سچی پاکیزگی، حقیقی تزکیہ اور دنیا و آخرت کی حسنات اور ترقیات کے حصول کے لئے ایک عظیم الشان الٰہی نظام صرف نماز پڑھنے پر تسلّی نہیں پانی چاہیے بلکہ نماز کو کھڑا کرنا چاہیے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’…نماز دعا ہے اور اس سے دین کا مغز پورا ہوتا ہے اور شریعت کی غرض پوری ہوتی ہے اور اس میں بندہ اپنی کمزوریوں کی معافی کی درخواست اللہ تعالیٰ سے کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت کو طلب کرتا ہے ۔چنانچہ دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُتۡلُ مَا اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡھٰی عَنِ الۡفَحۡشَآئِ وَالۡمُنۡکَر (عنکبوت: رکو ع 5) یعنی قرآن کریم کی تلاوت کر اور نماز باجماعت ادا کر یقینا نماز اُن بُری باتوں سے بھی کہ جو انسان کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں اور ان سے بھی کہ جو سوسائٹی پر گراں گذرتی ہیں روکتی ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ نماز کو ایک رسم کے طو رپر مقرر نہیں کیا گیا بلکہ یہ عبادت اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس کا لازمی نتیجہ بدی سے نفرت ہوتا ہے اور اندرونی پاکیزگی اس سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ الفاظ استعمال فرما کر کہ نماز بدی سے روکتی ہے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ نماز میں یہ ذاتی خوبی ہے کہ وہ بدی سے روکتی ہے۔ پس جس شخص کو باوجود نماز پڑھنے کے بدی سے نفرت پیدا نہ ہو اُس کی نماز میں ضرور نقص ہے۔ اور یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ متقی صرف رسمی طور پر نماز نہیں ادا کرتے بلکہ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اُن کی نماز کھڑی ہو جائے۔ یعنی وہ اُن کی روحانیت کے لئے بطور سہارے کے بن جائے ۔جس طرح ٹیک اور سہارے جب تک اپنی جگہ پر کھڑے رہیں چھتوں کو کھڑا رکھتے ہیں اسی طرح نماز جب کامل ہو جائے تو متقی کے تقویٰ کو سہارا دے کر اپنی جگہ پر کھڑا رکھتی ہے۔ پس صرف نماز پڑھنے پر تسلی نہیں پانی چاہیے بلکہ نماز کو کھڑا کرنا چاہیے تاکہ اس کے سہارے پر انسان کا تقویٰ بھی کھڑا رہے‘‘۔ (تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ۔ سورۃ البقرۃ زیر آیت 4) ............................. قرآن مجید میں جہاں بھی نماز پڑھنے کا حکم آیا ہے اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃ کے الفاظ سے آیا ہے۔ سورۃ البقرہ کے آغاز میں ہی متقیوں کی ایک علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وہ نماز کو قائم کرتے ہیں۔ اقامت صلوٰۃ کے مختلف معانی ہیں جنہیں پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اقامت کے لغوی معنوںاور اقامت صلوٰۃ کے قرآنی استعمالات کے حوالہ سے اس مضمون پر بہت جامع رنگ میں روشنی ڈالی ہے۔ ذیل میں اس پہلو سے آپ کی تفسیر سے ایک انتخاب پیش ہے۔ اِقامتِ صلوٰۃ کے مختلف معانی *…حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں: ’’یُقِیۡمُوۡنَ:۔ اَقَامَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور قَامَ سے جو اس کا مجرد ہے بنا ہے۔ قِیَامٌ (کھڑا ہونا) کا لفظ جُلُوۡسٌ (بیٹھ جانے) کا نقیض ہے۔ کہتے ہیں۔ قَامَ الۡاَمۡرُ۔ اِعۡتَدَلَ معاملہ درست ہو گیا۔ قَامَ عَلَی الْاَمْر: دَامَ وَ ثَبَتَ۔ یعنی کسی چیز پر دوام و ثبات اختیار کیا۔ قَامَ الۡحَقُّ ظَہَرَ وَ ثَبَتَ۔ حق ظاہر اور ثابت ہو گیا۔ اور اَقَامَ السُّوۡقُ کے معنے ہیں نَفَقَتۡ بازار بارونق ہو گیا۔ اور اَقَامَ الصَّلوٰۃَ کے معنے ہیں اَدَامَ فِعۡلَہَا نما زپر دوام اختیار کیا۔ اَقَامَ لِلصَّلٰوۃِ کے معنے ہیں نَادٰی لَہَا نماز کے لئے تکبیر کہی۔ اَقَامَ اللّٰہُ السُّوۡقَ: جَعَلَہَانَا فِقَۃً اللہ تعالیٰ نے برکت دی اور بازار کو بارونق بنا دیا (اقرب) مفردات میں ہے یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃ اَیۡ یُدِیۡمُوۡنَ فِعۡلَہَا وَیُحَافِظُوۡنَ عَلَیۡہَا۔ نماز کو اس کی شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اس پر دوام اختیار کرتے ہیں۔ نیز لکھا ہے اِنَّمَا خُصَّ لَفۡظُ الۡاِقَامَۃِ تَنۡبِیۡھًا اَنَّ الۡمَقۡصُوۡدَ مِنۡ فِعۡلِہَا تَوۡفِیَۃُ حُقُوۡقِہَا وَ شَرَائِطِہَا۔ کہ صلٰوۃ کے ذکر کے ساتھ اقامت کا لفظ اس لئے لایا گیا ہے تاکہ اس طرف توجہ مبذول کرائی جائے کہ نماز کے حقوق اور شرائط کو پوری طرح ادا کیا جائے نہ کہ صرف ظاہری صورت میں اس کو ادا کر دیا جائے۔لسان میں اَلۡقِیَامُ کے معنے اَلۡعَزۡمُ کے بھی لکھے ہیں یعنی کسی چیز کا پختہ ارادہ کر لینا۔ اَلصَّلٰوۃُ:۔ صَلَّی سے مشتق ہے اور اس کا وزن فَعۡلَۃٌ ہے۔ الف وائو سے منقلب ہے۔ صَلَّی (یُصَلِّیۡ) کے معنے دعا کرنے کے ہیں اور اَلصَّلٰوۃُ کے اصطلاحی معنے عِبَادَۃٌ فِیۡہَا رکُوۡعٌ وَسجُوۡدٌ کے ہیں۔ یعنی اس مخصوص طریق سے دعا کرنا جس میں رکوع و سجود ہوتے ہیں جس کو ہماری زبان میں نماز کہتے ہیں۔… پس یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے ہونگے (1) نماز کو باجماعت ادا کرتے ہیں۔ (2) نماز کو اس کی شرائط کے مطابق اور اس کے اوقات میں صحیح طو رپر ادا کرتے ہیں ۔ (3) لوگوں کو نماز کی تلقین کر کے مساجد کو بارونق بناتے ہیں۔ (4) نماز کی محبت اور خواہش لوگوں کے دلو ںمیں پیدا کرتے ہیں۔ (5) نماز پر دوام اختیار کرتے ہیں اور اس پر پابندی اختیار کرتے ہیں۔ (6) نماز کو قائم رکھتے ہیں۔ یعنی گرنے سے بچاتے رہتے اور اس کی حفاظت میں لگے رہتے ہیں……۔‘‘ اسی طرح فرمایا: ’’یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ۔ جیسا کہ حلّ لغات میں بتایا جاچکا ہے اقامۃ الصلٰوۃ کے معنے (1) باقاعدگی سے نماز ادا کرنے کے ہیں کیونکہ قَامَ عَلَی الۡاَمۡرِ کے معنے کسی چیز پر ہمیشہ قائم رہنے کے ہیں۔ پس یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ معنے ہوئے کہ نماز میں ناغہ نہیں کرتے۔ ایسی نماز جس میں ناغہ کیا جائے اسلام کے نزدیک نماز ہی نہیں کیونکہ نماز وقتی اعمال سے نہیں بلکہ اُس وقت مکمل عمل سمجھا جاتا ہے جبکہ تو بہ یا بلوغت کے بعد کی پہلی نماز سے لے کر وفات سے پہلے کی آخری نماز تک اس فرض میں ناغہ نہ کیا جائے۔ جو لوگ درمیان میں نمازیں چھوڑتے رہتے ہیں اُن کی سب نمازیں ہی رد ّہو جاتی ہیں۔ پس ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب وہ بالغ ہو یا جب اُسے اللہ تعالیٰ توفیق دے اُس وقت سے موت تک نماز کا ناغہ نہ کرے ۔کیونکہ نماز خدا تعالیٰ کی زیارت کا قائم مقام ہے اور جو شخص اپنے محبوب کی زیارت سے گریز کرتا ہے وہ اپنے عشق کے دعویٰ کے خلاف خود ہی ڈگری دیتا ہے۔ (2) دوسرے معنے اِقَامَۃ کے اعتدال اور درستی کے ہیں۔ اِن معنوں کے رُو سے یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ معنے ہیں کہ متقی نماز کو اُس کی ظاہری شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اس کے لئے جو قواعد مقرر کئے گئے ہیں ان کو توڑتے نہیں۔ مثلاً تندرستی میں یا پانی کی موجودگی میں وضو کر کے نما زپڑھتے ہیں اور وضو بھی ٹھیک طرح ان شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں جو اس کے لئے شریعت نے مقرر کی ہیں۔ اسی طرح صحیح اوقات میں نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز میں قیام، رکوع، سجدہ، قعدہ کو عمدگی سے ادا کرتے ہیں۔ مقررہ عبارات اور دعائیں اور تلاوت اپنے اپنے موقع پر اچھی طرح اور عمدگی سے پڑھتے ہیں۔ غرض تمام ظاہری شرائط کا خیال رکھتے اور انہیں اچھی طرح بجا لاتے ہیں۔ اس جگہ یاد رکھنا چاہئے کہ گو شریعت کا حکم ہے کہ نماز کو اس کی مقررہ شرائط کے ماتحت ادا کیا جائے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب مجبوری ہو اور شرائط پوری نہ ہوتی ہوں تو نماز کو ترک ہی کر دے۔ نماز بہرحال شرائط سے مقدم ہے۔ اگر کسی کو صاف کپڑا میسر نہ ہو تو وہ گندے کپڑوں میں ہی نماز پڑھ سکتا ہے۔ خصوصاً وہم کی بنا پر نماز کا ترک تو بالکل غیر معقول ہے۔ جیسا کہ ہمارے ملک میں کئی عورتیں اس وجہ سے نماز ترک کر دیتی ہیں کہ بچوں کی وجہ سے کپڑے مشتبہ ہیں۔ اور کئی مسافر نماز ترک کر دیتے ہیں کہ سفر میں طہارت کامل نہیں ہو سکتی۔ یہ سب شیطانی وساوس ہیں لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا (بقرۃ:رکوع 40) الٰہی حکم ہے جب تک شرائط کا پورا کرنا اختیار میں ہو اُن کے ترک میں گناہ ہے۔ لیکن جب شرائط پوری کی ہی نہ جا سکتی ہوں تو اُن کے میسر نہ آنے کی وجہ سے نماز کا ترک گناہ ہے۔ اور ایسا شخص معذور نہیں بلکہ نماز کا تارک سمجھا جائے گا۔ پس اس بارہ میں مومنوں کو خاص طور پر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ (3) تیسرے معنے اِقَامَۃ کے کھڑا کرنے کے ہیں۔ ان معنوں کے رُو سے یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ نماز کو گرنے نہیں دیتے۔ یعنی ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ان کی نماز درست اور باشرائط ادا ہو۔ اس میں ان مشکلات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو نماز پڑھنے والے مبتدی کو زیادہ اور عارف کو کسی کسی وقت پیش آتی رہتی ہیں۔ یعنی اندرونی یا بیرونی تأثرات نماز سے توجہ ہٹا کر دوسرے خیالات میں پھنسا دیتے ہیں۔ یہ امر انسانی عادت میں داخل ہے کہ اس کا خیال مختلف جہات کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے اور خاص صدموں یا جوش یا محبت کے اثر کے سوا جبکہ ایک وقت تک خیالات میں کامل یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے انسانی دماغ اِدھر اُدھر گھومتا رہتا ہے اور ایک خیال سے دوسرا خیال پیدا ہو کر ابتدائی خیال سے کہیں کا کہیں لے جاتا ہے۔ اسی طرح بیرونی آوازیں یا پاس کے لوگوں کی حرکات یا کھٹکے،بو یا خوشبو، جگہ کی سختی یا نرمی اور اسی قسم کے اور اُمور انسانی ذہن کو اِدھر سے اُدھر پھرا دیتے ہیں۔ یہی مشکلات نمازی کو پیش آتی ہیں او راگراپنے خیالات پر پوار قابو نہ ہو تو اُسے پریشان خیال بنائے رکھتی ہیں اور بعض اوقات وہ نماز کے مضمون کو بھول کر دوسرے خیالات میں پھنس جاتا ہے۔ اس حالت کی نسبت یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ میں اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ بعض نمازیوں کو یہ مشکل پیش آئے گی مگر انہیں گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر درجہ کے انسان کے لئے ترقی کا راستہ کھول دیا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی نماز میں ایسی پریشان خیالی سے دو چار ہو تو اُسے مایوس نہیں ہونا چاہئے اور اپنی نماز کو بیکار نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ بندوں سے اسی قدر قربانی کی امید کرتا ہے جتنی قربانی اُن کے بس کی ہو۔ پس ایسے نمازی جن کے خیالات پراگندہ ہو جاتے ہوں اگر نماز کو سنوار کر اور توجہ سے پڑھنے کی کوشش میں لگے رہیں تو چونکہ وہ اپنی نماز کو جب بھی وہ اپنے مقام سے گرے کھڑا کرنے کی کوشش میں لگے رہیں گے اللہ تعالیٰ ان کی نماز کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اُسے قبول کرے گا او راس نماز کو کھڑا کرنے کی کوشش کرنے والے کو متقیوں میں ہی شامل سمجھے گا۔ (4) لُغت کے مذکورہ بالا معنوں کے رُو سے یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کے ایک اور معنے بھی ہیں اور وہ یہ کہ متقی دوسرے لوگوں کو نماز کی ترغیب دیتے ہیں کیونکہ کسی کام کو کھڑا کرنے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ اُسے رائج کیا جائے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دلائی جائے۔ پس یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کے عامل متقی وہ بھی کہلائیں گے کہ جو خود نماز پڑھنے کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی نماز کی تلقین کرتے رہتے ہیں اور جوسست ہیں انہیں تحریک کر کے چُست کرتے ہیں۔ رمضان کے موقع پر جو لوگ تہجد کے لئے لوگوں کو جگاتے ہیں وہ بھی اس تعریف کے ماتحت یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کی تعریف میں آتے ہیں۔ (5) نماز باجماعت سے پہلے امام کے نماز پڑھانے کے قریب وقت میں اذان کے کلمات تھوڑی زیادتی کے ساتھ دہرائے جاتے ہیں ان کلمات کو اِقَامَۃ کہتے ہیں اور نماز باجماعت بھی ان معنوں کے رُو سے اِقَامَۃ الصَّلٰوۃ کا مفہوم رکھتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی کہتے ہیں نماز کھڑی ہو گئی ہے۔ اس محاورہ کے مطابق یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے ہوں گے کہ وہ نماز باجماعت ادا کرتے ہیں اور دوسروں سے ادا کرواتے ہیں۔ نماز باجماعت کی اہمیت نماز باجماعت کی ضرورت کو عام طور پر مسلمان بھول گئے ہیں اور یہ ایک بڑا موجب مسلمانوں کے تفرقہ اور اختلاف کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عبادت میں بہت سی شخصی اور قومی برکتیں رکھی تھیں مگر افسوس کہ مسلمانوں نے انہیں بھلا دیا۔ قرآن کریم نے جہاں بھی نماز کا حکم دیا نماز باجماعت کا حکم دیا ہے۔ خالی نماز پڑھنے کا کہیں بھی حکم نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت اہم اصول دین میں سے ہے بلکہ قرآن کریم کی آیات کو دیکھ کر کہ جب بھی نماز کا حکم بیان ہوا ہے نماز باجماعت کے الفاظ میں ہوا ہے تو صاف طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک نماز صرف تبھی ادا ہوتی ہے کہ باجماعت ادا کی جائے سوائے اس کے کہ ناقابل علاج مجبوری ہو۔ پس جو کوئی شخص بیماری یا شہر سے باہر ہونے یا نسیان یا دوسرے مسلمان کے موجود نہ ہونے کے عذر کے سوا نماز باجماعت کو ترک کرتا ہے خواہ وہ گھر پر نماز پڑھ بھی لے تو اس کی نماز نہ ہو گی اور وہ نماز کا تارک سمجھا جائے گا۔ قرآن کریم میں نماز پڑھنے کا جہاں بھی حکم آیا ہے اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ کے الفاظ سے آیا ہے کبھی خالی صَلُّوۡا کے الفاظ استعمال نہیں ہوئے۔ یہ امر اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اصل حکم یہ ہے کہ فرض نماز کو باجماعت ادا کیا جائے اور بغیر جماعت کے نماز صرف مجبوری کے ماتحت جائز ہے۔ جیسے کوئی کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو اُسے بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ہے۔ پس جس طرح کوئی کھڑا ہو کر نماز پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو لیکن بیٹھ کر پڑھے تو یقینا وہ گنہگار ہو گا۔ اسی طرح جسے باجماعت نماز کا موقع مل سکے مگر وہ باجماعت نماز ادا نہ کرے تو وہ بھی گنہگار ہو گا۔ آج کل بہت سے لوگ ایسے ملتے ہیں جو باجماعت نمازوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں اور باتوںمیں مشغول رہتے ہیں یہاں تک کہ نماز ہو چکتی ہے اور پھر افسوس کرتے ہیں کہ نماز چلی گئی۔ ان کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے کیونکہ وہ معمولی غفلت سے بہت بڑے ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں۔ (6) یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ نماز چستی او رہوشیاری سے ادا کی جائے۔ کیونکہ سستی اور غفلت کی وجہ سے خیالات میں پراگندگی پیدا ہوتی ہے اور نماز کا مغز ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔ اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں لاتیںڈھیلی چھوڑنے یا سہارا لگانے (مسلم جلد اول کتاب الصلوٰۃ باب کراھۃ الاختصار فی الصلوٰۃ) یا کہنیاں سجدہ کے وقت زمین پر ٹیکنے سے منع فرمایا ہے (ترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ماجاء فی الاعتدال فی السجود) اور اس کے بالمقابل رکوع میں کمر سیدھی رکھنے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی من لایقیم صلبہ) کھڑا ہوتے وقت یا رکوع میں ٹانگوں کو سیدھا رکھنے، سجدہ میں پائوں، گھٹنوں، ہتھیلیوں اور ماتھے پر بوجھ رکھنے (ترمذی کتاب الصلوۃ باب ماجاء فی السجود علیٰ سبعۃ اعضاء) او رکمر اور پیٹ کو لاتوں سے جدا رکھنے (نسائی کتاب افتتاح الصلوٰۃ باب صفۃ السجود و التجافی فی السجود والا عتدال فی السجود) اور قعدہ کے موقع پر دائیں پائوں کی انگلیوں کو قبلہ رُخ رکھ کر پائوں کھڑا رکھنے کا حکم دیا ہے (ترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ماجاء کیف الجلوس فی التشھد) کیونکہ یہ سب امور چستی اور ہوشیاری پیدا کرتے ہیں اور نیند اور اونگھ اور غفلت کو دُور کرتے ہیں اور اسی وجہ سے اسلام نے نماز سے پہلے وضو کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ سر اور جو ارح کے اعصاب کو تری اور سردی پہنچ کر جسم میں چستی اور خیالات میں یکسوئی پیدا ہو۔ اوپر جو معانی یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کے لغوی معنوں سے استنباط کر کے لکھے گئے ہیں قرآن کریم اور احادیث سے بھی ان کی تصدیق ہوتی ہے۔ مثلاً ایک معنے یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ باقاعدگی سے نماز ادا کریں اور ناغے نہ کریں۔ اس کے مفہوم کی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے ہوتی ہے الَّذِیۡنَ ھُمۡ عَلیٰ صَلٰو تِھِمۡ دَا ئِٓمُوۡنَ (معارج رکوع1) یعنی مومن اپنی نمازوں میں ناغہ نہیں ہونے دیتے بلکہ ہمیشہ باقاعدگی سے نماز ادا کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے معنے یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کے اعتدال اور درستی کے ساتھ نماز ادا کرنے کے کئے گئے تھے۔ ان کی تائید اَلَّذِیۡنَ ھُمۡ فِیۡ صَلٰو تِھِمۡ خَاشِعُوۡنَ کی آیت سے ہوتی ہے (مومنون رکوع1) یعنی مومن اپنی نمازوں میں خشوع اور فرمانبرداری کو مدنظر رکھتے ہیں یعنی ظاہری اور باطنی احکام جو نماز کے بارہ میں دیئے گئے ہیں سب کو پورا کرتے ہیں۔ تیسرے معنے یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ وہ نماز کو درست رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان معنوں کی تصدیق اس آیت سے ہوتی ہے وَالَّذِیۡنَ ھُمۡ عَلٰی صَلَوٰتِھِمۡ یُحَافِظُوۡنَ (مومنون رکوع 1) مومن کامل اپنی نماز کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ یعنی اُسے اعلیٰ اور کامل بنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ چوتھے معنے یہ کئے گئے تھے کہ نماز باجماعت کی ترویج میں مومن لگے رہتے ہیں۔ اِن معنوں کی تصدیق قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأۡمُرۡ اَھۡلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصۡطَبِرۡ عَلَیۡہَا (طٰہٰ رکوع 8) اے ہمارے مخاطب اپنے اہل کو نماز کی نصیحت کرتے رہا کرو۔ اور اس حکم کو کبھی نہ بھولو بلکہ نماز کی یاد دہانی کو ایک ضروری اور لازمی ذمہ داری سمجھ لو۔ اور یہ جو معنے کئے گئے تھے کہ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ سے مراد نماز باجماعت کے ہیں سو یہ مندرجہ ذیل آیت سے نکلتے ہیں وَاِذَا کُنۡتَ فِیۡھِمۡ فَاَقَمۡتَ لَھُمُ الصَّلٰوۃَ فَلۡتَقُمۡ طَآئِفَۃٌ مِّنۡھُمۡ مَعَکَ وَلۡیَاۡ خُذُوۡآ اَسۡلِحَتَہُمۡ (نساء: رکوع 15) یعنی جب تُو مسلمانوں میں موجود ہو اور نمازمیں ان کی امامت کرائے تو چاہئے کہ مومن سب کے سب نماز باجماعت میں شامل نہ ہوں بلکہ بوجہ جنگ کے ان میں سے صرف ایک حصہ نماز باجماعت میں شامل ہو اور وہ حصہ بھی اپنے ہتھیار اٹھائے رہے۔ اس آیت میں اَقَمۡتَ لَھُمُ الصَّلٰوۃَ کے الفاظ سے واضح ہو جاتا ہے کہ اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃ سے مراد باجماعت نماز ہوتی ہے۔ ایک معنے یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ نماز ہوشیاری اور چستی کی حالت میں ادا کرتے ہیں۔سو ان معنوں پر یہ آیت دلالت کرتی ہے۔ فَوَیۡلٌ لِّلۡمُصَلِّیۡنَ الَّذِیۡنَ ھُمۡ عَنۡ صَلٰو تِھِمۡ سَاھُوۡنَ (الماعون:رکوع 1) یعنی ان نمازیوں پر خدا کا عذاب نازل ہو گا جو اپنی نمازوں میں غفلت برتتے ہیں۔ یعنی نماز تو پڑھتے ہیں مگر اُن کے دلوںمیں پوری رغبت اور چستی نہیں ہوتی۔ اسی طرح ظاہری سستی اور غفلت کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا ہے وَلاَیَاۡ تُوۡنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَھُمۡ کُسَالٰی (توبہ:رکو ع7) یعنی وہ جب بھی نماز پڑھتے ہیں اُن پرسُستی اور غفلت غالب ہوتی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں ہے یَا بَنِیۡٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ (الاعراف:رکوع3) یعنی اے مومنو! ہر مسجد کے پاس جاتے ہوئے اپنی زینت کے سامان مکمل کر لیا کرو۔ یعنی وضو کر لیا کرو اور ہوشیار ہو جایا کرو۔ اسی طرح فرمایا یَآاَیُّھَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنۡتُمۡ سُکارٰی حَتّٰی تَعۡلَمُوۡا مَاتَقُوۡلُوۡنَ (نساء:رکوع 7) یعنی اے مومنو جبکہ تمہارے خیالات پراگندہ ہوں نماز کے قریب مت جائو بلکہ اُسی وقت نماز پڑھو جبکہ تم یہ جانتے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ یعنی دماغی پراگندگی یا سستی کی حالت میں انسان نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور اس کی نماز خراب ہو جاتی ہے ایسی حالت میں نماز پڑھنی چنداں مفید نہیں ہوتی۔ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ خیالات پراگندہ ہوں تو نماز نہیں پڑھنی چاہئے بلکہ یہ مراد ہے کہ خیالات کو پراگندگی سے بچائو اور ذہنی بیداری اور چستی پیدا کرو اور جو باتیں کہ پراگندگی کو پیدا کرنے والی ہیں اُنہیں دُور کرو۔ اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے اسلام نے حکم دیا ہے کہ نماز سے کچھ عرصہ پہلے اذان ہونی چاہئے جسے سُن کر مسلمانوں کو اپنے کاروبار ترک کر کے نماز کی تیاری شروع کر دینی چاہئے۔ اسی طرح یہ کہ نماز سے پہلے وضو کرنا چاہئے۔ پھر مسجد میں جا کر یا گھر پر سنّتیں پڑھنی چاہئیں۔ پھر مسجد میں امام کے انتظار میں ذکر الٰہی کرنا چاہئے۔ اِن سب کاموں سے ظاہری اور باطنی سُستی دُور ہوتی ہے کیونکہ خیالات میں پراگندگی اور سُستی اِسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ دھیان کسی اور طرف ہو۔ مگر جو شخص نماز سے پہلے اپنا کاروبار ترک کر دے گا اس کے خیالات جو تجارتی یا دوسرے کاروبار کی وجہ سے یا گھر کے جھگڑوں یا فکروں کی وجہ سے پراگندہ ہو رہے تھے آہستہ آہستہ نماز اور عبادت کی طرف پھر جائیں گے۔ پھر مسجد میں جانے اور سنتیں پڑھنے اور ذکرِ الٰہی کرنے کی وجہ سے وہ دوسری تمام طرفوں سے ہٹ کر عبادت اور نماز کی طرف منتقل ہو جائیں گے اور وہ تمام ذرائع مہیا ہو جائیں گے جن کی وجہ سے نماز میں خیالات کی یکسوئی پیدا ہو سکتی ہے۔ اِسی پراگندگی کی حالت کو دُور کرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ اس حالت میں کہ پیشاب پاخانہ وغیرہ کی حاجت معلوم ہو نماز نہیں پڑھنی چاہیئے بلکہ پہلے ان حاجات کو پورا کرے پھر نماز پڑھے (ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب أیصلی الرجل وھو حاقن) اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِذَا وُضِعَ الۡعَشَآئُ وَاُقِیۡمَتِ الصَّلٰوۃُ فَابۡدَئُ وْا بِالۡعَشَآئِ (بخاری کتاب الآ ذان باب اذاحضر الطعام و اقیمت الصلوۃ) یعنی جب شام کا کھانا سامنے آ جائے تو عشاء کی نماز سے پہلے کھانا کھا لیا کرو۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کھانا سامنے آجانے کے بعد خیال کھانے کی طرف رہے گا پس پہلے کھانا کھا کر نماز پڑھی جائے تاکہ طبیعت میں یکسوئی پیدا ہو۔ اس حدیث میں جو شام کے کھانے کا خاص طور پر ذکر ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اوّل تو دوپہر کا کھانا نماز ظہرؔ سے اس قدر نہیں ٹکراتا جس قدر شام کا کھانا عشاء کی نماز سے ٹکراتا ہے۔ دوسرے اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ رات کو سونے سے کافی پہلے کھانا کھا لینا چاہئے تا نیند پریشان نہ ہو اور بدہضمی کی شکایت پیدا نہ ہو۔ اگر شام کے کھانے کو عشاء کی نماز کے بعد کے لئے اٹھا رکھا جائے تو چونکہ اسلام عشاء کے بعد جلد سونے کی ہدایت دیتا ہے تاتہجد کے لئے اُٹھنے میں آسانی پیدا ہو، شام کے کھانے اور سونے کے وقت میں تھوڑا فرق رہ جائے گا اور صحت خراب ہو گی‘‘۔ (تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ۔ سورۃ البقرۃ زیر آیت 4) قیام صلوٰۃ کا ایک مطلب ہر حال میں نماز کو فوقیت دینا ہے أ…حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سورۃ النور کی آیات37تا39کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’رِجَال’‘ لَّاتُلۡھِیۡھِمۡ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃ وَاِیۡتَآئِ الزَّکٰوۃِ میں بتا یا کہ ان لوگوں کے ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کے یہ معنے نہیں کہ وہ زراعت نہیں کرتے یا کوئی اور دنیوی کام نہیں کرتے۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ تجارتیں تو کرتے ہیں مگر اُن کے دل خداتعالیٰ کے ذکر میں میں مشغول ہوتے ہیں اور اُن کے کان خدا تعالیٰ کی آواز سُننے کے منتظر ہوتے ہیں ۔جونہی اُن کے کانوں میں مؤذن کی آواز آتی ہے وہ اپنی تجارت کو چھوڑ کر، اپنی زراعت کو چھوڑ کر اور اپنی صنعت و حرفت کو چھوڑ کر دوڑتے ہوئے مسجد میں حاضر ہو جاتے ہیں ۔اسی طرح جب رات آتی ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ اس خیال سے کہ دن کو ہم نے ہل چلانا ہے یا کوئی اور مشقت کا کام کرنا ہے سوئے ہی رہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے نہ اٹھیں ۔بلکہ جب تہجد کا وقت آتا ہے تو وہ فوراً بستر سے الگ ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دین کے لئے ان لوگوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے آپ کو کلیۃً خدمت کے لئے وقف کر دیں مگر وہ شخص بھی ایک رنگ میں واقفِ زندگی ہے جس کے تمام اوقات خدا تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت گزرتے ہیں اور وہ ہر آن اور ہر گھڑی خداتعالیٰ کے حکم پر لبّیک کہنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ اگر وہ تجارت کرتا ہے تو اس لئے کہ خدانے کہا ہے تجارت کرو ۔اگر وہ زراعت کرتا ہے تو اس لئے کہ خدا نے کہا ہے زراعت کرو۔اگر وہ کسی اور پیشہ کی طرف توجہ کرتا ہے تو اس لئے کہ خدانے کہا ہے کہ تم پیشوں کی طرف متوجہ ہو ۔پس اس کی تجارت، اُس کی زراعت اور اُس کی صنعت لَاتُلۡھِیۡھِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ کی مصداق ہوتی ہے جو خداتعالیٰ کے ذکر سے اُسے غافل نہیں کرتی۔یہ نہیں کہ خداتعالیٰ کی طرف سے آواز آئے اور وہ کہنے لگ جائے کہ میں کیا کروں میری تجارت کو نقصان پہنچے گا ۔میری زراعت میں حرج واقع ہو گا۔ بلکہ اُسے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبّیک کہنے کے سوا اور کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ وہ جانتا ہی نہیں کہ مَیں تاجر ہوں۔ وہ جانتا ہی نہیں کہ مَیں زمیندار ہوں ۔ وہ جانتا ہی نہیں کہ مَیں صنّاع ہوں۔ بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ مَیں ساری عمر ہی خداتعالیٰ کے سپاہیوں میں شامل رہا ہوں اور اس کی تنخواہ کھاتا رہا ہوں اور اب وقت آگیا ہے کہ مَیں حاضر ہو جائوںاور اپنی جان اس کی راہ میں قربان کردوں۔ پس باوجود تجارت کرنے کے وہ واقفِ زندگی ہے ۔باوجود زراعت کرنے کے وہ واقف زندگی ہے اور باوجود کوئی اور پیشہ اختیار کرنے کے وہ واقف زندگی ہے ۔مگر جو شخص ایسا نہیں کرتا جس کے کانوں میں خداتعالیٰ کی یا اُس کے مقرر کردہ کسی نائب کی آواز آتی ہے اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے دل میں بشاشت محسوس کرے اور کہے کہ وہ وقت آگیا ہے جس کا میں منتظر تھا وہ اپنے دل میں قبض محسوس کرتا ہے اور قربانی کرنے سے ہچکچاتا ہے اور اسے اپنے لئے ایک تکلیف اور دُکھ سمجھتا ہے تو ایسا انسان درحقیقت خداتعالیٰ کی فوج میں شامل نہیں۔ اس حقیقت کو انسان پر ظاہر کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے پانچ نمازیں مقرر کی ہیں۔ روزانہ پانچ وقت ایمان کاامتحان ہر روز پانچ وقت خداتعالیٰ تمہارا امتحان لیتا اور پانچ وقت تمہارے ایمان کی حقیقت تم پر آشکار کرتا ہے ۔ پانچ وقت جب مکبّر کھڑا ہوتا اور کہتا ہے حَيَّ عَلَی الصَّلٰوۃ۔ حَيَّ عَلَی الصَّلٰوۃ ۔اے لوگو! آئو نماز کی طرف۔ اے لوگو! آئو نماز کی طرف ۔تو اگر تمہارے ہاتھوں پر اُس وقت لرزہ طاری ہو جاتا ہے،تمہارے جسم میں کپکپی پیدا ہو جاتی ہے اور تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم صنّاع ہو ۔تمہیںبھول جاتا ہے کہ تم ملازم ہو ۔تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم نجّار ہو ۔تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم معما ر ہو ۔تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم لوہار ہو ۔تمہیں صرف ایک ہی بات یاد رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ تم خدا کے سپاہی ہو تب اور صرف تب تم اپنے دعویٰ ٔایمان میں سچے سمجھے جا سکتے ہو ۔لیکن اگر تمہارے اندر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی اور خداتعالیٰ کی آواز تو تمہیں یہ کہتی ہے کہ حَيَّ عَلَی الصَّلٰوۃ۔ اے میرے بندو میری عبادت کے لئے آئو او ر تمہارا نفس تمہیں کہہ رہا ہوتا ہے کہ دو گاہک او ر دیکھ لوں اور چند پیسے کمالو ں ۔اور بعض دفعہ تو یہ بھی کہنے لگ جاتا ہے کہ مسجد میں جاکر نماز کیا پڑھنی ہے اسی جگہ پڑھ لیں گے۔ بلکہ کئی دفعہ واقعہ میں تم مسجد میں نہیں آتے اور گھر پر یا دوکان پر ہی نماز پڑھ لیتے ہو تو تم سمجھ لو کہ پانچ وقت خدانے تمہارا امتحان لیا اور پانچوں وقت تم فیل ہوگئے ۔‘‘ (تفسیر کبیر سورۃ النور زیر آیت 37۔39۔ جلد 6 صفحہ331-333 ) (باقی آئندہ)