https://youtu.be/af6YFgzdZmc ٭… فاتحِ مکّہ کا یہ حال ہے، جبکہ سب کچھ ہر گھر سے میسر آسکتا تھا، لیکن آپؐ نے اُن چھوٹے سوکھے روٹی کے ٹکڑوں پر گزارہ کیا ٭…مَیں محمد ہوں، الله کا بندہ اور اُس کا رسول ہوں۔ مَیں نے الله کی خاطر تمہاری طرف ہجرت کی تھی، اب میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہی ہے۔ ٭… فتح مکّہ کے وقت صرف چند ایک افراد کے قتل ہونے کا فیصلہ ہوا اَور وہ وہی تھے، جن کے بارے میں حکم و عدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ صرف اُنہی چند لوگوں کو سزا دی ، جن کو سزا دینے کے لیے حضرتِ احدیّت کی طرف سے قطعی حکم وارد ہو چکا تھا۔ ٭… موجودہ حالات کے پیش نظر دعائیں کرنے اور راشن اکٹھا کرنے کی یاددہانی ٭… مکرمہ امۃ النسیم نگہت صاحبہ اہلیہ مکرم راجہ عبد المالک صاحب آف امریکہ اور مکرم الحاج یعقوب احمد بن ابو بکر صاحب آف گھانا کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۱؍جولائی ۲۰۲۵ء بمطابق ۱۱؍وفا ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۱۱؍جولائی ۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: جیسا کہ گذشتہ خطبے میں بیان ہوا تھا کہ کعبے کی کنجی عثمان بن طلحہ کے پاس تھی۔ جب فتح مکّہ ہوئی تو اُس وقت حضرت علی رضی الله عنہ نے سقایہ یعنی پانی پلانے کے اعزاز کے ساتھ کلیدبرداری کا اعزاز بھی حاصل کرنے کی درخواست کی یعنی کہ چابی اُن کو دے دی جائے۔ لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کعبے سے نکلتے ہوئے عثمان بن طلحہ کو بلایا اور اُس کو چابی واپس کرتے ہوئے فرمایا : اَلْیَوْمُ یَوْمُ الْبِرٍّ وَ وَفَاءٍ کہ آج نیکی اورایفائے عہد کا دن ہے۔اُس وقت عثمان بن طلحہ مسلمان ہو چکے تھے۔ رسول اللهؐ نے کیوں یہ کہا اِس کی تفصیل اِس طرح ہے کہ آپؐ نے ہجرت سے پہلے ایک مرتبہ عثمان بن طلحہ سے کعبے کی چابی مانگی تھی تو اُس نے جواب میں آپؐ کو برا بھلا کہا اور نہایت غلیظ زبان استعمال کی تھی۔ آپؐ نے اُس وقت نہایت تحمل سے کام لیا اور فرمایا کہ اَے عثمان! یادرکھو کہ یہ چابی کسی نہ کسی دن میرے ہاتھ میں آئے گی اور مَیں اِسے اپنی مرضی سے جسے چاہوں گا، دوں گا۔ عثمان نے تو اُس وقت یوں جواب دیا تھا کہ اگر ایسا وقت آیا تو وہ قریش کی ہلاکت اور ذلّت کا وقت ہو گا۔ اِس پر آپؐ نے فرمایا کہ ایسا نہیں بلکہ اِس وقت تو قریش کی آبادی اور عزت و تکریم ہو گی۔ یہ ساری زیادتیاں جو اُس وقت آپؐ سے کی گئی تھیں آپؐ کو یاد تھیں لیکن باوجود اِس کے آپؐ نے اِن لوگوں پر رحمت اور شفقت فرمائی۔ آپؐ نے اُسے کہا کہ یہ چابی ہمیشہ کے لیے لے لو۔ تم سے صرف ظالم ہی اسے چھینے گا۔ اب یہ تمہارے خاندان میں رہے گی۔ چنانچہ آج تک خانہ کعبہ کی چابی اِسی خاندان میں نسل در نسل چلی آ رہی ہے۔ روایت ہے کہ فتح مکّہ کے دوسرے روز بنو خزاعہ نے بنو بدیل کے ایک مشرک آدمی کو قتل کر دیا ، تو رسول اللهؐ ظہر کے بعد خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے ۔آپؐ اپنی کمر کعبے کے ساتھ لگائے ہوئے تھے یا بمطابق ایک روایت آپؐ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے۔ الله تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: اَے لوگو! الله تعالیٰ نے مکّے کو اُس روز سے حرم بنایا ہے، جس روز اُس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی اور جس روز اُس نے سورج اور چاند کو بنایا اور یہ دو پہاڑ صفا اور مروہ نصب کیے۔ اِسے لوگوں نے حرم نہیں بنایا بلکہ الله تعالیٰ نے بنایا ہے۔ یہ قیامت کے دن تک حرم ہے۔ پس جو شخص الله تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اِس کے لیے حلال نہیں کہ وہ اِس میں خونریزی کرے اور نہ اِس کا درخت کاٹے۔ یہ نہ مجھ سے قبل کسی کے لیے حلال ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ میرے لیے گھڑی بھر کے لیے حلال ہوا تھا۔ پھر اس کی حرمت اُسی طرح لوٹ آئی ہے جس طرح کل تھی۔ تم میں سے حاضر غائب تک پہنچا دے جو تمہیں کہے کہ رسول اللهؐ نے اس میں قتال کیا تھا تو اُسے کہو کہ الله تعالیٰ نے اِسے اپنے رسول کے لیے حلال کیا تھا اور اُس نے تمہارے لیے حلال نہیں کیا۔ اے لوگو! لوگوں میں سے الله تعالیٰ پر سب سے جرأت کرنے والا وہ شخص ہے جس نے حرم میں قتل کیا یا اپنے قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل کیا یا زمانۂ جاہلیت کے خون کے بدلے کی وجہ سے قتل کیا۔ اے بنو خُزاعہ! قتل سے ہاتھ روک لو، تم نے ایک شخص کو قتل کیا ہے۔مَیں اِس کی دیّت ادا کروں گا۔ جو میری ضمانت کے بعد کسی کو قتل کرے گا تو اُس کے اہل کو دو اختیار ہوں گے کہ اگر وہ چاہیں تو دیّت لے لیں اور اگر چاہیں تو اُسے قتل کر دیں۔پھر آپؐ نے اُس شخص کی دیّت ایک سو اونٹ دے دی، جسے بنو خُزاعہ نے قتل کیا تھا، اُن کی طرف سے آپؐ نے دیّت عطا فرمائی۔ اُنہی دنوں میں فُضالہ بن عُمَیْر کا آپؐ کو قتل کرنے کا ناپاک منصوبہ بھی ظاہر ہوا۔ اِس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ فتح مکّہ کے دن بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہے تھے لیکن وہ بے بس تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مکّے کے کچھ دلیر نوجوانوں جیسے عکرمہ وغیرہ نے باقاعدہ ایک پلٹن بنا کر ایک جگہ کھڑے ہو کرمسلّح مزاحمت بھی کی تھی۔ اِسی طرح کے سوچ رکھنے والوں میں سے ایک شخص فُضالہ بن عُمَیْر بھی تھا۔ یہ کہتا ہے کہ جب رسول اللهؐ خانہ کعبہ کی طرف طواف کر رہے تھے تو مَیں بھی اُس بھیڑ میں شامل ہو گیااور سوچا کہ جونہی مَیں رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) کے قریب ہوں گا تو چپکے سے اپنے خنجر سے وار کر کےآپؐ کو نعوذبالله! قتل کر دوں گا۔ وہ اس ارادے سے آپؐ کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ جونہی وہ آپؐ کے قریب ہوا تو آپؐ نے اُسے دیکھ کےفرمایا کہ تم فُضالہ ہو! اُس نے کہا کہ جی ہاں۔ فرمایا: دل میں کیا سوچ رہے ہو؟اُس نے جھوٹ بولا اور کہنے لگا کہ مَیں الله کا ذکر کر رہا ہوں۔ اِس پر آپؐ مسکرائے اور فرمایا کہ الله سے استغفار کرو، جو کہہ رہے ہو، وہ تم نہیں کر رہے۔ اور آپؐ قریب آئے اور اُس کے سینے پر ہاتھ رکھا۔ فُضالہؓ بیان کرتے ہیں کہ بخدا! آپؐ نے میرے سینے سے ہاتھ نہیں اُٹھایا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ محبوب مجھے محمد صلی الله علیہ وسلم ہی لگنے لگے۔ وہ اپنے گھر والوں کی طرف واپس لوٹ آیا اور اُس کی کایا پلٹ گئی۔ اِنہی دنوں میں حضرت ابوبکرؓ کے والدِ ماجد کے قبولِ اسلام کے واقعے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ آپؓ کے والد فتح مکّہ تک ایمان نہیں لائے تھے۔اُس وقت اُن کی بینائی جا چکی تھی۔فتح مکّہ کے وقت جب رسولِ کریمؐ حرم میں داخل ہوئے، تو آپؓ اپنے والد کو لے کر رسولِ کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئےجب نبی کریمؐ نے اُنہیں دیکھا تو فرمایا کہ اَے ابوبکر!تم اِس عمر رسیدہ شخص کو گھر میں ہی رہنے دیتے۔ مَیں خود اِن کے پاس آ جاتا۔ اس پر آپؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللهؐ! یہ اِس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتےنہ یہ کہ آپؐ اِن کے پاس تشریف لاتے۔ ایک ذکر حضرت اُمّ ہانی رضی الله عنہا کے گھر آپؐ کےکھانا تناول فرمانے کا ملتا ہے۔ حضرت ابنِ عبّاس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ آپؐ نے فتح مکّہ کے روز حضرت اُمّ ہانیؓ سے فرمایا کہ تمہارے پاس کھانا ہے، جسے ہم کھائیں؟ اُنہوں نے عرض کی کہ سوکھی ہوئی روٹی کے ٹکڑوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور مجھے حیا آتی ہےکہ مَیں اُنہیں آپؐ کی خدمت میں پیش کروں۔ آپؐ نے فرمایا کہ انہیں ہی لے آؤ۔ آپؐ نے اُنہیں پانی میں بھگویا، وہ ساتھ نمک لے آئیں، آپؐ نے فرمایا! کیا شوربہ ہے کوئی؟ اُنہوں نے کہا کہ یا رسول اللهؐ! میرے پاس سرکے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ وہ سرکہ لے آؤ۔ آپؐ نے اُسے کھانے پر اُنڈیلا اور اِس میں سے کھایا اور الله تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ پھر فرمایا کہ سرکہ کیا ہی عمدہ سالن ہے، اَے اُمّ ہانی! جس گھر میں سرکہ موجود ہو وہ غریب نہیں ہوتا۔ حضور انور نے فرمایا کہ شکرگزاری کی بھی انتہا ہے اور اُمّ ہانی رضی الله عنہا کی دلجوئی بھی کر دی۔ فاتح مکّہ کا یہ حال ہے، جبکہ سب کچھ ہر گھر سے میسر آسکتا تھا، لیکن آپؐ نے اُن چھوٹے سوکھے روٹی کے ٹکڑوں پر گزارہ کیا۔ آپؐ کے مکّہ پہنچنے اور وہاں ہر چیز اور خاص طور پر خانہ کعبہ کو محبّت سے دیکھنے سے انصار کے دل میں اندیشہ پیدا ہوا کہ آپؐ کہیں یہیں نہ رہ جائیں۔ مثل مشہور ہے کہ عشق است ہزار بدگمانی کہ ایک محبّت ہوتی ہے اور اِس کے ساتھ ہزار وسوسے اور بدگمانیاں ہوتی ہیں۔ محبّت کرنے والا ہر وقت اپنے محبوب کے بارے میں فکر مند رہتا ہے۔ عشق و محبّت اور حُسن وفا کے بہت سارے منظر فتح مکّہ کے موقع پر دیکھے گئے، اِن میں سے ایک بہت ہی پاکیزہ اور پُر لطف نظارہ مدینے کے انصار کی جانب سے دیکھنے میں آیا۔ حضرت ابوہُریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللهؐ تشریف لائے، مکّے میں داخل ہوئے اور حجرِ اسود کی طرف آئے اور اُسے اِستلام کیا یعنی حجرِ اسود کو بوسہ دیا۔ پھر بیت الله کا طواف کیا۔ پھر صفا پر چڑھے، جہاں سے آپؐ بیت الله کو دیکھ رہے تھے اور آپؐ نے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور الله عزّوجل کا ذکر کرنے لگے، جتنا الله تعالیٰ نے چاہا کہ آپؐ اُس کا ذکر کریں اور اُس سے دعا مانگتے رہے۔ انصار آپؐ سے نیچے تھے۔ آپؐ نے دعا کی اور الله کی حمد کی اور دعا کی کہ جتنا اُس نے چاہا کہ دعا کریں۔ آنحضرتؐ کی مصروفیات اور اہالیان مکّہ سے حُسنِ سلوک کے ناقابلِ یقین مناظر دیکھتے ہوئے انصار اپنی ہی سوچوں میں گم ہو گئے، وہ ایک دوسرے سے کہنے لگےکہ آپؐ پر اپنے وطن کی محبّت اور اپنے قبیلے کی محبّت غالب آ گئی ہے، اور شاید اب آپؐ یہیں اپنی بستی میں اپنے عزیز رشتہ داروں میں رہ جائیں گے۔ اور نبیٔ اکرمؐ کی جدائی کا سوچتے ہی وہ غمزدہ ہو گئے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب انصار کی یہ حالت تھی تو آنحضرتؐ پر اِس دوران میں وحی نازل ہوئی اور جب وحی ختم ہوئی تو رسول اللهؐ نے فرمایا کہ اَے گروہِ انصار! اُنہوں نے کہا کہ یارسول اللهؐ! حاضر ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم یہ سوچ رہے ہو کہ اِس شخص پر وطن کی محبّت غالب آ گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ایسا ہی ہے۔ آپؐ نےفرمایا کہ اگر ایسا ہوا تو میرا نام کیا ہوگا؟ مَیں محمد ہوں، الله کا بندہ اور اُس کا رسول ہوں۔ مَیں نے الله کی خاطر تمہاری طرف ہجرت کی تھی، اب میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہی ہے۔ اِس پر وہ بے اختیار روتے ہوئے آپؐ کی طرف بڑھے اور کہنے لگے کہ الله کی قسم! ہم نے جو بھی کہا وہ الله اور اُس کے رسولؐ کی شدید محبّت اور آپؐ سے جدائی کے ڈر کی وجہ سے کہا تھا۔ رسول اللهؐ نے فرمایا کہ یقیناً! الله اور اُس کا رسول تمہاری اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عُذر قبول کرتے ہیں۔ خانہ کعبہ کی چھت پرسے ظہر کی اذان دی گئی۔ جب نمازِ ظہر کا وقت ہوا ، تو آپؐ نے حضرت بلال رضی الله عنہ کو حکم دیا ، تو اُنہوں نے خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دی۔ روایت ہے کہ آپؐ نے اُس دن تمام نمازیں ایک ہی وضو سے ادا فرمائیں۔آپؐ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ بالعموم ہر نماز کے لیے تازہ وضو فرماتے تھے، لیکن آج جب صحابہؓ نےآپؐ کو ایک ہی وضو کے ساتھ نمازیں پڑھتے دیکھا تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللهؐ! آپؐ نے آج وہ کیا ہے، جو آپؐ نہیں کیا کرتے تھے، رسول اللهؐ نے فرمایا کہ عمر! مَیں نے دانستہ ایسا کیا ہے۔علماء نے اِس سے استدلال کیا ہے کہ آپؐ نے ضرورت کے وقت ایسا کرنے کی سہولت کی خاطر یہ نمونہ دیا تھا۔ اِس دوران آپؐ نے عام بیعت بھی لی۔ جس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ حضرت اسود بن خلفؓ سے روایت ہے کہ اُنہوں فتح مکّہ کے روز آپؐ کو دیکھا، آپؐ لوگوں سے بیعت لے رہے تھے، آپؐ قرنِ مسفلہ کے پاس بیٹھ گئے ، جو مکّے کی نچلی جانب ایک چٹان ہے اور اسلام پر لوگوں سے بیعت لی۔ چھوٹے بڑے، مرد اور خواتین آپؐ کی خدمت میں آئے، آپؐ نے اُن سے ایمان بالله اور اِس شہادت پر بیعت لی کہ الله تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد صلی الله علیہ وسلم اُس کے بندے اور رسول ہیں۔ جب مردوں کی بیعت سے فارغ ہوئے، تو آپؐ نے عورتوں کی بیعت لی، اُن خواتین میں ابوسفیان کی بیوی ہند بھی تھی۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ ہند بنتِ عُتبہ کو سمجھ آ گئی کہ وہ گمراہی پر تھی تو اپنے خاوند ابوسفیان کو کہنے لگی کہ مَیں محمد (صلی الله علیہ وسلم) کی بیعت کرنا چاہتی ہوں، اُس نے حیران ہوتے ہوئے کہا کہ آج تک تو تم انکار ہی کرتی چلی آئی ہو، یہ اچانک اتنی بڑی تبدیلی کیسے آگئی؟ کہنے لگی کہ الله کی قسم! مَیں نے فتح مکّہ والے دن مسلمانوں کو محمد (صلی الله علیہ وسلم) کے ساتھ عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے اور ساری رات محمد (صلی الله علیہ وسلم) کے ساتھ خانہ کعبہ میں اِس طرح عبادت کرتے رہے کہ کوئی قیام کی حالت میں تھا، کوئی رکوع کی اور کوئی سجدے کی حالت میں۔ اِس طرح عبادت کرتے ہوئے مَیں نے آج تک کسی کو نہیں دیکھا۔ حضور انور نے فرمایا کہ وہ مجرم جن کے قتل کا حکم صادر ہوا، اِن کے بارے میں لکھا ہے، تفصیل بیان کرتا ہوں گو کہ اِس بارے میں لوگوں کے بھی بعض تحفظات ہیں اور واقعات بھی یہی بتاتے ہیں، کیونکہ جن وجوہات کی بنیاد پر قتل کے حکم کے بارے میں بیان کیا گیا ہے، یہ صاف طور پر آنحضرتؐ کے عمل اور طبیعت کے خلاف ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اِس حوالے سے جو اپنی رائے لکھی ہے ، وہ یہ ہے کہ صرف گیارہ مرد اور چار عورتیں ایسی تھیں کہ جن کی نسبت شدید ظالمانہ قتل اور فساد ثابت تھے۔ وہ گویا جنگی مجرم تھے اور اُن کے متعلق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا حکم تھا کہ قتل کر دیے جائیں، کیونکہ وہ صرف کفر اور لڑائی کے مجرم نہیں تھے، بلکہ جنگی مجرم تھے۔ لیکن اُن میں سے اکثر کو مسلمانوں کی سفارش پر آپؐ نے چھوڑ دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی الله علیہ وسلم نے مکّے والوں اور دوسرے لوگوں پر بکلّی فتح پا کر اور اُن کو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر پھر اُن کا گناہ بخش دیا اور صرف اُنہی چند لوگوں کو سزا دی، جن کو سزا دینے کے لیے حضرتِ احدیّت کی طرف سے قطعی حکم وارد ہو چکا تھا اور بجر اُن ازلی ملعونوں کے ہر یک دشمن کا گناہ بخش دیا۔ مزید برآں حضور انور نے فرمایا کہ جن افراد کو قتل کیا گیا تھا، تاریخ میں اُن کی وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں، جو کہ بہرحال بیان تو کر دیتا ہوں ، لیکن تسلّی بخش وجوہات نہیں ہیں۔ اِس حوالے سے تفصیلات اور اُن کا ردّ پیش کرنے کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ اِس میں شبہ نہیں کہ بعض سردارانِ قریش ، جو مخالفینِ اسلام کے پیش رَو تھے، آنحضرتؐ کی تشریف آوری کی خبر سن کر مکّے سے بھاگ گئے۔ لیکن یہ صرف ابنِ اسحٰق کا قیاس ہے کہ وہ اِس وجہ سے بھاگ گئے تھے کہ اُن کے قتل کا حکم دیا گیا تھا۔ الغرض فتح مکّہ کے وقت صرف چند ایک افراد کے قتل ہونے کا فیصلہ ہوا اَور وہ وہی تھے، جن کے بارے میں حکم و عدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ صرف اُنہی چند لوگوں کو سزا دی ، جن کو سزا دینے کے لیے حضرتِ احدیّت کی طرف سے قطعی حکم وارد ہو چکا تھا۔ اور بجر اُن ازلی ملعونوں کے ہر یک دشمن کا گناہ بخش دیا۔ تو یہ ہے اِس کی حقیقت۔ اِس لیے یہ کہنا کہ اتنے آدمی قتل کیے گئے تھے، ہجویہ تھے، توہینِ رسالت تھی، یہ سب غلط باتیں ہیں۔ باقی ان شاء الله آئندہ بیان کروں گا۔ خطبہ جمعہ کے آخر پر حضور انور نے موجودہ حالات کے پیش نظر دعائیں کرنے اور راشن اکٹھا کرنے کی یاددہانی کروائی جس کی تفصیل درج ذیل لنک پر ملاحظہ ہو سکتی ہے https://www.alfazl.com/2025/07/11/126398/ خطبہ ثانیہ سے قبل ارشاد فرمایا کہ اب مَیں کچھ مرحومین کا ذکر کروں گا۔ نماز کے بعدان کا جنازہ پڑھاؤں گا۔ اِن میں پہلی امۃ النصیر نگہت صاحبہ، راجہ عبدالمالک صاحب کی اہلیہ ہیں، اِن کی گذشتہ دنوں میں ستّر سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔مرحومہ موصیہ تھیں۔حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی الله عنہ کی پوتی، حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ رضی الله عنہا کی نواسی اور کرنل مرزا داؤد احمد صاحب کی بیٹی تھیں۔ امریکہ میں بھی اِنہوں نے ایک لمبا عرصہ گزارہ ہے، وہاں بھی دس سال کے قریب اِن کو لجنہ کی بطور سیکرٹری مال اور سیکرٹری ضیافت خدمت کی توفیق ملی۔ دوسرا جنازہ ، جس کا ذکر ہے، وہ مکرم الحاج یعقوب احمد بن ابوبکر صاحب ہیں۔ احمدیہ سینئر سکول کے سابق ہیڈ ماسٹر اور نیشنل سیکرٹری تبلیغ گھانا تھے۔ ایک حادثے میں تریسٹھ سال کی عمر میں دماغی چوٹ لگنے کے باعث اِن کی گذشتہ دنوں میں وفات ہو گئی۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں دو بیویاں، چار بچے، والدہ ، ایک بہن اور ایک بھائی شامل ہیں۔ ٭…٭…٭