم میں ہیں۔ اور رحمت کے کوئی سامان ایسے نہیں جو قرآن کریم کو چھوڑ کر کسی اور جگہ سے حاصل کیے جاسکیں اور رحمت کے ہر قسم کے سامان صرف قرآن کریم سے ہی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔‘‘( خطبہ جمعہ فرمودہ۵؍اگست ۱۹۶۶، مطبوعہ خطبات ناصر جلد اول صفحہ ۳۵۳) حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں :ایک امر بہر حال یقینی اور قطعی ہے کہ جو کچھ بھی ہم نے ہدایت پانی ہے اسی کتاب سے پانی ہے۔ پس سب سے پہلے تو عبادت کے تعلق میں کلام الہی کا پڑھنا ایک بنیادی امر ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرتا ہوں۔ جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے بہت کم ایسے خاندان ہیں جن میں روزانہ تلاوت ہوتی ہو۔ شاذ کے طور پر ایسے بچے ملیں گے جو صبح اٹھ کر نماز سے پہلے یا نماز کے بعد کچھ تلاوت کرتے ہوں … ہماری نسلوں کو اگر سنبھالنا ہے تو قرآن کریم نے سنبھالنا ہے اور قرآن کریم سے دو باتیں لازم ہیں۔ ہدایت ہے مگر نہیں بھی ہے۔ ہدایت ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ جو تقویٰ اختیار نہیں کرتے ان کے لیے ’’ذالک الکتاب‘‘ دور کی کتاب رہے گی، جو بظاہر ان کے سامنے ہے مگر ان سے دور ہٹی رہے گی۔‘‘( خطبہ جمعہ فرمودہ ۴؍جولائی ۱۹۹۷ء بحوالہ مشعل راہ جلد سوم صفحہ ۵۹۲) ’’قرآن کریم ایک کامل کتاب ہونے کے لحاظ سے ہر مضمون کے ہر پہلو کو بیان فرماتا ہے اور ہر خطرہ کو پیش نظر رکھ کر اس کا حل پیش کرتا ہے۔ …کیسی حیرت انگیز کتاب ہے! جوں جوں آپ اس پر غور کریں اس کے عاشق ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کسی مضمون کا کوئی باریک سے باریک پہلو ایسا نہیں ہے جو یہ آپ پر کھولتی نہ ہو۔‘‘( خطبہ جمعہ ۱۸؍نومبر ۱۹۸۳ء بحوالہ خطبات طاہر جلد دوم صفحہ ۵۸۵) ’’قرآن کریم حیرت انگیز عقل و دانش کی ایک ایسی کتاب ہے کہ جو انسانی فطرت کی غلطیوں کی اصلاح کے ساتھ اس کے اخذ کئے ہوئے نتیجوں کی درستی کرتی ہے اور پھر اس کی صحیح راہنمائی بھی فرماتی ہے۔‘‘( خطبه جمعه ۵؍اگست ۱۹۸۳ء بحوالہ خطبات طاہر جلد دوم صفحہ ۴۰۴) ’’روحانی دنیا کی یہ سائنٹفک کتاب حیرت انگیز طور پر ایسی ایسی اصطلاحیں استعمال فرماتی ہے اور ایسے ایسے مضامین پر روشنی ڈالتی ہے کہ انسانی عقل وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ قرآنی نقطہ نگاہ کا علم ہو جانے کے بعد جب آپ تدبر اور غور کریں تو آپ قرآنی بیانات کو حیرت انگیز طور پر سچا پائیں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۵؍اگست ۱۹۸۳ء بحوالہ خطبات طاہر جلد دوم صفحہ ۴۰۴-۴۰۵) حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کو سمجھو اور یہ تعلیم ہمیں قرآن کریم سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس لیے قرآن کریم کو بھی غور سے پڑھو، اس پر تدبر کرو، سو چو اور اس میں دئے گئے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ اگر ہمیشہ کی ہدایت پانی ہے، ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنا ہے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کا لطف اٹھانا ہے تو پھر اس تعلیم پر عمل کرنا بھی ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں دی ہے‘‘( خطبات مسرور جلد دوم صفحہ ۲۳۷) قرآن کریم صرف دعاؤں کی کتاب نہیں کہ خلوص دل اور عقیدت کے ساتھ تلاوت کر کے اس کے حقوق سے بری الذمہ ہو جائیں۔ نہیں یہ وہ مقدس و اکمل کتاب ہے جو اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے اور ایوان حکومت سے لے کر نادر کی جھونپڑی تک کی زندگی کا کوئی شعبہ کوئی مرحلہ اس سے باہر نہیں ہے۔ قرآن کا علم و حکمت کا منبع قرآن کریم نہ صرف روحانی ہدایت کا ذریعہ ہے بلکہ یہ ایک مکمل علمی خزانہ بھی ہے۔ اس میں کائنات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے جن میں فلکیات، حیاتیات، نفسیات، عمرانیات، اور معاشرتی اصول شامل ہیں۔ اس کتاب نے انسان کو تفکر، تدبر اور علم کے حصول کی ترغیب دی۔ أَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ(النساء: ۸۳)کیا وہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے؟ آج کے جدید سائنسی دور میں، قرآن کی وہ آیات جو علم کے مختلف شعبوں پر روشنی ڈالتی ہیں، سائنس کی موجودہ تحقیقات سے ہم آہنگ پائی گئی ہیں۔ یہی قرآن کی معجزانہ نوعیت کو ثابت کرتا ہے۔ قرآن میں صرف روحانی تعلیمات ہی نہیں بلکہ سائنسی اور فلسفی پہلو بھی ہیں جو ہر دور کے انسان کو اپنی عقل کے مطابق راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن صرف ایک زمانے کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانوں اور تمام اوقات کے لیے ایک راہنمائی کا ذریعہ ہے۔ قرآن کے ہر پہلو میں انسانیت کی فلاح اور اس کی بہتری کی بات کی گئی ہے۔ قرآن کریم اور روحانی شفا قرآن کریم صرف ظاہری علاج نہیں بلکہ دلوں کی بیماریوں کا علاج بھی ہے۔ یہ روحانی سکون اور اطمینان کا ذریعہ ہے اور گناہوں کا کفارہ بن کر آتا ہے۔ قرآن کی تعلیمات انسان کی روح کو تازگی دیتی ہیں اور دلوں کی صفائی کرتی ہیں۔ وَنُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّرَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ(بنی اسرائیل: ۸۳) اور ہم قرآن میں آہستہ آہستہ وہ (تعلیم) اتار رہے ہیں جو مومنوں کے لئے (تو) شفا اور رحمت (کا موجب) ہے۔ قرآن کریم کا سماجی و معاشی اثر قرآن کریم نے انسانیت کو نہ صرف روحانی تعلیمات دیں بلکہ اس نے معاشرتی، اقتصادی، اور سیاسی نظام کو بھی بہتر بنانے کے اصول فراہم کیے۔ قرآن نے انسانوں کو حقوق و فرائض کی اہمیت بتائی، معاشرتی انصاف کے اصول سکھائے اور عدل و انصاف پر زور دیا۔ إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ (النحل: ۹۱)یقیناً اللہ تعالیٰ انصاف اور بھلا ئی کا حکم دیتا ہے۔ قرآن نے مسلمان معاشرت میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے سخت ہدایات دیں، تاکہ انسانوں کی زندگی میں سکون، امن، اور خوشحالی قائم ہو سکے۔ اس میں خاص طور پر یتیموں، مسکینوں، اور معاشرتی طور پر کمزور طبقوں کے حقوق کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ قرآن کریم کا عالمی اثر قرآن کی تعلیمات کا اثر صرف مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ اس کا پیغام عالمگیر ہے۔ قرآن نے انسانیت کو ایک اعلیٰ اخلاقی معیار پیش کیا اور اس نے سب انسانوں کو ایک ہی نظر سے دیکھا۔ قرآن کی تعلیمات میں نہ صرف ایک فرد کی اصلاح کا پہلو ہے بلکہ پورے معاشرتی نظام کی بہتری کی جانب بھی راہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ آج تک قرآن کی تعلیمات دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے دلوں کو متاثر کر چکی ہیں اور اس کا پیغام پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ حرف آخر: التجا در بارگاہ رب العالمین الہ العالمین، تیرا ایک نالائق بنده، دریده پیرهن، خاک آلوده و پراگندہ حال تیری چوکھٹ پر اپنا تہی دامن پھیلائے کھڑا ہے۔ یہ پھر اپنا دست سوال دراز کیے ہوئے ہے۔ اگرچہ یہ بحر گناہ میں غرق اور معصیت و عصیان کے تند تھپیڑوں سے نیم جان ہے مگر ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کا دل اس یقین سے معمور ہے کہ اس کی مناجاتیں اور التجائیں عرش سے اس کے آقا کی رحمتوں کے نزول پر منتج ہوں گی۔ اے خدا اے ذو المجد والعطاء آج تیرا یہ بندہ تجھ سے اپنے لیے کچھ مانگنے نہیں آیا بلکہ اس کی گریہ وزاری کا سبب وہ مصائب و آلام ہیں جن سے دکھی انسانیت اس دور سے گزر رہی ہے۔ آج اس کا دل اس لیے حزیں ہے کہ تیرے سب سے محبوب نبی ﷺ کے نام لیوا دو طرح سے مصیبتوں میں گرفتار ہیں۔ یا تو وہ مظلوم ہیں اور ستائے جا رہے ہیں یا پھر تیرا دامن چھوڑ دینے کے نتیجہ میں انہوں نے ظلم کی راہ اختیار کر لی ہے اور احسن تقویم کے مقام سے اس اسفل السافلین کی پستی میں جا گرے ہیں۔ وہ جن کی تلواریں صرف مظلوم کی مدد اور امن کے قیام کے لیے میان سے نکلتی تھیں آج دہشت گرد اور انتہا پسند کہلا رہے ہیں۔ وہ مسلمان جن کے اسلاف نے شمشیر وسنان سے نہیں بلکہ تاثیر محبت کے تیروں سے قو میں فتح کیں آج جبر و استبداد کے ہر حربے کو آزما رہے ہیں۔ وہ جن کے کاندھوں پر دنیا کی اصلاح اور توحید کے قیام جیسی عظیم ذمہ داریاں ڈالی گئی تھیں آپس کی ناچاکیوں اور بداعمالیوں کی دلدل میں دھنس گئے ہیں۔ وہ مذہب جو حقیقی امن کا مذہب ہے، جو صلح و آشتی کا مذہب ہے، جو انسانوں کو با اخلاق اور با خدا بناتا ہے۔ جو نفرتیں مٹاتا ہے اور محبتیں بڑھاتا ہے، جو خیر کا پرچار کرتا ہے جو سکون قلب سے سرشار کرتا ہے، دنیا بھر میں اغیار کے استہزا اور شماتت اعداء کا نشان بنا ہوا ہے۔ یہ سب باتیں اس بنا پر ہو رہی ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن کریم کی تعلیمات کو چھوڑ دیا اور آنحضرت ﷺ کی سنت کی اتباع نہیں کی۔ اے خدا تیری غالب تقدیر نے ایک صدی قبل اس نظام جہان نو کی داغ بیل ڈال دی ہے جس نے امن عالم کو بحال کرنا ہے۔ جس کے ذریعے ضعف دین مصطفی کی شب اماوَس ایک سپیده صبح میں تبدیل ہو جائے گی اے خدا تو اس عہد کی سب سے بڑی سچائی یعنی قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخش تا دنیا کی بے چینی امن میں بدل جائے تا دکھ سکھ میں تبدیل ہو جائیں، نفرتیں محبتیں بن جائیں، شرف انسانی بحال ہو، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو، تا تیرے نام کا پرچم، فقط تیرے نام کا پرچم دنیا میں لہرائے۔ تو اپنے ان وعدوں کو جلد پورا فرما جو تُو نے اپنے پاک مسیح سے کیے ہیں۔ تا کہ ایک مرتبہ پھر قرآن کریم کی عظمت تمام دنیا میں قائم ہو سکے۔ تو ان پیشگوئیوں کو بھی شرمندہ تعبیر کر جن کی خبر تو نے اپنے پیارے مہدی کے خلفاء کو ہمیشہ دی ہے۔ تو وہ نشان ہائے فتح وظفر ظا ہر فرما جو ہر احمدی اپنی نیم شبی دعاؤں میں تجھ سے مانگتا ہے۔ جو میرا بھی خواب ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: دنیا کی موجودہ صورتحال کے امن عالم پر اثرات